اقوام متحدہ کاسالانہ اجلاس اور آسام میں بر بریت
عالمی منظر نامہ:
آب و ہوا کی تبدیلی اور کورونا وبا کی صورتِ حال

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں دنیا بھر کے ممالک سے تعلق رکھنے والے سربراہان شرکت نہیں کر سکے تھے۔ اس سال تقریباً 100سربراہان نیویارک میں ہونے والے اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شریک رہے، جب کہ باقی ماندہ ممالک کے قائدین نے ویڈیو لنک یا ریکارڈنگ کے ذریعے اجلاس میں حصہ لیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں عالمی رہنماؤں کی تقریروں کا اہم موضوع آب و ہوا کی تبدیلی اور کرونا وائرس کے خطرے کا مقابلہ تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز کورونا وائرس پر کنٹرول سے متعلق ایک ورچوئل کانفرنس کی میزبانی کی۔اس موقع پر انہوں نے کہا: ’’ہم اس بحران کو تھوڑے بہت اقدامات یا درمیانی راستے کے انتخاب سے حل نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومتوں، نجی شعبے، سول سوسائٹی کے قائدین اور مخیر حضرات کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک سنگین بحران ہے۔‘‘
انہوں نے ایک بڑا اعلان کیا کہ امریکہ، جو پہلے ہی ترقی پذیر ممالک کو ویکسین کی 600ملین خوراکیں دے چکا ہے، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے فائزر ویکسین کی مزید 50کروڑ خوراکیں خرید رہا ہے، جس کی جنوری 2022میں ترسیل شروع کر دی جائے گی۔
افریقی جزیرے مڈغاسکر کے صدر اینڈری راجویلینا نے کہا:
’’ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کووڈ 19کی وبا کے خلاف لڑ رہی ہے، آب و ہوا کا بحران بھی پوری طاقت سے حملہ آور ہو گیا ہے۔اگر ہم نے گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کی کوششیں نہ کیں تو یہ بحران نہ صرف جاری رہے گا، بلکہ بدتر ہوتا جائے گا۔‘‘ انھوں نے آخرمیں کہا کہ مڈغاسکر تمام ممالک سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آلودگی پر کنٹرول کے لیے مساوی طور پر کام کریں۔
چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ ان کا ملک بیرون ملک کوئلے کے کارخانے بنانا بند کر دے گا اور نئی صاف ستھری آب و ہوا کی خاطر مزید اقدامات کیے جائیں گے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی چینی صدر شی جن نے مزید اعلان کیا کہ وہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی مالی مدد میں بھی اپنا حصہ ڈالیں گے۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ترقی یافتہ ممالک پر تنقید کرتے ہوئےپیر کو اپنی ایک ٹوئٹر پوسٹ میں کہا کہ امیر ممالک نے ترقی سے فائدہ اٹھایا ہے، جس کے نتیجے میں آلودگی پیدا ہوئی ہے اور اب یہ ان کا فرض ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو اپنی معیشت کو ماحول دوست اور پائیدار طریقے سے آگے بڑھانے میں مدد کریں۔ جس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی منگل کے روز اپنی گفتگو میں زور دیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران کئی حل طلب سیاسی مسائل بھی، عالمی سربراہان کی تقاریر کا موضوع بنے۔
اپنے ویڈیو خطاب میں اردن کے شاہ عبداللہ نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے دو ریاستی حل کی ضرورت کا ایک بار پھر اعادہ کیا، جب کہ سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایران کو اس کی ایٹمی سرگرمیوں پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
شاہ سلمان نے کہا کہ ہم بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا ہے۔ انھوں نے کہا: ’’ہم ایرانی اقدامات پر بہت فکر مند ہیں، جو اس کے وعدوں کے برعکس ہیں اور دوسری طرف ایران کی جانب سے روزانہ ہی یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن ہے۔‘‘

ملکی منظر نامہ:
آسام کے مسلمانوں کے خلاف ’بے دخلی مہم‘
گزشتہ ہفتے، آسام کے دھول پور ضلع کے ساجھر میں ریاستی حکومت کی جانب سے ’بے دخلی مہم‘ شروع کی گئی، جس نے فوراً ہی پرتشدد کا رخ اختیار کرلیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہوئی زبردست جھڑپوں میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
مہم کا آغاز آسام کے دھول پور کے علاقے ساجھر میں ہوا ہے، جہاں بنیادی طور پر بنگالی بولنے والے مسلمان رہتے ہیں۔ حکومت کے مطابق ’بے دخلی مہم‘ کا مقصد غیر قانونی قبضہ جات کو ہٹانا اور بے زمین مقامی باشندوں کے لیے سرکاری زمین کو خالی کرنا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ وہاں ’گاروکھوتی پروجیکٹ‘ نامی ایک زراعتی پروجیکٹ شروع کرنے جارہی ہے، جس کے لیے حکومت کی جانب سے 9.6کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ پروجیکٹ درخت لگانے اور زراعت کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ہے، جس میں مقامی نوجوان شامل ہوں گے۔ جب کہ ذرائع کے مطابق اس مہم کی منصوبہ بندی جون میں وزیراعلیٰ کے یہاں کے دورے سے ہی شروع ہوچکی تھی، جب انھوں نے مقامی لوگوں سے اراضی کو واپس لینے اور دھول پور شیوا مندر کو زمین و گیسٹ ہاؤس دینے کا وعدہ کیا تھا۔ تب ایک چھوٹے پیمانے پر مہم کا آغاز کرتے ہوئے مندر کے قریب رہنے والے سات خاندانوں کو بے دخل کردیا گیاتھا۔ حکومت کے مطابق کل 77000 بیگھا زمین ہے، جہاں سے لوگوں کو ہٹایا جائے گا۔ جس کی شروعات کرتے ہوئے اب تک تقریباً 10000بیگھا زمین سے لوگوں کو بے دخل کردیا گیا ہے۔ اس سےاب تک 1200سے 1300 کے قریب خاندان بے گھر کردیے گئے ہیں۔
جمعرات کے روز آسام میں ہوئی پولس بربریت کے کئی دل دہلادینے والے واقعات سامنے آئے، جس میں ایک ویڈیو جو ملکی و عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر وائرل ہوا ہے، ہندوستان میں موجودہ حکومت کی جانب سے جمہوریت کی بگاڑی تصویر پیش کررہا ہے۔ وائرل ویڈیو میں معین الحق نامی جوان پر، پولس کھلے عام گولیاں برسا رہی ہے۔یہاں تک کہ معصوم کی موت ہوجاتی ہے۔ اس درندگی کے بعد ایک شر پسند صحافی معین الحق کو پیٹ کر معصوم کی لاش پر کودتا اور چھلانگیں لگاتا نظر آتا ہے۔
دوسرے واقعہ میں محض 12 سالہ معصوم فرید جوکہ خوشی خوشی گھر سے نکل کر اپنا آدھار کارڈ موصول کرکے لوٹ رہا تھا، پولس کی گولیوں کا شکار ہوگیا۔اسی کے طرح معصوم بچوں سمیت کئی مسلمان پولس کی اس کھلی فائرنگ سےزخمی ہوئے۔
آسام کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو حکومت کی یہ بے دخلی مہم ، وہاں کے مسلمانوں پر قیامت بن کر ٹوٹی ہے۔ دور تک وسیع بنجر زمین، ٹوٹی ہوئی چھتیںاور ٹین کی چادروں کے ساتھ انسانی زندگی کا ساز وسامان بکھرا پڑا ہے۔ گھر اجاڑ دیے گئے ہیں، لوگ ٹین کی چادروں تلے بھوک و پیاس سے بلکتے نظر آرہے ہیں۔
متاثرین میں سے ہرمز علی اور ساحرہ خاتون نامی جوڑے نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ زندگی اب موت سے بدتر ہوچکی ہے۔ چند برتن ، کپڑوں کے ڈھیر اور کھانے کے لیے مر مرے کے چند پیکٹ، یہی وہ چیز ہے جو ہرمز علی اور شاہانہ خاتون کے پاس اپنے پانچ افراد کے خاندان کے لیے مہیا ہے۔
متاثرین نے مزید بتایا کہ انھیں بدھ کی رات ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بے دخلی کا نوٹس ملا، جس کے بعد فوری طور پر لوگوں نے اپنی چیزیں جمع کرنا شروع کر دی تھیں۔لیکن چونکہ حکومت کی جانب سے الاٹ کردہ زمین برہم پترا کی معاون ندی کے پار ہے۔اسی لیے فوری منتقلی لوگوں کے لیے دشوار تھی۔ مگر حکومت نے ساری صورتحال کے باوجود مہلت نہ دی اور صبح صبح ہی جے سی بی پہنچی اور جبری بے دخلی شروع کردی، جس کے بعد پولس اور لوگوں میں جھڑپیں ہونے لگیں۔
خالق علی نامی شخص نے بتایا کہ ’’حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے پاس کاغذات ہیں یا نہیں۔ بے دخل کرنے کے لیے کافی ہے کہ ہم بنگالی بولنے والے مسلمان ہیںاور وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بنگلہ دیشی ہیں۔‘‘
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس مہم کے تحت جن لوگوں کو بے دخل کیا جارہا ہے، وہ بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں اور زیادہ تر کسان اور روزانہ اجرت کمانے والے مزدور ہیں۔ حکومت نے الزام لگایا کہ انہوں نے زمین پرغیر قانونی طور پر قبضہ کیا ہے، لیکن جب کچھ اخباری نمائندوں نے بیشتر خاندانوں سے ملاقات کی تو انھوں نے بتایا کہ وہ کم از کم 40 سال سے وہاں مقیم ہیں۔ یہ لوگ پہلے بارپیٹا اور گولپارہ جیسے اضلاع سے دریا کے کٹاؤ کی وجہ سے اپنے گھروں سے محروم کردیے گئے تھے، جس کے بعد وہ یہاں منتقل ہوئے تھے۔ بہت سے لوگوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس وقت مقامی لوگوں سے زمین خریدی تھی، لیکن زیادہ تر لین دین بغیر دستاویزات کے ہوا تھا۔
یہ جبری بے دخلیاں آسام کے لیے نئی بات نہیں ہے۔ یہ کئی دہائیوں کے تنازعات ، موسمی سیلابوں اور فرقہ وارانہ سیاست کی وجہ سے تباہ حال ریاست ہے،جو بے گھر افراد کی ایک بڑی تعداد کی پناہ گاہ ہے۔
اس سے قبل بھی اسی طرح آسام کے ضلع سونیت پور میں ضلعی حکام زبردستی بلڈوزر اور نیم فوجی اہلکاروں کے ساتھ ان کے گاؤں میں گھس گئے تھےاور 450 سے زیادہ غریب مسلم خاندانوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کردیا گیا تھا۔ اسی طرح گزشتہ برس بھی، وسطی آسام کے ضلع ہوجئی میں حکام نے 600 مسلمان خاندانوں کو زبردستی بے دخل کردیا تھا۔ جس کے نتیجے میں کلثومہ بیگم کی موت ہوئی تھی، جس نے ایک نوزائدہ بچے کو جنم بھی دیا تھا۔
تاہم جو بات بہت گہری اور تشویش ناک ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح کی جبری بے دخلیاں جلد ہی ریاستی پالیسی بن سکتی ہیں۔ جس کا اندازہ ہم ملکی سطح پر NRC اور CAA جیسے قوانین کے تناظر میں لگا سکتے ہیں۔
چونکہ ہندو قوم پرست جماعت ، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ، اس وقت آسام میں برسر اقتدار ہے اور ریاست کے غالب آسامی بولنے والے حلقوں میں شناخت بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کے یہ دیرینہ منصوبےکو پورا کرنے کی نئی کوششیں جاری ہیں، جو غریب اور بے زمین مسلمانوں کے وجود کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ اکتوبر