درس قرآن
زمرہ : النور

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَآتُوا النِّساءَ صَدُقاتِهِنَّ نِحلَةً ۚ فَإِن طِبنَ لَكُم عَن شَيءٍ مِنهُ نَفسًا فَكُلوهُ هَنيئًا مَريئًا (النِسَاءَ:04)

(اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ[فرض جانتے ہوئے] ادا کرو، البتہ اگر وہ خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ معاف کر دیں تو اسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔)
سورہ کے نام [النساء] سے ہی اس کا مضمون جھلک رہا ہے۔ یہ سورہ خصوصی طور پر عورتوں سے خطاب کرتی ہے۔ اس سے خواتین کی اہمیت اور حقوق کا تحفظ نظر آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ربوبیت کی شان نظر آتی ہے۔
اس سورہ کا آغاز انسانیت کی ابتدا کے ذکرسے ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو وجود بخشنا چاہا تو اورایک ہی جان [آدم] سے دونوں[آدم و حوا] کو پیدا کیا ، تاکہ یہ دونوں مل کر زمین پر خلافت کی ذمہ داری سنبھالیں، ایک دوسرے کا سہارا ہوں، ایک دوسرے کو مکمل کرنے کا ذریعہ ہوںاور دونوں کے ذریعہ سے خاندان، سماج، شہر اورپھر ملک آباد ہوں۔ معاشرے کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہے، جو مرد اور عورت کے نکاح کے ذریعہ وجود میں آتی ہے۔ نکاح میں اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے جو مرد پر فرض کیا ہے، وہ مہر ہے۔ مہر در اصل عورت کا حق ہے، جسے مردوں کو خوش دلی اور دل جوئی کے ساتھ ادا کرنا ہے۔
اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ عورتوں کو ان کے مہر دے دو۔ ’ان کے مہر‘ سے مراد ہے کہ یہ ان کی قیمت نہیں کہ جب دل چاہے دے دینا اور یہ بھی نہیں کہا کہ دے دیا تو اچھا ہوگا،بلکہ فرمایا ہے کہ’ دے دو‘۔ پھر مزید وضاحت ہے کہ ’نِحْلَۃً‘،یعنی دل کی آمادگی، خوشی اور محبت سے دو اور اس میں زبردستی یا مجبوری والی کیفیت نہ ہو۔ عموماً سماج میں یہ مزاج عام ہے کہ مہر کی قیمت کا کئی گنا جہیز لے کر بھی لوگ مہر ادانہیں کرتے۔
اس آیت کے دو حصے ہیں: پہلا حصہ میں مہر کے ادا کرنے کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ مہرعورت کے باپ یا بھائی کے حوالے نہ کیا جائے، کیوں کہ وہ عورت کی قیمت نہیں ہے۔ بلکہ عورت کو ہی دیاجائے، کیوں کہ وہ اس کا حق ہے۔ اس کی ادائیگی میں اختلاف اور طلاق کا انتظار نہ کیا جائے، بلکہ شادی کے ساتھ ہی خوش گوار ماحول میں ادا کر دیا جائے۔
دوسرےحصے میں بتایا گیا ہے کہ اگر خواتین مہر کا کچھ حصہ دل کی آمادگی کے ساتھ معاف کردیں تو اس کا لینا مرد کے لیےمعیوب نہیں ہے۔مگر شرط یہ ہے کہ معاف نہ کرایا جائے،نہ اشارے سے، نہ زبان سے،نہ سختی سے اور نہ نرمی سے،بلکہ وہ خود اگر اپنی خوشی سےمعاف کر دیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اگر دیں تو پورا دیں، بلکہ کچھ حصہ دے دیں اور کچھ اپنے پاس رکھیں تو یہ ان کا حق ہے۔اس کا ان کو اختیار ہے۔اس سے یہ بھی پتا چلا کہ اگر کوئی شخص معاف کرنے کے بعد اس حصے کو کھاپی کر ختم کر دے، تو یہ صحیح ہے اورعورت اس کا دوبارہ مطالبہ نہ کرے۔
بہت سے لوگ اپنی بہن یا بیٹی کی شادی اس شرط پر کرتے ہیں کہ مہر کی رقم ان کو ملے، ایسی صورت میں وہ مہر نہیں، بلکہ ان کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ جوکہ نہایت گھناؤنا عمل ہے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص زیادہ مہرمتعین کرے، اس مقصد سے کہ لوگ اس کی تعریف کریں،پھر وہ مہر اپنی بیوی سے معاف کرا لے تو یہ بھی اس آیت کی خلاف ورزی ہے اور اگر عورت معاف کرنے کو تیار نہ ہو اور اس پر دباؤ ڈال کر معاف کرا لیا جائے تو یہ بھی اس آیت کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اگر شوہر کے حالات اچھے نہ ہوں اور بیوی مہر کی رقم میں سے اس کی مدد کرنا چاہے اور شوہر اس کو معیوب سمجھے اور لینے سے انکار کردے تو یہ بھی اس آیت کی خلاف ورزی کی ایک شکل ہے۔ اگر مہر ادا نہ کیا جائے اور طلاق کی نوبت آجائے یا عورت مہر لینے کو بد شگونی سمجھے اور اسے اپنے ہاتھ میں نہ لے تو یہ بھی اس آیت کی خلاف ورزی ہے۔
اگر وسعت ہوتے ہوئے بھی صرف پانچ ہزار، یا پانچ سو اکیاون مہر رکھا جائے تو یہ جہالت کی نشانی ہے۔مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں ہے۔ وہ قنطار یعنی سونے کا ڈھیر بھی ہو سکتا ہے اور لوہے کی انگوٹھی بھی ہو سکتی ہے۔
مہر کے تعین میں نہ دکھاوا ہونا چاہیے، نہ ہی نمائش، نہ جہالت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور نہ ہی بخالت کا۔اصل چیز ہے مرد کی مالی حالت اور عورت کی رضا مندی، اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے معقول مہر طے کریں اور اس کو جلد ادا کریں۔ وہ بیوی کا حق اور ملکیت ہے، اس کا اس سے حساب نہ لیں۔ وہ اس میں سے کچھ گفٹ کردے تو خوشی سے لے لیں۔
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مہر دے کر رشتہ قائم کرو۔ مگر غیر اقوام سے متاثر مسلمان، جہیز لے کر رشتہ قائم کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔آئیے اپنا حق پہچانیں اور جہیز نہ لے جا کر مہر کا حق حاصل کریں۔
عورتوں کو ان کے مہر دے دو۔ ’ان کے مہر‘ سے مراد ہے کہ یہ ان کی قیمت نہیں کہ جب دل چاہے دے دینا اور یہ بھی نہیں کہا کہ دے دیا تو اچھا ہوگا،بلکہ فرمایا ہے کہ’ دے دو‘۔ پھر مزید وضاحت ہے کہ ’نِحْلَۃً‘،یعنی دل کی آمادگی، خوشی اور محبت سے دو اور اس میں زبردستی یا مجبوری والی کیفیت نہ ہو۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے