قرآنی آیات اورعورت کا رتبہ
بعضکم من بعض
قرآنی تعبیر ہے جس کا مطلب ہے کہ عورت بھی اتنی ہی انسان ہے جتنا انسان مرد ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اگر مسلم مرد اپنے فرض منصبی سے بہت زیادہ غافل ہیں تومسلم عورتیں بحیثیت مجموعی اپنے فرض منصبی سے یکسر ناواقف ہیں۔ مردوں کے درمیان تو اصلاح وتجدید کی تحریکیں کچھ نہ کچھ صدا بلند کرتی رہتی ہیں لیکن عورتوں کے درمیان اس موضوع پر گفتگو کرنے اور یاد دلانے کے چینل ہی تقریبًا مفقود ہیں۔ نصب العین کے حوالے سے مسلم عورت کے بنیادی طور پر تین کام بتائے جاتے ہیں، بچوں کی اسلامی تربیت، گھر اور خاندان میں اسلامی ماحول سازی اور عورتوں کے سماج میں اصلاح ودعوت۔ ان تینوں کاموں کی انجام دہی سے پہلے اپنی شخصیت کی بہتر تعمیر مطلوب ہے۔ ان تمام حوالوں سے مسلم عورت کی صورت حال بہت زیادہ توجہ چاہتی ہے۔
مسلم عورت اگر اپنے میدان میں سرگرم نہیں ہے، تو اس کی متعدد وجوہات ہیں۔جیسے اپنے مطلوبہ کردار کے بارے میں ناواقفیت، میدانِ کار کے سلسلے میں محدود تصورات،مسلم عورت کی دینی تعلیم کے سلسلے میں عمومی لاپروائی، مسلم عورت کے سماجی کردار پر غیر ضروری پابندیاں وغیرہ۔ اور ان سب کے ساتھ ایک اہم سبب سماج کی نظر میں عورت ذات کا کسی نہ کسی پہلو سے کم تر ہونا اور عورت کا خود احساس کم تری کا شکار ہوجانا بھی ہے۔ یہ آخری سبب ہی ہماری گفتگو کا موضوع ہے۔
احساس کم تری کے نقصانات
ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم عورت کے رتبےکو کم تر بتانے والے غلط تصورات نے اس کے کردار کو سکیڑ دینے اور بہت چھوٹا کردینے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ مقام کو فروتر بتاکر بڑے کردار کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔ مرد کا عورت سے بہتر ہونا اور عورت کا مرد کے مقابلے میں فروتر ہونا اتنے زیادہ پہلوؤں سے بیان کیا گیا اور اس میں اتنی زیادہ مبالغہ آرائی کی گئی کہ یہ غلط بات زیادہ غلط معنوں میں ذہنوں میں بیٹھ گئی اور رویوں میں سرایت کرگئی۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں خلافت کا بڑا کردار تفویض کیاتو ساتھ ہی اسے عزت وتکریم سے نواز کر بلند رتبہ بھی دیا۔ انسان میں مردوعورت دونوں یکساں طور پر شامل ہیں۔ اگر عورت کے مقام کو فروتر بتایا جائے گا تو وہ خلافت والے کردار میں بھی پیچھے رہ جائے گی۔
اسلام ایک طرف تو مرد وعورت دونوں کو بلند رتبہ دیتا ہے اور پھر دونوں ہی کو اعلی مقصد وکردار سے بھی روشناس کراتا ہے۔ اس طرح مرد وعورت کے درمیان مقام ومرتبے کی کشمکش نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ دونوں ایک اعلی مقصد کے لیے مشترک جدوجہد میں شامل ہوجاتے ہیں۔
جب یہ تصور ذہنوں میں بیٹھ جاتا ہے کہ مرد عورت سے افضل وبرتر ہے، تو اس کے نتیجے میں غیر صحت مند رویے جنم لیتے ہیں۔ مرد کے اندر برتری کا احساس اس کے اندر رعونت پیدا کردیتا ہے، پھر وہ عورت کے ساتھ اہانت آمیز سلوک روا رکھتا ہے اور ایک معزز وقابل احترام فریق کی حیثیت سے اس کے ساتھ برتاؤ اور تعامل نہیں کرتا ہے۔
دوسری طرف عورت کے اندر کم تر ہونے کا احساس اس سے تعمیر وعمل کا جذبہ سلب کرلیتا ہےاور وہ اپنی زندگی کے مقصد ونصب العین کے سلسلے میں بھی اپنے آپ کو نا اہل محسوس کرتی ہے۔
مرد کی طرف سے عورت پر ہونے والا ظلم اور سماج کی طرف سے اس کی خاموش تائید اور جواز دہی اس کے اندر منفی جذبات پیدا کرتی ہے۔ بسا اوقات اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ سماجی رواجوں کے ساتھ مذہب سے بھی بدگمان ہوجائے، کیوں کہ یہ رواج مذہبی حوالے لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ حالاں کہ اسلام اس طرح کی تفریق اور اس سے پیدا ہونے والے ظلم کے مظاہر سے بری اور پاک ہے۔
مرد و عورت کے مقام کے سلسلے میں اسلام کے صحیح تصور کو جاننے کا معتبر ترین ذریعہ قرآن مجید ہے۔ زیر نظر مضمون میں قرآن مجید کی بعض آیتوں کی روشنی میں اسلام کے تصور کو بیان کیا جائے گا اور اس سلسلے میں مفسرین سے تفہیم وتشریح کی جوغلطیاں ہوئی ہیں ان کو بھی زیر بحث لایا جائے گا۔
قرآن میں انسان کارتبہ
اللہ تعالی نے انسان کو بہترین خلقت اور اعلی اوصاف کے ساتھ پیدا کیا۔ اس نے آدم کی اولاد کو معزز بنایا اور انھیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی۔ فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ (سورۃالتین:۴)
(ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا)
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّیبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا (سورۃ الاسراء:۷۰)
(یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انھیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انھیں پاکیزه چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انھیں فضیلت عطا فرمائی)
اس تفضیل و تکریم اور احسن تقویم میں مرد وعورت دونوں یکساں طور پر شامل ہیں۔یہ کہنا کسی طرح درست نہیں ہوگا کہ مرد تو احسن تقویم پر پیدا کیا گیا لیکن عورت احسن تقویم پر پیدا نہیں کی گئی۔
قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اللہ نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے۔صرف یہ کہا گیاہے کہ عائلی زندگی میں مرد کے اختیارات کچھ زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن اختیارات زیادہ ہونے کا مطلب اس ذمے داری کے لیے موزوں تر ہونا ہوتا ہے، دوسروں سے برتر وبہتر ہونا تو نہیں ہوتا ہے۔
قرآن سے صاف معلوم ہوتا ہے اور یہی انسانی فطرت کا جائزہ بھی بتاتا ہے کہ مرد کو عورت پر فضیلت حاصل نہیں ہے اور عورت کو مرد پر فضیلت حاصل نہیں ہے۔ دونوں کے درمیان فرق برتری اور کم تری کا نہیں بلکہ خصوصیات کا ہے۔ مرد کی خصوصیات مرد کو ممتاز بناتی ہیں اور عورت کی خصوصیات عورت کو۔ مرد اور عورت دونوں کی مشترک اجتماعیت شوہر اور بیوی کی صورت میں وجود میں آتی ہے۔ ہر اجتماعیت کی طرح اس اجتماعیت کے لیے بھی کسی کا امیر ہونا ضروری ہے جو انتظام کی تمام تر ذمے داری اپنے سر لے۔چوں کہ مرد وعورت کی خصوصیات یکساں نہیں ہیں، اور اجتماعیت اگر دو افراد پر مشتمل ہو تو ان دوکے درمیان باہم انتخابی عمل ممکن نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے اس اجتماعیت کی امارت کا فیصلہ اللہ کی طرف سے طبعی اور شرعی حکم کی صورت میں ہوا۔ شوہر کو بیوی پر امیر بنایا گیا، مرد کی عورت پر برتری کی وجہ سے نہیں، بلکہ مرد وعورت کی جداگانہ خصوصیات اور مردکی اضافی ذمے داریوں کے پیش نظر۔ اسلام کی نظر میں سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔ چناں چہ یہ امارت بھی ذمے داریوں سے گراں بار ہوتی ہےاور اس بارِ گراں کو اٹھانے کی خصوصیت مرد کے اندر ودیعت کی گئی ہے۔ اسی بات کو قوامیت سے تعبیر کیا گیا۔
اسلام نے مرد وعورت کے درمیان ذمے داریوں کی تقسیم کی ہے، مگر وہ تقسیم انتظامی نوعیت کی ہے۔ انتظامی تقسیم کے نتیجے میں اختیارات بھی تقسیم ہوتے ہیں۔ جس پر ذمے داریاں زیادہ ہوتی ہیں اسے اختیارات بھی زیادہ ملتے ہیں تاکہ ذمے داریوں کو بہتر طریقے سے انجام دیا جاسکے۔
لیکن یہ یاد رہنا چاہیے کہ یہ دراصل انتظامی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم ایسی نہیں ہے جس سے مردوں کو عورتوں پر کسی طرح کی فضیلت، فوقیت اور زیادہ عزت حاصل ہوتی ہو۔ سماجی سطح پر مرد وعورت دونوں یکساں مقام اور مساوی عزت رکھتے ہیں۔
قرآن مجید میں کہیں بھی مرد کو عورت سے افضل یا عورت کو مرد سے کم تر قرار نہیں دیا گیا ہے۔ لیکن غیر اسلامی فلسفوں اور رواجوں سے متاثر ہوکر مرد کے افضل اور عورت کے کم تر ہونے کا تصور مسلم ذہنوں اور سماجوں میں بھی در آیا۔ چناں چہ قرآن مجید کی بعض آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے کچھ مفسرین نے اس تصور کو قرآن کی آیتوں سے جوڑ کر پیش کیا اور یہ تاثر دیا کہ قرآن مجید بھی اس کی تائید کرتا ہے اور اسے جواز کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔
فضیلت کا معیار اعمال ہیں
اللہ کے نزدیک فضیلت کا معیار تقوی اور اعمال ہیں نہ کہ مرد یا عورت ہونا۔ فرمایا:
یا أَیهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ أَتْقَاكُم (سورۃ الحجرات: ۱۳)
(لوگو، ہم نے تم کو مرد اور عورت کی صورت میں پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور برادریاں بنائیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔) (ترجمہ مولانا محمد امانت اللہ اصلاحیؒ)
قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں اس اصول کو بہت واضح اور مدلل اسلوب میں ذکر کیا گیا:
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّی لَا أُضِیعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ بَعْضُكُم مِّن بَعْض
(تو ان کے پرردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا تم ایک دوسرے کی جنس ہو)
شیخ رشید رضا لکھتے ہیں:
اس آیت میں ذکر کیا گیا کہ مرد اور عورت جب عمل میں برابر ہوں تو اللہ کے نزدیک انعام میں بھی برابر ہوتے ہیں۔ یہ بات اس لیے بتائی گئی تاکہ مرد کو جو قوت اور عورت پر جو سرداری حاصل ہے اس سے اسے دھوکہ نہ ہوجائے اور وہ یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ وہ اس سے زیادہ اللہ سے قریب ہے۔ اسی طرح عورت کو اپنے سلسلے میں بدگمانی نہ ہو اور وہ اس وہم کا شکار نہ ہوجائے کہ مرد کو اس کا سردار بنایا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے یہاں اس سے بلند رتبہ رکھتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس مساوات کی وجہ بھی یہ کہہ کر بتائی کہ تم ایک دوسرے سے ہو، مرد کی ماں عورت ہوتی ہے اور عورت کا باپ مرد ہوتا ہے، بشریت میں کوئی فرق نہیں ہے، اس لیے ان کے درمیان ایک دوسرے پر فضیلت صرف اعمال کی وجہ سے ہے۔ اس میں اعمال سے برآمد ہونے والے ثمرات شامل ہیں، اور وہ علوم واخلاق بھی جن کے نتیجے میں اعمال وجود میں آتے ہیں۔
اس تعبیر کا ایک اور مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں ایک ہی شاخ سے نکلے ہیں، ایک دوسرے کی جوڑی ہیں، ایک دوسرے کے لیے بھائی بہن ہیں، اسی مفہوم میں یہ حدیث ہے کہ
النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ
یعنی فطرت اور اخلاق میں ان کی جیسی ہوتی ہیں، گویا کہ انھی سے پھوٹی ہوں، یا ان کے ساتھ ایک ہی جڑ سے نکلی ہوں۔ یہ آیت مسلم عورتوں کی شان بلند کرتی ہے، ان کی اپنی نگاہ میں بھی اور مسلم مردوں کی نگاہ میں بھی—جہاں تک یہ بات ہے کہ مرد عورتوں سے علم، عقل اور دنیوی امور کی انجام دہی میں فوقیت رکھتے ہیں تو غالبًا اس کی وجہ یہ ہے کہ سماجی احوال میں اسی کا رواج رہا ہے۔ اسی طرح وراثت میں مرد کو عورتوں کا دوگنا حصہ دیا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کے خرچ کا ذمہ دار ہے اور اس کے اوپر وہ ذمے داریاں ہیں جو عورت پر نہیں ہیں۔ تاہم ان میں سے کسی بھی چیز کا اللہ کے نزدیک انعام وسزا کے معاملے میں یا عزت واحترام کے پہلو سے برترہونے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے زوجین کے درمیان سماجی حقوق میں بھی برابری رکھی ہے۔ صرف انتظام وسرداری کے مسئلے میں مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ عطا کیا ہے۔ (تفسیر المنار)
بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ
کی تشریح کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
عورت اور مرد دونوں ایک ہی جنس سے ہیں، دونوں ایک ہی آدم وحوا کی اولاد ہیں، دونوں ایک ہی قسم کے گوشت پوست سے بنے ہوئے ہیں۔ ان دولفظوں میں قرآن نے ان تمام جاہلی نظریات اور غلط مذہبی تصورات کی تردید کردی جو عورت کو مرد کے مقابل میں، ایک فروتر مخلوق قرار دیتے تھے۔ (تدبر قرآن)
مولانا عبدالماجد دریابادی رقم طراز ہیں:
مرد بحیثیت مرد ہرگز اللہ کے ہاں مقرب تر اور نجات کا مستحق تر نہیں، اور عورت اپنی جنس کی بنا پر ہرگز کسی اجر وقرب سے محروم نہ رہے گی، جیسا کہ بعض دوسرے مذہبوں نے قرار دے رکھا ہے، اس میں عورت کے لیے تعلیم ہے کہ وہ اپنا احساس کم تری دور کرے اور سمجھ لے کہ ایک مکلف مخلوق کی حیثیت سے وہ اور مرد دونوں بالکل ایک سطح پر ہیں اور حصول نجات وقرب حق میں وہ مردوں سے ذرا بھی فروتر نہیں۔
(تفسیر ماجدی)
عورتوں کی خصوصیات ان کا امتیاز ہیں
وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ لِّلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللهَ مِن فَضْلِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُلِّ شَیءٍ عَلِیمً (سورۃالنساء: ٣٢)
(اور جس چیز میں خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی ہوس مت کرو مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انھوں نے کیے اور عورتوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انھوں نے کیے اور خدا سے اس کا فضل (وکرم) مانگتے رہو کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے)
قرآن مجید کی یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ نے سب انسانوں کو الگ الگ خصوصیات سے نوازا ہے۔ اس معاملے میں کسی کو کسی پر مطلق فضیلت حاصل نہیں ہے، ان خصوصیات کے ہوتے ہوئے اصل اہمیت آخرت کے لیے کمائی کی ہے جس کا اصول سب کے لیے یکساں ہے۔ ایک دوسرے میں موجود خصوصیات پر فریفتہ ہونے کے بجائے اللہ کے فضل کا طلب گار ہونا ہی مفید ہوسکتا ہے، اور اس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔
شیخ رشید رضا لکھتے ہیں:
ارشاد تعالیٰ:
مَا فَضَّلَ اللهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْض

میں نہایت انوکھا اختصار ہے۔ اللہ نے بعض مردوں کے مقابلے میں بعض مردوں کو جو فضیلت دی، بعض عورتوں کے مقابلے میں بعض عورتوں کو جو فضیلت دی، مردوں کی صنف کو عورتوں پر جو فضیلت دی اور عورتوں کی صنف کو مردوں پر جو فضیلت دی اور بعض مردوں کو بعض عورتوں پر جو فضیلت دی اور بعض عورتوں کو جو بعض مردوں پر فضیلت دی، یہ سب کچھ اس میں شامل ہے۔ اسے اس طرح سمجھا جائے کہ ہر ایک کی خصوصیت اس کے لیے فضیلت ہے اور وہ خصوصیت اسے دوسرےسے ممتاز کردیتی ہے۔ (تفسیر المنار)
خصوصیات میں فرق ایک بات ہے اور مقام ومرتبے میں فرق ایک دوسری بات ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مرد کے اندر مردانگی ہوتی ہے اور عورت کے اندر نسوانیت ہوتی ہے تو ہم حقیقت بیان کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مر دانگی اعلی صفت ہے اور نسوانیت ادنی صفت ہے تو ہم حقیقت سے دور ہوجاتے ہیں۔ دراصل مردانگی مردوں کے لیے اعلی صفت ہے اور نسوانیت عورتوں کے لیے اعلی صفت ہے۔ مردانگی کی بنا پر مرد قابل تعریف تو ہوتا ہے لیکن عورتوں سے افضل نہیں ہوتا ہے کیوں کہ عورتوں کے پاس اس کے بالمقابل نسوانیت ہوتی ہے۔ اسی طرح نسوانیت کی بنا پر عورت قابل تعریف ہوتی ہے اور وہ ہرگز اس بنا پر مردوں سے کم تر نہیں ہوتی ہے۔ اسے یوں سمجھیں کہ داڑھی کا اگنا مردوں کے لیے جمال کی بات ہے لیکن عورتوں کے لیے جمال کی بات نہیں ہے۔

(جاری)
قرآن مجید میں کہیں بھی مرد کو عورت سے افضل یا عورت کو مرد سے کم تر قرار نہیں دیا گیا ہے۔ لیکن غیر اسلامی فلسفوں اور رواجوں سے متاثر ہوکر مرد کے افضل اور عورت کے کم تر ہونے کا تصور مسلم ذہنوں اور سماجوں میں بھی در آیا۔ چناں چہ قرآن مجید کی بعض آیتوں کی تفسیر کرتے ہوئے کچھ مفسرین نے اس تصور کو قرآن کی آیتوں سے جوڑ کر پیش کیا اور یہ تاثر دیا کہ قرآن مجید بھی اس کی تائید کرتا ہے اور اسے جواز کی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔
Comments From Facebook

3 Comments

  1. Mumtaz Nazir Shaikh

    MashaAllah!!Incredible!A very informative and brilliant article on women’s self awareness.Alas !If only women new how lofty a position their Lord has granted them they would fall down in sujood thanking their Lord Almighty.

    Reply
  2. Shaik Abdul Alim

    منفرد اور راست فکر کی طرف رہنما مذکور تحریر ۔زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی کو ممکن بنائیں

    Reply
  3. Shaik Abdul Alim

    منبر و محراب تک اس فکر کو عام ہونا چاہئے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ اکتوبر