ماحولیات اور خواتین

ہمارے ماحول کی موجودہ صورتحال

اس وقت ہمارا قدرتی ماحول،ہماری زمین اور اس کے وسائل شدید خطرات کی زد میں ہیں۔اس کا اصل سبب ترقی کی دوڑ اور زیادہ سے زیادہ پر تعیش زندگی کی ہوس ہے۔بڑھتی ہوئی صنعت کاری، آمدورفت کے بڑھتے ہوئے ذرائع اور شہر کاری Urbanizationیہ تمام جدید تہذیب وتمدن کی نشانیاں ہیں۔یہ اور اس جیسے کئی عوامل مل کر ماحول کو آلودہ کرنے میں بہت اہم رول ادا کررہے ہیں ۔جنگلات کی صفائی ایندھن،گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں،دنیا کے مختلف خطوں میں آئے دن ہورہی جنگوں میں استعمال مہلک بارود، فضا ئی آلودگی کا سبب ہیں ۔ لکڑی، کوئلہ، پٹرول، گیس کا استعمال فی زمانہ بطور ایندھن ہوتا ہے۔ 20 فیصد فضائی آلودگی کے ذمہ دار فیکٹریاں ہیں جن سے انتہائی مہلک گیسوں کا اخراج ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہوتی ہیں ۔
اپنی ان ترقیوں کے ذریعہ ہم زمین کا درجۂ حرارت بڑھا رہے ہیں جسے Global warming کہا جاتا ہے۔بڑھتی ہوئی صنعت کاری اور پر تعیش زندگی کی قیمت ہم گلوبل وارمنگ کے ذریعہ ادا کررہے ہیں ۔پچھلے دس سالوں میں صدی کے6 گرم ترین سال ریکارڈ کیے گئے ہیں ۔اگر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج اسی طرح ہوتا رہا تو اگلے 20سالوں میں زمین کا درجہ حرارت مزید بڑھ سکتا ہے ۔ ائیرکنڈیشن اور ریفریجریٹرز میں استعمال ہونے والی کلوروفلورو کاربن گیس اور کارخانوں سے نکلنے والے نائیٹروجن کے مرکبات کرہ ارض کی حفاظتی پرت اوزون میں چھید پیدا کررہے ہیں۔
صاف ستھرا اورآلودگی سے پاک پانی اگر نایاب نہ سہی تو کم یاب ضرور ہوگیا ہے ۔فیکٹریوں کا فضلہ، گھریلو فضلہ اور اس قسم کی کئی گندگیاں ندیوں اور نالوں میں ہی ڈالی جاتی ہیں۔ جس کی بنا پر استعمال کا پانی آلودہ ہوتا جارہا ہے۔آلودہ پانی پینے کی وجہ سے ہر سال اموات کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہماری زمین کو مختلف پیڑ پودوں،درختوں کے زریعہ بہت ہی خوبصورت بنایا ہے۔ یہ جنگلات جہاں زمین میں پانی کو روکے رکھتے ہیں وہیں مختلف اقسام کے جانوروں کی پناہ گاہیں بھی ہیں۔ان جنگلا ت کی کٹائی کی وجہ سے ان جانوروں کی کئی اقسام ناپید ہوگئی ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق ہر دن تقریباً 150 سے200انواع species ناپید ہورہے ہیں 2000 کی اقوام متحدہ UN کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سیکنڈ میں ایک ایکڑ جنگل کا صفا یا ہوتا ہے ۔

ماحولیاتی خرابی کی وجہ سے انسانوں کی قوت مدافعت کم ہورہی ہے۔ طرح طرح کے بیکٹیریا اور وائرس نمو پارہے ہیں۔ مختلف بیماریاں پروان چڑھ رہی ہیں۔ نفسیاتی صحت متاثر ہورہی ہے۔ دور جدید کی کئی مہلک بیماریوں بلکہ حالیہ وبا کی تباہ کاریوں کا تعلق بھی ماحولیاتی بحران سے ہے۔
اگر ماحولیاتی بحران کی صورت حال پرکنٹرول نہیں کیا گیا تو ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کی بقا خطرے میں پڑسکتی ہے۔ہمارے بچوں کو ہم ایک ایسی دنیا دے کر جائیں گے جس کی ہوا، پانی غذا سب کچھ زہر آلود ہوگی اور جہاں صحت مند انسان بھی صحت بخش سانس کے لئے کووڈ کے مریض کی طرح تڑپنے پر مجبور ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ایسی صورت حال سے بنی نوع انسان کو محفوظ رکھے۔

ماحولیاتی بحران اور پر تعیش زندگی

اس بحران کا اصل سبب پر تعیش زندگی ہے۔جدید تہذیب کی ایک بڑی خرابی فضول خرچی اور قدرتی وسائل کے استعمال میں بے دردی کا رویہ ہے۔بڑی کمپنیاں خود کو نفع پہنچانے کے لئے اور اپنی زندگیوں کو پر تعیش بنانے کے لئے عوام میں بے پناہ خرچ کرنے اور زیادہ سے زیادہ پر تعیش سامان استعمال کرنے کا مزاج عام کرتی ہیں۔ وہ اشتہارات کے ذریعہ لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ چیزیں خریدیں۔گذشتہ چند سالوں میں یہ جنون ہمارے ملک میں بھی بے انتہا بڑھ گیا ہے۔ بارونق شاپنگ مالوں کی کثرت، خریداروں کو لبھانے کے نت نئے طریقوں اور ٹی وی اشتہارات کے ذریعہ مصنوعات کے حصول کے شوق نے اس جنون کو نئی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ خریداری محض ضروریات کی تکمیل کے لیے نہیں رہی بلکہ ایک شوق بن گئی۔ بازار جانا اور خریداری کرنا دلچسپ تفریح قرار پایا اور خریداری زندگی کی علامت سمجھی جانے لگی۔اب آن لائن خریداری کی سہولتوں نے تو بچوں، بڑوں سب کے اندر فضول خریداری کا جنون پیدا کردیا ہے۔ ایک ایک گھر میں کئی کئی گاڑیاں، بچوں کے ہاتھوں میں جدید ترین ماڈل کے سیل فون، ہمہ اقسام کی قالینیں اور صوفے، باتھ رومز میں دسیوں طرح کے صابن، شیمپو، لوشن اور کریم یہ سب اسی صارفیت پسند تہذیب کی علامتیں ہیں۔ایک محتاط اندازہ کے مطابق شہروں میں متوسط درجہ کا ایک خاندان جس کی ماہانہ آمدنی اسی ہزار روپیہ ہے، اوسطاً دو ہزار روپیہ باتھ روم، اور ڈریسنگ ٹیبل پر خرچ کرتا ہے۔جبکہ دیہاتوں میں اکثر خاندانوں کی جملہ آمدنی دو ہزار روپے ماہانہ ہے۔ان اشیاء کی خریداری اور فضول خرچی کی وجہ سے قدرتی وسائل کا بے پناہ نقصان ہوتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں قدرتی وسائل کی ایسی لوٹ مچی کہ حالیہ دو تین نسلوں نے قدرتی وسائل کا جتنا تصرف کیا وہ دس ہزار سالہ انسانی تاریخ میں سیکڑوں نسلوں کے تصرف سے بھی زیادہ ہوگیا۔ ایک اندازہ کے مطابق اگر دنیا کے تمام لوگ ایک عام امریکی کے مساوی“معیار زندگی” اختیار کرنا چاہیں تو زمین کی طرح کے پچیس سیارے اور ان کے وسائل بھی اس کے لیے ناکافی ہوں گے۔

ماحولیاتی تحفظ اور اسلام

اسلام نے بہت پہلے ایسی ہدایات دی ہیں جن کی پیروی ماحول کے تحفظ کو یقینی بنا سکتی ہے۔ یہ ہدایات آج بھی ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہیں ،قرآن مجید نے انسان کی یہ حیثیت بتائی ہے کہ وہ دنیا کا خلیفہ ہے ۔

انی جاعل فی الارض خلیفہ

خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان کی یہ ذمہ داریاں ہیں کہ وہ اللہ کے احکام نافذ کرے ۔قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ زمین اور آسمانوں کی ساری چیزوں کا مالک اللہ ہے ۔

الم تعلم ان اللہ لہ ملک السموات والارض(قرآن:701:2)

اور یہ کہ انسان کو اللہ نے اپنی ملکیت کے ایک حصہ میں اس لیے تصرف دیا ہے کہ وہ خدا کے احکام کی تعمیل کرے۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کو جو کچھ بھی دیاگیا ہے اس کی حیثیت امانت کی ہے۔ اور امانت کے سلسلہ میں وہ خدا کے حضور جواب دہ ہے ۔قرآن مجید نے یہ بات بھی کہی ہے کہ انسان اور دیگر مخلوقات کے لیے اللہ نے اس کائنات میں حد درجہ توازن قائم فرمایا ہے:

والارض مددنٰھا والقینا فیھارواسی وانبتنا فیھا من کل شی موزون۔ (الحجر:۱۹)

’’اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا ہے اوراس پر (اٹل )پہاڑ ڈال دیے ہیں اور اس میں ہم نے ہر چیزایک معین مقدار سے اگادی ہے۔‘‘
نبی کریم نے تمام مخلوقات کو اللہ کا کنبہ قرار دیا ہے :

الخلق عیال اللہ، احب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ (مشکوٰة)

’’تمام مخلوقات اللہ کا کنبہ ہیں اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہی ہے جو اس کے کنبے کے حق میں بہتر ہو۔‘‘
مخلوقات میں انسان کے علاوہ چرند، پرند، نباتات سب کچھ شامل ہیں۔ قرآن مجید میں سب کو اللہ کی مخلوقات قرار دیا گیاہے اور کہا گیاہے کہ یہ سب اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اس کے فرمانبردار ہوتے ہیں۔
اس لیے اللہ کی مخلوق کی ضرورتوں کا لحاظ کرنا اور ان پر ظلم سے گریز کرنا بھی مسلمان کے فرائض میں شامل ہے ۔اسے ایسے رویوں کی مزاحمت کرنی چاہیے جس سے خلق اللہ کو تکلیف ہوتی ہو اور ان کا حقِ زندگی چھینا جاتا ہو۔
خدا کے خلیفہ اور نائب کی حیثیت سے قدرتی وسائل کا تحفظ اور ان کی پاسبانی اور زندگی کی اعلیٰ قدروں کا فروغ امت مسلمہ کی ذمہ داری تھی۔ لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم نہ صرف یہ کہ اس محاذ پر بھی پیش قدمی میں ناکام ہیں بلکہ دیندار گھرانے بھی مذکورہ لعنتوں کے شکار ہیں۔ اور ہمیں یہ شعور ہی نہیں ہے کہ ہم نادانستہ طور پر اس لائف اسٹائل کے ذریعہ کن قوتوں کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔
یہ ہماری ذمے داری ہے کہ صارفیت، فضول خرچی، اشیا پرستی، طبقاتیت، سود، ماحولیاتی بحران اور عیش پسندی وغیرہ جیسی نحوستوں سے عبارت جدید مغربی لائف اسٹائل کے مقابلہ میں سادگی، جفا کشی، فطرت سے ہم آہنگی، انسان دوستی، اصول پسندی اور سخاوت وغیرہ جیسی قدروں سے عبارت اسلامی لائف اسٹائل کو فروغ دینے کے لیے باقاعدہ تحریکیں چلائیں۔ ملیشیا، سنگاپور، نائیجریا اور ایران وغیرہ ممالک میں مسلم خواتین کی ایسی تحریکیں کام کررہی ہیں۔

خواتین کیا کریں؟

طرزِ زندگی یا لائف اسٹائل پر ، گھر میں استعمال ہونے والی چیزوں پر اکثر خاندانوں میں خواتین ہی کا کنٹرول ہوتا ہے۔ خریدی جانے والی اشیاءکا انتخاب بھی اکثر خواتین ہی کاحق ہوتا ہے۔ معیارِ زندگی کے پیمانے بھی وہی طے کرتی ہیں۔مردوں کو بھی اکثر زیادہ سے زیادہ خریدنے اور گھر میں زیادہ سے زیادہ سامان جمع کرنے کی ترغیب خواتین ہی دیتی ہیں۔ بچوں کا ذہن، ان کی ترجیحات اور ان کے شوق بھی انہی کی تربیت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر خواتین اسلامی نقطۂ نظر کوسمجھ لیں تو خود بخود سارا معاشرہ اسے پسند بھی کرے گا اور اختیار بھی کرے گا۔ اس ذیل میں ہم ایک مصنف کے درج ذیل مشورے یہاں نقل کررہے ہیں۔
۱۔ماحولیاتی مسائل پر خواتین کے اندر بیداری لائی جائے۔ انہیں ماحول کی خرابی اور اس کے اثرات سے واقف کرایا جائے اور بتایا جائے کہ ماحول کو محفوظ رکھنے کے لیے وہ کیا کرسکتی ہیں؟ ہماری کوشش ہو کہ مسلمان خواتین پر تعیش مادہ پرست طرزِ زندگی سے بیزار ہوجائیں اور اسلام کی تعلیم کے مطابق سادہ زندگی کو اختیار کریں۔
۲۔ بے لگام خریداری اور حیثیت سے زیادہ خریداری کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ جدید تہذیب کا نعرہ یہ ہے کہ
Buy what you do not need with the money that you do not have to please those whom you do not like
اگر ہم دولت مند ہوں تب بھی ہم ماحول کا خیال رکھیں۔ دنیا کے غریبوں کا خیال کریں۔ اور اپنی ضرورتوں کو محدود رکھنے کی کوشش کریں۔ ضرورت اور ہوس میں فرق کیا جائے۔ ضرورت ہو تو قیمتی سے قیمتی شئے استعمال کی جائے لیکن محض اپنی بڑائی کے لئے یا برانڈ کے جنون میں خریداری کے شوق سے گریز کریں۔

۳۔ جو چیز گھر پر بن سکتی ہے، گھر پر بنائی جائے۔ کچن گارڈننگ کوفروغ دیا جائے۔ گھریلو کرافٹ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ بڑے شاپنگ مالوں کے مقابلہ میں پڑوس کی چھوٹی دکانوں کو ترجیح دی جائے۔ کسی شئے کو خریدتے ہوئے شئے کی کوالٹی کے ساتھ اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ اسے خرید کر ہم کسے فائدہ پہنچا رہے ہیں؟ اس کی خرید سے ہمارے ملک اور ملت کی معیشت اور فطری وسائل کو فائدہ ہورہا ہے یا نقصان؟
۴۔ گھر کی اشیاءکی بھرپور حفاظت کی جائے۔ اگر آپ دولت مند ہوں تب بھی ایک چھوٹی سی چیز کا نقصان ماحولیات کا نقصان ہے۔ اس لیے اس کے سلسلہ میں حساس رہیں۔ جو اشیاءپرانی ہوجائیں چاہے وہ مصنوعات ہوں، کپڑے ہوں یا کوئی اور شئے انہیں نہ تو کچرے کی ٹوکری میں پھینکیں اور نہ گھر میں غیر مستعمل پڑی رہنے دیں۔ یا تو اسے ردی میں فروخت کردیں یا کسی غریب کو استعمال کے لیے دے دیں۔
۵۔ اس بات کو شدت سے یقینی بنایا جائے کہ پکا ہوا کھانا کسی صورت نہ تو سڑے اور نہ ضائع ہو۔ اول تو یہ احتیاط کی جائے کہ کھانا کم بنے۔ اگر برابر ہوجائے تو ٹھیک ہے۔ تھوڑا سا کم ہوجائے تو کم کھانا دینی اعتبار سے بھی فائدہ مند ہے اور صحت کے اعتبار سے بھی۔ اگر بچ ہی جائے اور دوبارہ استعمال ہوسکتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ تھوڑی سی زحمت اٹھا کر کسی غریب کو دے آئیں۔ آخری صورت میں کم سے کم یہ کوشش ہو کہ کوئی انسان استعمال نہیں کرسکتا تو کوئی جانور ہی کھانا استعمال کرلے۔ ہوٹل میں کھاتے ہوئے بچا ہوا کھانا پیک کرلیا جائے۔ مغربی دنیا میں تو یہ رجحان عام ہے ہی، ہندوستان کے اچھے ہوٹلوں میں بھی اب بچا ہوا کھانا، ساتھ لے لینا معیوب نہیں رہا۔ تھوڑی سی کوشش سے چھوٹے اور کم تر درجہ کے ہوٹلوں میں بھی یہ رجحان فروغ دیا جاسکتا ہے۔
6 ۔جدید دور میں ماحول، صحت اور دولت کے نقصان کا ایک بڑا ذریعہ گاڑیاں ہیں۔ گاڑیوں کے استعمال میں احتیاط بھی اسلامی تہذیب کا ایک جز ہونا چاہئے۔ چھوٹے فاصلے پیدل طے کئے جائیں۔ مسجد کو پیدل جانا افضل ہے۔ عید کی نماز کے لیے پیدل جانا افضل ہے۔ یہ تعلیمات اس ذیل میں ہماری واضح رہنمائی کرتی ہیں۔ جہاں ایک گاڑی سے کام چل سکتا ہو وہاں دو گاڑیاں استعمال نہ کی جائیں۔جہاں پبلک ٹرانسپورٹ آسان اور سہولت بخش بھی ہو اور وقت بھی ضائع نہ ہو رہا ہو وہاں اپنی گاڑی استعمال کرنا محض ٹریفک کے مسائل میں اضافہ کرنا ہے۔
7۔ اللہ کے رسول ﷺ نے باہم تحفوں کے لین دین کی ہمت افزائی فرمائی ہے۔ لیکن ہمارے دور میں تحفے بھی صارفیت پسند کلچر کے فروغ کا ذریعہ بن گئے ہیں اور گھروں میں غیر ضروری اشیاءکی بہتات کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کو شہد اور خوشبو کے تحفے پسند تھے۔ تحفوں کے لین دین میں اگر اس نبوی پسند کا لحاظ رکھا جائے تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
اگر ہمیں اپنے دوست کی ضرورتوں کا اندازہ ہو تو ایسا تحفہ دیا جائے جو اس کی واقعی ضرورت ہو۔ ورنہ خوشبو کا تحفہ سنت کی تعمیل بھی ہوگی اور اس بات کا یقین بھی ہوگا کہ یہ استعمال بھی ہوگی۔ اسی طرح کوئی بھی کھانے پینے کی چیز کا تحفہ دیا جاسکتا ہے۔ اس فہرست میں ایک اور اچھا اضافہ کتاب کا تحفہ ہوسکتا ہے۔
اگر ہمیں کوئی ایسا تحفہ ملتا ہے جس کی ہمیں ضرورت نہ ہو تو خواہ مخواہ اسے بے کار رکھنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ اس تحفہ کو ری سائیکل کیا جاسکتا ہے یا کسی غریب کو دیا جاسکتا ہے۔
8۔کچرے کے معاملے میں احتیاط، پلاسٹک اور پالی تھین کے استعمال میں احتیاط، پانی کے استعمال میں احتیاط اور ایندھن کے استعمال میں احتیاط کے ذریعہ ہم اپنے ماحول کے تحفظ میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ کوئی چیز خریدنی ہو یا استعمال کرنی ہو تو جس طرح ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ہماری جیب پر کتنا بوجھ ڈال رہی ہے، اسی طرح یہ بھی ضرور دیکھیں کہ یہ ہمارے ماحول پر کتنا بوجھ ڈال رہی ہے۔
9۔ صفائی آدھا ایمان ہے۔ ہمارا گھر، کھانے پینے کا ماحول، جسم، کپڑے اور سب سے اہم ہمارے گھر کے اطراف کا علاقہ (Surroundings) نہایت پاک صاف رہے، یہ اسلامی فطرت کا عین تقاضہ ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ آج ملک بھر میں بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی شناخت گندگی سے وابستہ ہوتی جارہی ہے۔ گندے محلے مسلمانوں کے محلے سمجھے جاتے ہیں۔ مسجد کے طہارت خانے بھی تمام تر سہولتوں کے باوجود بدبودار ہوتے ہیں۔ کچرا پھینکنے میں ہم ذرا بھی احتیاط نہیں کرتے۔ یہ صورتحال بھی مسلم خواتین ہی کی توجہ سے بدل سکتی ہے۔ روڈ پر اور نالیوں میں کچرا پھینکنا گناہ ہی نہیں ظلم ہے۔ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے جس کی معافی اور بخشش کا امکان بہت کم ہے۔ یہ موجودہ انسانوں ہی کی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی بھی حق تلفی ہے۔ یہی معاملہ پانی کو آلودہ کرنے، دھوئیں کے اخراج، ڈرینیج میں ٹھوس چیزیں بہا دینے، روڈ پر تھوکنے اور ناک سنکنے، روڈ پر بچوں کو رفع حاجت کرانے اور اس قبیل کی دیگر گندی حرکتوں کا ہے۔
10۔ ہم اپنے بچوں کے مزاج میں بھی انسانیت دوستی جفاکشی، ماحولیات دوستی، قناعت و توکل جیسی اعلیٰ قدروں کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارے بچے خوب پڑھیں اور خوب کمائیں بھی، لیکن تعیشات کے لیے نہیں بلکہ زندگی کی اعلیٰ قدروں اور اعلیٰ مقاصد کے لیے۔ ہم انہیں بہت زیادہ اور غیرضروری اشیاءکے استعمال کا عادی نہ بنائیں۔ان کے اندر نت نئے کھلونوں، کپڑوں اور اشیاءکی خرید کے شوق کے بجائے اچھی کتابوں اور رسالوں کو خریدنے کا شوق پیدا کریں۔ مہم جوئی، سفر اور دنیا دیکھنے کا شوق پیدا کریں۔ غریبوں کی مدد اور مہمانوں کی خدمت کا شوق پیدا کریں۔ یہ جستجو پیدا کریں کہ وہ مختلف مقابلوں میں حصہ لیں۔ صلاحیتوں کے ارتقاءاور ان کے اظہار پر پیسہ خرچ کریں۔ یہ شوق رکھنے والے بچے ہی بڑے کارنامے انجام دینے کی صلاحیتوں سے آراستہ ہوں گے۔ ورنہ مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ معیشت کے کند دماغ غلام تو ہمارا معاشرہ تیار کر ہی رہا ہے۔
ماحولیاتی مسائل پر خواتین کے اندر بیداری لائی جائے۔ انہیں ماحول کی خرابی اور اس کے اثرات سے واقف کرایا جائے اور بتایا جائے کہ ماحول کو محفوظ رکھنے کے لیے وہ کیا کرسکتی ہیں۔
اسلام نے بہت پہلے ایسی ہدایات دی ہیں جن کی پیروی ماحول کے تحفظ کو یقینی بنا سکتی ہے۔ یہ ہدایات آج بھی ماحولیاتی تحفظ کی کوششوں کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۱