خواتین میں امراضِ قلب
اور احتیاطی تدابیر
خواتین میں امراضِ قلب کی شکایتیں مردوں کی بنسبت کم ہیں،لیکن قابل لحاظ حد تک موجود ہیں، جن سے واقفیت اور احتیاط خواتین کے لیے ضروری ہے۔ بعض قلبی بیماریوں کی اقسام درج ذیل ہیں:
۱۔ والوس (Valves) کی بیماریاں:
یہ بیماری عموماً ترقی پزیر ممالک میں، غریب بستیوں میں اور دیہی علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے اور ان جگہوں پر جہاں صفائی کا معقول نظم نہیں ہوتا یا کم جگہ پر زیادہ افراد رہتے ہیں۔ یہ عموماً کم عمر لڑکیوں میں بخار، گلے میں درد، جوڑوں میں درد سے شروع ہوتی ہے اور دل کے والوس کے انفکشن کی وجہ سے یا تو والوس کا راستہ تنگ ہوجاتا ہے یا ڈھیلا ہوجاتا ہے۔ مریض کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ شروع میں دواؤں سے علاج ممکن ہے، مگر بعض وقت آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
۲۔ دھڑکن کی بے ربطی:
اس میں دل کی دھڑکن یا تو بہت تیز ہوجاتی ہے، یا بہت دھیمی ہوجاتی ہے یا بے ربط ہوجاتی ہے۔ اس کے کئی وجوہات ہیں۔ مگر عموماً جس کیفیت کو اختلاج یا دھڑکن کہتے ہیں وہ خون کی کمی، نفسیاتی اور تھائرائڈ کی کمی زیادتی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
۳۔ خون کی نالیوں کا سخت ہوجانا:
عمر کی زیادتی اور خون کی نالیوں میں کولسٹرول اور دوسرے مواد جمع ہوجانے سے جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں، اس کو Atherosclerosis کہتے ہیں۔ اس سے خون کے دورانیے میں مشکل پیدا ہوتی ہے۔ اس کی وجوہات یہ ہیں:(۱) بلڈ پریشر (۲) ذیابطیس (۳) کولسٹرول (۴) ورزش کا کم ہونا (۵) سگریٹ نوشی (۶) موٹاپا۔
۴۔ دل کا کم زور ہونا:
مردوں میں کئی وجوہات سے دل کے خون کو پمپ کرنے کی صلاحیت میں کمی آسکتی ہے، مگر خواتین میں دورانِ حمل یا وضع حمل کے بعد یہ بیماریاںلاحق ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا اگر وضعِ حمل کے بعد سانس کے پھولنے کی شکایت ہو تو ڈاکٹر سے جلد رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دل کے کم زور ہوجانے کی دیگر وجوہات میں بی پی، شوگر (ذیابطیس)، ہارٹ اٹیک وغیرہ ہیں۔ اس بیماری میں مریض کی سانس پھولنے لگتی ہے، پیروں پر سوجن آجاتی ہے اور جگر کا حجم بڑا ہونے سے پیٹ ابھر کر بڑا معلوم ہوتا ہے۔ اس سے بچنے کے لیے بی پی اور شوگر کا علاج کروانا ضروری ہے۔ایسی کیفیت میں سگریٹ نوشی اور تمباکو کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
۵۔ پیدائشی خرابیاں:
بسا اوقات قلب کی بناوٹ میں پیدائشی خرابیاں ہوتی ہیں۔ مثلاً دل کے پردوں میں سوراخ، والوس کی بناوٹ میں خرابیاں، خون کی نالیوں کا غلط جگہ سے نکلنا یا پہنچنا وغیرہ۔
اس میں عام طور پر دل کے پردوں میں سوراخ اور والوس کی خرابیاں زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں۔ بچوں میں پیدائش کے بعد سانس لینے میں مشکل، ہونٹوں اور ناخنوں کا نیلا پڑجانا وغیرہ نظر آئے تو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔ بعض خواتین میں بڑی عمر تک بھی یہ خرابیاںعلم میں نہیں آتیں، جب تک کہ کوئی تکلیف محسوس نہ ہو۔ لہٰذا کسی بھی تکلیف، مثلاً سانس لینے میں تکلیف اور ہونٹوں اور ناخنوں کے نیلے ہونے پر ڈاکٹر سے مشورہ ضروری ہے۔
۶۔ دل کی شریانوں کی رکاوٹ:
قلب کو آکسیجن پہنچانے والے شریانوں میں مواد جمع ہونے سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور مریض کو سینے میں درد ہونے لگتا ہے۔ یہ مواد مختلف قسم کے مادے جمع ہونے سے بہتا ہے۔ مثلاً کولسٹرول، کیلشیم وغیرہ۔ اس کے وجوہات میں مرغنی غذائیں، غیر متحرک زندگی، سگریٹ یا تمباکو نوشی، بلڈ پریشر، ذیابطیس (شوگر) اور خاندانی توارث وغیرہ شامل ہیں۔
اس کی علامتیں اس طرح ہیں: سینے یا بازؤوں میں درد ، بالخصوص محنت کا کام کرنے پر، بعض افراد کو صرف بازوؤں میں ، حلق میںیا پیٹھ میں درد ہوتا ہے۔ سخت کم زوری کا احساس، پسینے کا بہنا، متلی اور بے چینی کا احساس، خواتین میں کاندھوں یا پیٹ میں درد، گھبراہٹ ، ٹھنڈا پسینہ بہنا اور بے چینی کی شکایت ہوتی ہے۔ ای سی جی، ایکو کارڈیو گرافی، ٹی ایم ٹی اور اینجیو گرافی کے ذریعے اس بیماری کی پہچان یقینی طور پر ہوجاتی ہے۔ دواؤں سے افاقہ نہ ہو تو اینجیوپلاسٹی، بائی پاس سرجری وغیرہ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ خواتین کے مخصوص ایام سے پہلے کی عمر میں یہ بیماری کم دیکھی جاتی ہے،لیکن پھر بھی تکلیف کا احساس ہو تو ڈاکٹر سے صلاح لینی چاہیے۔
۷۔ دل کا انفکشن
دل کی اندرونی پرت کا انفکشن یا والوس کا انفکشن ایک قابلِ تشویش بیماری ہے۔ بیکٹیریا، فنگس اور وائرس کی وجہ سے یہ انفکشن ہو سکتا ہے۔جسم کے دوسرے حصوں مثلاً منھ وغیرہ سے یہ انفکشن خون کے ذریعے دل تک پہنچتا ہے۔ دل کے بافتوں (Muscle) کا انفکشن بھی ایک بیماری ہے، جو عموماً وائرس سے ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے دل کی کام کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ بعض دواؤں کے ضمنی اثرات (Side effect) سے بھی دل متأثر ہو سکتا ہے۔ سینہ میں درد، سانس کا پھولنا اور دل کی دھڑکن کی بے ربطی، اس کی علامات ہیں اور اینٹی بایوٹک انجکشن سے اس کا علاج ہوتا ہے۔
سخت کم زوری کا احساس، پسینے کا بہنا، متلی اور بے چینی کا احساس، خواتین میں کاندھوں یا پیٹ میں درد، گھبراہٹ ، ٹھنڈا پسینہ بہنا اور بے چینی کی شکایت ہوتی ہے۔ ای سی جی، ایکو کارڈیو گرافی، ٹی ایم ٹی اور اینجیو گرافی کے ذریعے اس بیماری کی پہچان یقینی طور پر ہوجاتی ہے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ ستمبر