درس حدیث
معذور بچوں کے متعلق والدین کا رویہ قرآن و حدیث کی روشنی میں
زمرہ : النور
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا:

إن أحدكم يُجمَعُ خلقُه في بطن أمِّه أربعين يومًا نطفةً، ثم يكون علقةً مثلَ ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يُرسَلُ الملَكُ، فينفُخُ فيه الروحَ، ويؤمَر بأربع كلمات:بكتبِ رزقِه، وأجَلِه، وعمله، وشقي أو سعيد، فو الذي لا إله غيره،
[متفق عليہ]

(تم میں ہر ایک کی تخلیق یوں ہوتی ہے کہ وہ والدہ کی پیٹ میں چالیس دنوں تک نطفہ کی صورت میں، اس کے بعد اتنے ہی دن گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں رہتا ہے۔ بعد ازاں اس کی طرف ایک فرشتہ بھی بھیجا جاتا ہے، وہ آکر اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے اس پیدا ہونے والے کے متعلق چار باتیں: رزق، عمر ، عمل اور اس کے شقی [بدبخت] یا سعید [نیک] ہونے کے متعلق لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔)
صحیح حدیث کا مفہوم ہے کہ بچہ جب ماں کے پیٹ میں چار مہینہ کا ہوجاتا ہے تو ایک فرشتہ آتا ہے اور اللہ کے حکم سے اس بچہ کی عمر اس کا رزق اس کے علاوہ وہ شقی ہوگا یا سعید، لکھتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق فرشتہ اللہ تعالیٰ سے پوچھتا ہے:یا اللہ! اسے کامل لکھوں یا ناقص؟ پھر جنس بھی پوچھتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ناقص کا حکم دیتا ہے، تو بچہ عیب دار ہوتا ہے۔ ہاتھ، پیر خراب یا بالکل معذور پیدا ہوتا ہے، جیسا اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ معذور بچہ والدین کی کسی غلطی کی سزا یا گناہ کا موجب نہیں ہے، بلکہ اللہ کی یہی مرضی تھی۔اگر وہ چاہتا تو ہر کسی کو تندرست، خوبصورت اور ہونہار بچے عطا کرسکتا ہے۔
جن کے بچے ہوں ، ان کو اللہ تعالیٰ سے ناراض نہیں ہونا چاہیے اور یہ نہ سوچیں کہ ایسے بچے کا کیا کریں؟ یہ تو کسی کام کا نہیں وغیرہ ۔ اللہ کی رضا میں راضی رہنا ایک مومن کا شیوہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے کار پیدا نہیں کی۔اس بچے کا دنیا میں آنے کا کوئی مقصد ضرور ہے۔ کوئی مصلحت پوشیدہ ہے، جو ہماری نظروں سے اوجھل ہو اور ہم انجانے خدشات کا شکار رہتے ہیں۔
بہت سے والدین ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب ان کو پیدائش سے قبل یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کا بچہ Abnormal ہے، تو اسے ضائع کروا دیتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں ایسا بچہ دنیا میں آکر کیا کرسکتا ہے۔ سو مجبوری کی زندگی کے گزارنے کے اسی فکر میں اس طرح کا غلط قدم اٹھا لیتے ہیں، جو کہ انہیں نہیںکرنا چاہیے۔ صرف ایک ہی صورت میں ایسا کیا جاسکتا ہے، جب ماں کی جان جانے کا خطرہ ہو۔متعدد Doctors کا یہی مشورہ ہوکہ صرف ماں کو بچایا جاسکتا ہے یا پھر بچے کو، ایسی صورتِ حال میں کراہیت کے ساتھ بچے کو ضائع کروایا جاسکتا ہے۔ صرف نقص یا عیب کی وجہ سے اس کی زندگی کو ختم کرنا کسی طرح درست نہیں۔ اس بچے کا بھی دنیا میں آنے کا حق ہے، اس کا حق مارا نہیں جانا چاہیے۔
ایسے والدین اگر صبر و تحمل سے کام لیں اور خلوص دل سے معذور بچے کو گوارا کرلیں تو وہ قابلِ تحسین ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس خاص بچے کے لیے ان کو منتخب کیا۔ اگرچہ ان کی پرورش و پرداخت صبر آزما ہے، مگر عام بچوں کے بنسبت ان کا اجر کئی گناہ بڑھ جاتا ہے۔
معذور بچے دیکھنے میں نارمل بچوں سے تھوڑے الگ ضرور ہوتے ہیں، مگر ان کے اندر بھی بچپن اور سمجھ بوجھ دوسرے بچوں کی طرح ہی ہوتی ہے۔ لیکن ان کو نارمل بچوں سے تھوڑا زیادہ وقت لگتا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ذرا دیر سے پیدا ہوتی ہے۔
چونکہ یہ بچے اسپیشل ہوتے ہیں، اس لیے ان کی Care اسپیشل طریقے سے ہو اور الگ طریقوں سے سمجھایا جائے تو یہ اچھے سے سیکھ لیتے ہیں اور سمجھ بھی لیتے ہیں۔ پہلے ان کی پریشانیوں کو دیکھنا اور problems کو سمجھنا چاہیے۔ ان کا development تمام بچوں کی طرح نہیں ہوتا، آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ ان بچوں میں دیکھنے سننے اور بولنے میں دقت ہوسکتی ہے۔ تھائیرائڈ، موٹاپا اور دل کی بیماریوں کے ہونے کے اندیشے زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کی قوت مدافعت کم زور ہوتی ہے۔
جب موسم بدلتا ہے، بالخصوص ٹھنڈ میں ،تو والدین کو ان کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ وہ قدرتی طور پر کم زور ہوتے ہیں۔ دقتوں کے باوجود اگر ان کی دیکھ بھال پیار و محبت سے کی جایے تو بہت سی پریشانیوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ ان کو ایسے مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ خود سیکھنے کی کوشش کریں۔ اگر والدین صبر کے ساتھ قدم قدم پر ان کا حوصلہ بڑھاتے رہیں تو بچوں کی پرابلم آسانی سے حل ہوسکتی ہے۔ جلد بازی سے کام لیں ورنہ بچے کی ہمت ٹوٹ جائے گی اور کوشش کرنا چھوڑ دے گا۔ کیوں کہ ایسی بیماریاں دواؤں سے بہت کم اور محنت و کوشش سے نارمل زیادتی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا بہترین انتظام ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر بچہ اسکول جانے کے لائق ہو تو اسے ضرور اسکول بھیجنا چاہیے۔ ایسے بچے کے ماں باپ خود کی بے عزتی محسوس نہ کریں اور نہ بچے کو ہونے دیں۔ بلکہ اس کو ایک چیلنج سمجھیں اوراس کا مقابلہ کریں۔
دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے دیں۔ ایسا ہر گز بھی نہ سوچیں کہ میرا بچہ مزاق کا نشانہ بنے گا، اس معاملے میں ضبط سے کام لینا ہوگا۔ ورنہ بچہ آگے نہیں بڑھ پایے گا۔ اس کی غلطیوں جھنجلائیں نہیں۔ بلکہ پیار سے نرمی کے ساتھ سمجھائیں، دوسرے بچوں کی مثالیں دینے سے پرہیز کریں۔ پیار، صبر اچھی دیکھ ریکھ سے بچے کو ایک خوشگوار زندگی دی جاسکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے کار پیدا نہیں کی۔اس بچے کا دنیا میں آنے کا کوئی مقصد ضرور ہے۔ کوئی مصلحت پوشیدہ ہے، جو ہماری نظروں سے اوجھل ہو اور ہم انجانے خدشات کا شکار رہتے ہیں۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ ستمبر