درس قرآن
زمرہ : النور
وَابتَغِ فيما آتاكَ اللهُ الدّارَ الآخِرَةَ ۖ وَلا تَنسَ نَصيبَكَ مِنَ الدُّنيا ۖ وَأَحسِن كَما أَحسَنَ اللهُ إِلَيكَ ۖ وَلا تَبغِ الفَسادَ فِي الأَرضِ ۖ إِنَّ اللهَ لا يُحِبُّ المُفسِدينَ
(القصص:77)

(اور جو کچھ خدا نے تمہیں دے رکھا ہے، اس میں آخرت کے طالب بنو اور دنیا میں سے اپنے حصہ کو نہ بھولو اور جس طرح خدا نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے، اسی طرح تم بھی دوسروں کے ساتھ احسان کرو اور زمین میں فساد کے طالب نہ بنو۔ اللہ تعالی فساد چاہنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔)

سورہ ٔ القصص مکی ہے۔ سورۂ الشعراء، سورۂ النمل اور سورہ ٔالقصص یکے بعد دیگرے نازل ہوئیں۔ ان تینوں سورتوں سے قصۂ موسیٰ علیہ السلام کی تکمیل ہوتی ہے۔ درج بالا آیت سے پہلے اور بعد میں قارون اور اس کے خزانے کا تذکرہ ہے، جس نے اپنی قوم کی روایات اور اعلیٰ اقدار سے بغاوت کی تھی۔ وہ زر پرستی، دنیا پرستی اور نفس پرستی میں مبتلا تھا۔ مذکورہ بالا آیت میں اہلِ ایمان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ مال و دولت پانے کے بعد قارون کا سا طرزِ اختیار کرو گے تو اسی جیسے انجام سے دوچار ہو گے۔ اس کے بالمقابل تمہیں وہ کام کرنے ہوں گے جو اس آیت میں بتائے جارہے ہیں۔ اس آیت میں چار نکات بیان کیے گئے ہیں:
1۔ وَابْتَـغِ فِيْمَآ اٰتَاكَ اللّـٰهُ الـدَّارَ الْاٰخِرَةَ:
(اور جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اس سے دار آخرت حاصل کرنے کی کوشش کرو۔)
پہلے نکتے میں کہا گیا کہ جو کچھ ہمیں اللہ نے دیا ہے، اکڑنے اور فخر جتانے کے لیے نہیں، بلکہ اس سے آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ بنانے کے لیے دیا ہے۔ یعنی مال و دولت اور عمرو قوت، صحت و صلاحیت وغیرہ ان سب سے وہ کام لیں جو دار آخرت میں کام آئے۔ یہ جو کچھ بھی ہمیں ملا ہے، نہ وہ باپ دادا کی میراث ہے اور نہ ہماری قابلیت کا کرشمہ۔ بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہمارا امتحان رکھا ہے کہ ہم ان سب کو پاکر اسی میں مگن ہو جاتے ہیں یا اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کے طالب بنتے ہیں۔
2۔ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الـدُّنْيَا:
یعنی تمہارے اپنے نفس، بیوی بچوں اوراہل خاندان کے حقوق ہیں ۔فطری ضروریات، علاج معالجہ، گھر مکان، لباس اور تمام جو جائز اور حلال مصارف ہیں، ان پر خرچ کرنا منع نہیں اور نہ ایمان و اسلام کے خلاف ہے۔ بشرطیکہ وہ سب اعتدال پر ہونے چاہئیں۔ اس کی بہترین تفسیر وہ حدیث ہے جو حضرت ابو ہریرہؓ نے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
يَقُولُ الْعَبْدُ مَالِي مَالِي إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلاَثٌ مَا أَكَلَ فَأَفْنَى أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ [مسلم: 2959]
( بندہ کہتا ہے میرا مال، میرا مال۔ حالاں کہ اس کے مال میں اس کی تو صرف تین چیز ہیں: جو اس نے کھایا اور فنا کر دیا، یا پہنا اور پرانا کر دیا، یا اللہ کی راہ میں دیا اور ذخیرہ بنا لیا اور جو اس کے سوا ہے تو یہ اسے لوگوں کے لیے چھوڑ کر [دنیا سے] جانے والا ہے۔)
دنیا میں سے آدمی کا اصل حصہ وہ نیکی ہے، جو آخرت میں اس کے ساتھ جائے۔ ایک تفسیر جو اکثر مفسرین نے بیان فرمائی ہے یہ ہے کہ مال کا حريص بعض اوقات بخل کی اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنی جان پر بھی خرچ کرنے سے گریز کرتا ہے اور اپنے کھانے پینے اور دوسری ضروریات میں بھی بخل سے کام لیتا ہے۔
3۔ وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّـٰهُ اِلَيْكَ
(اور لوگوں کے ساتھ احسان کرو، جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے۔)
یعنی جیسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ احسان (بہترین) سلوک کیا ہے، یہ مال و دولت اور شان و شوکت تمہیں کسی بدلے کے بغیر عطا کی ہے، اسی طرح تم بھی اللہ کی مخلوق کے ساتھ احسان کرو۔ ان سے کسی صلے کی خواہش کے بغیر بہترین سلوک کرو۔ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو جو کچھ دیا ہے کسی بدلے کے بغیر دیا ہے۔ والدین کے ساتھ بھی اسی احسان کا حکم ہے، فرمایا :
وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا [بنی اسرائیل:23]
(اور ماں باپ کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرو۔) چوں کہ بڑھاپے میں ان سے کسی صلے کی توقع نہیں ہوتی۔ احسان کی تفسیر حدیث میں یہ بھی آئی ہے :
أنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ [ بخاری: 50]
(اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے، پھر اگر تو اسے نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھتا ہے ۔) اس تفسیر کے مطابق مطلب یہ ہوگا کہ جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ بہترین سلوک کیا ہے، تم بھی اس کے ساتھ بہترین معاملہ رکھو کہ ہر وقت اور ہر کام میں اسے پیش نظر رکھو اور ہر حال میں پر اس کی نگرانی کو اس طرح مدِّ نظر رکھو کہ تمہارا ہر کام اور ہر حرکت اس کی رضا کے مطابق ہو، یہ احسان ہے۔
4۔ وَلَا تَبْـغِ الْفَسَادَ فِى الْاَرْضِ:

(اور زمین میں فساد مت مچاؤ، یقینا اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں گرتا۔)
زمین میں فساد سے مراد انسان صرف اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ناجائز اور حرام طریقے سے دولت سمیٹے، فضول خرچی کرے، حرص و لالچ اور دھوکہ کرے، بری عادات و عیاشیانہ کردار اختیار کرے ،تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عدل و انصاف کے بجائے ظلم و ستم، ہمدردی و خیر خواہی کے بجائے خود غرضی، مساوات و برابری کے بجائے اونچ نیچ پیدا ہوتی ہے۔ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
مولانا امین احسن اصلاحی تدبر قرآن میں اس نکتے کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ زمین میں فساد سے مراد علو استکبار ہے۔ استکبار کی حقیقت ہے کہ آدمی اپنے حدود ِبندگی سے تجاوز کر کے خدا کے حدود و حقوق میں مداخلت کرے۔ جو لوگ اس جرم کے مرتکب ہیں، وہ مفسدين في الارض میں شامل ہیں، خواہ وہ یہ کام کتنی ہی دانش فروشیوں کے ساتھ کریں۔ ایسے لوگوں کو خدا پسند نہیں کرتا۔
تفسیر القرآن الکریم میں حافظ عبد السلام بھٹوی لکھتے ہیں کہ زمین میں ہر خرابی اور ہر فساد اللہ کے ساتھ شرک اور اللہ و رسول کی نافرمانی سے پیدا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس آیت پر غور و فکر کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

انسان صرف اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے ناجائز اور حرام طریقے سے دولت سمیٹے، فضول خرچی کرے، حرص و لالچ اور دھوکہ کرے، بری عادات و عیاشیانہ کردار اختیار کرے ،تو اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ عدل و انصاف کے بجائے ظلم و ستم، ہمدردی و خیر خواہی کے بجائے خود غرضی، مساوات و برابری کے بجائے اونچ نیچ پیدا ہوتی ہے۔ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ ستمبر