رات کی رانی
اور نازک آبگینے
حسن کی بہتات ہوتی ہے اکثر نقاب کے پیچھے
معصومیت عروج پر ہوتی ہے اکثر حجاب کے پیچھے
آؤ! میں تمہیں حسن و معصومیت کا ایک اکسیر نسخہ دوں
رب سے عطا ہوتے ہیں یہ! دو تہائی رات کے پیچھے
رات کی رانی کا پھول دیکھا ہے آپ لوگوں نے…….؟نہیں؟ آپ نے نہیں دیکھا،یا جس نظر سے میں کہہ رہی ہوں، اُس نظر سے نہیں دیکھا؟
جیسے جیسے رات اپنے پَر پھیلانا شروع کرتی ہے، ہر شئے پر تاریکی اپنا بسیرا کرلیتی ہے اورہر چیز پر خاموشی اپنا تسلط قائم کرلیتی ہے۔ نظروں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے کمزور ہرنیاںخطرناک درندوں سے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی ہیں، تو معصوم مینائیں بھی شکاریوںسے امن محسوس کرتی ہیں۔
لیکن کچھ نادان ہرنیاں اس وقت خطرناک درندوں کو اپنی جادوئی آنکھوں کے ذریعے تسخیر کرنے کو بے چین ہوتی ہیں۔ کچھ نادان مینائیں اس وقت شکاریوں سے پینگیں بڑھانے کے لیے طرح طرح کے اسباب اختیار کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسا کرکے پتہ نہیں کس کس کی آس کو وہ یاس میں بدل رہی ہوتی ہیں۔ پتا نہیں کس کس کی وفاؤں کو بے وفائی کا لباس پہنا دیتی ہیں۔
غزالہ، عالیہ اور فاخرہ ہال میں سب بیٹھی امامہ باجی کی خوبصورت آواز اور پر اثر باتوں سے مسحور ہورہی تھیں۔ باجی کے دل سے نکلتے الفاظ، ہر سننے والی کے دل پر گہرے اثرات چھوڑتے چلے جارہے تھے۔
یہ یونیورسٹی کے ایک لیکچر ہال کا منظر تھا، جہاں شہر کی مشہور دینی درس گاہ کی تربیت یافتہ طالبہ اپنے علم اور دل کے گہرے درد کو اپنے لفظوں میں بیان کررہی تھی۔
لیکن ! چار سو پھیلی رات کی تاریکی اور اندھیرے حجاب میں چھپے ایک پھول کی کہانی ایسی ہے، جو بنتِ حوا کے لیے ایک نمونہ ہے۔ جب تک اس پھول پر رات اپنا حجاب ڈالے رکھتی ہے اور پھول تاریکی میں چھپا رہتا ہے۔ اس وقت تک لوگ اس کی مہک اور تصوراتی خوب صورتی پر فریفتہ ہوئے جاتے ہیں۔ یہ رات اس پھول کے لیے اس باغ کے مالی کی مانند ہوتی ہے، جو کسی کو بھی اس پر حملہ آور ہونے نہیں دیتی۔ جو اس کی تازگی اور شگفتگی کو برقرار رکھتی ہے اور اس کی نازک کلیوں کو مرجھانے نہیں دیتی۔ رات دس کے لیے سب کچھ ہے۔ اسی لیے تو اسے رات کی رانی کہتے ہیں۔ بادنسیم جب اپنی نازک اندام غیر مرئی لہروں اور خوش گوار جھونکوں پر اس کی خوشبو لے کر سفر کرتی ہے تو جہاں جہاں سے گزرتی ہے، ہر راہ گزر اس کی خوشبو کی طرف جانے کے لیے مچل اٹھتا ہے۔ اس کی طرف لپکنے کو بے تاب ہوا جاتا ہے۔ ہر کوئی اس ان دیکھے پھول کی ایک جھلک دیکھنے کا تمنائی بن جاتا ہے۔ لیکن رات کی چار دیواری اس پھول کی پہرے داری کرتی ہے۔ رات کا سیاہ اندھیرا اس کے لیے حجاب ہوتا ہے۔ چار دیواری اور حجاب کے ہوتے ہوئے کس کی جرأت کہ دس پھول کو توڑ سکے، اس کی خوشبو کو چراسکے……!
میری با حیا و با کردار بہنو! پتا ہے پھر کیا ہوتا ہے؟ رات کی چار دیواری جب ٹوٹ جاتی ہے۔ اندھیری رات کا حجاب جب عیاں ہوجاتا ہے تو ہزاروں نظریں پھول کی بے حجاب خوب صورتی کی طرف اٹھتی ہیں۔ وہ نظریں کہ جن میں اس پھول کو پانے کی تمنا اور اس کی معصوم پتیوں کو کچلنے کی ہوس کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ان نظروں میں سوائے عزت و احترام کے، سب کچھ ہوتا ہے۔ سینکڑوں انگلیاں ناپاک ارادوں سے اس کی طرف اٹھنے لگتی ہیں، جو اس پھول کی نازک کلیوں کو اور پاک شبنم سے مغسل مقدس معصومیت کو مسلنے کے لیے بے تاب ہوتی ہیں…..اور انجام میری بہنو! انجام کیا ہوتا ہے؟ یہ کہتے ہوئے امامہ عجیب انداز میں مسکرائی۔
انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ پھول مرجھا جاتا ہے، کلیاں بکھر جاتی ہیں اور خوشبو عنقا ہوجاتی ہے۔ اپنے بہت زیادہ محترم اور عزیز پھول کی اس حالت کو دیکھ کر باغباں ٹوٹ جاتا ہے، پھول سے جڑی ساری امیدیں بھی مرجھا جاتی ہیں۔ چمن گویا اجڑ جاتا ہے اور مالی تڑپتا رہ جاتا ہے۔ اس کی گردن جھک جاتی ہے۔
میری بہنو! فانوس ٹوٹ جائے تو جڑ نہیں پاتا۔ عزت و ناموس بکھر جائے تو واپس آنہیں سکتی۔ اگر رات کی چار دیواری ٹوٹ نہ پاتی، رات کا حجاب عیاں نہ ہوتا تو میری بہنو! ساری زندگی بھی کوئی اس پھول کو نہ توڑ سکتا تھا۔ نہ کلیوں کو مسل سکتا تھا، نہ خوشبو کو چرا سکتا تھا۔
جی ہاں بس اتنا ہی کہوں گی۔ ہمارا گھر ہماری چار دیواری ہے۔ ہمارا پردہ ہمارا حجاب ہے۔ بابل کی دہلیز ہماری حدود ہے۔ ہمارے والدین باغبان ہیں، حیا اور غیرت گلستان کی باڑ ہیں۔ بھائی اور محرم رشتے ہمارے پہرے دار ہیں۔اور ہم!
یہ کہتے ہوئے امامہ نے اپنا ہاتھ دل پر رکھا۔
ہاں ہم! رات کی رانی ہیں۔ دیکھنا ہماری رات کی چاردیواری اور حجاب ٹوٹنے نہ پائے، بکھرنے اور عیاں ہونے نہ پائے۔ بس ہم رات کی رانی کا پھول ہیں۔ گھر ، حجاب اور حیا و غیرت ہماری رات ہے۔ اس رات کے تقاضوں کو پورا کرنا ورنہ ہماری پتیاں اور نازک کلیاں بکھر اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں گی۔۔۔۔۔۔والسلام علیکم!‘‘
’’چلیں امامہ آپی سے آٹو گراف لیتے ہیں، انھیں قریب سے دیکھتے ہیں۔‘‘ غزالہ نے کہا تو وہ سب اٹھ کھڑی ہوئیں۔
وہ سب امامہ کی گرویدہ ہوچکی تھیں۔ امامہ کے تمثیلی انداز سے سب متأثر نظر آتے تھے۔ وہ تینوں پہلے بھی ایسے کاموں سے دور رہتی تھیں۔ دوستی کی شرط ہی یہ تھی کہ اپنی چادر سے بڑھ کر پاؤں نہ پھیلائیں گی۔ ماں باپ اور بھائیوں کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سبب نہیں بنیں گی، لیکن امامہ کے بیان نے ان کے عزائم توانا کردیے تھے۔ آج ان سمیت بہت سی لڑکیوں نے ایسی ، باتوں ، ایسے کاموں اور ایسی سوچوں سے دور رہنے کا عزم کیا تھا۔
چار سو پھیلی رات کی تاریکی اور اندھیرے حجاب میں چھپے ایک پھول کی کہانی ایسی ہے، جو بنتِ حوا کے لیے ایک نمونہ ہے۔ جب تک اس پھول پر رات اپنا حجاب ڈالے رکھتی ہے اور پھول تاریکی میں چھپا رہتا ہے۔ اس وقت تک لوگ اس کی مہک اور تصوراتی خوب صورتی پر فریفتہ ہوئے جاتے ہیں۔ یہ رات اس پھول کے لیے اس باغ کے مالی کی مانند ہوتی ہے، جو کسی کو بھی اس پر حملہ آور ہونے نہیں دیتی۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ ستمبر