سفر طائف اور ہم

طائف مکہ سے تقریباً چالیس میل کے فاصلے پر خوب صورت وادیوں ، زرخیز باغات اور ہیبت ناک پہاڑیوں سے مزین علاقہ ہے۔ یہ علاقہ پہلے پورا کا پورا پہاڑیوں سے ڈھکا ہوا تھا۔اس زمانے میں اس کے بہت سے حصوں کو کاٹ کر راستے بنائے گئے اور یہ راستہ واقعی خوبصورت ہے ،آنکھوں کو مسحور کردینے والا۔ جب آپ طائف کی طرف سفر کرتے ہیں تو یہ سارے مناظر آپ کے تخیل کی آنکھوں میں چلنے لگتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ مکہ میں مظالم اپنے انتہا کو پہنچ چکے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے باہر کی طرف نظر دوڑائی۔ مکہ کے مشرکین برسوں سے شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھے اور پیغام حق کو قبول کرنے کے لئے راضی نہیں تھے۔ ایسے میں آپ ؐ کی نظر انتخاب طائف پہ پڑی۔ طائف مکہ سے مشرق کی جانب ایک علاقہ ہے۔ مکہ کے سرداروں نے یہاں کوٹھیاں بنا رکھی تھیں ، قبیلہ ثقیف یہاں آباد تھا۔

یہ عرب کا طاقتور قبیلہ تھا ، قریش کی اس قبیلہ سے رشتہ داریاں بھی تھیں۔یہاں تین بھائی عبدیالیل ، مسعود اور حبیب اس قبیلہ کے سردار تھے۔بعثت نبوی کا 10واں سال شوال المکرم کا مہینہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فریضہ تبلیغ کے لیے (غالباً پیدل ) یہاں پہنچے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ آپ نے دس دن یہاں قیام فرمایا، عوام و خواص کے سامنے دین اسلام پیش کیا ، معززین علاقہ کے مکانوں پر تشریف لے گئے اور انہیں دعوت اسلام قبول کرنے کو کہا لیکن سب نے بے رخی کا مظاہرہ کیا ۔آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کے سرداروں عبدیالیل ، مسعود اور حبیب کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے سامنے اپنے آنے کا مقصد واضح فرمایا۔ لیکن ان کی بدنصیبی تو دیکھیے کہ انہوں نے آپ ؐ کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بلکہ نہایت گستاخانہ رویہ اپناتے ہوئے آپ کا مذاق اڑایا ۔ ایک نے طنزکرتے ہوئے کہا:’’اگر خدا تعالیٰ نے تجھے رسول بنا کر بھیجا ہے تو وہ خانہ کعبہ کی عزت پامال کر رہا ہے۔ ‘‘دوسرے نے پھبتی کستے ہوئے کہا :
’’اللہ کو تیرے علاوہ اور کوئی نہیں ملا جسے وہ رسول بنا کر بھیجتا۔‘‘ تیسرے نے آوازیں کستے ہوئے کہا:’’اللہ کی قسم !میں تیرے ساتھ بات نہیں کرتا اگر تو واقعی اللہ کا رسول ہے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے تو رسول کی شان یہ نہیں کہ اس سے بحث کی جائے اور اگر تو خدا پر جھوٹ بول رہا ہے تو میری شان یہ نہیں کہ تجھ جیسے جھوٹے سے بات کروں۔‘‘
اس کے بعد ان حرماں نصیبوں نے طائف کے اوباشوں اور آوارہ گردوں کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا۔ کوئی تالی بجاتا ، کوئی سیٹی بجاتا، کوئی جملے کستا ، کوئی ہلڑ بازی کرتا ، شور، ہڑبونگ اور اودھم مچاتے ہوئے آپ کو طائف کی گلیوں میں لے آئے ۔یہاں دونوں طرف لوگ صف بنائے پتھر ہاتھوں میں لیے کھڑے تھے ، جب آپ ؐ کا گزر وہاں سے ہوا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارنا شروع کیے ۔ پیارے نبی ؐ سر مبارک سے لے کر پائوںتک لہولہان ہو گئے،بدن مبارک سے خون مبارک بہتے بہتےقدموں تک پہنچ گیا۔ حضرت زید بن حارثہؓ آپ کو بچانے کے لیے کبھی آگے آتے ، کبھی دائیں بائیں اورکبھی پیچھے ،ان کا بھی سر لہولہان ہو گیا۔ پتھروں کے برستی بارش میں کبھی آپ بیٹھ جاتے تو طائف والے آپ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر آپ کو دوبارہ کھڑا کر دیتے ، چند قدم چلتے پھر بیٹھ جاتے اور وہ دوبارہ آپ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑا کرتے اور پتھر برساتے۔جب آپ بے ہوش کر گر پڑے تو حضرت زید بن حارثہؓ نے آپ کو اٹھایا ۔ قریب ہی کچھ پانی تھا وہاں لے گئے تاکہ خون کے دھبے دھوئیں ، کچھ دیر بعد طبیعت کچھ سنبھلی تو قریب میں ایک باغ تھا وہاں انگور کی سایہ دار بیل کے نیچے تھوڑی دیر لیٹ گئے اور معبود برحق کی بارگاہ میں مناجات و دعا میں مشغول ہو گئے۔آپ کے سوز و گداز ، تڑپ ، درد اور زخموں کی ٹیس نے نالۂ فریاد میں وہ تاثیر پیدا کی جس سے عرش بریں تک کانپ اٹھا۔ اس موقع پر آپ نے بارگاہ ایزدی میں دعا کی :
’’اے اللہ! میں تجھ ہی سے اپنی بے بسی کا شکوہ کرتا ہوں ، یہ مجھے رسوا کرنا چاہتے ہیں اس کا شکوہ بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں ، اے سارے مہربانوں سے زیادہ مہربان۔اے میرے پرودگار!آپ مجھے کن کے حوالے کر رہے ہیں ؟جو مجھ سے دور ہیں جو مجھ سے منہ چڑھا کر بات کرتے ہیں۔ اے اللہ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں اور اگر مجھ پر تیرا عتاب نہیں تو مجھے کسی بھی بات کی پرواہ نہیں خداوندا!تیرا اورتیری عافیت کا دامن بہت وسیع ہے۔ اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ مجھ پر تیرا غضب پڑے یا عتاب نازل ہو ، تجھ ہی کو منانا ہے اور اس وقت تک منانا ہے جب تک تو راضی نہ ہو جائے۔ ‘‘
پھر آپ یہاں سے اٹھے ۔ قرن الثعالب پہاڑی سامنے تھی ، اوپر نظر اٹھائی، بادل نے آپ ؐپر سایہ کیا ہوا تھا ، بادل پر نظر جمائی تو اس میں جبرئیل امین جلوہ افروز تھے انہوں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ !اللہ تعالیٰ نے سن لیا ، دیکھ لیا ، آپ نے جو کچھ فرمایا انہوں نے جیسا سلوک کیا سب کا سب دیکھ اور سن لیا۔ یہ میرے ساتھ ملک الجبال(پہاڑوں کی نگرانی پر مقرر فرشتہ ) موجود ہیں، آپ حکم دیجیے یہ تعمیل کریں گے۔‘‘ ملک الجبال نے عرض کیا :’’ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے، آپ جو چاہیں حکم کریں میں تعمیل کروں گا ،آپ حکم دیں مکہ کے دونوں طرف کے پہاڑوں کو ملا کر ان تمام بے ادب اور گستاخوں کو پیس ڈالوں ؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم آزمائش کے دوراہے پر کھڑے تھے ۔ ایک آزمائش یہ کہ اہل طائف نے آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ، دوسری آزمائش کہ جبرائیل امین اور ملک الجبال ان کو پیس ڈالنے کی فرمائش کے منتظر کھڑے ہیں۔ پہلا امتحان تھا صبر وضبط ، تحمل و برداشت اور استقلال کا ۔دوسرا امتحان تھا دعویٰ رحم و کرم کا ، فراخی حوصلہ اور وسعت ظرفی کا۔اللہ کریم نے آپ ؐ کو دونوں میں کامیاب فرمایا ، دل رحمت میں کرم کی ایک موج اٹھی اور اہل طائف کی قسمت کے سفینے کو پار لگا دیا ، فرشتوں کو جواب دیا :

’’ ارجو ان يخرج الله من اصلابهم من يعبد الله وحده لا يشرك به شيئا‘‘

(صحیح البخاری حدیث نمبر 3231)
’’اگر یہ بد نصیب ایمان نہیں لائے تو کیا ہوا میں ان کی آنے والی نسل سے ہرگز ناامید نہیں ہوں ، مجھے اللہ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسہ ہے کہ وہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ کی توحید کے قائل اور شرک سے بیزار ہوں گے۔‘‘

قریب ہی مکہ کے مشہور سردار عتبہ اور شیبہ بن ربیعہ کا باغ تھا ،اس وقت یہ دونوں بھائی وہاں موجود تھے ، انہیں غیرت آئی کہ ہمارے شہر کے ایک معزز شخص سے طائف والوں نے بہت ناروا سلوک کیا ہے ۔ غیرت تو آئی، ہمت پیدا نہیں ہوئی کہ خود آکر آپ ؐسے بات چیت کرتے۔ چنانچہ اپنے ایک غلام کو انگوروں کے خوشے دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس کا نام عداس تھا اور مذہباً عیسائی تھا۔ وہ آپ ؐکے پاس آیا ،انگور پیش کیے، آپ نے انگور کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو زبان مبارک پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جاری ہو گیا۔عداس کہنے لگا :’’ یہاں کے لوگ تو الرحمٰن الرحیم نہیں کہتے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم کہاں کے ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا کہ ’’نینویٰ۔‘‘ آپ نے فرمایا :’’وہی نینویٰ جو میرے بھائی حضرت یونس علیہ السلام کا وطن تھا۔‘‘
وہ حیرت زدہ ہو کر پوچھنے لگا :’’ آپ یونس علیہ السلام کو کیسے جانتے ہیں ؟ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:’’ میرے اور ان کے درمیان نبوت کا رشتہ ہے ،وہ بھی اللہ کے نبی تھے اور میں بھی اللہ کا بھیجا ہوا نبی ہوں۔‘‘عداس یہ سن کر اسی وقت مسلمان ہو گیا۔ عداس کے قبول اسلام نے گویا آپ کے زخموں پر مرہم کا کام کیا، طائف سے واپسی پر جناتوں کی ایک جماعت نے اسلام قبول کیا۔یہ واحد ڈھارس تھی جو آپ کو طائف سے ملی تھی۔طائف کی وہ ہیبت ناک پہاڑیاں اور ملک الجبال سے آپؐ مکالمہ سب کچھ آپ کے ذہن کے پردے پہ چلتا رہتا ہے۔

رسول ﷺ نے  جب دیکھا کہ مکہ میں مظالم اپنے انتہا کو پہنچ چکے ہیں تو آپ نے مکہ سے باہر کی طرف نظر دوڑائی۔ مکہ کے مشرکین برسوں سے شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھے پیغام حق کو قبول کرنے کے لئے راضی نہیں تھے۔ ایسے میں آپ کی نظر انتخاب طائف پہ پڑی۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ۲۰۲۱