صحت
اور اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل

دنیا کی عظیم نعمتوں میں سے صحت ایک قیمتی اور عظیم نعمت ہے،انسانی زندگی کی کام یابی اور ترقی کی ضامن ہے۔ہمیں اس عظیم نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ دین کی تعلیمات میں بھی اسے بہت اہمیت دی گئی ہے۔قرآن مجید نے بھی صحت و شفاء سے متعلق دواؤں، غذاؤں اور دعاؤں کی تعلیم دی ہے۔ آپؐ نے صحت کے لیے خاص دعاؤں کا اہتمام کیا اور اس کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے

عبدالله بن عباس | المحدث : السيوطي | المصدر : الجامع الصغير الصفحۃ أو الرقم: 1507 | خلاصۃ حكم المحدث : صحيح

ترجمہ: اے اللہ کردیجیے میرے لیے نور میرے قلب میں، اور نور میری قبر میں، اور نور میرے آگے اور نور میرے پیچھے، اور نور میرے دائیں اور نور میرے بائیں، اور نور میرے اوپر، اور نور میرے نیچے، اور نور میری سماعت میں، اور نور میری بینائی میں اور نور میرے بال میں، اور نور میری کھال میں، اور نور میرے گوشت میں، اور نور میرے خون میں، اور نور میری ہڈیوں میں اور اے اللہ میرے نور کو بڑھادیجیے اور مجھے عطا کیجیے اورمجھے سراپا نور بنادیجیے۔ اے اللہ جس طرح آپ نے میری صورت اچھی بنائی ہے میری سیرت بھی اچھی کردیجیے۔

اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ‏( مسلم)

اے اللہ! بیشک میں تیری پناہ مانگتاہوں تیری نعمتوں کے زوال سے تیری عطا کردہ عافیت کے بدل جانے سے اور تیری سزا کے اچانک وارد ہوجانے سے اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے۔

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَھْدِ الْبَلَاءِ وَ دَرْکِ الشَّقَاءِوَسُوْءِالْقَضَاءِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَاءِ

ترجمہ:اے اﷲ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں سخت ابتلاء سے اور بد بختی کے پکڑ لینے سے اورسوئے قضاء سے اور دشمنوں کے طعن وتشنیع سے۔(بخاری)

اللهم إني أعوذ بك من منكرات الأخلاق والأعمال والأهواء (ترمذی)

رواه الترمذيحضرت قطبہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے۔

 (اللھم انی اعوذبک من منکرات الاخلاق والاعمال والاہواء) ۔

 اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں برے اخلاق سے برے اعمال سے اور بری خواہشات سے۔

اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْفَقْرِ، وَالْقِلَّةِ، وَالذِّلَّةِ، وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ َأَنْ َأَظْلِمَ َوْ ُظْلَمَا ( سنن النسائی)

اے ا للہ ! بے شک میں تیری پنا ہ مانگتا ہوں محتاجی سے اور قلت سے اور ذلت سے اورتیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ ظلم کروں یا ظلم کیا جاؤں۔

اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمکَ ‘ وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقمِکَ‘ وَغِنَاکَ قَبْلَ فقرِکَ ‘ وَفرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ‘ وَحَیَاتِکَ قَبْلَ مَوْتِکَ
( البیہقی فی شعب الایمان)

(پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو:(۱) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے(۲) صحت کو بیماری سے پہلے(۳) مالداری کو تنگ دستی سے پہلے (۴) فراغت کو مشغولیت سے پہلے اور(۵) زندگی کو موت سے پہلے۔)
مذکورہ حدیث سے صحت کی اتنی اہمیت کا اندازا ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ لازماً صحت کی حفاظت اور قدر کریں۔
صحت کیا ہے؟
صحت وہ ہئیت طبعی ہے، جس کی وجہ سے بدن ِانسان مزاج و ترکیب کے لحاظ سے ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ بدن کے سارے افعال یعنی کہ Functions صحیح اور درست طریقے پر انجام پاتے ہیں۔ کم زوری یا بیماری کے نہ ہونے کا نام صحت نہیں ہے، بلکہ مکمل جسمانی، دماغی اور سماجی اعتبار سے اچھی کیفیت کو صحت کہا جاتا ہے۔
WHOنے صحت کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے:
Health is a state of complete physical, mental and social wellbeing of a person and not merely absence of disease or infirmity.
انسان کی صحت کا دارومدار ذیل امور پر ہوتا ہے:
وراثت ،ماحولیات،معیار زندگی ،معاشی حالت اور طبی سہولیات۔

۱۔ وراثت:

ہر انسان کی ذہنی و جسمانی صحت کا انحصار اس کی جین پر ہوتا ہے۔ جو موروثی بیماریاں ہوتی ہیں، ان میں قلب کی بیماریاںHeart Diseases بلڈ پریشرBP، استھماAsthama، ڈائباٹیس diabetes، اینیمیAneamia,Arthritis ، Hemophilia، Kidney Disease ہوتے ہیں۔

۲۔ماحولیات:

جس ماحول میں انسان رہتا ہے، وہ صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ Slums میں رہنے والے لوگ ماحول کی وجہ سے جملہ سہولیات کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے امراض کا شکار ہوتے ہیں۔جیسے:deficiency dieasesوغیرہ۔

۳۔ معیارِ زندگی:

فرد کی انفرادی طرزِ زندگی عادات واخلاق، حسن و سلوک کے تعلق سے معلومات، پاکی وصفائی کا خیال، لباس و غذا کا انتخاب وغیرہ بھی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

۴۔ معاشی حالت:

انسانی صحت کا دارومدار اس کی معاشی حالت پر بھی ہوتا ہے۔حفظانِ صحت کی سب سے بڑی ناکامی کی وجہ مالی پریشانی ہوتی ہے، کیوں کہ وہ فرد متوازن غذا اور بنیادی سہولیات اپنے اہل و عیال کے لیے فراہم نہیں کرسکتا،جس کی معاشی حالت اچھی نہ ہو۔

۵۔ طبی سہولیات:

صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ طبی مراکز کی قلت اور عدم دستیابی ہے، یا اگر دستیاب ہو تو بھی مہنگے علاج کی وجہ سے انسانوں کی ایک بڑی تعداد کی رسائی اس تک ممکن نہیں ہوتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مقامات پر طبی مراکز قائم کرے اور مفت دواؤں کی فراہمی کو لازم کرے۔ حکومت کے طبی مراکز میں کام کرنے والے افراد کی بھی ذمہ داری ہےکہ ایمانداری سے اپنا فرض نبھائیں اور سماج کے پڑھے لکھے اور ثروت مندطبقے کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر Charitable Clinics اور Hospitals قائم کریں، جیسے JIH نے قائم کئے ہیں۔ یہ کام سب کے مل جل کر کرنے کا ہے،اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے۔
صحت برقرار رکھنے میں جو عوامل اثر انداز ہوتے ہیں ، وہ اسباب ستہ ضروریہ کہلاتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں: ہوا(air)،پانی(water)،ماکولات و مشروبات(food & drinks)،حرکت و سکون بدنی و نفسانی (movement & rest to body and soul،نوم و یقظہ(Evacuation & retention)
۱۔ ہوا:
ہوا جب تک معتدل و پاک صاف رہتی ہے، اس وقت تک وہ خوشگوار اور محافظ صحت کی ضامن رہتی ہےاور جب متغیر ہوجاتی ہے تو پھر نہ صرف صحت کو قائم رکھتی ہے اورحفاظت کرتی ہے بلکہ طرح طرح کی بیماریوں کی موجب ہوتی ہے، جیسے:رعاف نکسیرEpistaxis، اسہال Diarrhea، فالج Paralysis، خسرہ چیچکsmall n chicken pox، آشوب چشم Conjunctivitis، ٹائیفائیڈ فیورTyphoid Fever، ذات الجنبPluirisy، ذات الریہPneomonia وغیرہ۔
ہم پر لازم ہے کہ صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ہم ہوا کو معتدل اور پاک و صاف رکھنے کی پوری کوشش کریں۔
ہوا میں بہت سے بیکٹریا:
آبی بخارات و امونیا oxygen,nitrogen,carbondioxideاور دوسرے بیکٹریا زبھی پائے جاتے ہیں۔ معتدل ہوا کی یہ ترکیب پیڑ پودوں پر انحصار کرتی ہے۔دنیا میں خالص ہوا کا وجود ناپید ہے،ترقی یافتہ ممالک میں ہوائی آلودگی بڑا مسئلہ ہے۔شہروں میں فیکٹریوں اور کارخانوں کے جال نے اس مسئلے کو مزید خطرناک بنادیا ہے۔
ہوا کی جو آلودگی انسانوں کی اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ انسانوں کی اسلامی تعلیمات سے نا آشنائی بھی ہے۔ دنیا کی حرص و ہوس وریاکاری، جھوٹی شان، خودغرضی، پر تعیش زندگی، مغرب کی اندھی تقلید وغیرہ بھی اس کے وجوہات ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالسَّمَآءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الۡمِيۡزَانَ۔اَلَّا تَطۡغَوۡا فِى الۡمِيۡزَانِ۔وَاَقِيۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُوا الۡمِيۡزَان (رحمٰن:7تا9)

(اللہ نے جو عدل کا نظام قائم کیا ہے،جو میزان قائم کی ہےاس میں خلل نہ ڈالو۔ انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔)
لیکن انسان نے اللہ کے ان احکام کو نظر انداز کیا۔ اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹ کر، دنیا کو اپنا مقصد بنایا۔ اپنے عیش و آرام کے لیے عالی شان بنگلوںکے لیے، پیڑ پودوں درختوں کو صاف کرتا گیا۔اس طرح فطری میزان کو غیر متوازن کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے آسمان پر ہماری حفاظت کے لیے جو اوزون لیرozone layer بنائے ہیں، اس کو انسانوں نے اپنی کمائی سے نقصان پہنچایا، جس کی وجہ سے ultra violet Rays پیدا ہوئے،جو خطرناک امراض کا سبب ہیں اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے انسانیت کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔
پاک و صاف معتدل ہوا ہی صحت کی ضامن ہے۔ اس کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے گھر کے لان ، balcony وغیرہ میں پیڑ پودوے لگانے کا اہتمام کریں۔صبح سویرے فجر کے بعد کی ہوا آلودگی سے پاک ہوتی ہے، اس میں چہل قدمی کریں۔گھر میںجتنا کم سامان ہو اتنا اچھا ہے،پردے کے ساتھ دروازے کھلے ہوں ، صحیح ventilation کا نظم ہو اور کوشش کریں کے ہوا کی آمد و رفت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ گھروں کو کشادہ اورہوادار بنائیں۔
حکومتوں اور صحتی اداروں اور کی یہ ذمہ داری ہے کہ تمام ذرائع کا صحیح استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو آگاہ کریں،صحت سے متعلق جو بنیادی سہولیات ہیں، وہ انھیں مہیا کرائیں۔

صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ طبی مراکز کی قلت اور عدم دستیابی ہے، یا اگر دستیاب ہو تو بھی مہنگے علاج کی وجہ سے انسانوں کی ایک بڑی تعداد کی رسائی اس تک ممکن نہیں ہوتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مقامات پر طبی مراکز قائم کرے اور مفت دواؤں کی فراہمی کو لازم کرے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ۲۰۲۱