ضبطِ ولادت
فطرت سے کھلی جنگ
زمرہ : ادراك
اللہ تعالیٰ نے کائنات کو چلانے کےبے شمار انتظامات کیے ہیں، ان میں دو (۲)بہت اہمیت کے حامل ہیں :(۱)ایک تغذیہ (۲) دوسرا تولید ۔ تغذیہ سے نظام کائنات چلتا ہے اور تولید کا عمل ہزار ہا سال سے روئے زمین پر انسانی وجود کے بقا کا ضامن ہے ۔
اللہ تعالیٰ نےنظامِ کائنات انسان ہی کے لیے مسخر کیا ہے۔لیکن اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے انسان جب بھی روئے زمین پر مسائل سے دوچار ہوا، اس نے انسانوں کی آبادی پرکنٹرول کرنے کے لیے ضبط ولادت کی تحریک چھیڑ دی ۔
ضبط ولادت کی تحریک مغرب میں اٹھارویں صدی سے اٹھنے والی پُرزور تحریکات میں سے ایک ہے۔ اس وقت جب اہلِ مغرب عوام کو ضبط ولادت کے فوائد سے آگاہ کررہے تھے، اس وقت بھی مفکرین کا تجزیہ یہی تھا کہ یہ فطرت سے جنگ ہے اور انسان فطرت سے جنگ میں جیت نہیں سکتا۔ اس وقت اس تحریک سے متعلق کی گئی پیشن گوئیاں اب عالمی سطح پر اپنے انجام سے گزرتی ہوئی نظر آئیں گی ۔
ضبط ولادت کی تحریک کو چاہے ایک فرد اپنے معیارِ زندگی کو بلند کرنے کے لیے سر آنکھوں پر بٹھائے یا حکومت کی جانب سے تحدید نسل(Birth limitation ) کا قانون نافذ کیا جائے، ہر صورت میں انسانی نظام متأثر ہوگا ۔ جن ممالک نے تحدید نسل ( Birth limitations) پر عمل کیا ہے، وہاں شرح پیدائش کی نسبت اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
ہندوستان میں بھی مادی سہولیات کے پیشِ نظر جدیدیت پسندوں میں بچوں کی تعداد کو کم کرنا قابل فخر عمل سمجھا جاتا ہے۔ ’ ہم دو ہمارے دو کا نعرہ ‘ جیسے نعرے انسانی سماج میںبلند کیے جاتے ہیں اور اس کی لپیٹ سے اب کم ہی طبقات محفوظ رہ سکے ہیں ۔تاہم ہندوستان میں آج بھی مختلف پیشوں سے جڑے افراد نے مین پاور افرادی قوت کو اھم جانتے ہوئےکثیرالاولاد ہونے کو بہتر سمجھا ۔
ایک پنجابی ناول نگار کے جملے کی مصداق : ’’ امیر کے یہاں دوسرے بچے کی پیدائش پر وارث کا حصہ دار آگیا جان کر نخوت سے دیکھا جاتا ہے۔ جب کہ غریب کا پانچوں بچہ آگیا تو باپ کے وراثتی قرض کو بانٹنے والے وارث کا اضافہ سمجھ کر استقبال کیا جاتا ہے ۔‘‘
پروفیسر Egon Ernest Bergel نے لکھا ہے : ’’اولاد کسان کا معاشی اثاثہ ہے اور اہل شہر کے لیے معاشی ذمہ داری ہے۔ ‘‘
ہندوستان ایک زرعی ملک ہے۔ ایک زرعی معیشت خاندان میں افراد کا اضافہ بڑی نعمت ثابت ہوتا ہے۔ ان کے لیے بچوں کی کمی کے تصور میں معیشت کی موت ہے ۔
حال ہی میں یوپی سرکار نے تحدید ولادت(Birth limitation ) بل کا مسودہ پیش کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ دو بچوں سے زائد رکھنے والے والدین کو سرکاری ملازمت اور دیگر حکومتی سہولیات سے محروم رکھا جائے گا ۔اس کا اثر متوسط اور اعلیٰ طبقے سے زیادہ بھارت کے دیگر طبقات پر پڑے گا۔ سکھ اور مسلمان نزدیک ضبط ولادت مذہبی معاملہ ہے اور اس لپیٹ میں پنجاب کے کسان، سکھ برادران، مہاجر تجاّر طبقہ اور دلت طبقہ آئے گا ۔
دلت آبادی کے بڑھتے تناسب کو ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والی مندرجہ ذیل رپورٹ کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے ۔
2011ءکی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ’’ملک کی کل آبادی کا نصف حصہ چار ریاستوں میں ہے۔ یونین مردم شماری کی نظامت کے اعدادوشمار کے مطابق، اترپردیش کل شیڈول کاسٹ (ایس سی) 20.5فیصد آبادی کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے اور اس کے بعد مغربی بنگال میں 10.7فیصد آبادی ہے۔ بہار 8.2اور تامل ناڈو 7.2 فیصد کے ساتھ تیسرے اور چوتھے مقام پر ہے۔ ہندوستان کی آبادی کا تقریبا 16.6 فیصد دلتوں پر مشتمل ہے۔ 2011کی مردم شماری کے تحت ملک میں مختلف شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والے تقریبا 20.14کروڑ افراد درج کیے گئے تھے۔ 2001کی مردم شماری کے مطابق یہ تعداد 16.66کروڑ تھی۔ دلتوں کی آبادی میں 20.8فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ اسی دوران ہندوستان کی آبادی میں 17.7فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘(’’ہندوستان کی آدھی دلت آبادی 4ریاستوں میں رہتی ہے‘‘: ٹائمز آف انڈیا؛ بی شیوکمار 2مئی ، 2013)۔
ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر آبادی کے مردم شماری کے بعد بی جے پی کے مذہبی شخصیات نے ہندو مذہب کی آبادی کو بڑھانے کے لیے بچے زیادہ پیدا کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ مذہب کی بنیاد پر آبادی بڑھانے کا حمایتی ہونا، الیکشن سے قریب اس بل کا مسودہ پیش کرنا زبان ِحال سے ازخود بہت کچھ سمجھادیتا ہے ۔
الیکشن پر اس کے کیا اثرات ہوں گے، اس کے علی الرغم یہ بات اہم ہے کہ اس بل کے آنے سے بہت سے نئے مسائل پیدا ہونےکے امکانات ہیں ۔ان میں سے بعض ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں:

1) صنفی تفریق میں اضافہ

دو بیٹیاں ہوجانے کا خوف اور بیٹے کی کمی کا احساس وقت سے پہلے حمل کی صنف (gender) معلوم کرکے رحم مادر میں قتل کا موجب بنے گا۔ ساتھ ہی حکومت کا ’’بیٹی بچاؤ‘‘کا نعرہ دھنواں ہو جائے گا۔

2) طلاق کے تناسب

شوہر اور بیوی کے مضبوط تعلق میں اولاد کا بڑا دخل ہے۔عورت اپنے بچوں کی وجہ سے ترجیحات بدل لیتی ہے اورمردکو بچے ہی ذمہ دار بناتے ہیں ۔
این ڈی ٹی وی کے پرائم ٹائم میں پونم متروجہ نے نرملا بہن کے ریسرچ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بہار کے پنچا یت الیکشن میں جب دو بچہ ایکٹ لاگو کیا گیا تھا تب کئی امیدوار نے کاغذی کاروائی کرتے ہوئے طلاق دے دیا تھا ۔ اس کا احتمال یہاں بھی ہے
پیش کردہ بِل میں تیسرے بچے کی پیدائش پر سرکاری ملازمت سے محرومی کے علاوہ اسی شرط کو الیکشن کے ٹکٹ کے ساتھ بھی لازم کیا ہے۔اگرکسی شخص کے تین یا چار بچے ہوں تو اندیشہ ہے کہ وہ الیکشن میں حصہ لینے اور یا ملازمت بچانے کےلیے طلاق دے دے۔

3) خواتین میں عدم تحفظ کا احساس

عین ممکن ہے کہ شوہر زیادہ بچے ہونے کی صورت میں قانونی چارہ جوئی سے بچنے کے لیے قانوناً بیوی کوطلاق دے، لیکن بغیر ریکارڈ نکاح میں ہوں۔اس طرح خواتین کے تحفظ کے مسئلہ بھی اہم ہے کہ بیوی قانوناً نکاح میں نہ ہونے پر شوہر اس کا استحصال کرے ۔
دو سے زائد بیٹیاں ہوں تو بعید نہیں کہ گود لینے کی کارروائی کے ساتھ ان کی بقا کی کوشش کی جائے اور لاولد جوڑوں کے نام پر رجسٹر ہوں۔ اس طرح وہ باپ کے وراثتی حق سے بھی محروم ہوں۔ ہر مذہب میںمتبنیٰ کے قوانین جدا ہیں۔ سبھی مذاہب کا خیال اس بل میں اس لحاظ سے موجود نہیں ہے، جیسا کہ دعوی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک خاتون پہلے شوہر سے دو بچے دوسرے شوہر سے دو بچے رکھ سکتی ہے ۔ قوی امکان ہے کہ بیٹیوں کی پیدائش پر وہ طلاق دے کر رخصت کردی جائے ۔

4) عورت کی فطری آزادی سلب

 تیسرے بچے کی پیدائش کو روکنے کی کوشش کار گر نہ ہو اور حاملہ ماں اپنے بچے کے پیدا کرنے پر راضی ہو لیکن ان شرائط کی وجہ سے خاتون کیا اقدام کرے؟ یہ ایک اہم سوال ہے؟ یہ سراسر عورت کی آزادی کا سلب کرنا ہے۔ اس صورت میں ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بچہ ضائع کردے۔ پیدائش کی ضد کی صورت اسے طلاق یا شوہر کی جاب سے ہاتھ دھوناپڑسکتا ہے ۔
’’ ایک روسی مصنف انتن نیمی لاف ( Anton Nemilov)کی کتاب Biological Tragady of womanکے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی پیدائش ہی بقائے نوع کی خدمت کے لیے ہوئی ہے۔ ‘‘ (اسلام اور ضبط ولادت ،مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی )

5) عورت فطری تقاضے سے محروم

اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز با مقصد بنائی ہے اور وہ اسی مقصد کا کام اس سے لیتا ہے۔ بچوں میں کتنا وقفہ کتنا ہو؟ کتنے بچے ہونے چاہیے؟ یہ شوہر اور بیوی کا ذاتی فیصلہ ہے۔ اس پر حد لگانا، آزادی سلب کرنا اور فطرت سے جنگ پر اکسانا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

رَبُّنَا الَّذِىۡۤ اَعۡطٰـى كُلَّ شَىۡءٍخَلۡقَهٗ ثُمَّ هَدٰى ۞

’’ہمارا ربّ وہ ہے جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت بخشی، پھر اس کو راستہ بتایا۔‘‘ (طٰہٰ:50)  

6)فحاشی اور بے راہ روی بڑھے گی

اس بل کے نافذ ہونے سے سماج میں بے راہ روی کا تناسب بڑھ جائے گا ۔ فطری نظام پر پابندی چور دروازے وار کرتی ہے۔ انگلستان میں اس پابندی کے نتائج کے طور پر ہر سال 80ہزار ناجائز بچے پیدا ہوتے ہیں ۔

7) جسمانی صحت پر اثر

ضبط ولادت کے لیے ادوایات کا استعمال عورت کے لیے مضر ِ صحت ہے ۔ ہر خاتون یکساں نہیں ہوتی۔نظام فطرت کی رو سے خاتون کا ذاتی فیصلہ ہونا چاہیے کہ وہ کتنے بچے پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ ایک خاتون کو اپنے فطری عمل سے روکنا اسے نفسیاتی امراض کا شکار بھی بناتا ہے ۔
   حقیقت یہ ہے کہ ضبط ولادت کا قانون فطرت سے کھلی جنگ کے مترادف ہے۔ چاہے اس کو شعوری کوشش کے ساتھ فرد کرے یا معاشرہ یا حکومتی ہدایت پر انجام دیا جائے۔ فطرت سے بغاوت کےنتائج بہت بھیانک ہوتے ہیں۔انسانی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں ۔ جو قومیں فطرت سے جنگ کے منصوبے بناتی ہیں وہ سزا پاتی ہیں۔ ماضی میں فرانس، لندن اور بیلجیم اس کے نتایج بھگت چکے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جگہ کی قلت کا نہ تو کوئی مسئلہ ہے اور نہ اس کے پیدا ہونے کا امکان۔ یہ انسان کی عقل کا فطور ہے، جو اسے محنت و مشقت کے بجائے نسل کشی کا درس دیتی ہے ۔
قانونِ ضبط ولادت فطرت سے جنگ
انسانی آبادی کی حفاظت اور اس کو سہولت بہم پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کیا حکومت سیلاب، زلزلہ، کورونا وبا جیسے امراض سے عوام کو بچا سکی ہے؟تو جواب ہوگا یہ سب تو فطری ہے۔ تو یہی بات ہے انسان کی ولادت بھی خالصتاً فطری عمل ہے۔ فطرت سے جنگ کے اثرات جلد یا بدیر انسان کو بھگتنے ہی ہوتے ہیں ۔

اِنَّا کُلَّ شَیۡءٍخَلَقۡنٰہُ بِقَدَرٍ

(ہم ہر چیز کو اسی قدر کے لحاظ سے پیدا کیا۔)
اس کے خزانے سے جو چیز بھی صادر ہوتی ہے اسے علم ہے:

وَاِنۡ مِّنۡ شَىۡءٍاِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآئِنُهٗ وَمَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ‏ ۞

(ان کا گمان خواہ کچھ ہو، مگر حقیقت یہ ہے کہ جس ہستی نے اس عالم کو پیدا کیا وہ تخلیق آفرینش کے فن میں اناڑی نہیں ہے۔)

وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَـلْقِ غٰفِلِيْنَ

(ور ہم[ہرگز اپنی] مخلوقات سے غافل نہیں ہیں۔ )
اگرانسان اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو بصیرت کی آنکھوں سے دیکھتے اور اس کے انتظام پر غور کرتے تو ان پر خود ہی روشن ہوجاتا کہ وہ اپنے حساب اور اندازے میں ان سے زیادہ کامل ہے۔

ضبط ولادت کی تحریک مغرب میں اٹھارویں صدی سے اٹھنے والی پُرزور تحریکات میں سے ایک ہے۔ اس وقت جب اہلِ مغرب عوام کو ضبط ولادت کے فوائد سے آگاہ کررہے تھے، اس وقت بھی مفکرین کا تجزیہ یہی تھا کہ یہ فطرت سے جنگ ہے اور انسان فطرت سے جنگ میںجیت نہیں سکتا۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ۲۰۲۱