فسانہء فردوس
سفرنامہ آذر با یئجان باکو(کوہِ قاف)

آشنا مناظر سے نظر چرا کر جانا بھی خود آگاہی کی مہم کا حصہ ہوتا ہے۔ ترک زبان کا محاورہ ہے کہ آپ اپنے گاؤں میں بیٹھ کر پیغمبر نہیں بن سکتے۔ کچھ اس محاورے کے ذہن میں چلتے، کچھ ناساز طبیعت کے رہتے، پیغمبری تو کجا بیماری کے باوصف باکو شہر سے یوں نکلنا پڑا جیسے خلد سے آدم نکلے۔لیکن ہم بصد رغبت و رضا نکلے تھے نکالے نہ گئے تھے۔ سفر کاہے کا تھا۔ کوہ قاف کا تھا یعنی دیو جن پری خضر و لقمان کا جو قاعدہ پڑھا کئے تھے اب اس کو عملی جامہ پہنانا تھاکہ یہ سب کردار ذرا سامنے تو آئیں، ہمیں بتائیں تو سہی کہ ابھی عورت کا عالمی دن آنے والا ہے، ویلنٹائن ڈے گزر چکا ہے۔ میرا جنم دن بھی سر پر ہے، رمضان بھی آیا چاہتا ہے۔ کیا کیا جائے؟ رجب اور شعبان تو یہ پہلو میں بیٹھے ہیں۔ مسائل کا حل بتائیں یا ہمیں پتھر کا بنائیں کہ کسی کوہ کے دامن میں پڑے رہیں۔ نہ صورت کی فکر ہوگی نہ سیرت کی ۔ دنیا پہ پڑے خاک۔ ہم ہوگئے حساب سے پاک! لیکن ابھی پاپوش و پوشاک کے جھنجھٹ سے آزاد ہونے والے کہاں تھے؟ ابھی تو سفر کرنا تھا ،سفر جسے سقر یعنی جہنم کہا گیا ہے کہ اس کی تلخی اس کی شیرینی سے بڑھ کر ہوتی ہے ۔ سو ہم بھی ایام کا ذائقہ لینے کے درپے رہے۔

سفر شروع ہوا۔ بنام خدا۔ مگر موسیقی کا سہارا بھی لینا پڑا، صوفیانہ موسیقی ہمیں پسند ہے باکو کی طویل و لامتناہی ٹریفک اچھے بھلے معقول انسان کو دیوانہ بنا دیتی ہے اور پھر ہم کون سے فرزانے تھے ہمیں بھی طیش آگیا کہ خداوند یہ سکول کاہے کھول دیئے! ابھی یہ مکتب کا فیضان چند ماہ اور منقطع رہتا تو ہمارا بھلا ہوجاتا۔جدھر رخ کرتے رستہ کھلا ملتا، لیکن اب تو آدمی کم ہیں گاڑیاں زیادہ ہیں۔یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ رستہ کھلا ملتا۔ ایک گھنٹہ تو باکو کی سڑکوں پر ضائع ہوا۔باکو سے ناک کی سیدھ میں چلتے رہیں تو گوبوستان کا قصبہ آتا ہے اور شماخہ نامی چھوٹاسا شہر بھی۔ شماخہ کے اندر گاڑی داخل ہو تو مناظر آپ کو گاڑی سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔یہ مقناطیسی طاقت ان ننھے پھولوں کی تھی مجھے باہر نکل کر معلوم پڑا ،جو میرے قدموں میں صورت قالین بچھے ہوئے تھے۔ یہ جنگلی زعفران یا crocus تھے۔ ان کے رنگ اتنے خوشنما تھے کہ میرا دل ان کلیوں نے اپنی مٹھی میں کرلیا۔ اب میں دیوانہ وار اس گل زار میں چل رہی تھی تصاویر لے رہی تھی ۔ اور رد کرتی جارہی تھی مجھے کوئی عکس ان کا مناسب زاویے سے مل نہیں رہا تھا۔ آنکھ پر ہی بھروسہ کر رہی تھی پھر دیر تک ان گلابی، پیلے، ارغوانی اور اودی پھولوں کو نظر میں سماتی اور حافظت میں بٹھاتی رہی ان کے اندر کھینچی گئی زر دانوں والی مہین پٹیوں کو تکتی رہی۔ کیا نقاشی تھی کیا کاریگری تھی۔
فتبارك اللہ احسن الخالقين
ابھی میں سبزہ و گل کے درمیان رونق افروز تھی اور سڑک پر دوڑتی گاڑیوں اور کنارے پر بے ڈھنگی چال چلتی گایوں کو دیکھتی اور بھیڑوں کے ریوڑ سے جدا بھاگنے کے منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ سامنے دائیں طرف ترک پرچم نظر آیا۔پھر یاد آیا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہاں کی آزادی کی جنگ لڑنے ترک سپاہ بھی آئی تھی۔ اس قفقازی اسلامی لشکر کے سربراہ نوری پاشا ( آذری میں نورو پاشا) تھے جو انور پاشا کے بھائی تھے۔ جنھوں نے باکو شہر کو آرمینیا، برطانیہ اور روس کے چنگل سے چھڑایا تھا یہ شاید ان میں سے کسی ایک سپاہی کا مزار ہو۔ اور میرا شک یقین میں بدلا۔
ایک بہت ہی بہترین صاف ستھرے میدان میں، میں دروازہ کھول کر داخل ہوئی ۔ سامنے سیمنٹ سے بنی کتاب کے دو ورق کھلے تھے۔ ایک پر ترکی کے ملی شاعر مہمت عاکف ارصوئے کے مصرعے اور دوسری جانب قرآن کے شہداء کے بارے آیت تحریر تھی۔اور وسط میں ترک اور آذری پرچم بہار دکھا رہے تھے پہلو میں پھولوں کی کیاریاں استقبال کر رہی تھیں۔ ذرا سی اونچائی پر دو تین سیڑھیاں چڑھ کر قبر نظر آ رہی تھی جو کلاسیک ترک طرز پر بنی تھی۔ لمبی اور باریک یعنی لحد کھدی ہوئی تھی۔ اوپر سوکھتے ہوئے گلاب کسی کی آنے کی نشانی تھے۔ میں دعا کرکے انھیں شاداب تو نہ کر سکی لیکن شہید کی روح کو شاد ضرور کرکے الٹے قدموں لوٹی۔
وہ جنگلی زعفران مجھے کھینچ رہے تھے۔ اتنی تنہائی اتنی خاموشی تھی۔ اوپر پہاڑ کی چوٹیوں پر ہلکی برف بھی نظر آ رہی تھی۔اور سورج تپش رکھتا تھا۔ میں نے اس مزار کے احاطے سے عقیدت کے ساتھ نکلنا چاہا لیکن پھول کہہ رہے تھے ہمیں بھی شریک سفر کرو پھر خدا کے بعد مجھے ان جنگلی پھولوں کے لئے جھکنا ہی پڑا۔ اور یہ کیا میری شرٹ کی تو جھولی ہی نہ تھی جسے بھرتی۔ لیکن سر پر ٹوپی تھی اور کوٹ کی جیب بھی۔ سو میں نے کسی ماہر فصل کاٹنے والی کی طرح ان سے ٹوپی اور جیب بھری اب میرے چہرے پر قوس قزح کے رنگ بکھرنے لگے تھے اتنی خوشی ہو رہی تھی لیکن دل کو ساغر صدیقی کا  یہ شعر کاٹ بھی رہا تھا کہ

’یاد رکھنا ہماری تربت کو

قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا،

یر جیسے روم کے تریوی فاؤنٹین میں ڈالے  گئےسکے آپ کو واپس بلاتے ہیں ایسے ہی یہ پھول مجھے بھی یہاں رکھنے آنا ہوگا۔ میں یہ سوچ کر وہاں سے کوچ کر گئی کیونکہ ہماری منزل گیبیلہ نامی خوبصورت برف زار تھی۔ اب گاڑی کی رفتار کچھ تیز ہوئی تو نفوس کم ہونے لگے درخت بڑھنے لگے برف زیادہ نظر آنے لگی۔ بھیڑ بکریاں اور گائے بیل متواتر نظر آنے لگے۔ گزر چکی خزاں نے درختوںسے پتے چھین لئے تھے تو جاڑے نے برف اوڑھا دی تھی شاخوں کو۔ یہ سب دیکھ کر خیال گزرا کہ انسان اوپر پہنچتا ہے چوڑا ہو جاتا ہے لیکن یہ درخت پتلے ہو جاتے ہیں۔
 اور ان شاخوں کے بیچ گاڑی کا گزرنا جیسے جنت ارضی کا سماں تھا۔ مجھے اتنی خوشی محسوس ہو رہی تھی جیسے گاڑی کے آگے بڑھنے سے دکھ پیچھے رہ رہے تھے۔ اور ہم انبساط کی وادی میں داخل ہو رہے تھے۔ یہاں بھی جا بجا مسافر خانے، قہوہ خانے ، مے خانے ، تندور سب کھلے تھے۔ فواکہات سے بنی املی کی طرز پر سوغاتیں اور تازہ میوے ،جنگلی  پھولوں والی شہد کے  چھتے، تازہ پانی کی مچھلی اور پھول یہ سب فروخت ہو رہے تھے راہ میں جیسے کسی غریب کا گھر نیلام ہو رہا ہو یعنی سستے داموں۔

ہم نے ان سے صرف نظر کیا کہ ہماری نظر سنگ میل پر تھی۔ تقریبا  چار گھنٹے بعد برف سے ڈھکی سڑکوں پر اوندھے پڑے مٹکوں والی سرزمین نظر آئی تو ادراک ہوا یہی گیبیلہ ہے یا معبود! یہ اتنے  زیادہ مٹکے، صراحیاں  یہاں کون رکھ گیا ہے؟جواب ملا شہر کی بلدیہ۔
خیر ہم بلندی کی جانب گامزن تھے اور دھوپ ان پیڑوں پر پڑ رہی تھی جن کو صنوبر کہا جاتا ہے، ترک زبان میں ’چام  آعاچ‘ یا پھر اردو میں چلغوزے کے درخت سمجھ لیجئے۔ مجھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ استنبول کا کوئی بلند کونہ لے کر اسے خاموشی سے سجایا گیا ہے۔ بس یہاں خاموشی اور خوب صورتی اور نفاست زیادہ تھی۔ آخر کو کوہ قاف کا دامن تھا۔ کوئی معمولی بات تو نہ تھی۔ ہماری بکنگ یہاں کے پانچ ستاروں والے ہوٹل جسے صحیح معنوں میں چوٹی کا ہوٹل کہا جا سکتا تھا میں تھی۔ اس ہوٹل کا اسم گرامی تھا ’طوفان داع‘ یعنی طوفان والا پہاڑ، اور سچ میں ادھر برف کا طوفان نازل ہوتا تھا۔ نظارہ تھا کہ مبہوت کیے ہوئے تھا۔ اندر جانا بھی بہشت سے کم نہ تھا باہر تو خیر تھا ہی کوہ قاف۔ اب ہم کس دل سے اندر گئے یہ خدا جانتا ہے یا وہ سرد ہوائیں جنھوں نے مجھے چار سویٹر پہننے پر مجبور کیا تھا۔ اندر گئے اچھی خاصی رقم عملے کو تھما کر چابی لی۔ دیکھیں کلید بھی ملی تو کتنے مول دے کر۔ زندگی بھی ایسی ہی ہے برفاب و خزاں بار رشتوں سے گزار کر خراج وصول کر کے پھر چابی دیتی ہے مسرت کی چابی۔چین کی چابی، کامیابی کی چابی۔
خیر کمرے میں جا کر سستی نے گھیرا تو بھوک نے بھی اوپر کھانے کے ہال میں پہنچا کر دم لیا۔
جاری

ابھی میں سبزہ و گل کے درمیان رونق افروز تھی اور سڑک پر دوڑتی گاڑیوں اور کنارے پر بے ڈھنگی چال چلتی گایوں کو دیکھتی اور بھیڑوں کے ریوڑ سے جدا بھاگنے کے منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ سامنے دائیں طرف ترک پرچم نظر آیا۔پھر یاد آیا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہاں کی آزادی کی جنگ لڑنے ترک سپاہ بھی آئی تھی۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۱