قافلے دیکھ اور ان کی برق رفتاری بھی دیکھ
زمرہ : ادراك
پینڈمک کے خوفناک سایے رفتہ رفتہ دم توڑنے لگے ہیں، اسکولوں کی درودیوار کے سناٹے ختم ہورہے ہیں اور ان میں دوبارہ بچوں کی کھکھلاتی آوازیں گونجنے لگیں ہیں۔ اسکول اور تعلیمی نظام کی اہمیت کا اندازا ان حالات نے خوب کروایا ۔ نہ صرف والدین، اساتذہ اور مصلحین کو قائل کروالیا، بلکہ سماج کے ہر فرد نے دل سے اعتراف کیا کہ بلاشبہ اسکول سماجی تربیت کا ایک مضبوط ادارہ ہے۔
لاک ڈاؤن نے جہاں ہر شعبے کو متأثر کیا، وہیں سب سے بڑا نقصان تعلیم کا ہوا۔ اس نقصان کی بھرپائی پر غور فکر کرنا، ہر فرد کی اولین ذمہ داری ہے ۔ کیا لائحہ بنایا جائے؟کونسی تدبیر اختیار کی جائے؟ اس پر غور کرنا، اساتذہ اور والدین کی اولین ذمہ داری ہے ۔کیوں کہ نسلوں کا ان دوسالوں میں بغیر اکتساب کے گزرنا، بلا شبہ پوری قوم اور پورے ملک کا نقصان ہے ۔
دوران لاک ڈاون آن لائن تدریس کی کوشش کی گئی، لیکن اس کو مکمل تعلیمی ٹول نہیں مانا جاسکتا۔ اس کی بے شمار طبعی وجوہات ہیں، جن میں سب سے اہم وجہ ڈیجیٹل ڈیوائڈ ہے اور دوسرے بچوں کے انفرادی مسائل ہیں، جس کی وجہ سے آن لائن تعلیم کو اسکولی تعلیم کا متبادل نہیں مانا جارہا ہے ۔
اب بچے اسکول میں آنے لگے ہیں۔اگر طلبہ پر، اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی خصوصی توجہ ہو تو، اساتذہ اور والدین کا یہ مضبوط رشتہ ، بچوں کے تعلیمی نقصان کی تلافی میں مددگارثابت ہو سکتا ہے۔ بدلتے تعلیمی طریقے پر بھی والدین اور اساتذہ کے درمیان ڈبیٹس رکھی جانی چاہییں ۔
تقسیم ِ نصاب کا طریقہ :
نصاب کو تقسیم کیا جائے، اساتذہ کوشش کریں اور نصاب کے درجے بنائے جائیں ۔ایک جماعت کی کتاب میں اندازا لگایا جائے کہ کتنا حصہ والدین بہتر سمجھا سکتے ہیں ۔معالجاتی تدریس (Remedial teaching) کاکچھ حصہ والدین کی مدد سے مکمل کروایا جائے، کچھ حصہ کے لیے انیمیٹیڈ ایجوکیشنل سائٹس (Animated educational sites)کی مدد لی جائے اور کچھ حصے اساتذہ مکمل کریںاور کچھ کے بنیاتی کنسیپٹ کو سمجھنے کے لیے سماج کے ریٹائرڈ اور تجربا کار افراد سے مدد لی جائے ۔اسی طرح ہوم اسکولنگ کے تصورات سے بھی مددلی جاسکتی ہے۔
اب تک یہ ہوتا رہا کہ پیرنٹس کوشش کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ایسے اسکول میں ایڈمیشن دلوائیں، جہاں مخلوط نظام تعلیم نہ ہو اورعصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی ہو۔ ان حالات میں جب کہ بچے عصری علوم میں اپنی کلاس کے نصاب کے تکمیل سے بھی ان دنوں پیچھے ہیں، والدین کو چاہیے کہ مکمل دینی تعلیم کا بوجھ اسکول پر نہ ڈالیں۔ خود اپنے گھروں میں دینیات کی شعوری فکر کریں۔ ان حالات میں جہاں بچوں پر عصری تعلیم کا غیرفطری بوجھ لاد دیا گیا ہے، وہاں دینیات کے تھیوریٹکل پارٹ کو مکمل کرنے کے بجائے گھروں میں دینی ماحول فراہم کریں ۔
بنیادی تصورات ( Basic concept) کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ہوم اسکولنگ ( Home schooling) کے تصور سے مدد لیتے ہوئے، ہفتہ میں ایک مرتبہ کچھ گھنٹوں کے لیے اپنے فیملی ممبرز میں کسی تعلیم یافتہ شخص کو گھر بلاکر بچوں کے بنیادی تصورات کی تفہیم کی کوشش کریں ۔
اکثر ہمارے ہم سایوں، ملاقاتیوں، ننھیالی یاددھیالی رشتے داروں میں ایسے افراد ہوتے ہیں جو مختلف سبجیکٹ کے ماہر ہوتے ہیں۔ پورے خاندان اور پڑوس کے بچوں کو جمع کرکے گیٹ ٹو گیدر (Get together) رکھ کر بچوں کو اس شخص پڑھنے کا موقع فراہم کیا جاسکتا ہے ۔
سیکھنے کے دیگر ذرائع سے واقف کروانا :
اس طریقے میں بچوں کو اسکول میں یا خاندان اور ہم سایوں کے بچوں کے درمیان علم کےمختلف ویب سائٹس، ایپس اور ڈیجیٹل ڈکشنریز کے استعمال کی معلومات کے حصول پر تبادلۂ خیال ہو، تاکہ جو ناواقفِ کار ہیں، وہ بھی واقف ہوں اور ہاتھ میں موجود ڈیوائس کا بہتر استعمال کرسکیں۔ آج کل موبائل کی سہولت نے ہر بچے کا علم حاصل کرنا آسان بنادیا ہے، تاہم یہ اہم ہے کہ انہیں یہ سکھایا جائے کہ کیسے سیکھا جاتا ہے اور کیسے استعمال کیا جاتا ہے ۔
لاک ڈاؤن کے ختم ہوتے ہی لوگ بڑے پیمانے پر شادیوں کی تقاریب کا اہتمام کررہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ بچے تعلیمی مصروفیت کے بجائے اب اس طرح کی وقت گزاری میں لگ جائیں اور ان کے تعلیمی نقصان کے لیے تلافئی مافات کا کوئی منصوبہ ہی نہ ہو۔ زیرک والدین بچوں کی تعلیم کو ہمیشہ مستحضر رکھتے ہیں اور کسی کمزور لمحے میں بھی وہ بچوں کو متأثر کرنے والے ماحول کے حوالے نہ خود ہوتے ہیں نہ بچوں کو ہونے دیتے ہیں ۔ شادی بیاہ کی تقاریب میں شرکت اور ترجیح، نہ صرف کہ بچوں کو ان کےمقصد سے ہٹا دے گی بلکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں بچوں کے تعلیمی اخراجات کا بڑا حصہ ان بے جا تقاریب پر بھی لگ سکتا ہے ۔
یاد رہے کہ ہمارے زندگی میں بچوں کی تعلیم کا بجٹ سب سے زیادہ ہو۔ ہم تعلیم کو ہر چیز پر مقدم رکھیں، تاکہ نسل نو کو ہم عملی پیغام دے سکیں کہ ہر بچہ دوسرے بچے سے مختلف ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر بچے کی جذب و قبول کی صلاحیت اور ذہانت بھی مختلف ہوتی ہے۔ جس طرح گارڈن کے تمام پودے شیڈ میں رکھے نہیں جاسکتے، کچھ پودے سورج کی روشنی میں بہت اچھی طرح پھلتے پھولتے ہیں اور سرسبزوشاداب لگتے ہیں اور بعض پودے سورج کی تیز روشنی اور زیادہ آب پاشی سے مرجھا جاتے ہیں، بالکل اسی طرح ہر بچے کی آلات کے استعمال کی کنسیپٹ کو سمجھنے اور جذب وقبول کی صلاحیت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ والدین کو اپنے بچوں کے مزاج کو سمجھنے کی سوجھ بوجھ عطا کرتا ہے اور استاد مستقل لگن اور اللہ کی مددسے اس صلاحیت کو پالیتا ہے ۔سو انہی باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے والدین اور اساتذہ بچوں کو پڑھانے کے لیے دوستانہ ماحول فراہم کریں۔ کوشش یہ ہو کہ کھیل کھیل میں بچوں کو پڑھائیں۔
والدین اور اساتذہ نصاب کے تکمیل کا بوجھ بچوں پر نہ بنائیں ۔ گرچہ بے شمار اسٹڈیز اور ریسرچ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آن لائن تعلیم بھارتی طلبہ کی جملہ تعداد کے لیے راس نہیں آ سکی ہے۔ اس کے وجوہات کی بھی طویل فہرست ہے۔ باوجود اس نتیجے کے ڈیجیٹل تعلیم کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔دیگر ممالک ڈیجیٹل نظامِ تعلیم کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف تجربات کررہے ہیں ۔
امریکہ نے اپنے طلبہ کو ایجوکیشنل کٹس فراہم کیا ہے تاکہ ہر بچے کے لیے آن لائن تعلیم کی رسائی یقینی بنائی جائے ۔اسی طرح ارجنٹینا، جمائیکا اور افریقہ نے ’’ زیرو ریٹیڈ ویب ‘‘ کی سہولت فراہم کی ہےاور مصر نے فری نیٹ کی سروس پر کام کیا ہے ۔
بعض ممالک نے راویٹر بسیز کے ذریعے بچوں تک مفت نیٹ سروس پہنچائی ہے۔تاہم یہ بھی یاد رہے کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں ڈیجیٹل تعلیم پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ تاکہ بھارت سپرپاور بن سکے ۔اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ کووڈ 19 کے اس دورانیے پر سروے کرواکر آن لائن تعلیم کے مسائل کو حل کرے۔
دیگر ممالک کے طرح نیٹ سروس کی رسائی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اور ٹیچرز کو ڈیجیٹل ایجوکیشن کی استعداد پیدا کرنے کے لیے ٹریننگ کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ ایک معلم باسانی طلبہ کوتعلیم کے لیے ڈیجیٹلائز کرنے معاون بن سکے ۔
والدین سے بھی گزارش ہے کہ وہ بچوں کے لیے گھروں میں ڈیجیٹل تعلیم کے بجٹ کو خاص اہمیت دیں ۔
پرائیویٹائزیشن آف ایجوکیشن، ڈیجیٹل ایجوکشن اور بڑھتی مہنگائی اوسط گھروں کے والدین کو متفکر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے وہ ہر طرح کے پیسوں کےضیاع سے اجتناب برتیں اور بچوں کی تعلیم کے لیے یکسو ہوجائیں ۔
زیرک والدین بچوں کی تعلیم کو ہمیشہ مستحضر رکھتے ہیں اور کسی کمزور لمحے میں بھی وہ بچوں کو متأثر کرنے والے ماحول کے حوالے نہ خود ہوتے ہیں نہ بچوں کو ہونے دیتے ہیں ۔ شادی بیاہ کی تقاریب میں شرکت اور ترجیح، نہ صرف کہ بچوں کو ان کےمقصد سے ہٹا دے گی بلکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں بچوں کے تعلیمی اخراجات کا بڑا حصہ ان بے جا تقاریب پر بھی لگ سکتا ہے ۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ٢٠٢١