قدرت کا انمول تحفہ ماں

 ماں اس کائنات کے سب سے اچھے سچے اور خوبصورت ترین رشتے کا نام ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جو سب سے خوبصورت چیز تخلیق کی وہ والدین ہیں بالخصوص ماں جیسی ہستی کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے۔
ماں وہ عظیم نام ہے جس کے لئے دنیا کی مختلف زبانوں اور عالمی تہذیبی ورثے و ادب میں جو الفاظ تخلیق کئے گئے، وہ اس کے بلند مقام کا استعارہ اور عقیدت و محبت کا حسین اظہار ہیں ہر مذہب و تہذیب میں ماں عظیم اور مقدس رہی ہے دینِ فطرت اور دینِ رحمت نے ماں کی عظمت خدمت اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا جو درس دیا ہے وہ سب سے منفرد و بے مثال ہے۔
ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ماں شفقت، خلوص بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔دنیا کی وہ سب سے پیاری ہستی ہے جس کا خیال جیسے ہی ذہن میں آئے ایک لطیف سا احساس جاگتا ہے اس کا سایہ چلچلاتی دھوپ میں گھنے پیڑ کی چھاؤں جیسا ہے اس کا دستِ شفقت شجرِ سایہ دار کی طرح سائبان بن کر اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے اس کی نرم و گرم گود کبھی پریشانیوں کی سردی محسوس ہونے نہیں دیتی، خود حالات کے خاردار راستوں پر چلتی رہے مگر اولاد کو پھولوں کے بستر پر سلاتی ہے۔
دنیا جہاں کے دکھوں کو اپنے وسیع آنچل میں سمیٹے لبوں پر میٹھی سی مسکراہٹ سجائے زندگی کی شاہراہ پر رواں دواں رہتی ہے آندھی ہو یا طوفان کبھی رکتی یا تھکتی نہیں ان حالات کا سامنا کرتے ہوئے نہ وہ کبھی احسان جتاتی ہے نہ اپنی محبتوں کا صلہ مانگتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ماں کی محبت ایک بحرِ بیکراں کی طرح ہے۔خلوص و ایثار کے اس سمندر کی حدود کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اسکے قدموں تلے جنت رکھ کر ماں کی عظمت کی پہچان کروائی اب جس کا جی چاہے وہ جنت حاصل کرے۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے :ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟
فرمایا : تیری ماں۔
پوچھا گیا، پھر کون؟ فرمایا : تیری ماں۔
پھر عرض کیا اور کون ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تیری ماں۔
تین دفعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی جواب دیا۔
چوتھی مرتبہ پوچھنے پر ارشاد فرمایا : تیرا باپ۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسرارِ خودی میں اپنی فارسی نظم ’’در معنی ایں کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اسلام است‘‘ میں اسلام میں ماں کی عظمت کے حوالے سے کہا ہے کہ ’’اسلام ماں کے منصب اور اس کے حفظ و احترام کا ضامن ہے، اگر ٹھیک طور پر دیکھو تو ماں کا وجود رحمت ہے اس کی شفقت پیغمبرانہ شفقت جیسی ہے جس سے قوموں کی سیرت سازی ہوتی ہے ماں کے جذبۂ محبت کی بدولت ہماری تعمیر پختہ تر اور اس کی پیشانی کی سلوٹوں میں اولاد کی تقدیر پنہاں ہوتی ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ :
ماں خلوص و مہر کا پیکر محبت کا ضمیر
ماں خدا کا رحم وہ دنیا میں جنت کی سفیر
حضرت شیخ سعدی ؒنے کہا ہے:
محبت کی ترجمان اگر کوئی ہے تو وہ صرف ماں ہے۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ نے کہا :
ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
مشہور مغربی دانشور جان ملٹن کا قول ہے :
آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے۔

ماں گھر کی سلطنت کا بنیادی اور اہم ستون ہے وہ اپنی اولاد کے ساتھ سائے کی طرح لگ کر ان کی تربیت کرتی ہے انہیں جھوٹ اور سچ، برائی و بھلائی، نیکی و بدی کا فرق سمجھاتی ہے گھر میں بہترین نظم و ضبط قائم رکھنے میں اس کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اولاد کی زبان و گفتگو، لب و لہجہ کو تہذیب یافتہ بنانے میں ماں کا کردار خصوصی طور پر اہم ہوتا ہے۔ نپولین نے کہا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا۔

دور حاضر میں عالمی سطح پر جو مدر ڈے منایا جارہا ہے یہ دینِ اسلام کا کلچر نہیں بلکہ مغرب کی جانب سے ایجاد کردہ ایک بھونڈا مذاق ہے۔یہ ماں کے مقدس رشتے کی توہین ہے ایک عظیم ہستی جو اعلیٰ و ارفع کہلائے جانے کی مستحق ہے جس نے ساری زندگی کا ہر لمحہ اولاد کے لئے قربان کر دیا اس کو پروان چڑھانے کے لئے ہر تکلیف برداشت کی، کیا اس کے لئے سال کا ایک دن کافی ہے؟
مدر ڈے مغربی تہذیب کے دلدادہ افراد کے لئے ہی موزوں ہوگا کیونکہ وہاں ماں کی عظمت کھو چکی ہے جہاں والدین کو ریٹائرڈ کرکے اولڈ ایج ہوم یا ہوسٹل میں بھیج دیا جاتا ہے اور ان کی عظمت و خدمت کو پسِ پشت ڈال کر سال میں ایک مرتبہ پھولوں کا گلدستہ، فروٹس، چند محبت بھری باتیں، پرفضا مقام کی سیر کروا کر انہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ آج کا دن ان کے لئے ہے۔ان سے جھوٹی محبت اور ہمدردی جتائی جاتی ہے ان کی قدر و قیمت کے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں۔
مدر ڈے اغیار کی روایت ہے جہاں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کر انتشار کا شکار ہو چکا ہے رشتوں کا تقدس پامال اور فنا ہو گیا ہے، جہاں انسان نہیں مشینیں بستی ہیں۔
لیکن ہم یہی کہیں گے کہ
اے ماں! سال کا ہر دن آپ کا ہے اور آپ کے نام پر ہے آپ ہر دن کا اجالا ہیں۔
ہم اس روایت کے پروردہ ہیں جہاں رشتوں کا تقدس اللہ کی محبت و اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت و اتباع کے بعد سب سے زیادہ مقدم ہے۔ہمارے لئے سال کا ہر دن ماں کا دن، ماں سے محبت کرنے کا دن، رشتوں کی تعظیم کا دن ہے۔
آئیے، ہم اغیار کی تقلید کی بجائے اپنی روایات جو حقیقی حسن سے آراستہ ہیں ان کو ساری انسانیت میں پھیلائیں اور اس طرح سے ان کا پرچار کریں کہ دیگر بندگانِ خدا بھی ہماری پیروی کریں۔

اس کا سایہ چلچلاتی دھوپ میں گھنے پیڑ کی چھاؤں جیسا ہے اس کا دستِ شفقت شجرِ سایہ دار کی طرح سائبان بن کر اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے اس کی نرم و گرم گود کبھی پریشانیوں کی سردی محسوس ہونے نہیں دیتی۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۱