مضطرب رکھتا ہے میرا دلِ بے تاب مجھے

تاریک سیاہی ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں روشنی کی تلاش میں سرگرداں ، دھیرے دھیرے آگے قدم بڑھا رہی تھی، اس قدر گہرے اندھیرے سے اس کا دم گھٹنے لگا تھا ، تب ہی کسی چیز سے ٹکرا کر وہ زمین بوس ہو گئی۔ اس نے ہاتھوں سے اس گٹھڑی کو جانچا اس میں کچھ سامان بندھا ہوا تھا، جو وزن میں کافی بھاری تھا….. اس نے آگے پیچھے نظر دوڑائی، سیاہ اندھیرے میں دور ایک روشنی دکھائی پڑی، جو اس کے نزدیک آتی محسوس ہو رہی تھی….. اس کی روشنی مدھم مگر آنکھوں کو چندھیا نے کے لیے کافی تھی۔
اس نے آنکھوں پر ہاتھ کا سجا بنایا اور اس روشنی کے وجود پر نظریں مرکوز کی…..
’’تمہیں مجھ پر ترس نہیں آتا کیا؟ ‘‘
روشنی کے وجود کی آواز اس کے سماعت سے ٹکرائی، وہ ششدر سی کھڑے ہونے لگی تھی…..
’’دیکھو تم نے میرا کیا حال کر دیا….. ‘‘
وہ آنکھیں پھاڑے سامنے کھڑے وجود کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لے رہی تھی، جس کے سر سے لے کر کاندھوں اور پیٹھ پر بوجھ لدا ہوا تھا…. دونوں ہاتھ زخموں سے چور تھے، پھر بھی وہ اطراف کے پڑے گٹھڑیوں کو اٹھا کر کاندھوں پر رکھے جا رہا تھا…..
’’میرا وجود اپنی اصل ہیئت کھونے لگا ہے تم نے یہ کیا کیا ‘‘شکوہ بھری نگاہوں سے اپنے آقا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
’’تم۔۔۔ تم کون ہو؟؟ ‘‘وہ بے ساختہ دو قدم پیچھے کو ہٹی تھی…..
اس کا چہرہ سیاہ تھا، مگر سینے سے روشنی نکلنا اب بھی جاری تھی، گٹھڑی اٹھاتے زخموں سے چور ہاتھ لمحے بھر کو رکے…..
’’ مجھ سے پوچھ رہی ہو؟ کہ میں کون ہوں؟ بھلا دیا نا مجھے؟ تم بھی ظاہر پرست نکلی آزمینہ۔۔۔ ‘‘
’’یہاں اتنا اندھیرا کیوں ہے میں کہاں ہوں؟” وہ اس کے انداز پر سہم گئی۔
’’یہ تمہارا قلب ہے….. اپنے قلب میں اندھیرا کرنے والی تم خود ہو….. اور میں تمہارے دل کی روح….. ‘‘
پیچھے بڑھتی آزمینہ کے قدم ساکت ہو گئے۔ اندھیرا مزید گہرا ہوا، روح قلب انسانی شکل میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔
’’کیا مجھے اس لیے تمہارے حوالے کیا تھا کہ تم مجھ سے ایسے سلوک کرو….. ارے! میں تو تمہارے پاس اللہ کی امانت ہوں، جس کا سوال روز قیامت وہ تم سے کرے گا….. پھر کیا تم نے اس کی امانت کا پاس رکھا؟ ہے کوئی جواب؟‘‘آزمینہ کی نگاہ اطراف میں پڑے گٹھڑیوں پر تھی ،اس کی ہمت نہیں تھی کے نگاہ اٹھا کر اپنے قلب کی روح کو دیکھ سکے۔
’’ دیکھو آزمینہ اتنے سالوں سے یہ بوجھ اٹھاتے اٹھاتے میرے کاندھے چھیل گئے ہیں، مگر تم مجھ پر رحم ہی نہیں کرتی….. روز نیا بوجھ اپنے قلب پر دے مارتی ہو! ‘‘
آزمینہ نے ان گٹھڑیوں کو غور سے دیکھا۔ ہر ایک پر حسد، جھوٹ، ناقدری، چغلی، خواہش، مادہ پرستی، وغیرہ کا لیبل لگا ہوا تھا۔ روح قلب نے وہ تمام گٹھڑیاں اتاردی اور اس کے سامنے آکھڑا ہوا ۔
’’ دیکھو یہ گھنا اندھیرا۔ یہ بھی تمھاری خلق خدا سے عداوتوں اور نفرتوں ہی کی دین ہے، تمہاری بد اخلاقی تمہارے دل کو تاریک کیے جا رہی ہے اور تمھیں اس کی خبر تک نہیں…..! ‘‘
روح ِقلب نے دونوں ہاتھوں سے اطراف کے اندھیرے کی طرف اشارہ کیا، آزمینہ گم سم کھڑی رہی۔
’’آج جو تم آئی ہو تو میرے یہ زخم بھی دیکھ لو جو تمھارے نفسانی خواہشات سے لڑتے لڑتے مجھ پر لگے ہیں۔ میں ہر بار کیوں تمہارے نفس سے ہار جاتا ہوں آزمینہ؟ کیا میں اتنا کم زور ہوں؟….. یا تمہارا نفس زیادہ طاقتور ہے؟ ‘‘
اس نے اپنے ہاتھوں کے زخم آگے کئے، جس سے خون رس رہا تھا، آزمینہ گردن جھکا کر رہ گئی۔
’’نہیں آزمینہ! نفس کی اتنی اوقات کہاں ہے کہ وہ انسان کو قابو میں کر سکے، تمھیں اس پر قدرت دی گئی، تم نفس کے غلام نہیں بن سکتے! تمہیں تو روح کی حکومت مجھ پر بٹھانی تھی تاکہ ملائی اعلیٰ کے انوار تمہارے قلب پر نازل ہو مگر تم نے یہ کیا کیا۔ ‘‘
آزمینہ کی پلکیں بھیگنے لگی….. اپنے قلب کی اس حالت پر اس کا روم روم جلتا محسوس ہو رہا تھا۔
’’کیا تم نہیں جانتی کہ تمہارے قلب پر اللہ کی نظر ہے۔ تم ظاہر کو سنوارتی رہی جب کہ وہ رب کو تمہاری صورت سے کوئی سروکار ہی نہیں…..

(إنَّ اللّه َ تباركَ وتعالى لا يَنظُرُ إلى صُوَرِكُم ولا إلى أموالِكُم ولكنْ يَنظُرُ إلى قُلوبِكُم وأعمالِكُم )

وہ تو تمہارے دلوں کی پاکیزگی کو دیکھتا ہے….. تو پھر تم اپنے قلب کو دلکش بنانے کے لیے محنت کیوں نہیں کرتی؟ کیا تمہیں اللہ سے محبت نہیں ہے؟
روح قلب کے آخری جملے پر آزمینہ تڑپ کر سر اٹھایا لب ہلے…..

’’ ایسے نہیں کہو….. میں اللہ سے محبت کرتی ہوں….. بہت زیادہ ‘‘
ایک آنسو محبت کا یقین دلانے کے لیے لڑھک کر رخسار بھگوتا چلا گیا۔
’’ محبت کرتی ہو تو اپنے محبوب کی پسندیدہ جگہ کا خیال بھی رکھو نا، اپنے محبوب کی دی گئی امانت کی حفاظت بھی کرو نا۔ اس نے تو صاف شفاف دل تمہارے حوالے کیا تھا، جب وہ واپس مانگے گا تو یہ کالا دل اس کو کس منہ سے دو گی؟ ‘‘
روحِ قلب کے الفاظ اس کی آنکھوں میں نشتر بن کر چبھ رہے تھے۔
’’آزمینہ! میں تمھارے دل کی آواز ہوں، تمھیں ملامت کرنے نہیں تمہاری اصلاح کرنے آیا ہوں، تم واقعی خوش بخت ہو جو اپنے دل کا سفر کر پائی، اس کا محاسبہ کیا، یہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے مگر اصل کام تو اس کے بعد شروع ہوتا ہے اگر تم جانو….. ‘‘
آزمینہ کے آنسو پل بھر کو تھمے، اس نے نگاہیں اٹھا کر سامنے کھڑے وجود کو دیکھا ،جس سے روشنی مسلسل نکل رہی تھی۔
’’یہ روشنی دیکھ رہی ہو؟ یہ تمہارے اچھائیوں کا نور ہے جو اس تاریک اندھیرے میں دبنے لگا ہے….. اپنے دل کو واپس منور کرنا، اس کو اپنی اصل حالت میں لانا، یہ تمہارے ہاتھ میں ہے، کیوں کہ تمہارے پاس مہلت عمل ہے ….. ‘‘
’’ یہ کیسے ممکن ہے؟ ‘‘آزمینہ اب پوری غور سے روحِ قلب کی باتیں سن رہی تھی…..
’’ہاں! اپنے دل کو روشنی عطا کرنے کےلیےتمہیں ابراہیم سا ایمان پیدا کرنا ہوگا ….. ایمان کا دل سے گہرا تعلق ہے، اپنے دل کو پاک کرنا تمہاری ذمہ داری ہے، ابراہیم جیسا ایمان چاہتی ہو تو پہلے اس جیسا دل چاہیے ہوگا….. ‘‘
’’اور ابراہیم کا دل کیسا تھا؟ ‘‘ آزمینہ جواب جانتی تھی۔

( إِذْ جَاء رَبَّہُ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ)

’’ابراہیم تو قلب سلیم کا مالک تھا۔‘‘
اور جانتی ہو قلب سلیم کیا ہے؟
روح قلب کی باتیں اور اس کی روشنی آزمینہ کو اپنے گرد حصار میں لے رہی تھی، اس نے نفی میں سر ہلایا۔روحِ قلب نے اپنی بات جاری رکھی۔
کسی کتاب میں دل کے قلب سلیم بننے کا سفر بہت خوبصورتی سے بیان ہوا ہے، میں تمہارے لیے وہی الفاظ دہراتا ہوں۔
صاحب تصنیف لکھتے ہیں….. دل انسانی جسم کی سلطنت کا تخت ہے، جس کی بادشاہت کے دو دعویدار ہیں۔ ایک روح جو عالم انوار اور عالم تجلیات کا منبع ہے اور دوسرا نفس جو اس عارضی دنیا کی خواہشات سے لبریز ہے….. نفس بھی دل پر اثر انداز ہوتا ہے اور چاہتا ہے دل میری طرح بن جائے، جب کہ روح بھی کوشش کرتی اور اثر ڈالتی ہے کہ دل میری طرح بن جائے۔نفس چاہتا ہے کہ بندے کا دل ناسوتی بن جائے۔ جب کہ روح کہتی ہے ملکوتی بن جائے۔ نفس چاہتا ہے کہ یہ دل ظلماتی دل بن جائے، جب کہ روح دل کو نورانی بنانا چاہتی ہے۔ نفس چاہتا ہے کہ یہ دنیاوی خواہشات وشہوات کے ساتھ معلق رہے، جب کہ روح چاہتی ہے کہ یہ عالمِ جبروت، اللہ کی قربت اور اُس بارگاہ کی لذتوں و راحتوں کے ساتھ جڑا رہے۔ نفس چاہتا ہے کہ دل دنیا کے لالچ میں گم رہے، جب کہ روح چاہتی ہے کہ یہ الست بربکم کی آنے والی پیاری آواز کے جواب میں ہمیشہ قالوا بلی کہتا رہے۔ نفس اور روح دونوں دل کو اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں، اگر نفس بازی جیت جائے تو دل مریض و مردہ ہوجاتا ہے اور اگر اس جنگ میں جیت روح کی ہوجائے تو دل زندہ اور قلبِ سلیم ہوجاتا ہے۔
’’ یعنی ابراہیم سا ایمان پیدا کرنے کےلیے ابراہیم سا دل درکار ہے۔‘‘ آزمینہ ہر بات سمجھ چکی تھی۔
’’ بالکل ! اب تمہیں اپنے دل کے تمام بوجھ کو باہر کی دنیا میں پھینکنا ہوگا، تب ہی تمہاری اندر کی دنیا سے تاریکی چھٹ جائے گی…..کیوں کہ قلب سلیم دراصل سلامتی والا دل ہے….. ایسا دل جو ہر برائی سے ہو کر توبہ تک جاتا ہے، پھر اس کا اپنے رب کی طرف بار بار پلٹنا اسے تمام عیوب سے سلامت رکھتا ہے اور یہی دل قیامت کے دن تمہیں بھی سلامت رکھے گا ان شاء اللہ

(یَوْمَ لَا یَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَoإِلَّا مَنْ أَتَی اللّہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ )

آزمینہ نے دیکھا روحِ قلب کی روشنی میں نور بکھر رہا تھا….. وہ توانائی سے بھر پور اب تندرست نظر آ رہا تھا…..
’’ اپنے دل کو کچھ لمحوں کے مزے کی خاطر نفس کے آگے پیش نہ کر دینا…..
لوگوں کے لیے اپنے دلوں کو صاف رکھنا…..
تمام برائیاں کو قربان کردو،جن سے تمہارے دل سیاہ ہو نے کا خدشہ ہے…..
قلب سلیم کے لیے دعائیں مانگو،جس کےلیے پیارے نبی ؐ نے بھی دعا کی…..
یہی سیدنا ابراہیم کا دل تھا …..
آزمینہ نے اپنے دل کی آواز سن لی…مگر اس کی سوچ صرف ایک جگہ رک گئی….. کیاقلب سلیم کو پانا سچ میں اتنا آسان ہے….. ؟
مضطرب رکھتا ہے میرا دلِ بے تاب مجھے
عینِ ہستی ہے تڑپ صورتِ سیماب مجھے

وہ تو تمہارے دلوں کی پاکیزگی کو دیکھتا ہے….. تو پھر تم اپنے قلب کو دلکش بنانے کے لیے محنت کیوں نہیں کرتی؟ کیا تمہیں اللہ سے محبت نہیں ہے؟
روح قلب کے آخری جملے پر آزمینہ تڑپ کر سر اٹھایا لب ہلے…..
’’ ایسے نہیں کہو….. میں اللہ سے محبت کرتی ہوں….. بہت زیادہ ‘‘
ایک آنسو محبت کا یقین دلانے کے لیے لڑھک کر رخسار بھگوتا چلا گیا۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ۲۰۲۱