والدہ امام شافعی ؒ

ایک شناسا کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ جن کے فرزند صاحب کی پردیس سے اسی دن تشریف آوری ہونی تھی۔ ابھی حال احوال ہی جانا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ بال عجیب طرح سے تراشے ہوئے، کانوں میں بالیاں، پھٹے ہوئے کپڑے۔ برائے مہربانی فقراء کی بےبسی کو فیشن کا نام‌مت دیجئے۔
مزید حیرت کہ علیک سلیک نہیں بلکہ وہ انگلیوں کے مختلف زاویے بنا کر کہنے لگا:
’’ہے موم واٹس اپ۔‘‘
خیر خیر استقبالیہ ہوا۔ تقریب آگے بڑھی،اس دوران دل کرچی کرچی ہوتارہا۔ بھیانک حلیہ، انداز گفتگو ہولناک، باڈی لینگویج پراسرار۔ مستزاد یہ کہ وہ رشیا پلٹ ناسور اپنی ماں کے لیے مہنگے قسم کے پرفیوم لایا تھا۔ کیا میں کسی مسلمان کے گھر میں تھی؟
دیوار پر صاف شفاف آیت الکرسی کی بڑی سی فریم‌ثبوت تو دیتی ہے مگر اس کے سامنے یہ کیسے مناظر پیش ہیں؟
ایسے میں نگاہوں نے تاریخ کا پیچھا کیا اور ایک ماں اور بیٹے کے ہجر و وصل کا وہ واقعہ پیش کیا جسے مکہ کی وادیاں کبھی بھلا ہی نا سکیں۔
جب فرزند حرم نے ماں سے مدینہ جانے کی اجازت چاہی تو غریب اماں اس لیے نہیں رو پڑی کہ بیٹا اکلوتا سہارا ہے، اس سےجدائی کیونکر ہو بلکہ اس لیے فکر مند ہوئی کہ لمبے سفر پر کس زاد راہ کے ساتھ روانہ کروں؟
امام‌ شافعی ابھی دو سال کے بھی نہ تھے جب ان کے والد انتقال کر گئے۔قربان کیوں نہ ہوا جائے اس بیوہ پر جس نے زندگی اپنے بچے کی دینی تعلیم و تربیت میں لگادی تاکہ وہ آسمان علم کا درخشندہ ستارہ بنے۔
جب نورچشم بدو علم کے حصول کےلیے مدینہ کے سفر کے لیے روانہ ہوا تب ماں نے دعاؤں کے ساتھ ساتھ دو پرانی یمنی چادریں بھی دیں کہ’’جا بیٹے! میں نے تجھے اس پروردگار کے حوالے کیا جس کی تو امانت ہے مجھے اپنے رب پر بھروسہ ہے وہ ضرور تیری دستگیری کرے گا۔‘‘
سفر بھی کیسا تھا۔ صحراؤں کا سفر،بیاباں کا، دریاؤں کا سفر، اجنبیوں کےساتھ سفر، شدید بھوک پیاس کا سفر، موسم کی ستم ظرفی، لٹیروں کا ڈر اور نہ جانے کیا کیا۔
لیکن جس سچے ایمان و یقین کے ساتھ ایک ماں نے اپنے لخت جگر کو روانہ کیا کہ سفر نہ صرف آسان ہوا بلکہ وقت وقت پر قدرت مہربان بھی ہوتی گئی۔ اچھی اچھی میزبانیاں قسمت میں آتی گئیں۔ خصوصا امام مالک کا شفیق سایہ! جنھوں نے فرزند حجاز کی میزبانی کی، کوفہ بھی روانہ کیا، کوفہ سے مدینہ واپسی پہ بےشمار محبتیں بھی دیں، اور مکہ لوٹنے پر خراسانی گھوڑے، مصری خچر جو غلوں، کپڑوں، درہم و دینار سے لدے تھے ساتھ روانہ کر دیا۔
آج ہم اپنی اولاد کو دوردراز کون سی تعلیم حاصل کرنے بھیج رہے ہیں؟ کن کن لوازمات کے ساتھ اور کتنے روپیوں کے ساتھ بھیج رہے ہیں؟ کتنی کتنی بار ان سے ویڈیو کالز کرلیتے ہیں؟ کتنی بار وہ چھٹیوں میں آتے ہیں یا پھر ہم ان کے پاس جاتے ہیں؟ ان ساری سہولیات کے باوجود مسلم طلباء کے مرتد ہوجانے کے کئی کیس سامنے آئے ہیں۔ ایک وہ دور تھا جب ماں سچی تڑپ سے بچے کی جدائی سہہ جاتی کہ امام زمانہ بنے گا اور آج وہ دور ہے جب سہولیات ساری موجود ہیں مگر ہماری اولاد ہیں کہ جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود!!
آٹھ سال بعد لوٹنے والے بیٹے کے استقبال کےلیے ماں کی مامتا سے مکہ کی وادیاں امڈ پڑیں۔ ماں دیکھنا چاہتی ہوگی بیٹا کتنا بڑا ہوا؟ اس کے کان آواز سننے کے لئےکس قدر بےقرار ہوں گے۔ اس کی دعاؤں کا ثمر علم کا چاند وہ اس کو بازوؤں میں سمیٹنا چاہتی ہوگی۔
ان کا بیٹا گھوڑوں اونٹوں اور خچروں کے قافلے کے ساتھ دھول اڑاتا حدود حرم میں داخل ہوا۔ ایک سجیلے گھوڑے سے اترا اور ماں کی جانب لپکا۔ سبھی سے ملنے کے بعد اس نے ماں کی خفگی محسوس کی۔ جب گھر کے لیے بڑھنا چاہا تو درویش ماں کہنے لگی:
’’بیٹے یاد ہے جب میں نے تمہیں رخصت کیا تھا تو میرے پاس تمہیں دینے کے لیے صرف دو پرانی یمنی چادر تھیں اور میں نے تیرے شوق کے پیش نظر وہی تیرے حوالے کر دیں اور اس طرح کے گھر سے روانہ کیا کہ تو میرا اکلوتا سہارا تھا اس آرزو کے ساتھ روانہ کیا کہ تو حدیث رسول کی دولت سے مالا مال ہو کر لوٹے، میں نے تجھے یہ مال اور دینار لانے کے لیے تو نہیں بھیجا تھا۔ بیٹے یہ تو غرور کی پونجی ہے کیا تو یہ سب اس لیے لایا ہے کہ اپنے چاچا کے بیٹوں پر اپنی بڑائی جتائے اور انہیں حقیرگردانے۔‘‘
علم دین کی یہ عظمت ،خدا پر توکل اور بھروسہ اور دنیا سے بے نیازی کا مختصر سا وعظ جو ماں نے بیٹے کو دیا وہ کسی درسگاہ کے ہزاروں دروس پر بھاری تھا۔
بےشک امام شافعی کو جو بھی ملا ان کی والدہ ماجدہ کی سچی تڑپ، دعاوں اور پاکیزہ آرزوؤں کی بدولت ہی ملا۔ اپنی امی جان کے حکم پر شام ہوتے ہوتے انھوں نے سارا مال محتاجوں میں تقسیم کیا۔
صرف ایک خچر اور پچاس دینار ساتھ رکھ کر وہ دونوں آگے بڑھے۔ راستے میں سواری سے اس کا کوڑا گر گیا، ایک باندی نے اٹھاکر دیا۔ اس باندی کو دینے جب پانچ دینار نکالے تو ماں نے کہا
’’بیٹے یہی پانچ دینار ہیں تیرے پاس؟‘‘
’’نہیں اماں اور بھی باقی بچے ہیں‘‘
’’تو بتاؤ کس لئے رکھے ہیں؟‘‘
’’اماں وقت بے وقت کام دیں گے‘‘
’’ارے بیٹا تعجب ہے ان تیس چالیس دینار پر تجھے بھروسہ ہے اور یہ سب کچھ دینے والے پر بھروسہ نہیں۔ نکال سارے دینار اور اس باندی کے حوالے کر‘‘
سعادت مند بیٹے میں اطاعت کی۔ ماں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہنے لگی:
’’ بیٹے اب تو اس حال میں نے جھونپڑے میں داخل ہوگا جس حال میں وہاں سے نکلا تھا۔ لیکن میرے جھونپڑے میں آج وہ روشنی ہوگی جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ علم و عرفان کی روشنی، ایمان و یقین کی روشنی، الله کی تائید اور توکل کی لازوال روشنی۔ بیٹے خدا نے تیری پیشانی میں علم کا نور رکھا ہے میں نہیں چاہتی یہ نور دنیا کی فانی راحتوں سے میلا ہو اور اس میں کمی آئے بیٹے تجھے یاد ہے کہ میں نے رخصت کرتے وقت تجھے دعا دی تھی کہ خدا تجھے علم کے آسمان پر سورج بناکر چمکائے۔ میں نہیں چاہتی کہ دنیاوی مال و دولت کی بدلیوں میں اس سورج کی روشنی پھیکی پڑ جائے۔دنیا میں بھی الله تیرے علم کی روشنی سے امت کو راہ ہدایت دکھائے اور آخرت میں بھی روشنی مومنوں کے کام آئے آمین‘‘۔
سچی لگن، خلوص ، الله کی راہ میں اولاد کو وقف کرنے کی چاہت، صحیح تربیت، یہ سب کہیں گم ہوگئے اور عجیب صورتوں کے نافرمان مسلم بچے گلی کوچوں میں ،کلبوں میں نظر آنے لگے۔ جن کے والدین کو بڑھاپے میں ہزارہا بیماریوں نے جکڑا ہے مگر وہ بچوں کی فارن تعلیم کے لئے لیے گئے قرض چکارہے ہیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۱