چپلون سیلاب
آنکھوں دیکھا خوف ناک منظر
کھڑکی سے یہ دلخراش منظر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے کہ ہم سب کسی بحری جہاز میں سوار ہیں، جسے نہ اپنی منزل کی خبر ہے اور نہ ہی راہ سے وا اسی طرح دوپہر، پھر دوپہر سے شام ہوگئی۔ محفوظ گھرانے متأثرین کے کھانے پینے کے انتظام میں لگے ہوئے تھے۔بڑی ہولناکی و بےبسی کا ماحول تھا۔ سب کی نظریں اپنی اپنی نشاندہی کے مقامات پر تھیں۔
اللہ رب العزت نے تمام نوعِ انسانی کے لیے کرۂ ارض کو ایک امتحان گاہ بنا کر زندگی گزارنے کے اصول بتائے ہیں۔ اس امتحان گاہ میں ہمیں نشیب و فراز سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور آزمائش کی گھاٹیوں کو عبور کرنا ہوتا ہے۔ ان آزمائشوں سے دوچار ہونے والوں کی داستانیں، دنیا کی تباہ کاریاں اور سیلاب جیسی ناگہانی آفات کا ذکر ہم مواصلاتی وسائل کے ذریعے سے دیکھتے اور سنتے آ رہے تھے۔ یہ بات ہمارے گمان میں بھی نہ تھی کہ ہم بھی ایک دن اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد اکثر ذہن میں خیال آتا رہا کہ ان واقعات کو ذاتی ڈائری میں قلم بند کروں۔ مگر میری کم ہمتی اور آنسوؤں نے روکے رکھا تھا۔ مبشرہ آنٹی ( ایڈیٹر ھادیہ ای میگزین ) کی درخواست پر آج میں نے قلم تھاما ہے۔
واقعتاً مشاہدات و تجربات کے فرق کو میں نے بہت گہرائی کے ساتھ محسوس کیا۔ یہ ہماری زندگی میں ایک ایسا المیہ رہا ہے، جسے چاہ کر بھی بھلا نہیں پائیں گے۔ اس سیلاب کو لے کر ہر شخص کے پاس مختلف دل فگن واقعات کا انبار ہے، لیکن میں اپنی آنکھوں دیکھی،جو مجھ سے اور میرے ہمسایوں سے جڑی ہے ،انہیں کا تذکرہ کروں گی۔ گلی، کوچوں، دکان اور مکان جدھر بھی نظر دوڑائیں، یہ ہمیں اس الم ناک واقعہ کی داستان سنا رہے ہیں۔
19/ جولائی سے مسلسل تیز رفتار سے ہونے والی بارش، آنے والی تباہی کا اعلان کر رہی تھی۔ 22/جولائی کی صبح عیدالاضحیٰ کے دوسرے دن عید و قربانی کی دوڈ دھوپ نے سب کو بےسدھ سلا دیا تھا۔ چاروں طرف سے آنے والی گاڑیوں کے ہارن اور شور و غل سے میں بوکھلا کر بیدار ہوئی۔ کھڑکی سے دیکھا تو پانی بھر رہا تھا۔ لوگ اپنی گاڑیوں کو کسی اونچی حفاظتی مقام پر لے جارہے تھے۔ کمرے سے باہر نکلی تو امی کو پڑوسنوں کے ہمراہ گراؤنڈ فلور کا سامان اپنے گھر منتقل کرتا پایا۔ ہم بہنیں بھی بلڈنگ کی دیگر سہیلیوں کے ساتھ سامان کی شفٹنگ میں جٹ گئیں۔ پانی کا لیول بتدریج بڑھتا ہی جارہا تھا۔ قریب 7بجے تک پانی گھٹنوں تک پہنچ چکا تھا۔ ہماری بلڈنگ کے سامنے بنگلہ نما گھر میں موجود نفوس سے ہمارے گہرے مراسم ہیں۔ مقادم انکل ابو کے گہرے دوست ہیں، وہ اپنی اہلیہ کے ہم راہ رہتے ہیں۔ ان کی اولادیں وطن سے باہر مقیم ہیں۔ شوگر کی بیماری کے باعث انکل کا داہنا پیر گھٹنے تک کٹا ہوا ہے۔ انہوں نے جب پانی کو اپنے گھر میں گھستے پایا تو فوراً حواس باختہ ہوکر ابو کو مسلسل کال کرنے لگے۔ ابو تو ہمارے گراؤنڈ فلور کے گھروں میں پانی میں اتر کر ایک ایک سامان نکال کر باہر پکڑا رہے تھے۔ اسی اثنا میں معاون ناظمِ علاقہ کی کال آئی کہ دفترِ جماعت بھی پانی کے نرغے میں ہے۔ ہم نے جب ابو کو مقادم انکل کے فون کی اطلاع دی تو پڑوسیوں نے ابو کو جانے سے سختی سے منع کیا۔ دلی لگاؤ رکھنے اور شدت سے چاہتے ہوئے بھی ابو انکل کی مدد کرنے سے قاصر تھے۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے بندے کی حفاظت کو ٹھان لیتا ہے تو کسی نہ کسی کو وسیلہ بناتا ہے۔ انکل کو گلی کے نوجوانوں نے وہیل چیر سمیت ٹیرس پر شفٹ کردیا۔ جب یہ نوجوان واپس پلٹے تو پانی کا لیول ان کی گردنوں تک پہنچ چکا تھا۔وہ لوگ ہاتھوں کو اوپر اٹھائے سنبھل سنبھل کر چل رہے تھے۔ گراؤنڈ فلور والوں کے مختصر سامان کے ساتھ اب کی بار جو اوپر آرہا تھا، وہ انکل کی بوڑھی والدہ تھیں، جنہیں انکل نے بانہوں میں اٹھا رکھا تھا۔ اس منظر سے کپکپاہٹ پیدا ہوگئی۔پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ ابو کہتے ہیں کہ جب نیچے کے گھر والوں کے دیوان کو تیرنے ہوئے پایا تو فوراً گھر کے مکینوں کو اوپر چڑھنے کا حکم دیا۔ مگر اہلِ خانہ کسی بھی قیمت پر وہاں سے ہلنے کو تیار نہیں تھے۔ میرا پاسپورٹ لے لو، میری دوائی لےلو، اسی فکر میں تھے کہ بامشکل انہیں سمجھا بجھا کر اوپر چلنے کے لئے راضی کیا گیا۔
جب واپس پلٹتے وقت ابو کی نگاہ مقادم انکل کی ٹیرس پر پڑی تو آنکھیں نم ہوگئیں۔ ابو کہنے لگے کہ اللہ مقادم بھائی جیسی آزمائش سے کسی کو نہ گزارے۔ دو دنوں تک ان کو پڑوس کی بلڈنگ سے، بذریعہ لکڑی کے کھانا پہنچایا جارہا تھا۔ 8 بجے لائٹ چلی گئی۔ 9بجے کے قریب ہم نیٹ ورک اور پانی کی سہولت سے بھی محروم ہوگئے۔ افراتفری کا عالم ختم ہوچکا تھا۔ سب اپنی اپنی ٹیرسوں پر بیٹھے، بہتے ہوئے پانی کو لہروں میں تبدیل ہوتا دیکھ رہے تھے۔ بھرتے ہوئے پانی کو لے کر جو فوٹوز و وڈیوز کے شوق رفتہ رفتہ خوف و ہراس میںتبدیل ہو چکا تھا۔ پہلے پہل تو بہتی ہوئی اشیاء میں کچرے کے ڈھیر نظر آئے، بعد میں گھریلو اشیاء، جن میں الیکٹرونک مٹیریل بھی شامل دکھائی دینے لگے۔ وہ بہت خوف ناک منظر تھا، اتنا کہ بڑے بڑے سانپ اور مگرمچھ کو اپنی بلڈنگ کے اردگرد پھرتے ہوئے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ کھڑکی سے یہ دلخراش منظر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے کہ ہم سب کسی بحری جہاز میں سوار ہیں، جسے نہ اپنی منزل کی خبر ہے اور نہ ہی راہ سے وا اسی طرح دوپہر، پھر دوپہر سے شام ہوگئی۔ محفوظ گھرانے متأثرین کے کھانے پینے کے انتظام میں لگے ہوئے تھے۔بڑی ہولناکی و بےبسی کا ماحول تھا۔ سب کی نظریں اپنی اپنی نشاندہی کے مقامات پر تھیں۔ میں بھی ایک درخت کے ذریعے پانی کی کمی و بیشی کا انداز لگا رہی تھی۔ مغرب کی نماز ادا کرنے کھڑی ہوئی تو ہچکی بندھ گئی۔ جب اللہ اکبر کہتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے یہ الفاظ میں زبان سے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے ادا کررہی ہوں۔ کھڑکی سے باہر دیکھتی تو آنسوؤں میں روانی آجاتی تھی۔ گیلری میں کھڑے ہوکر اس ہولناک منظر کو دیکھنے کی نہ ہی مجھ میں ہمت تھی اور نہ ہی جسارت۔ اسی اثناء میں نہ جانے کھڑکی سے پانی کو دیکھتے ہوئے کتنی مرتبہ تکبیرات کا ودر کیا۔ اللہ کی ذات پر کامل یقین تھا، الحمدللہ۔ لیکن دل میں طرح طرح کے اندیشے جنم لے رہے تھے۔رہ رہ کر رشتہ داروں کی یاد، شدت سے ستا رہی تھی۔ ننیہال و دادیہال دونوں کوسوں دور ہیں۔ میرے والدین میری کیفیت کو بھانپ رہے تھے اور ابو مسلسل تسلی دیتے جارہے تھے۔ چھوٹی بہنیں بہتی ہوئیں اشیاء کی لسٹ ذہن نشین کر رہی تھیں۔ بالٹی، ٹنکی، وارڈروب کے ڈراورز، درخت کی شاخیں اور نہ جانے کیا کیا…. ان ضروریاتِ زندگی کو ہم نے بہتے دیکھا تو ذہن کے گوشے میں یہ شعر نمودار ہوا:
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پل بھر کی خبر نہیں
جیسے جیسے رات کی تاریکی چھانے لگی ابو کو مسلسل مقادم انکل کی فکر کھائے جارہی تھی۔ بار بار ٹارچ ڈال کر آواز لگاتے اور تسلی دیتے رہتے۔ ان کی جانب سے بھی جوابی سلسلہ جاری تھا۔ ٹھیک 1بجے پانی کا لیول مزید بڑھنے لگا، اتنا کہ ہمارے فلور پر پہنچنے کے لیے گنتی کی چند سیڑھیاں باقی رہ گئی تھیں۔ میرا نشان زدہ درخت مکمل طور پر پانی میں ڈوب چکا تھا۔ بارش نے بجلی کی گرج کے ساتھ شدت اختیار کرلی تھی۔ میرا دل اندر ہی اندر انجانے خوف سے کانپ رہا تھا۔ امی اور ابو کی نظروں سے چھپ کر، گاہے بگاہے میں پنسل ٹارچ کے ذریعے سیڑھیوں کا پانی دیکھنے جاتی۔ چھتوں سے اذان کی آوازیں اور تکبیرات مسلسل گونج رہی تھیں۔ ایک بلڈنگ والے رکتے، تو دوسری بلڈنگ والے شروع کردیتے تھے۔ خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ بیک وقت کئی اذانیں کانوں سے ٹکراتیں تو دل لرز پڑتا۔ ہر ایک مضطرب تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ پانی کا لیول دیکھنے کے لیے ٹارچ آن کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔ دیگر عمارتوں سے نکلنے والے ٹارچز کی روشنیاں ہی کافی تھیں۔ چھتوں سے بچوں، بوڑھوں و جوانوں کے ساتھ ساتھ قربانی کے بکروں کی آوازیں بھی کان کے پردوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ تقریباً 2 بجے، میں اور امی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ سجدے میں جاتے تو جسم سے روح نکلتی محسوس ہوتی۔ میرے آنسوؤں میں شدت آگئی تھی۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے جانے انجانے میں کیے گئے گناہوں کی معافی طلب کی۔ دعا مانگنے کے بعد دل کو قرار آیا۔
(اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ۔( اور ذکرِ الٰہی ہی دلوں کی تسکین ہے۔)
ندامت کے چراغوں سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اندھیری رات کے آنسو خدا سے بات کرتے ہیں۔
بڑھتے ہوئے پانی کو مدِنظر رکھ کر امی نے ٹیرس پر جانے کے مصمم ارادے کے ساتھ سامان باندھنا شروع کیا۔ مختصر سامان تھا۔یہاں میں نے حقیقی زادِ راہ کو سمجھا۔ قیمتی سامان کو چھوڑ کر ضرورت کا ہلکا سامان سمیٹا جارہا تھے۔ ابو منع کرتے رہے۔ امید دلاتے کہ انشاء اللہ پانی جلد ہی اتر جائے گا۔ تقریباً تیاری مکمل ہوچکی تھی۔ نظر کھڑکی کے باہر پڑی تو دل انجانی خوشی سے دھڑکنے لگا۔پانی کا لیول تیزی سے کم ہورہا تھا۔ مجھے اپنی بصارت پر یقین نہیں آرہا تھا، یقینی بنانے کے لیے مختلف کمروں کی کھڑکیوں سے جھانک کر دیکھا۔ واقعی پانی اپنے گدلے نقوش چھوڑتے ہوئے کم ہورہا تھا۔ 22 /جولائی صبح 4 بجے سے چڑھنے والا پانی 23 /جولائی صبح 4 بجے کم ہورہا تھا، الحمدللہ۔
پانی کے مکمل اتر جانے کے بعد تباہی کی ایک ایک خبریں ہم پر بجلی بن کر گررہی تھی۔ اُن واقعات کے سامنے ہماری داستان بےمعنی لگنے لگی۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد جو منظر دیکھا تو عجب کیفیت طاری ہوئی۔ ہیلی کاپٹر مسلسل اڑ رہے تھے۔ Zee نیوز کے اینکرز راہگیروں سے تمام حالات جاننے کے خواہاں تھے۔ ایمبولینس اپنے زوردار سائرن کے ساتھ ہاسپٹل کی اور رواں دواں تھے۔ کیچڑ ٹخنوں کے اوپر تک تھی۔ پیر ڈالتے تو اٹھانا دشوار ہوتا۔ کتنے ہی گھر ڈھے گئے تھے، سانپوں کے ڈسنے سے کئی لوگ موت کا شکار ہوئے۔ الیکٹرک شاک لگنے سے محلے کا ایک نوجوان جاں بحق ہوگیا۔ چھ دنوں تک لائٹ کا اتاپتا نہ تھا۔ کاش میں اتنے ہی روح فرسا واقعات پر اپنے قلم کو روک پاتی۔ ایک ہاسپٹل میں لائٹ کے چلے جانے کے باعث ICU میں ایڈمٹ 11 مریض زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
میڈیا تو بعد میں آئی، ہم پر گزرے کرب تو بعد میں دنیا کے علم میں آئے،لیکن جو رات ہم نے اس خوفناک ماحول اور لرزتے دل سے کاٹی تھی، وہ صرف ہمارے اور اللہ کے درمیان مخفی ہے۔ بارگاہِ الٰہی میں بس یہی دعا ہے کہ اس حادثے سے دوچار ہونے والے ہر متنفس کو قربِ الٰہی کا ذریعہ بنائے، آمین۔
اس سیلاب کو لے کر ہر شخص کے پاس مختلف دل فگن واقعات کا انبار ہے، لیکن میں اپنی آنکھوں دیکھی،جو مجھ سے اور میرے ہمسایوں سے جڑی ہے ،انہیں کا تذکرہ کروں گی۔ گلی، کوچوں، دکان اور مکان جدھر بھی نظر دوڑائیں، یہ ہمیں اس الم ناک واقعہ کی داستان سنا رہے ہیں۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ ستمبر