کورونائی شادی

ساجدہ بیگم کا معمول تھا کہ ناشتے کے بعد صبح کی دھوپ میں ایزی چیئر پر اطمینان سے بیٹھ کر اخبار کا مطالعہ کرتیں تھیں۔ آج بھی وہ اخبار پڑھنے میں مصروف تھیں کہ ان کا موبائل بجنے لگا۔ ان کی سہیلی انجم کا فون تھا۔ سلام علیک کے بعد ساجدہ بیگم نے پوچھا:
’’ اچھا یہ بتاؤ تم نے ویکسین لیا یانہیں؟‘‘
’’میری تو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ویکسین لوں تو کیسے لوں ؟ ‘‘
سوشل میڈیا پر مختلف قسم کے ویڈیوز کی وجہ سے مجھے بہت ہچکچاہٹ ہو رہی ہے ۔ کہیں بتایا جارہا ہے کہ ویکسین لگانے سے انسان کے اندر مقناطیسیت پیدا ہو رہی ہے، توکہیں بتایا جا رہا ہے کہ ویکسین لینے والے تمام افراد دو سال میں مر جائیں گے۔ سیاسی لیڈر تویہ ویکسین نہیں لگوا رہے ہیں اور ہمیں ٹیسٹ کے لیے بکرا بنایا جا رہا ہے۔ تو ہم بکرا کیوں بنیں بھلا؟‘‘انجم نے اپنا جواز پیش کیا ۔
’’انجم مجھے افسوس ہے کہ تم بھی کووڈ ویکسین اور ویکسین کاری سے متعلق غلط معلومات یعنی کہ infodemic کا شکار ہوگئی ہو۔ کوویڈ19ایک خطرناک بیماری ہے، اسی لیے اس سے بچنے کے لیے ہر فرد اور معاشرہ کی صحت کی بہتری کے لیے ہماری ریاست کئی اقدامات کر رہی ہے۔ پھر اس ہچکچاہٹ کے کیا معنی ؟ ‘‘ساجدہ بیگم نے انجم کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ہماری زندگی کے اہم فیصلوں میں اس کی اہمیت کافی بڑھ گئی ہے۔ اب چاہے، وہ حج عمرہ کا معاملہ ہو سفر کا یا پھر شادی بیاہ کا۔ آج کل یہ اتنا ضروری ہو گیا ہے کہ لوگ ایسےخاندان سے اپنے بچوں کا رشتہ بھی نہیں کرنا چاہ رہے ہیں، جنہوں نے ویکسین نہ لیا ہو۔‘‘ ساجدہ بیگم نے مزید صراحت کی۔
’’مذاق مت کرو یار! حد کرتی ہو تم ۔‘‘ انجم نے ٹوکا ۔
تم آج کے اخبار میں’’ضرورت رشتہ‘‘کا کالم دیکھ لینا۔ خودجان جاؤ گی کہ میں مذاق کر رہی تھی یا حقیقت بیان کر رہی تھی ؟ اتنا کہتے ہوئے ساجدہ بیگم نے فون کاٹ دیا۔
ان کی نظریں دوبارہ اخبار کے صفحات پر دوڑنے لگیں ۔ انہیں اپنے بیٹے کے لیے مناسب رشتے کی تلاش تھی، لیکن مہینوں گزرنے کے بعد بھی کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں مل رہا تھا۔ آج گویا ان کے من کی مراد بر آئی تھی۔ ان کی نظریں ایک اشتہار پر ٹک سی گئیں۔ لکھا تھا:
’’کورونا سے آزاد خاندان کی تعلیم یافتہ، ماسک کی پابند لڑکی جو کووی شیلڈ ویکسین کے دونوں ٹیکے لے چکی ہے، کے لیے رشتہ مطلوب ہے۔ لڑکا بھی کورونا سے پاک اور ماسک کا پابند ہو، کووی شیلڈ ویکسن کے دونوں ٹیکے لے چکاہو۔ جو ورک فروم ہوم اور ورک ایٹ ہوم کی صلاحیت کا حامل ہو۔ دلچسپی رکھنے والے امید وار بایوڈیٹا کو مقامی کووڈ سینٹڑ سے اٹسٹیشن کرواکر کورونا فری ہونے کے شہادت نامہ کے ساتھ اپنے ای پاسپورٹ کی کاپی منسلک کرکے میل کریں ۔کورونا مناسب طرز عمل کی پیروی کرنے والے خاندان کو ترجیح دی جائے گی۔ ‘‘
’’اجی سنتے ہو۔ ‘‘ساجدہ بیگم نے اخبار سے نظریں ہٹاتے ہوئے شوہر نامدار کو آواز لگائی۔
’’سناؤ کیا سنانا چاہتی ہو؟ جب سے تم سے بندھا ہوں صرف سنتا ہی تو آرہا ہوں۔ بولنا تو جیسے بھول ہی گیا۔ ‘‘اعجاز صاحب بڑ بڑا ئے۔
’’بختیار کے لیے لڑکی مل گئی۔ ‘‘ساجدہ بیگم کے لہجہ سے خوشی جھلک رہی تھی۔
’’میں بختیار کا بایو ڈیٹا لڑکی والوں کو بھیج دیتی ہوں۔ انہیں لڑکا پسند آجائے تو ہم لڑکی سے ملنے جائیں گے ۔‘‘ ساجدہ بیگم نے ایک ہی سانس میں اپنا پروگرام بتا دیا تھا۔
’’ٹھیک ہے جیسا تم مناسب سمجھو۔‘‘ اعجاز صاحب نے اثبات میں جواب دیا۔
دوچار دن بعد ساجدہ بیگم اپنے شوہر سے گویا ہوئیں:
’’ لڑکی والوں کو بختیار پسند آگیا ہے۔ انہوں نے ہمیں کاڑھے پہ بلایا ہے۔ ‘‘ وہ چہک رہی تھیں۔
’’خاندان، قبیلہ، رنگ روپ، قد کاٹھی، رہن سہن، لین دین سب کے بارے میں پوچھ لیا نا تم نے؟‘‘ اعجاز صاحب نے سوال کیا۔
’’ارے کس دور میں جی رہے ہیں آپ ؟ وہ سب تو ماضی کی باتیں ہیں۔ آج کل کے کورونائی دور میں ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ اب ٹرینڈ بدل گیا ہے۔ اس دور میں جینا ہے تو اسی کی مناسبت سے جان کاری حاصل کرنی ہوگی اوراگر کوئی مطالبہ رکھنا ہے تو وہ بھی اسی کے مطابق ہونا چاہیے۔ شادی بھی کورونا قواعد و ضوابط کی لحاظ سے کرنی ہوگی۔ سمجھ گئے نا آپ؟‘‘انہوں نے عینک کے اوپر سے اعجاز صاحب کو بغوردیکھتے ہوئے کہا۔
شام کے ٹھیک چار بجےاعجاز صاحب اور ساجدہ بیگم لڑکی والوں کے گھر پہنچ گئیں۔ گیٹ پر ماسک دھاری چوکیدار سینیٹائزر اور تھرمامیٹر کے ساتھ ان کے استقبال کے لیے موجود تھا ۔
’’کیا زمانہ آگیا ہے۔ایک دور تھا جب دلہے والوں کی آمد پر صندل ہاتھ دیا جاتا تھا۔ آج سینیٹائزر دیا جا رہا ہے۔ جہاں رنگ برنگے چوبے سے منہ میٹھا کیا جاتا تھا آج وہاں جبراً تھرمامیٹر منھ سے گزارا جارہا تھا ۔ کبھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی میں یہ دن بھی دیکھنے پڑیں گے۔‘‘ اعجاز صاحب اپنے آپ میں بڑ بڑانے لگے۔
اس مرحلے سے گزر کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو لڑکی کے والدین اپنے چہروں پر فیس شیلڈ سجائے بارعب طریقے سے ایسے تشریف لائے جیسے بادشاہ سلامت اور ملکہ اپنے سروں پر تاج سجائے چلےآرہے ہوں کہ ’’با ادب با ملاحظہ ہوشیار! کورونائی دور کے والدین تشریف لا رہے ہیں۔‘‘

ان دونوں نے پہلے تو ساجدہ بیگم اور اعجاز صاحب کو دور سے سلام کیا۔ اس کے بعد مخصوص انداز سے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں شانے پر اور بائیں ہاتھ کو دائیں شانے پر
چلیپے کی شکل میں رکھ کر سر کو خفیف سا جھکایا۔

اعجاز صاحب اور ان کی بیگم حیرانی سے ایک دوسرے کامنھ تکنے لگے کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے ؟ یہ کس قسم کا اشارہ کر رہے ہیں ؟
انہوں نے غالباً مہمانوں کی پریشانی کو بھانپ لیا تھا۔ کہنے لگے: ’’اس اشارہ کا مطلب ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں ۔ چوں کہ مادی طور پر گلے ملنا خطرے سے خالی نہیں اس لیے کورونا کی اس تہذیب کو اپنانا پڑ رہا ہے۔‘‘
اوہ اچھا! کہتے ہوئے اعجاز صاحب اور ان کی بیگم نے بھی فوراََ اپنے ہاتھ اسی انداز میں اپنے شانوں پر رکھ لئے۔ وہ اس وقت احساس کمتری کا شکار تھے کہ کورونا کے دور میں رہتے ہوئے بھی وہ اس کی تہذیب سے، نا آشنا تھے اور اشاروں کی زبان سے ناواقف۔ بالکل اسی طرح جس طرح مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہم میں سے اکثر لوگ اپنے دین سے مکمل طور پر واقف نہیں ہوتے ۔
کورونا کی مناسبت سے ڈرائنگ روم کے فرنیچر کے درمیان بھی دو گز کا فاصلہ رکھا گیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں ایک نقاب پوش ملازمہ قابل تلف گلاسوں میں ہمارے لیے گنگنا پانی لے آئی کہ کورونا سیزن میں گنگنا، یعنی نیم گرم پانی پینا احتیاط کا تقاضا ہے۔
’’آج کل کوئی بھی مشتبہ ہو سکتا ہے۔ہم نہیں جانتے کہ ہم میں سے کون کوروناوائرس کو اپنے ساتھ لیے گھوم رہا ہے، اس لیے ہم لوگ آج کل استعمال کرکے پھینک دینے والے مصنوعات کا استعمال زیادہ کر رہے ہیں۔‘‘لڑکی کی والدہ نے وضاحت کرنا ضروری سمجھا ۔
ساجدہ بیگم نےصوفہ پر بیٹھے بیٹھے در ودیوار پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ ان کے سامنے والی دیوار پر وباء سے بچنے کی دعا خوبصورت سنہری فریم میں آویزاں تھی ۔ دائیں جانب رکھے شوکیس میں کورونا وائرس کا دلکش ماڈل رکھا تھا۔
’’بہت خوبصورت ہے ۔ اسے دیکھ کر تو وائرس سے نفرت کے بجائے محبت ہو جائے۔‘‘ساجدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے ماڈل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ! اب تو جینا مرنا اسی کے ساتھ ہے۔ ویسے یہ شو پیس ہمارے بیٹے نے انگلینڈ سے بھیجا ہے۔ کہتا ہےاسے سنبھال کر رکھنا چاہیے تاکہ ہمارے بعد آنے والی نسلوں کو بھی پتہ چلے کہ ہم لوگ کس وباء کے دور سے گزرے تھے اورکتنے خوبصورت وائرس کے ساتھ کتنی کربناک زندگی گزاری تھی۔ کس طرح ہم نے رشتوں کو جوڑنے کے لیے دوریوں کو فروغ دیا تھا۔‘‘ لڑکی کی والدہ رقم طراز تھیں۔
انگلینڈ ! اونہہ! مادہ پرست اورخود غرض ملک ! اعجاز صاحب کے لہجہ میں نفرت کا عنصرشامل تھا ۔
کیا مطلب ؟ لڑکی کے والد کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
’’یہ ان ملکوں میں سے ایک ہے جو ویکسین نیشنلزم میں ملوث ہیں اور ویکسین کی ذخیرہ اندوزی کرتےہیں۔ جب کہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو ویکسین دے کر بچایا جاسکتا ہو، ایسے وقت میں اگر کچھ ممالک اپنی آبادی سے دو گنا اور تین گنا ویکسین کو ذخیرہ اندوز کرتے ہیں، تو انھیں بےشرم اور خودغرض ہی کہا جا سکتاہے۔ ‘‘
’’اوہ ،ہاں! آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ‘‘انہوں نے ہاں میں ہاں ملائی۔
اس دوران ملازمہ ’’کاڑھا ‘‘لے آئی تھی۔ یہ لوگ کاڑھے کے کڑوے کسیلے گھونٹ بمشکل اپنے حلق سے نیچے اتار رہے تھے کہ لڑکی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ جسے دیکھ کر ساجدہ بیگم کو فلم لیلیٰ مجنوں کی ہیروین یاد آگئی۔ اسی قسم کا اؤٹ فٹ، چہرے پر غلاف، لب و رخسار سجائے ہاتھوں میں دستانے پہنے، وہ ان کے روبرو موجود تھی ۔ وہ آئے تو تھے لڑکی کو دیکھنے، لیکن یہاں تو اس کی آنکھوں کے سوا انہیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
ساجدہ بیگم کے ذہن میں ایک پرانے نغمہ کے بول گونجنے لگے کہ ’’تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے۔ ‘‘
’’بایو ڈیٹا میں لکھا تھا کہ آپ ریسرچ کر رہی ہیں کس موضوع پر ؟ ‘‘ساجدہ بیگم کا لڑکی سے پہلا سوال تھا۔
ویکسین کی سیاست(The Politics of vaccination ) پر لڑکی نے جواب دیا۔
’’بڑا دلچسپ موضوع ہے ۔ کیا کہتی ہے آپ کی ریسرچ اس بارے میں ؟ ‘‘ساجدہ بیگم لڑکی کے ریسرچ والے گن کو بھی پرکھنا چاہتی تھیں۔
’’ویکسین رول آؤٹ کا کوئی مستحکم وژن نہیں۔ مرکزی حکومت کا اپنی پارٹی کی حکومت والی ریاستوں میں ویکسین کی زیادہ تعداد میں فراہمی ، ویکسین سرٹیفکیٹ پر وزیر اعظم کی تصویر وغیرہ وغیرہ ۔‘‘لڑکی نے مختصراً بتایا۔ ’’ہاں اس بات پر تو واقعی تعجب ہوتاہے کہ ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے ٹیکس سے ویکسین خریدی جاتی ہے اور تصویر چھپتی ہے وزیر اعظم کی! گھن آتی ہے ایسی سیاست پر ۔‘‘ساجدہ بیگم نے منھ بنایا ۔
’’پکوان آتا ہے ؟ ‘‘انہوں نے اگلا سوال کیا۔
’’جی آتا ہے۔ ہر قسم کا کاڑھا ، شوربہ ہربل چائے کے ساتھ ساتھ کورونا میں استعمال ہونے والی مدافعت بخش غذاؤں کے پکوان میں ماہر ہوں۔ آپ لوگ اطمینان سے بیمار ہو سکتے ہیں۔ کوئی پریشانی کی بات نہیں میں دیکھ لوں گی ۔‘‘اس نے کہا تو ساجدہ بیگم کو لگا کہ وہ اسے کیا دیکھیں گے ؟ لازم ہے کہ وہی انہیں دیکھ لے گی۔
’’کچھ سلائی کڑھائی بھی کر لیتی ہو؟ ‘‘انہوں نے مزید جاننا چاہا۔
’’جی ہر قسم کا ماسک سینا جانتی ہوں ۔کاٹن ، ایمرائڈری ، اپلک ورک ، کروشیا، زری ورک ‘‘
’’لیکن ماسک کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی ماسک حفاظت نہیں کرسکتا ،سوائے کچھ خاص ماسک کے۔‘‘ ساجدہ بیگم جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی درمیان میں بول پڑیں۔
’’ہاں! اب ماسک تو ماسک ہی ہے، چاہے کسی بھی قسم کا ہو منھ تو چھپتا ہی ہے۔ دکھائی کہاں دیتا ہے۔ اس وباءنے تو سر اٹھا کے جینے والوں کو منھ چھپا کے جینے پر مجبور کر دیا ہے۔ پتہ نہیں ہم سب کو آخر کب تک اس طرح بغیر کسی گناہ کے منہ چھپائے جینا پڑے گا؟‘‘لڑکی کے لہجے میں جھنجھلاہٹ نمایاں تھی ۔
’’آپ لوگوں کی کوئی فرمائش؟‘‘ لڑکی کے والد نے اعجاز صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔
’’آپ جس طرح کورونائی تہذیب کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی بیٹی کے لیے کورونائی جہیز میں ایمبولینس، آکسیجن سیلنڈر، آکسی میٹر، وغیرہ تو دیں گےہی۔ اس کے علاوہ آپ ہمیں اپنی کورونا جنگجوبیٹی دے رہے ہیں تو ہمیں اور کیا چاہیے؟‘‘اعجاز صاحب کا لہجہ تشکر آمیزتھا۔
’’لڑکے سے آپ کی ملاقات گوگل میٹ پر ہو چکی ہے۔ آپ کو لڑکا پسند ہے اور ہمیں لڑکی پسند ہے ۔تو پھر دیر کس بات کی؟ ‘‘اعجاز صاحب متجسس تھے۔
’’کوئی دیر نہیں! نکاح کا دعوت نامہ سب کو واٹس اپ کر دیا جائے گا۔ نکاح زوم آن لائن پر ہوگا۔ فیس بک لائیو کے ذریعہ مہمان شرکت کریں گے۔ جس کو سلامی یا رقمی تحفہ دینا ہو وہ گوگل پے کے ذریعہ بھیج دیں گے۔ تحفے پورٹر، ریاپیڈو یا کارگو کے ذریعہ روانہ کیے جا سکتے ہیں۔ ولیمہ کے واؤچرز مہمانوں کو بھیج دیے جائیں گے۔ سب لوگ اپنی پسندیدہ ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر ورچؤل ولیمہ کی دعوت میں شرکت کر سکتے ہیں۔ شادی کے تصاویر انسٹاگرام اور ٹویٹر پر پوسٹ کئے جائیں گے۔ ‘‘ لڑکی کے والدین نے شادی کا پورا لائحۂ عمل لڑکے والوں کے سامنے رکھ دیا تھا ۔
کورونا نے شادیوں کو کتنا کم خرچ اور آسان بنا دیا ہے۔ کاش یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے اور نکاح آسان اور زنا مشکل ہو جائے۔
’’کورونا سے آزاد خاندان کی تعلیم یافتہ، ماسک کی پابند لڑکی جو کووی شیلڈ ویکسین کے دونوں ٹیکے لے چکی ہے، کے لیے رشتہ مطلوب ہے۔ لڑکا بھی کورونا سے پاک اور ماسک کا پابند ہو، کووی شیلڈ ویکسن کے دونوں ٹیکے لے چکاہو۔ جو ورک فروم ہوم اور ورک ایٹ ہوم کی صلاحیت کا حامل ہو۔

’’کیا زمانہ آگیا ہے۔ایک دور تھا جب دلہے والوں کی آمد پر صندل ہاتھ دیا جاتا تھا۔ آج سینیٹائزر دیا جا رہا ہے۔ جہاں رنگ برنگے چوبے سے منہ میٹھا کیا جاتا تھا آج وہاں جبراً تھرمامیٹر منھ سے گزارا جارہا تھا ۔ کبھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی میں یہ دن بھی دیکھنے پڑیں گے۔‘‘

Comments From Facebook

2 Comments

  1. Mohammad Sharique

    Assalamu alekum wrwb, itni behtrin andaz mein likha gaya hai maano live dekh rahein hai, thanke aur kehke lagatey hoye puri anwan khatm ki hai, manna padega majahiya umda taeke se likhe hoye batoan se bhi ho sakta hai, aaj kal ki Wahiyat comedy show ne logon mein yeh galat fahmi daal di hai ke majahiya begair kisi k majak udaye ho hi nahi sakta, Ish soch ko puri tarha galat sabit kr diye hai Mohterma Rafiya Nausheen ne Masha Allah Allah aap ko tarakki de har jayej tamannaon ko pura farmayie , duniya aur Akhirat donoan Jahan ki Kamiyabi Ata farmayie.

    Reply
  2. sample

    this is a sample comment

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ اکتوبر