ہم پر جو بیتی

اسکوٹی چلانے کا مجھے بچپن سے ہی کچھ جنون کی حد تک شوق رہا ہے۔الحمداللہ آج یہ شوق بھی پورا ہوا۔میں نے اپنے چھوٹے کزن مشعل سے کہا:
’’آج مجھے کسی بھی حال میں چلانی ہے اسکوٹی۔تم اسکوٹی نکالو،میں آتی ہوں۔‘‘
سنا تھا کہ جو سائیکل چلا لیتا ہے اس کے لئے اسکوٹی چلانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔۔۔ بس محاورتاً ۔۔۔ورنہ یہ صرف بائیں ہاتھ کا نہیں دائیں۔بائیں دونوں ہاتھوں اور پیروں کا کھیل ہے۔اب ظاہر ہے پہلی بار ایک ہاتھ سے کوئی اسکوٹی چلاکر اپنی ٹانگیں توڑنے سے رہا۔چوں کہ بچپن میں میں نے بہت سائیکل چلائی تھی اس لئےپورے اعتماد کے ساتھ میں باہر نکلی۔
کزن سے کہا:
’’ایسا کرو تم ادھر ہی کچھ ہِنٹ دے دو۔فیلڈ تک تمہیں میں لے چلوں گی۔‘‘
اس نے ہاتھ پیر جوڑ دیا۔ یعنی اسکوٹی چلانے سے پہلے ہی میری اتنی عزت کہ اس نے میرے سامنے ہاتھ پیر دونوں جوڑ لیا۔۔۔واہ۔۔۔بھئ۔۔واہ۔۔۔لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آیا ،آخر اس نے یہ کیوں کہا کہ “اپی جلد ہی تم سے کسی ہسپتال میں پھر ملاقات ہوگی۔‘‘
بہرحال!! تو ہم دونوں اسکوٹی لے کر فیلڈ میں پہنچے۔پہلے اس نے کل ملا کر تین دفع سمجھایا کہ پہلے بریک دبا کر سیلف اسٹارٹ کریں پھر ایکسیلیٹر گھمانا ہے،بس ذرا سا گھمانا ہےاور بیلنس بنا کر چلانا ہے۔میں نے کہا ٹھیک ہے اگر گرنے لگوں تو اسکوٹی سنبھالنا۔اس نے کہا ٹھیک ہے اب اسٹارٹ کریں۔ میں نے پوری شان سے اوکے کہتے ہوئے اسٹارٹ کیااور جوش میں تیز گھما دیا۔اور اسکوٹی چلنے کے بجائےاڑنے لگی۔کزن عمر میں مجھ سے اچھا خاصا چھوٹا ہے۔اسے بھی امید نہیں تھی کہ میری بہن اتنی فاسٹ ہوگی کہ پہلی بار میں ہی اسکوٹی چلانے کے بجائے اڑانے لگے گی۔ہم دونوں کے ہی ہوش اڑ گئے،میں نے گھبرا کر ایکسیلیٹر اور زور سے گھما دیا اور آخرکار ارے۔۔ ارے۔۔مرے۔۔مرے۔۔ کرتے دونوں دھڑام ہوگئے۔
شکر ہے زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی اور اس سے بھی زیادہ شکر ہے فیلڈ میں کوئی تیسرا موجود نہیں تھا۔مجھے اسکوٹی سمیت گرنے کا بخوبی اندازہ تھا اس لئے تو دھوپ میں نکلی تھی کہ میدان خالی رہے ۔
(مجھے یہ راز کی بات بتانی تو نہیں تھی لیکن جب میں نے اپنے کزن سے کہا کہ دیکھومیرے بھائی،یہ بات گھر والوں کو نہیں بتانا کہ میں گر گئی تھی ورنہ اچھی خاصی بے عزتی ہوگی تو اس نے کہا تھا کہ اپی آپ خود بتا دیں تو کم بے عزتی ہوگی کیوں کہ اگر میں بتاؤں گا تو بہت تفصیل سے بتاؤں گا۔مجبوراً مجھے ہی اپنی ’’عزت افزائی‘‘کرنی پڑ رہی ہے۔لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دوں کہ پہلی دفعہ جب سائیکل چلائی تھی تب بھی میں گری تھی) پھر میں اٹھی اور دھول گرد جھاڑ کر دوبارہ کوشش کی۔یقین مانیں میں دوبارہ نہیں گری تھی۔لیکن کزن سے وعدہ لیا تھا کہ بھائی ابھی جب تک میں کچھ ڈھنگ سے نہیں چلا لوں تم بھی اسکوٹی پر بیٹھے رہنا۔ فیلڈ میں دو کتے لیٹے تھے۔کتے مطلب چار پیر والے۔جیسے ہی میں کتوں کے نزدیک پہنچی ان کی آنکھوں میں کچھ خوف سا دیکھا میں نے اور قریب ہوئی اور زیادہ خوف دیکھا پھر اچانک ایک کتا اٹھا اور میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔دوسرے راؤنڈ میں تو ٹھیک چلایا تھا لیکن دوسرا کتا بھی چمپت ہوگیا تھا۔ جس انداز میں اسکوٹی ڈول رہی تھی، دونوں کتوں کو خوب اندازہ ہوگیا تھا کہ ہمارے حق میں آگے چل کر کچھ اچھا نہیں ہونے والا اورادھر ہم دونوں بے تحاشہ ہنس رہے تھے ۔بیچارے کتے اور بھی زیادہ خوف ذدہ ہو گئے تھے۔مجھے بڑا ’’پراؤڈ فیل‘‘ہوا ۔۔پہلی بار کتے مجھ سے ڈرے تھے ورنہ اب تک میں ہی ڈرتی آئی تھی۔
کچھ اور اعتماد بڑھا تو تنہا بھی چلایا میں نے۔بہت مزا آیا۔جب کوئی نئی چیز سیکھنے میں آتی ہے اور کوشش کر کے سیکھ لی جاتی ہے تو خود کا اعتماد بڑھتا ہے۔خوداعتمادی ایسی چیز ہے جو آپ کو مضبوط بنائے رکھتی ہے۔شروع شروع میں تھوڑا ڈر تو لگا تھا لیکن ہمت کرنے سے ڈر بھی جاتا رہا۔ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن میرا بایاں کاندھا کیوں درد کر رہا ہے۔۔اوہ ۔۔ہاں۔خوب یاد آیا اسکوٹی چلاتے ہوئے بائیں جانب سے ہی زمیں بوس ہوئی تھی میں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۱