عالمی و ملکی منظر نامہ

عالمی منظر نامہ

پاکستان کامعاشی بحران

پاکستان پچھلی کئی دہائیوں سے معاشی بحران کا شکار ہے۔ گذشتہ کچھ مہینے مزید خسارے میں گۓ۔ IMF یعنی international monetary fund سے قرض کے سلسلے میں پاکستان کی بات چیت جاری تھی۔ یہ معاہدہ جون کی 30 کو قرار پاگیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کو تین بلین ڈالر کی رقم قریب نو مہینے کے عرصے میں دی جائے گی۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ٹویٹ میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس معاہدے کے متعلق لکھا ہے کہ اس سے پاکستان کی foreign exchange reserve کو تقویت ملے گی اور ملک کی معاشی حالت میں بھی کچھ سدھار نظر آئے گا۔ اس معاہدے کے مطابق قریب نو ماہ کے عرصے میں پاکستان کو تین ملین ڈالر دیا جائے گا، لیکن اس کے ساتھ کئی سخت شرائط بھی لگائی گئی ہیں، جس کی وجہ سے عام لوگوں کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مثلاً: بجلی کی سپلائی میں اب کسی طرح کی چھوٹ نہیں دی جائے گی اور عوام کو پورا بل ادا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اپنے سینٹرل بینک کی طرف سے لگائے گئے درآمدی پابندیوں کو ہٹانا پڑے گا۔ڈالر پاکستانی روپیہ کے مقابلے میں 300 سے بھی زیادہ تک پہنچ سکتا ہے۔ سود کی شرح کو بھی مزید بڑھانے کی پیشکش رکھی گئی ہے، جو کہ فی الحال 22 فی صد پر ہے۔ سود کی شرح پاکستان میں پہلے ہی کافی بڑھی ہوئی ہے، اس کے مزید بڑھوتری سے پاکستان کی معاش پر زبردست اثر پڑے گا۔
قرض کی یہ رقم کیا پاکستان کے لیے کافی ہے؟ اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو جواب نہ میں ہے ،بلکہ یہ شرائط اور قرض پاکستان کو مزید خسارے کی طرف لے جائےگا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 30 جون 2024 ءتک 22 بلین قرض ادا کرنا ہے۔ ایسے حالات میں تین بلین ڈالر کسی طرح بھی پاکستان کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے اکنامک فارم کے چیئرمین لکھتے ہیں کہ اگر ماضی قریب کا جائزہ لیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے۔ آج پاکستان معاشی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ روپیہ اپنی قدر کھوئے جارہا ہے۔ برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ معیشت سست روی کا شکار ہے اور ٹیکس آمدنی میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو اسے سب سے بڑا مسئلہ ادائیگیوں کے خسارہ کا درپیش تھا۔ سابقہ حکومت نے برآمدات پرکوئی توجہ نہ دی جو کہ 2013 ءکے بعد مسلسل گررہی تھیں۔2013ءمیں برآمدات 25ارب ڈالر تھیں جوکہ 2017 ءمیں کم ہو کر صرف21 ارب ڈالر رہ گئیں۔ اس طرح بجائے اس کے کہ برآمدات بڑھتیں وہ کم ہوگئیں۔ اگر برآمدات صرف15فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھتیں تو2018 ءتک یہ کم از کم 55 ارب ڈالر ہونی چاہیےتھیں۔ اس طرح پاکستان خسارے کے بجائے منافعے میں ہوتا۔
پاکستان میں ایک اور بڑا مسئلہ سرکاری اداروں کا خسارہ ہے۔ افسوس ابھی تک کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ا سٹیل مل اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں خسارے میں ہیں۔ ان تمام اداروں کو فوری طور پر یاتو نجی شعبوں میں دیا جائے یا صوبوں کے حوالے کردیا جائے۔اس طرح تقریباً100 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح خسارے میں چلنے والی تقسیم کار کمپنیوں کے بجائے منافع والی کمپنیوں کے نجی شعبے کو دیا جارہا ہے۔ اس طرح سے معاملات حل نہیں ہوسکتے۔ پاک میں جرأت مندانہ اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ فوری طور پر ڈیم بنائے جائیں۔ خاص طور پر وہ جو کہ سب سے جلدی اور کم رقم میں بن سکتے ہوں۔
معیشت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ،اسے سیاسی طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رہے کہ پاکستان ایک بہت ترقی پذیر معیشت رہا ہے، لیکن صرف سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے آج تباہ حال معیشت کا حامل ہے۔اگر اب بھی پاکستانی لیڈروں نے اپنی معیشت کو سنجیدگی سے اور جرأت مندی سے نہ چلایا تو حالات بگڑسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ کوئی بھی ملک ایسے حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آج بنگلہ دیش اور ویت نام بھی پاکستان سے آگے ہیں ۔ کل اور بہت سے ممالک بھی ترقی کی دوڑ میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ اس لیے معاشی سنجیدگی کی اشد ضرورت ہے۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے خطرات

اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) ٹیکنالوجی کی دنیا میں بہت تیز رفتار ی سے ترقی کر رہا ہے۔ اے ائی کیا کیا کر سکتا ہے؟ اے ائی آپ کی ای میلز کا جواب دے سکتا ہے، آپ کی اواز کو 85 فی صدتک نقل کر سکتا ہے، گرافک ڈیزائننگ انسانوں سے بہتر کر سکتا ہے، آپ کا ورچول اسسٹنس بن سکتا ہے، آپ کو صحت کے حوالے سے مشورہ دے سکتا ہےوغیرہ وغیرہ۔
اس کی پہنچ کہاں تک جانے والی ہے اس کا فی الحال تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اے آئی کی یہ ترقی پھر سے دنیا میں ایک بڑا انقلاب برپا کرنے والی ہے۔ اس کے اثرات جاب مارکیٹ، اسکول ،کالج سیاسی نظام، جنگی تکنیک، طبی شعبہ، گویا کہ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر پڑنے والے ہیں۔ پچھلے پانچ سے سات سالوں سے اے آئی پر کام جاری ہے۔
عوامی سطح پر اس کا پہلا ٹول چیٹ جی پی ٹی ہے جسے نومبر 2022 ءمیں لانچ کیا گیا ہے۔ لانچ ہونے کے محض کچھ ہی دنوں میں یہ دنیا بھر میں مقبول ہو گیا۔ایک ریکارڈ کے مطابق نیٹ فلکس کو قریب ساڑھے تین سال لگے تھے ایک ملین صارفین تک پہنچنے میں،ٹویٹر کو دو سال ،فیس بک کو 10 مہینے، انسٹاگرام کو ڈھائی مہینے، جبکہ chatGPT کو ایک ملین لوگوں تک رسائی حاصل کرنے میں صرف پانچ دن لگے۔ اس کی وجہ آپ خود اس کے فری ورژن 3.5 کو استعمال کر کے لگا سکتے ہیں۔
حالیہ کچھ مہینوں کی ریسرچ اور اس کے تاثرات دیکھتے ہوئے لوگوں میں ایک قسم کی بے چینی پیدا ہو گئی ہے، ایک خوف پیدا ہو گیا ہے کہ اے آئی ان کی نوکریوں کو ختم کر دے گا۔ یہ خوف صرف یہیں تک نہیں ہے بلکہ اے آئی کی بڑھتی ہوئی ترقی مزید خطروں کی علامت ہے۔ اقوام متحدہ نے عالمی امن و تحفظ پر مصنوعی ذہانت کے اثرات پر اپنی پہلی میٹنگ منعقد کی۔ فارن سیکرٹری جیمس کلیوری اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یقینا اے آئی ہماری موجودہ ٹیکنالوجی پر تیزی سے اثر انداز ہوگی اور اس کی رفتار کو مزید بڑھا دے گی۔ یہ ہماری طبی تحقیق، آب و ہوا پر تحقیق، موسمیاتی تبدیلی کے تجزیہ کے لیے کار آمد ہے لیکن اسی طرح اس کے منفی اثرات بھی ہم دیکھ سکتے ہیں، جیسے :اے آئی کا استعمال جنگی اسلحہ سازی کے لیے کیا جائے یا پھر منفی طبی ہتھیار اس کے ذریعے بنائے جائیں۔ لہٰذا، ہم سب اقوام متحدہ میں اس پر بحث کریں گے کہ عالمی طور پر ان خطرات سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔ چین کا رویہ اس میٹنگ میں کچھ کھنچا کھنچاسا رہا۔
ایلون مسک نی اے آئی کی ترقی کی رفتار کو کم کرنے کی بات رکھی ہے۔ ایپل کمپنی کے فاؤنڈر اسٹیو وزیناک نے بھی اے آئی تجربوں کو کچھ وقت کے لیے روکنے کی بات کی ہے، کیونکہ یہ سماج کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ آسٹریلیا میں قریب 11 ہزار لوگوں کو اے آئی ٹول کی مدد سے لوٹا کیا گیا۔ ہندوستان میں بھی اے آئی کی مدد سے بہت سارے لوگوں کو پھنسایا گیا، خصوصا ًوائس ریکارڈنگ بھیجی گئی اور پھر پیسوں کا تقاضا کیا گیا۔ کئی سارے لوگ اس میں پھنس گئے اور قریب 50 ہزار سے زائد روپیوں کا نقصان کر بیٹھے۔
اے آئی قریب قریب ہر طرح کی جاب یہاں تک کہ فنی مہارت کا بھی متبادل دے سکتا ہے۔ World economic forumکے مطابق 2025 ءتک لگ بھگ 85 ملین نوکریاں ختم ہو جائیں گی، وہیں امید والی بات یہ ہے کہ اس روبوٹک انقلاب سے 97 ملین نئی نوکریاں بھی ایک سطح پر ابھر کر آئیں گی۔ لیکن ان نوکریوں کے لیے لوگوں کا اے آئی سے واقف ہونا ضروری ہو جائے گا۔ تقریبا ً
سارے ہی شعبے اے آئی skillsکی مانگ کریں گے۔ ایسے میں لوگوں کا اے آئی سے واقف ہونا اور اس کو سیکھنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
اگر ہندوستانی عوام کی بات کی جائے تو 2022 ءکے ریکارڈ کے مطابق لٹریسی ریٹ 77 فی صد ہے۔ جس کا مطلب قریب 23 فیصد لوگ نہ لکھنا جانتے ہیں اور نہ ہی پڑھنا جانتے ہیں۔ National sample survey report مطابق قریب 60 فی صدہندوستانی جن کی عمر 15 سے 29 سال کے بیچ ہے، کمپیوٹر چلانا بھی نہیں جانتے۔ the print کی رپورٹ کے مطابق 75 فی صد ہندوستانی ای میل بھی نہیں بھیجنا جانتے ہیں۔
ایسے حالات میں لوگوں کے بے روزگار ہونے کا تناسب کافی بڑھ جاتا ہے۔ٹیکنیکل انقلاب ہر دور میں لوگوں کی نوکریاں چھینتا رہا ہے۔ جیسے: گاڑی کی ایجاد نے بیل گاڑیوں کو اور گھوڑے گاڑیوں کو ختم کر دیا۔ اے ٹی ایم کی ایجاد نے بینک سے کئی نوکریوں کو ختم کر دیا۔ اسمارٹ فون کی ایجاد نے لینڈ لائن آپریٹر ز کی نوکریوں کو تقریبا ًختم کر دیا۔ لہذا اے آئی سے ڈرنے کے بجائے اس کی واقفیت اور اس کے متعلق جانکاری حاصل کرنا ضروری ہے، تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ اور ہم اس ماحول میں فٹ ہو سکیں ۔

ملکی منظر نامہ

ہندوستان کا چاند پر تیسرا قدم

ہندوستانی خلائی تحقیقی تنظیم (اسرو) نے 14 جولائی کو آندھرا پردیش کے ستیش دھوون اسپیس سینٹر ،سری ہری کوٹا سے چند ریان-3 کو لانچ کیا۔ جو کہ چاند پر سافٹ لینڈنگ کرنے کی دوسری کوشش ہے۔ اسامی سائنس چایان دتہ کی نگرانی میں اس مشن کو لانچ کیا گیا ہے۔ اسروکے سابق گروپ ڈائریکٹر کے مطابق چندریان-3 کی لاگت لگ بھگ 600 کروڑ روپے کے آس پاس ہے ۔ چندریان-3 ایک لیونر لینڈر اور مون روور پر مشتمل ہے ،دونوں کئی سائنسی آلات سے لیس ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق اس دفعہ چند ریان -2 کی ناکامی سے سیکھتے ہوئے کئی طرح کی تبدیلی کی گئی ہے۔ مثلا لینڈر کی ٹانگیں مضبوط کی گئی ہیں ، لینڈنگ ایریا بڑھا دیا گیا ہے ، ایندھن کی مقدار بڑھا دی گئی ہے ، اور سولر پینلز کا سائز بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اضافی سینسر اور کیمرے لگائے گئے ہیں ،تاکہ لینڈنگ پوزیشن کا پتہ آسانی سے لگ سکے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ امریکہ ،روس اور چین کے بعد ہندوستان چوتھا ایسا ملک بننے جا رہا ہے جس نے کامیابی کے ساتھ چاند پر خلائی جہاز اتارا ہے۔ چندریان-3 کو لانچ کرنے کے موقع پر جہاں سائنس داں اور سرکار خوشی اور فخر کا اظہار کر رہے تھے وہاں کئی عام لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ ہندوستان جہاں ابھی بھوک مری اور غریبی باقی ہے، وہاں اتنی لاگت کے مشن کا کیا فائدہ؟ اس سے بہتر تھا کہ ان پیسوں کو عوام کے کاموں میں لگایا جاتا۔ یہ سوال یقینا ًاہم ہے کہ کیا واقعی یہ خلائی مشن اتنی اہمیت رکھتا تھا کہ اس پر کروڑوں روپے صرف کیے جاتے۔ آئیے! اس کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔
ہمارا ملک ہندوستان 1947 ءمیں آزاد ہوا۔ سال 1962 ءمیں وکرم سارا بھائی نے جواہر لال نہرو کو اس بات کے لیے منا لیا کہ ہندوستان کے پاس اپنا خلائی پروگرام ہونا چاہیے اور پھر اس طرح ہندوستان خلائی تنظیم کی بنیاد پڑی اس کا نام Indian national community for space research رکھا گیا تھا۔ کچھ سال بعد 15 اگست 1969 ءمیں اس کا نام ISRO یعنی ہندوستانی خلائی تحقیقی تنظیم رکھ دیا گیا۔ اب یہ باقاعدہ طور پر ایک تنظیم بن چکی تھی، جس کا مقصد تھا کہ خلائی تکنیک کا استعمال ملک کی فلاح کے لیے ہو، خصوصی طور پر سماجی اور معاشی ترقی کے طور پر۔
اسرو اب تک 100 سے زائد خلائی جہاز لانچ کر چکی ہے۔ چندریان-3 کے تناظر میں چند باتیں اہم ہیں۔ ہندوستان نے اب تک چاند پر محفوظ لینڈنگ نہیں کی ہے جبکہ امریکہ، چین اور روس ایسا کر چکے ہیں ،اگر ہندوستان کا یہ مشن کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے بدلے میں وہ NASA کی طرح بڑے بین الاقوامی خلائی منصوبے لے سکتا ہے اور اس پر کام کر کے کروڑوں روپے کما سکتا ہے، جس سے ہندوستان کی معاش میں بہتری آئے گی۔
دوسرا علمی نکتہ یہ ہے کہ چاند کے متعلق بہت سی معلومات ابھی تک دریافت نہیں ہو پائی ہیں۔ چاند کا محض 41فی صد حصہ ہی زمین سے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ باقی حصے ایسے ہیں جہاں سورج کی روشنی بھی آج تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ چندریان-3 چاند کے جنوبی حصے پر لینڈنگ کرے گا ،جس کے نتیجے میں نظام شمسی کے متعلق کئی اہم جانکاریاں ہمیں مل سکتی ہیں۔ قوی امید ہے کہ اگست کے درمیان تک چندریان-3 چاند پر بحفاظت لینڈ کر جائے گا۔

این ڈی اے بمقابلہ انڈیا

2024 ءکے الیکشن کے پیش نظر پورے ملک میں اپوزیشن پارٹیاں متحرک ہیں۔ 17 اور 18 جولائی کی بنگلور میٹنگ میں کانگریس صدر ملکاار جن کھڑگے نے 26 اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتحاد کا اعلان کیا اور اس کو آئی این ڈی آئی اے (Indian National development inclusive alliance) انڈیا کا نام دیا ہے۔ اس سے پہلے کانگریس کے اندر یونائٹیڈ پروگریسو الائنس چلتا تھا۔
بنگلور سے پہلے پٹنہ کی میٹنگ میں 15 پارٹیاں متحد ہوئی تھیں۔ کانگریس صدر نے اس موقع پر مزید کہا کہ ہمارا مقصد اپنے لیے اقتدار حاصل کرنا نہیں ہے۔ ہمارا مقصد ملک میں جمہوریت، سیکولرزم اور سماجی انصاف کا تحفظ ہے۔ آئیے! ہم ہندوستان کو ترقی، بہبود اور حقیقی جمہوریت کی راہ پر واپس لے جانے کا عزم کریں۔
ان 26 جماعتوں میں عام آدمی پارٹی، آر جے ڈی ، سماج وادی پارٹی ،ٹی ایم سی، سی پی آئی ایم اور شیو سینا (ادھو ٹھاکرے) وغیرہ شامل ہیں۔ راہل گاندھی کا بیان اس موقع پر قابل توجہ ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ لڑائی صرف مرکز اور اپوزیشن کے درمیان نہیں ہے، بلکہ انڈیا کے آئیڈیا اور بی جے پی کے آئیڈیا کے مابین ہے۔
اس اتحاد کے چند خصوصی مقاصد ہیں:
1- 2024 ءکے الیکشن میں بی جے پی کو ہرانا.
2- ہندوستانی دستور کی حفاظت کرنا۔
3- جامع ترقی کو فروغ دینا۔
4- ہندوستان کی سیکولر اقتدار کو باقی رکھنا۔
اس اتحاد کو ’’ساموہک سنکلپ ‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ اس میٹنگ میں اقلیتوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ختم کرنے، دلتوں، عورتوں، آدیواسیوں اور کشمیری پنڈتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے اور پچھڑی ہوئی برادریوں کو آگے بڑھائے جانے اور ان کے ساتھ انصاف کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس اہم میٹنگ کے دوران یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ متحدہ جماعتوں میں بہت سی پارٹیاں ایسی ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ موافقت نہیں رکھتی ہیں۔
سیٹوں کی تقسیم اور لیڈروں کے چہرے کو لے کر یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ایک رابطہ کمیٹی بنائی جائے گی، جس کے تحت 11 بڑے لیڈروں کو مختلف پارٹیوں سے چنا جائے گا ،جو مختلف سوال اور ذمہ داریوں کے لیے جواب دہ ہوں گے۔ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جس دن کانگریس اور دیگر جماعتوں نے یہ میٹنگ کی ،
ٹھیک اسی دن بی جے پی نے اپنی متحدہ جماعتوں کے ساتھ ملاقات کی۔
بی جے پی نے اپنے متحدہ جماعتوں کے ساتھ NDA یعنی National democratic alliance کا پھر سے اعلان کیا۔ بی جے پی کے پاس قریب 38 پارٹیاں ہیں۔ جس میں نارتھ ایسٹ کی 11 پارٹیاں شامل ہیں، جبکہ کانگریس کے پاس نارتھ ایسٹ کی ایک بھی پارٹی نہیں ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اس موقع پر اپوزیشن پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک کٹر کرپشن کنویشن ہے۔ یہ خاندانی پارٹیاں ہیں ،جن کا منتر صرف اپنے خاندان کی طرف اور خاندان کے لیے گھومتا ہے۔کچھ پارٹی لیڈروں نے اسے انڈیا اور بھارت کی لڑائی کا نام دے دیاہے۔
انڈیا کانگریس کی طرف سے یقینا ًایک مضبوط قدم ہے، اس سے پہلے بھارت جوڑو یاترا نے بھی کانگریس پارٹی کو ملک بھر میں خاصی مقبولیت عطا کی ہے،لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا الیکشن سے صرف نو مہینے پہلے بنی یہ متحدہ پارٹی این ڈی اے کا مقابلہ کر پائے گی؟ مرکز پر صرف تنقیدیں کرنا کہاں تک الیکشن کی راہ ہموار کرتا ہے؟ مرکز کے کاموں پر سوال اٹھانا یقیناً ضروری ہے،لیکن کیا کانگریس اپنے حصے کا کام کر رہی ہے؟ اور ان مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ کب تک کانگریس کا ساتھ رہے گا؟ ان سب سوالوں کے جواب آنے والے نو مہینوں میں عوام کے سامنے آ جائیں گے۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے ٹویٹ کیا کہ این ڈی اے کی لگے گی لنکا، بجے کا اب انڈیا کا ڈنکا۔ یعنی این ڈی اے کی شکست فاش ہوگی اور انڈیا کا بول بالا ہوگا۔ کانگریس کے کچھ بیانات میں حد سے زیادہ اعتماد اور غرور جھلکتا ہے، وہیں مرکز پر قابض قریب دس سالوں کی حکومت بدلنا آسان کام نہیں ہے۔ ملک کے موجودہ حالات ایک ایسی پارٹی کا تقاضا کرتے ہیں،جن کی فہرست میں ملک کا امن و سکون اور فلاح و بہبود سر فہرست ہو۔ ذاتی مفاد اور اپنی پارٹی سے اوپر اٹھ کر سوچنے والے لیڈر ہوں۔ دیکھتے ہیں 2024 ءکا اونٹ کا کروٹ بیٹھتا ہے۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

1 Comment

  1. شفق ناز تنویر

    5 منٹ میں کافی انفارمیشن ہے اس مضمون ہے.جزاکم اللہ خیر

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے