أكتوبر ۲۰۲۳

ملکی منظرنامہ

  بھارت یا انڈیا

  بھارت یا انڈیا
5 ستمبر کے روز ’’ٹائمس ناؤ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پتہ چلا کہ بھاجپا حکومت ایک ریزولیوشن لائے گی اور انڈیا کا نام بھارت کر دیا جائے گا۔ اس خبر کے بعد سے پورے ملک میں ایک بحث سی چھڑ گئی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ انڈیا کا نام انگریزوں کے ذریعے دیا گیا ہے، لہذا اب وہ ہندوستان کو بھارت بلانا چاہتے ہیں۔ بی جے پی لیڈر ہرناتھ سنگھ یادو کا کہنا تھا ’’انڈیا لفظ ایک گالی ہے جو انگریزوں نے ہمیں دی ہے۔‘‘اسی طرح مشہور کرکٹر وریندر سہواگ نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو بھارتی کہلانا پسند کریں گے۔
لفظ انڈیا کو بدنام کرنے والے صرف یہ دو لوگ نہیں ہیں، بلکہ خود ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ انڈیا نام کا استعمال پی ایف آئی اور انڈین مجاہدین جیسے گروپ نے کیا ہے۔ لہذا اگر اپوزیشن بھی اس نام کا استعمال کرتی ہے تو لوگوں کو سمجھ جانا چاہیے کہ ان کا مقصد کیا ہے۔ کچھ بی جے پی لیڈرز نے انڈیا نام کو خطرناک بتایا تو کسی نے اس نام کو منحوس قرار دیا۔ اس ہو رہی بحث میں بہت سارے لوگ تردد کا شکار ہو گئے کہ آخر ہندوستان کا نام کیا ہے؟ اور کیا انڈیا نام کو ہٹا کر بھارت نام رکھ دیا جائے گا؟
دستور ہند کے پہلےآرٹیکل کی پہلی لائن واضح کرتی ہے کہ
India that is Bharat shall be a union of States
جس سے صاف صاف سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے ملک کے یہ دونوں نام ہی دستور میں موجود ہیں۔ انگریزی میں انڈیا اور ہندی میں بھارت۔پورے دستور میں قریب 900 مرتبہ سے بھی زیادہ لفظ انڈیا اور انڈین کا استعمال کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ بحث ہی اپنے آپ میں فضول ہے کہ ہم اپنے ملک کو کیا پکاریں۔دو زبانوں میں الگ الگ نام صرف ہندوستان کے ہی نہیں ہیں بلکہ دیگر ملکوں میں بھی اس کی مثالیں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً چین کو انگریزی میں چائنہ اور چینی زبان میں “Zhongguo” کہا جاتا ہے، جاپان کو انگریزی میں جاپان اور جاپانی زبان میں “Nippon” کہا جاتا ہے۔
دوسری بحث یہ ہے کہ کیا انڈیا نام انگریزوں کے ذریعے دیا گیا تھا؟ جان کے کی کتاب India A History کے مطابق ہریانہ اور پنجاب کے علاقوں کو ’’سپت سندھو‘‘ کہا جاتا تھا اور وہاں کے رہنے والوں کو بھارتی کہا جانے لگا۔ ایران اور مشرق وسطیٰ میں اسے ہپت ہندو کہا جانے لگا، کیونکہ فارسی زبان میںا س کی آواز کو لوگ ہا کی طرح بولتے تھے۔ دھیرے دھیرے یہ علاقہ ہندو اور ہندوستان کے نام سے مشہور ہوا۔ اور پھر یہ ہندو یونان پہنچا تو یونانی لوگ ہا کا استعمال نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس “u” کے لیے کوئی لفظ تھا لہذا انہوں نے Indos بولنا شروع کیا اور اس طرح دھیرے دھیرے یہ انڈیا بن گیا۔
انتہائی افسوسناک ہے کہ آزادی کی 70 دہائی مکمل کرنے کے بعد بھی ہم اس فضول بات کے پیچھے پڑے ہیں کہ ہمارے ملک کا نام کیا ہونا چاہیے؟
کل تک جو حکومت اپنی اسکیمز کے نام انڈیا پر رکھتی آئی ہے مثلا ڈیجیٹل انڈیا، میک ان انڈیا، کھیلو انڈیا وغیرہ۔ اب وہ اسی نام سے نفرت کرنے لگی ہے اور اس کو بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کے لیے انڈیا کا نام برداشت کرنا اتنا مشکل ہو گیا ہے۔ جواب واضح ہے کہ جب سے اپوزیشن میں اپنی متحدہ گروپ کا نام انڈیا رکھا ہے، تب سے الیکشن کے پیش نظر مودی حکومت اسے بدنام کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے، دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ چناؤ سے پہلے بڑے مسائل سے عوام کا دھیان ہٹانے کے لیے اور انھیں ایک چھوٹے مسئلے میں الجھانے کے لیے اس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ عین ممکن تھا کہ اپوزیشن اگر بھارت نام کا استعمال کرتی تو شاید حکومت اس نام کو بھی اسی طرح بدنام کرنے کی کوشش کرتی۔

 کوٹہ اور خودکشی

 29 اگست 2023، مئو اتر پردیش کی رہنے والی 17 سالہ طالبہ نے زہر کھا کر کوٹہ کے ایک کوچنگ سینٹر میں خودکشی کر لی۔ لڑکی NEET امتحان کی تیاری کر رہی تھی اور کم نمبروں کے ساتھ کم حاضری سے بھی پریشان تھی۔ یہ پچھلے 9 مہینے میں 26واں مبینہ خود کشی کا کیس ہے۔ ہندوستان کی مغربی ریاست راجستھان کا شہر ’’کوٹہ‘‘ ملک کے ’’کوچنگ کیپیٹل‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ہر سال لگ بھگ لاکھوں بچے کوٹہ میں آتے ہیں اور اپنے ساتھ ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا خواب لاتے ہیں۔مقامی افراد کے مطابق کوٹہ میں کوچنگ کلچر 1980 ءکی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب ’وی کے بنسل‘ نامی ایک مقامی انجینیئر نے اپنی کمپنی بند ہونے کے بعد طلبہ کو داخلہ امتحانات کے لیے پڑھانا شروع کیا۔ان کے ایک طالب علم نے آئی آئی ٹی کے لیے کوالیفائی کر لیا، جس کے نتیجے میں مزید طلبہ ان سے ٹیوشن لینے آئے اور دھیرے دھیرے یہ معمولی ٹیوشن سینٹر کوچنگ انسٹیٹیوٹ کی ایک چین میں تبدیل ہو گئی اور ملک گیر شہرت کی حامل ہوئی۔
کوٹہ کے ایڈیشنل سپریٹنڈنٹ آف پولیس اور اسٹوڈنٹ ہیلپ سیل کے سربراہ ٹھاکر چندرشیل کا کہنا ہے کہ اس شہر میں واقع تقریباً 3500 ہاسٹلز مقامی حکام کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور تقریباً 40 ہزار سے زیادہ ’پئینگ گیسٹ اکوموڈیشنز‘ ہیں۔ ایک ارب سے زیادہ آبادی والے ملک میں، جہاں اچھے روزگار کے مواقع نسبتاً کم ہیں، والدین اور طلبہ ان امتحانات کو اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے سب سے زیادہ قابل عمل ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ قریب 50 فیصد بچے بہار سے 30 فیصد اتر پردیش سے اور 20 فیصد دوسری ریاستوں سے کوٹہ آ کر بس جاتے ہیں۔ لیکن ان امتحانات میں اعلیٰ مسابقت کی سطح کی وجہ سے بہت سے طلبہ ان متحانات میں کامیاب نہیں ہو پاتے یا انھیں امتحانات سے قبل ہی یہ خوف ہوتا ہے کہ وہ کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے، جس کے نتیجے میں کچھ طلبا خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھاتے ہیں۔
2023 ءاب تک ہو رہی خودکشی کے سارے ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ حالات سے نمٹنے کے لیے راجستھان کے ڈی جی پی امیش مشرا نے جون کےمہینے میں 11 پولیس افسروں کی ایک ٹیم بنائی، جس میں چھ عورتوں اور پانچ مردوں کو چنا گیا۔ پولیس راجستھان میں اب تھیراپسٹ کا کام کرنے لگی ہے۔ یہ کمیٹی روزانہ کوچنگ سینٹرز میں جا کر خطرے سے قریب بچوں کی شناخت کرتی ہے، بچوں کے درمیان ہیلپ لائن نمبر بانٹتی ہےاور اس پر آ رہی کال کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔
ان بچوں کی کاؤنسلنگ کروائی جاتی ہے اور انھیں کسی بھی حتمی فیصلے سے روکا جاتا ہے۔ سرکار نے مزید تبدیلی کرتے ہوئے ان بچوں کے لیے اتوار کے روز کو پوری طرح تفریح کا دن بنا دیا ہے۔ یوگا کلاسز کے ساتھ موسیقی کو بھی ان کے نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ٹیسٹ پر دو ماہ کے لیے پابندی لگا دی گئی ہے، کھڑکیوں پر لوہے کی سلاخیں لگوائی گئی ہیں، جبکہ چھت کے پنکھوں پر سپرنگ لگا دیا گیا ہے اور ہاسٹل بلڈنگ وغیرہ میں اینٹی سوسائیڈل نیٹ لگا دیے گئے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ سب بڑھتے کیسز کا حل ہیں؟
اگر NEET اور جے ای ای کے سیٹس کی بات کی جائے تو قریب آٹھ لاکھ جے ای ای کے امتحان دینے والے بچوں کے لیے 57 ہزار سیٹس موجود ہیں، جبکہ قریب 20 لاکھNEET کے امتحان دینے والے بچوں کے لیے ایک لاکھ سیٹس موجود ہیں۔ اس میں والدین کا بچے پر زیادہ نمبرات لانے کا دباؤ بھی ہوتا ہے۔ کچھ بچے ناکامی سےڈر جاتے ہیں اور کچھ گھر والوں کی دوری سے ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کوٹہ میڈیکل کالج کے ماہر نفسیات بی ایس شیخاوت کا کہنا ہے کہ ان طلبہ پر بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے۔ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ دن میں 16 گھنٹے تک مطالعہ کریں۔ بہت سے بچے اس قابل نہیں ہوتے ہیں۔
قابلِ غور ہے کہ کیا اگر یہ لاکھوں بچے ان معیارات پر پورا اتر بھی جائیں تو کیا ان کا مستقبل ویسا ہو سکتا ہے جس کی امید لیے یہ آتے ہیں، ہزاروں کی سیٹ میں لاکھوں بچے کسی طرح داخلہ نہیں لے سکتے، اصل مسئلہ ہمارے یہاں میڈیکل اور انجنیئرنگ کالج میں سیٹس کو بڑھانے کا ہے۔حفاظتی اقدامات محض ایک ٹوٹی ہوئی ہڈی کو گرم سینک دینے جیسا ایک عمل ہے،جس سے وقتی راحت تو ملتی ہے لیکن ہڈی جڑ نہیں پاتی اور جسم مفلوج رہتا ہے۔

 جی20- : ہندوستان کی سربراہی میں

ہندوستان کے پاس اس دفعہ G20 کی صدارت رہی۔ 9 اور 10 ستمبر کو دہلی میں اس کے اجلاس منعقد ہوئے۔ ایک طرف اسے ہندوستان کی کامیابی سمجھا جا رہا ہے، تو وہیں دوسری طرف ہندوستان کو اپنے پریس کے حوالے سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ جی 20 کیا ہے؟ جی20 یعنی گروپ آف 20، دنیا کی بڑی معیشتوں کی ایک تنظیم ہے۔ اس کے پس منظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 1973ءمیں تیل کی بحران کی وجہ سے دنیا معاشی بدحالی سے پریشان تھی، خصوصا ًیورپی اور امریکی ممالک تب ان ممالک کو اندازہ ہوا کہ اس معاشی بحران کا سامنا مل کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ان ملکوں کے وزیر معاشیات نے امریکہ کے وائٹ ہاؤس میں کچھ غیر رسمی ملاقاتیں کیں ۔ قریب دو سال کے بعد متحدہ امریکہ ،فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے وزیر خزانہ آپس میں ملے اور پھر اٹلی اور جاپان کو بھی شامل کیا گیا، اس طرح یہ گروپ آف6 بن گیا۔ 1975 ءمیں پہلی دفعہ جی6 کی میٹنگ ہوئی۔ اگلے سال کینیڈا نے اس گروپ کو جوائن کر لیا اور اس طرح یہ گروپ آف7 بن گئے۔ گزرتے سالوں کے ساتھ ان ممالک کو یہ اندازہ ہوا کہ عالمی معاش کو بحران سے بچانے کے لیے دیگر ممالک کا ساتھ بھی ضروری ہے ۔
معاشی استحکام کے لیے 26 ستمبر 1999 ءکو یہ جی7، جی20 بن گیا یعنی اس وقت دنیا کے جتنے ابھرتے معاشی ممالک تھے، انہیں اس کا حصہ بنایا گیا۔ اس گروپ کا بنیادی مقصد معاشی استحکام تھا، لیکن دھیرے دھیرے ان ممالک کو اندازہ ہوا کہ معاشی استحکام کے لیے دیگر عناصر بھی برابر توجہ کے حقدار ہیں مثلاً موسمیاتی تبدیلی، انسداد دہشت گردی اور دیگر عالمی مسائل۔دنیا بھر سے ہر براعظم سے ممالک کو ان کے معاش اور آبادی کی بنا پر جی20 میں شامل کیا گیا ہے۔ ان ہی بیس ممالک سے علمی سطح پر 85 فیصد GDP آتا ہے، عالمی تجارت کا 75 فیصد حصہ ان کے پاس ہے اور دنیا کی 70 فی صد آبادی بھی ان ہی ممالک کی شہری ہے۔ لہٰذا اس سے اس گروپ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

 جی20- : ہندوستان کی صدارت میں

جی-20 کے صدر کے طور پر انڈیا نے بنگلہ دیش، مصر، نائجیریا، متحدہ عرب امارات، عمان، سنگاپور، نیدر لینڈز، سپین اور ماریشس کو بھی مہمان کے طور اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ اجلاس نوتعمیرشدہ بین الاقوامی کنونشن سینٹر’ ’بھارت منڈپم‘‘ میں منعقد کیا گیا۔
جی-20 کے سربراہی اجلاس کو اس وقت کامیاب مانا جاتا ہے جب اجلاس کے اختتام پر اتفاق رائے سے مشترکہ بیان جاری ہو۔ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ذمہ داری میزبان ملک کی ہوتی ہے۔ اس وقت یوکرین کی جنگ کے سوال پر روس اور چین ایک طرف اور مغربی ممالک دوسری جانب کھڑے ہیں۔ان حالات میں دلی کے سربراہی اجلاس میں مشترکہ بیان کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا وزیرِ اعظم نریندر مودی کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا ، لیکن ہندوستان نے اپنی سربراہی میں اس کو کامیابی کے ساتھ حاصل کرلیا ہے۔
یوکرین اور روس کی جنگ کو غیر محسوس طریقے سے پیش کیا گیا، ساتھ ہی چین کے Belt and road initiative کو کاؤنٹر کرتے ہوئے ایک میگھا ریل اینڈ شپنگ پروجیکٹ کا اعلان کیا گیا ہے، جو کہ ہندوستان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب ، جارڈن ، اسرائیل ہوتے ہوئے یورپی یونین تک جائے گی۔ امریکی صدر بائیڈن نے اسے ایک گیم چینجنگ انویسٹمنٹ بتایا ہے مگر ایسے کثیر سالہ، کثیر حکومتی اور کثیرالقومی منصوبے کو انجام تک پہنچانا ناممکن سا لگتا ہے، لیکن چین کے انتہائی قدم کو روکنے کے لیے یہ تمام ملکوں کے لیے ناگزیر ہے۔
کانگریس صدر ششی تھرور نے نے ہندوستان کی کامیابی پر کہا’’ دہلی اعلامیہ بلاشبہ ہندوستان کی سفارتی فتح ہے۔ یہ ایک اچھی کامیابی ہے کیونکہ جب تک جی 20 سربراہی اجلاس بلایا جا رہا تھا، وسیع پھیلاؤ کی توقع تھی کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوگا، اور اس وجہ سے ایک مشترکہ بات چیت ممکن نہیں ہوسکتی ہے۔‘‘ ہندوستان نے میزبانی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ پر ان سب چمک دمک کے پیچھے ہندوستان میں ہورہے اقلیتی برادری پر ظلم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر نام لیے بغیر امریکی صدر جو بائیڈن کہتے ہیں’’ہم لوگوں کے خلاف مذہبی منافرت کی تمام کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں، بشمول مذہبی علامات اور مقدس کتابوں کے خلاف۔‘‘
مودی حکومت نے جو بائیڈن کو پریس کانفرنس کرنے سے روکا۔ نہ صرف ایک بار بلکہ ان کے کہنے پر بھی ان کو پریس کانفرنس کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہندوستان کے لیے افسوسناک ہے کہ بائیڈن نے پریس کانفرنس کی، مگر جمہوریہ ہند میں نہیں بلکہ ایک غیر جمہوری کمیونسٹ ملک ویتنام میں۔انھوں نے کہا ’’ میں ایک بار پھر وزیر اعظم مودی کی قیادت اور ان کی مہمان نوازی اور G20 کی میزبانی کے لیے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جیسا کہ میں ہمیشہ کرتا ہوں، میں نے انسانی حقوق کے احترام کی اہمیت اور مودی کے ساتھ ایک مضبوط اور خوشحال ملک کی تعمیر میں سول سوسائٹی اور آزاد پریس کے اہم کردار کے مدعے کو اٹھایا ہے۔‘‘
ایک کامیاب عالمی صدارت کرنے کے بعد دوسری طرف اپنے ہی ملک کے امن و سکون کا خیال نہ رکھ پانا شرمناک ہے۔ ہندوستان کو سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا شرف حاصل ہے، لیکن اگر یہیں میڈیااور پریس کو آزادی نہیں ملتی، یہاں کی اقلیت امن و آزادی کے ساتھ زندگی نہیں گزار پاتی، پھر کس بنا پر اس ملک کو عالمی سطح پر چین کے بالمقابل اہمیت یا فوقیت دی جائے؟

عالمی منظرنامہ

 مراکش میں زلزلہ

 8ستمبر، جمعے کی رات کو مراکش کے وسط میں واقع صوبہ الحوز میں ریکٹرا سکیل پر 6.8 کی شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا مرکز مراکش کے جنوب مغرب میں 71 کیلومیٹر’ ’ہائی اٹلس ماؤنٹینز‘‘ پہاڑوں میں تھا۔ اس زلزلے کی گہرائی 18.5 کیلومیٹر تھی۔زلزلہ مقامی وقت کے مطابق رات 11:11 منٹ پر آیا۔ اس زلزلے کے 19 منٹ بعد 4.9 کی شدت کا آفٹر شاک آیا۔جانتھن ایموس کے مطابق وسطی مراکش میں آنے والا 6.8 شدت کا زلزلہ 1900 سے پہلے اس علاقے میں آنے والا سب سے خطرناک زلزلہ ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مراکش کے جنوبی علاقے اس زلزلے میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں موجود متعدد دیہات مکمل طور پر تباہ ہو چُکے ہیں۔ مراکش کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ وسطی مراکش میں 6.8 شدت کے زلزلے سے زیادہ تباہی پہاڑی علاقوں میں ہوئی ہے، جہاں پہنچنا مشکل ہے۔ مراکش کے سینیٹر اور سابق وزیر سیاحت لحسن حداد نے بی بی سی کو بتایا کہ دور دراز دیہاتوں میں ہائی اٹلس پہاڑوں کے مشکل علاقے کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں مشکل پیدا ہوئی ہے۔یہاں موجود عمارتیں کئی صدیاں پرانی ہیں اور ان میں سے کچھ پہاڑوں پر بنی ہوئی ہیں۔اس کے باوجود امدادی ٹیمیں بشمول فوج نے اہم کردار ادا کیا ہے اور اب تک وہ کئی دیہاتوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
وہاں پہنچ کر وہ جیسے ہی ملبے کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، انھیں متاثرین مل رہے ہیں، لاشیں مل رہی ہیں۔حکومت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس تباہ کن زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد 2,901 اور زخمیوں کی تعداد 5530 ہو گئی ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز (آئی ایف آر سی) نے منگل کو مراکش میں زلزلے کے متاثرین کی مدد کے لیے 112 ملین امریکی ڈالر کی ہنگامی اپیل کی ہے۔ آئی ایف آر سی کے آپریشنز کے عالمی ڈائریکٹرکیرولین ہولٹ نے جنیوا میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس وقت سب سے بڑی ضروریات پانی، صفائی ستھرائی اور پناہ گاہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم تباہی کی دوسری لہر سے بچیں۔ اسپین، برطانیہ، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے امداد پیش کی گئی۔ حالات اب بھی بہتر نہیں ہیں، ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، متاثرین اپنے اہل و عیال کی موت پر افسردہ ہیں اور اس بھیانک تجربہ سے اب تک خوفزدہ ہیں۔ ایک اسکول ٹیچر جنھوں نے اس زلزلے میں اپنے 32 طلبہ (جو کہ 6 سے 12 سال کی درمیانی عمر میں تھے) کھو دیے ،کہتی ہیں :’’ لوگ مجھے خوش نصیبوں میں سے ایک سمجھتے ہیں کہ میری جان بچ گئی، لیکن میں نہیں جانتی کہ اس سب کے بعد میں اپنی زندگی کیسے گزاروں گی۔‘‘

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے