دھارمک چوڑیاں
’’چوڑیاں…..! رنگین کھنکتی چوڑیاں…..!‘‘
اس آواز نے اسکول سے واپس آتی پوجا کے قدموں کو باندھ لیا۔وہ رک کر ٹھیلے پر سجی کانچ اور میٹل کی خوبصورت اور رنگ برنگی چوڑیوں کو دیکھنے لگی۔اس کی بڑی بڑی آنکھیں چوڑیوں کی رنگت سے چمکنے لگیں۔اسے اپنی ننھی کلائیوں میں کانچ کی چوڑیوں کو پہننے کا بہت شوق تھا۔ان کی کھنک اسے کسی اور ہی جہاں میں لے جاتی تھی۔مگر جب سے پتا جی گزرے تھے، تب سے اس کے پاس پیسے ہی نہیں ہوتے تھے کہ وہ انہیں خرید سکے۔
’’ چوڑیاں لینی ہیں؟‘‘ چوڑی والے نے اسے محویت سے چوڑیوں کو تکتا پا کر پوچھ ڈالا۔
’’ہاں،مجھے اچھی لگتی ہیں۔‘‘اس نے کہا۔
’’تو لے لو۔جو اچھی لگ رہی ہیں۔‘‘
’’مگر بھیا میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘‘اس نے اداس ہو کر کہا۔
چوڑی والے کو اس کے لہجے میں حسرت نظر آئی۔
’’جو تمہیں پسند ہوں وہ لے لو۔جب پیسے ہوں تب دے جانا۔‘‘
اس کی اس بات پر پوجا کا چہرہ چمکتی ہوئی چوڑیوں کی مانند دمکنے لگا۔
’’سچ مچ لے لوں؟آپ میرے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہے ہیں نا؟‘‘
’’ہاں…..ہاں لے لو گڑیا۔‘‘ چوڑی والے نے مسکرا کر کہا۔
’’میرا نام پوجا ہے اور میں دوسری کلاس میں پڑھتی ہوں۔‘‘وہ پر شوق نظروں سے ‎ چوڑیوں کو دیکھتی ہوئی بولی۔اور تھوڑی دیر میں کانچ کی سرخ چوڑیاں اس کی کلائیوں میں سج گئی تھیں۔اس نے دونوں ہاتھ ہلا‎ئے اور چوڑیوں کی کھنک کے ساتھ پوجا کی کھل کھلاتی ہنسی ہم آہنگ ہو گئی۔اس کے چہرے پر خوشی کے رنگ دیکھ کر چوڑی والے کو انجانی سی طمانیت کا احساس ہوا تھا۔
ایک ہفتے کے بعد پوجا کو دوبارہ وہی چوڑی والا مل گیا۔آج وہ اپنی ماں سے کچھ پیسے لے کر آئی تھی۔
’’بھیا!آپ کے پیسے۔‘‘
’’نہیں گڑیا!تم نے مجھے بھیا کہا ہے نا ،تو بہنیں بھائی کو پیسے دیتی ہیں کیا؟‘‘
’’اور اگر مجھے اور چوڑیاں لینی ہوں تو؟وہ گلابی والی؟‘‘اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’تمہیں جو بھی پسند ہیں، وہ لے لو۔‘‘
’’میری دیدی کو بھی چوڑیاں اچھی لگتی ہیں۔‘‘اس نے معصومیت سے کہا۔
’’اپنی دیدی کے لیے بھی لے جاؤ۔‘‘
’مگر انہیں میری لائی ہوئی چوڑیاں اچھی نہیں لگیں گی۔کیا آپ ہمارے گھر کی طرف آئیں گے؟‘‘ اس نے امید بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’کدھر رہتی ہو تم؟‘‘
’’میں جوگا بائی میں رہتی ہوں۔وہاں جو پانی کی بڑی سی ٹنکی لگی ہے، وہیں ہمارا گھر ہے۔‘‘
’’اچھا…..‘‘ چوڑی والا کچھ سوچنے لگا۔’’میں کل آ جاؤں گا۔‘‘
’’تھینک یو بھیا۔‘‘پوجا کی آنکھوں میں خوشی رقص کرنے لگی۔اپنی پسند کی گلابی چوڑیاں کلائی میں ڈالنے کے بعد اس نے اپنے بستے سے ایک پرانی گھڑی نکالی۔‘‘ یہ میری طرف سے آپ کے لیے اپہار(تحفہ) ہے۔‘‘
اس کے بے لوث جذبے اور پر خلوص تحفے کو دیکھ کر چوڑی والا بہت متاثر ہو گیا تھااور اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے اگلے دن وہ جوگا بائی پہنچ گیا۔
’’چوڑیاں…..! رنگین کھنکتی چوڑیاں…..!‘‘ اس نے پانی کی ٹنکی کے پاس جا کر آواز لگائی۔اس کی ایک آواز پر پوجا اپنی دیدی کا ہاتھ تھامے دوڑی آئی تھی۔
’’دیکھا میں نے کہا تھا نا دیدی کہ چوڑی والے بھیا ضرور آئیں گے۔‘‘اس کے ہر عضو سے مسرت جھلک رہی تھی۔ چوڑی والا اس کی بات پر مسکرا دیا۔
اس کی دیدی شاردا ٹھیلے پر سجی چوڑیاں دیکھنے لگی اور کافی دیر کے بعد اسے ایک ملٹی کلر چوڑی پسند آئی۔
’’بس یہ والی چوڑیاں مجھے پہنا دو۔‘‘اس نے اپنی دائیں کلائی آگے کی۔
’’میں؟‘‘وہ ہچکچایا۔
’’ہاں بھئی۔ تم کیسے چوڑی والے ہو، تمہیں چوڑیاں پہنانی نہیں آتیں؟‘‘
اسنے جھج ھکتے ہوئے اس کی دائیں کلائی میں چوڑیاں ڈالیں اور بائیں میں ڈال ہی رہا تھا کہ یکدم کسی نے اس کا گریبان پکڑ کر پیچھے کھینچا۔
’’کون ہے بے تو؟پہلے کبھی ادھر نہیں دیکھا؟‘‘
دو تین غنڈے ٹائپ لوگوں کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔
’’کیا نام ہے تیرا؟‘‘ان میں سے ایک نے اس کے کالر کو جھٹکا دیتے ہوئے پوچھا۔
’’مم……محمد سلیم۔‘‘وہ ہکلایا۔
’’ادھر ہمارے علاقے میں کیا کر رہا ہے؟‘‘
’’بھائی معاف کر دو۔پہلی دفعہ ادھر آیا ہوں۔‘‘
’’ابے تیری ہمت کیسے ہوئی ادھر ہمارے محلے میں آ کر چوڑیوں کے بہانے ہماری لڑکیوں کو چھیڑنے کی؟‘‘اس سے بازپرس کرتے ہوئے آدمی نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا۔
’’بابو جی،غریب آدمی ہوں۔بس ادھر چوڑیاں بیچنے آیا تھا۔قسم کھاتا ہوں کہ دوبارہ نہیں آؤں گا۔‘‘وہ دونوں ہاتھ جوڑے رحم کی بھیک مانگنے لگا۔
پوجا اور شاردا یہ صورت حال دیکھ کر خوف زدہ ہو گئیں۔شاردا نے چوڑی والے کے حق میں صفائی دینے کی بہت کوشش کی، مگر بپھری ہوئی بھیڑ کے سامنے اس کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔
’’ملّے پاکستانی!آج تیرا وہ حال کروں گا کہ دوبارہ کسی ہندو محلے میں گھسنے کی ہمت نہیں ہوگی ۔‘‘دوسرے شخص نے کہتے ہوئے اس کا ٹھیلا الٹ دیا۔رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں چھن چھن کر ٹوٹنے لگیں۔سڑک پرکانچ کے ٹکڑے ہی ٹکڑے بکھر گئے۔
’’آؤ بھائیو!اس پن کے کام میں حصہ لو۔مارو اس ملّے کو…….‘‘
پوری بھیڑ اس کے اوپر تھپڑ،گھونسوں اور لاتوں سے پل پڑی تھی۔
شاردا، پوجا کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتی گھر کی جانب لے جا رہی تھی۔
’’دیدی!یہ لوگ چوڑی والے بھیا کو کیوں مار رہے ہیں؟‘‘پوجا نے روتے ہوئے سوال کیا۔
’’کیونکہ وہ مسلمان ہے اور ہمارے محلے میں گھس آیا تھا۔‘‘
’’مگر اسے تو میں نے ہی یہاں بلایا تھا۔اور مسلمان ہونے سے کیا ہوتا ہے دیدی؟‘‘
اس کےاس سوال کا شاردا کے پاس جواب نہیں تھا۔
پوجا نے آنسو بھری آنکھوں سے گردن موڑ کر لہو میں نہائے سلیم کو دیکھا۔
’’کیا چوڑیاں بھی ہندو مسلمان ہوتی ہیں دیدی؟‘‘وہ بھولے پن سے پوچھ رہی تھی۔اور شاردا سوچ میں پڑ گئی تھی کہ کیا واقعی ان چوڑیوں کا بھی دھرم ہوتا ہے؟

تھوڑی دیر میں کانچ کی سرخ چوڑیاں اس کی کلائیوں میں سج گئی تھیں۔اس نے دونوں ہاتھ ہلا‎ئے اور چوڑیوں کی کھنک کے ساتھ پوجا کی کھل کھلاتی ہنسی ہم آہنگ ہو گئی۔اس کے چہرے پر خوشی کے رنگ دیکھ کر چوڑی والے کو انجانی سی    طمانیت کا احساس ہوا تھا۔

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Sadiya mahimi

    Aaj bhi hum mei se kai log hai jo aisa farq karte hai gulab ka phool musalmano ka hai to gende ka phool hindu kaa bhagwa hindu ka rang hai to hara musalmano aisa kab tak ye farq humko mita ne ki koshish karna hsi kiu new generation ko India mei aisa dekhne mil sakta hai mei khud dekh chuki hu…

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ٢٠٢١