غزل
تخم الفت قلب انساں میں کوئی بونے کو ہے
معجزہ شاید کوئی پھررونما ہونے کو ہے

شام کے کاندھے پہ دن بھی ڈھلتے ڈھلتے ڈھل گیا
رات کی باہوں میں سورج تھک کےپھر سونے کو ہے

تیز رو رہوار ناہموارو پیچیدہ تھی راہ
گرد کی اس دھند میں پھر راستہ کھونے کو ہے

اک دیوانہ تھا تلاش منزل مقصود میں
متصل منزل سے رستہ پھرکوئی ہونے کو ہے

یاغبار وقت سے ظاہرہومنزل کا سراغ
یا یہ گردِراہ تقدیر بشر ہونے کوہے

ہیں یہ سب نّظارے اسری ؔ بس فریبِ جستجو
آنکھ کتنی دیر تک بارنظرڈھونے کوہے

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ٢٠٢١