جون ۲۰۲۳
زمرہ : ٹی ٹائم
قصبہ

شملہ میں ایک کانفرنس ہورہی تھی، جس میں مولانا محمد علی جوہر بھی شریک تھے۔گفتگو اردو زبان ہی میں ہو رہی تھی ۔ بات میں کچھ الجھاؤ پیدا ہو گیا تو جوش خطابت میں مولانا نےانگریزی میں بولنا شروع کر دیا اور سب کو لاجواب کر دیا۔ مجلس میں ایک ہندو رانی بھی تھی ۔اس نے جب ایک مولانا کو اتنی شستہ انگریزی بولتے سنا تو ششدر رہ گئی اور پوچھا:’’مولانا! آپ نے اتنی اچھی انگریزی کہاں سیکھی؟‘‘
مولانا نے جواب دیا : ’’میں نے انگریزی ایک بہت ہی چھوٹے سے قصبے میں سیکھی ہے ۔‘‘
رانی نے حیرانی سے پوچھا:’’ کون سے قصبے میں؟‘‘
تومولانا شگفتگی سے بولے: ’’آکسفورڈ میں۔‘‘
جس پر سب کر ہنس پڑے۔

مطالعہ

مطالعہ بھی کسی باعث کی وجہ سے ہوتا ہے، انسان امتحان کے لیے مطالعہ کرتا ہے، درس دینے کے لیے ، خطاب کرنے کے لیے مضمون، مقالہ یا کتاب لکھنے کے لیے مطالعہ کرتا ہے، یہ ایک طرح کا جبری مطالعہ ہے لیکن ایک ہوتا ہے مطالعہ کا ذوق کہ جب کوئی کتاب یا پڑھنے والی چیز نظر آئے تو دل مچلنے لگے کہ اسے دیکھا اور پڑھا جائے، جبری مطالعہ کے ساتھ ذوق بھی شامل ہو تب کام تحقیقی بھی ہوتا ہے اور آدمی اسے مفید سے مفید تر بنانے میں ایک لطف محسوس کرتا ہے۔

ذوق مطالعہ در حقیقت مطالعہ سے لذت پانے کا نام ہے۔یہ ذوق ماحول سے پروان چڑھتا ہے اور ماحول اصحاب ذوق کی صحبت اور رابطے سے بنتا ہے۔ جن معاشروں میں علم و مطالعہ کا ذوق ہو، وہاں عام لوگ سفر کرتے ہوئے کوئی کتاب یا رسالہ پڑھتے ہیں، ہمارے یہاں سفر کی مسافتوں کو گانے سن سن کرطے کیا جاتا ہے۔

نگاه شوق گر میسر نہیں تجھ کو

تیرا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی!

ابن الحسن عباسی

شہد

ہم جب تاریخ میں تھوڑا پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھتے ہیں، اور چودہ سو برس پہلے کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک عجیب اور حیرت کن زمانہ سامنے آجاتا ہے، زمانۂ خلافت میں امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وہ قیادت جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں پائی جاتی، ذرا اس اقتباس پر نظر ڈالیے اور غور کیجیے وہ کیسے لیڈر اور قائد تھے!

’’جب خلافت کی ذمہ داری قبول فرما چکے، تو مسلمانوں کو مسجد نبوی میں جمع کر کے ارشاد فرمایا:

مسلمانو! مجھے تمہارے مال میں اس قدرحق ہے جس قدر کہ یتیم کے سر پرست کو یتیم کے مال میں ہوتا ہے۔ اگر میں دولت مند ہوا تو کچھ معاوضہ نہیں لوں گا۔ اگر تہی دست ہوگیا تو صرف کھانے کا خرچ لوں گا۔ پھر بھی مجھ سے برابر باز پرس کرتے رہنا کہ میں نہ تو بے جا طور پر جمع کروں اور نہ بے جا طور پر خرچ کرسکوں۔

بیماری میں شہد کی ضرورت ہوئی تو مسجد نبوی میں سب کو جمع کر کے درخواست کی کہ اگر آپ لوگ اجازت دیں تو بیت المال سے تھوڑ اسا شہد لے لوں؟

لوگوں نے منظور کیا تو شہد لیا۔‘‘

کتاب: انسانیت موت کے دروازے پر،از:مولاناابوالکلام آزاد

مشورہ

ایک بوڑھا آدمی تربوز بیچ رہا تھا۔ اس نے بورڈ پر لکھ رکھا تھا: 3 روپے کا ایک، 10 روپے کے تین۔

اتنے میں ایک نوجوان آیا، جو پڑھا لکھا لگ رہا تھا۔ اس نے پہلے تین روپے کا ایک تربوز خریدا پھر تین روپے کا دوسرا تربوز خریدا، ایسے الگ الگ الگ کر کے تیسرا بھی 3 روپے میں خریدا۔ جاتے جاتے بوڑھے کی طرف مڑا اور کہنے لگا:’’ شاید اپ کو پتہ نہیں چلا، مگر دیکھیے!میں نے الگ الگ کر کے تربوز خریدا اور 1 روپیہ بچا لیا۔ شاید یہ کاروبار وغیرہ آپ کے بس کی بات نہیں۔ آپ کوئی اور کام دیکھیےاپنے لیے۔‘‘

بوڑھے نے مسکراتے ہوئےکہا:’’آپ جیسے کئی نوجوان روز آتے ہیں۔انھیں ضرورت ایک تربوز کی ہوتی ہے، مگر ایک کی جگہ تین تین خریدتے ہیں اور جاتے ہوئے یہی مشورہ دیتے ہیں ۔‘‘

قابل رشک چور

گر آپ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ پڑھنے والا چوری نہیں کرتا اور چوری کرنے والا نہیں پڑھتا۔تو آپ کو ان کے بارے میں ضرور جانناچاہیے!

یہ ہیں محترم ’’اسٹیفن بلمبرگ‘‘جنھیں دنیا کا سب سے بڑا ’’کتاب چور‘‘ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے تقریبا ً23 ہزار 6 سو کتابیں چرانے کا عالمی خطاب اپنے نام کیا ہے، نیز ان پر یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے 20 ملین ڈالر چوری کرکے کتابوں کی نذر کر دیے ہیں۔

گرفتاری کے بعد مختلف ماہر ین نفسیات کے پاس انھیں لے جایا گیا ،سب نے یہی کہا کہ یہ بائپلومینیا (کتابوں کے پڑھنے کا شوق) نامی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس وجہ سےان کی گرفتاری پر روک لگا دی گئی۔کاش یہ بیماری ہمیں بھی ہو!

(Anchor) اینکر

اینکر کو اُردو میں لنگر کہتے ہیں ،یہ دراصل ایک ایسے اوزار کا نام ہے جو سمندری جہازوں کو لنگر انداز کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اینکر کے ذریعہ بحری جہازوں کو سمندر کے کنارے بحفاظت روکا جاتا ہے۔ یہ اوزار سہ شاخہ ہوتا ہے جو ایک نہایت مضبوط رسّی سے جُڑا ہوتا ہے۔ اُس کی نوکیلی شاخ سمندر کے گہرے حصّے میں جم جاتی ہے، اور لمبی رسّی سے جہاز کو ساحل کے قریب واقع مضبوط فولادی ڈنڈے سے باندھ دیا جاتا ہے۔

اینکرنگ یا اینکر دراصل کھیلوں کے پروگرام میں استعمال کی جاتی تھی۔ کھیلوں کے پروگرام میں عموماً کئی کھیلوں کے مقابلوں کی جھلکیاں دکھائی جاتی تھیں یا کئی کھیلوں کو براہِ راست دکھایا جاتا تھا، اس طرح کے لائیو ٹیلی کاسٹ میں مختلف کھیلوں اور کھیلوں کے بہاؤ کو جوڑنے کے لیے ایک پیش کُنندہ کو متعارف کروایا گیا اور اُسے اینکر کہا جانے لگا۔

یہ اصطلاح اسپورٹس کے شعبہ سے آئی ہے۔آج کل اینکرنگ یا اینکر کے لفظ کا استعمال کئی طرح سے ہونے لگا ہے۔ جدید ٹی وی پروگراموں یا نیوز کی پیشکش میں اینکر کا خوب استعمال ہونے لگا ہے۔ نیوز اینکر، پروگرام اینکر، اسپورٹس اینکر وغیرہ۔

اصطلاحِ اینکر کا استعمال ہر طرح کے پروگرام کے لیے کیا جاسکتا ہے لیکن نیوز، اسپورٹس عالمی نشریات کے لیے یہ اصطلاح نہایت مقبول ہے اور یہاں اس کا رواج عام ہے۔

کتاب:ریڈیو ـ ٹیلی ویژن،از:امتیاز علی تاج

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۳