نکاح میں گواہ، وکیل اور مہر کی حیثیت
مہر عورت کا حق ہے، جس کی ادائیگی مرد پر لازم ہوتی ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
وَآتُواْ النَّسَاء صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃً (النساء: 04)
’’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو۔‘‘
سوال:
نکاح کے سلسلے میں چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
۱۔ نکاح میں گواہ کس کی طرف سے ہوتے ہیں؟ لڑکے والوں کی طرف سے یا لڑکی والوں کی طرف سے؟
۲۔ کیا نکاح میں کسی کو وکیل بنانا ضروری ہے؟
۳۔مہر کس کی طرف سے طے کیا جاتا ہے؟ اس کی تعیین لڑکے والوں کا حق ہے یا لڑکی والوں کا؟
براہِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کی وضاحت فرمادیں۔

جواب:
نکاح کا خفیہ طریقے سے انعقاد جائز نہیں ہے۔ اس موقع پر گواہوں کی موجودگی شرط ہے۔ گواہوں کا مسلمان ، عاقل اور بالغ ہونا ضروری ہے۔ گواہی کے لیے کم از کم دو مرد ہونے چاہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لا نکاح الا بولی وشاھدی عدل (الجامع الصغیر للسیوطی: 9908)
’’ولی اور دو معتبر گواہوں کے بغیر نکاح درست نہیں۔‘‘
اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو کم سے کم ایک مرد اور دوعورتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر ایجاب و قبول کے وقت کوئی مرد نہ ہو، صرف عورتیں ہوں تو نکاح صحیح نہ ہوگا۔ گواہ لڑکے والوں کی طرف سے ہو سکتے ہیں، یا لڑکی والوں کی طرف سے، یا ایک گواہ لڑکے کی طرف سے ہو دوسرا لڑکی کی طرف سے، یا نکاح کے موقع پر موجود اجنبی لوگ بھی گواہ بن سکتے ہیں۔ گواہوں کی شرط اس لیے عائد کی گئی ہے کہ اگر کبھی بعد میں تنازعہ پیدا ہو اور فریقین میں سے کوئی نکاح کا انکار کرے تو یہ گواہ سامنے آکر کہہ سکیں کہ ہماری موجودگی میں یہ نکاح ہوا تھا۔
اگر مرد اور عوت خود اپنانکاح کر رہے ہیں تو ان میں سے کسی کے لیے اپنا وکیل بنانا ضروری نہیں، لیکن اگر وہ خود نکاح نہیں کر رہے ہیں اورکسی دوسرے کو واسطہ بنا رہے ہیں تو وہ ان کی طرف سے وکیل ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص مرد کی طرف سے وکیل بن سکتا ہے اور عورت کی طرف سے بھی۔ وکیل کو چاہیے کہ وہ گواہوں کی موجودگی میں مرد یا عورت (جس نے اسے وکیل بنایا ہے) کی اجازت سے دوسرے کو باخبر کردے، تاکہ قبول کرنے والے کو اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ وہ کس کو قبول کر رہا ہے؟
مہر عورت کا حق ہے، جس کی ادائیگی مرد پر لازم ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

وَآتُواْ النَّسَاءصَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃً (النساء: 04)

’اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو۔‘‘
اس لیے مہر لڑکے، لڑکی اور دونوں کے گھر والوں کی باہمی مشاورت سے طے کرنا چاہیے۔ نہ مہر اتنا زیادہ مقرر کیا جائے کہ لڑکے کی استطاعت سے باہر ہو، نہ اتنا کم رکھا جائے کہ لڑکی اور اس کے گھر والے اسے بہت حقیر سمجھیں۔ بسا اوقات زیادہ مہر اس لیے زیادہ رکھا جاتا ہے، تاکہ اس کے دباؤ میں مرد طلاق نہ دے سکے یہ درست رویہ نہیں ہے۔ مہر کی زیادتی کی وجہ سے اگر شوہر طلاق نہیں دے سکے گا تو بیوی کو رکھ کر اس پر ظلم کرے گا۔

مہر جو بھی طے کیا جائے اسے جلد از جلد ادا کیا جانا چاہیے۔ مہر کی دو قسمیںکرکے (یعنی مہر معجّل، جسے فوراً ادا کیا جائے اور مہر مؤجّل، جسے بعد میں ادا کرنے کا وعدہ کیا جائے) تھوڑی رقم فوراً ادا کرنا اور باقی کو بعد میں ادائیگی کے لیے ٹال دینا درست نہیں ہے۔ مہر اتنا ہی متعین کیا جائے جتنا شوہر آسانی سے فوراً یا جلد از جلد ادا کر سکے۔ مہر جب تک ادا نہ ہو، شوہر کے ذمے بیوی کا قرض ہوتا ہے۔ اسے چاہیے کہ جلد ازجلد خود کو اس کے بوجھ سے آزاد کرلے۔

ویڈیو :

Comments From Facebook

1 Comment

  1. آبش

    اگر لڑکی لڑکے سے نکاح کر چکی ہے نکاح کے وقت لڑکی کا ولی موجود نہیں وکیل مجود ہیں جنہوں نے نکاح پڑھایا ہے اور حق مہر بھی طے کیا ہے. کیا یہ نکاح ہوگیا یا نہیں؟؟

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ٢٠٢١