اسلام ایک اجتماعی دین ہے جو صالح معاشرے کی نشوونما کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔صالح افراد پیدا کرنے کے لیے فرد کو ہمیشہ سرگرمِ عمل رکھتا ہے۔اولاد سے بڑی نعمت والدین کے لیے کوئی نہیں۔یہ اللہ کی امانت ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی امانتیں اہل فرد کے حوالے ہی کرتا ہے۔
والدین اپنی اولاد کے ذمہ دار ہیں ان کی پرورش ، تعلیم و تربیت والدین کی اولین ذمہ تو ہے ہی ساتھ ہی بچے کے خاندان کے قرابت دار اور معاشرہ بھی ذمہ دار ہے ۔کیونکہ بچے کی شخصیت کو نکھارنے میں والدین کے ساتھ ساتھ قرابت داروں اور معاشرے کے دیگر افراد کابھی اہم رول ہے۔ اسلام ایک ذمہ دار معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے۔صالح نسل تیار کرنا مسلم معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
اسلام بچوں کی تربیت و نگہداشت کے متعلق بہت فکر مند ہے کیونکہ وہ اپنی فطرت کے مطابق اسلام پر ہوتے ہیں اور حق و نصرت کی حمایت کے زیادہ قریب ہوتےہیں ۔اسی لیے والدین سے سلیم الطبعی، خدا خوفی، خوش مزاجی کا اسلام تقاضہ کرتا ہے۔ذمہ دار والدین اولاد کو اللہ کی امانت سمجھتے ہوئے ۔روزاوّل سےہی فکر مند رہتے ہیں ۔آپ صالح افراد کی ماؤں کا ذکر پڑھیں کہ ان کی والدہ نے دوران حمل ہی بلند آواز سے قران کریم کی تلاوت کی ہے اس خیال سے کہ ان کا بچہ رحم مادر میں ہی پاکیزہ آوازیں سنیں ۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بچے کے سماعت کے ارتقائی عمل کو والدین جان لیں تو ایک مصروف ترین ماں نو ماہ کے لیے بھی بہتر منصوبہ بندی کرسکتی ہے ۔بچے کی سماعت کے ارتقائی عمل کو سمجھنے سے یہ فائدہ ہوگا کہ آپ یہ طے کرپائیں گے کہ بچہ ابتداء سے پیدا ہونے تک کیا سنے اور کیا نہ سنے ؟ درشت اور سخت لہجے اور تیز آواز سے اجتناب برتا جائے گا۔ زوجین ایک دوسرے کے احترام کی شعوری کوشش کریں گے ۔ ہر فرد حاملہ خاتون کی نفسیات کا خیال رکھے گا ۔
بچے کی پیدائش سے پہلے اکثر مائیں میکے اور سسرال کی جنگ اور شوہر کی بے اعتنائی کو حالتِ حمل میں جھیل رہی ہوتی ہیں۔ اگر ماں کے علاوہ خاندان کے دیگر افراد خوشگوار ماحول رکھنے میں حاملہ کا تعاون کریں گے تو یہ جان لیں کہ پیٹ میں موجود بچے پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ گھر کے جھگڑے، ماں کی نفسیاتی پریشانیاں، الجھنیں،دوران حمل عام بات ہے اس معاملے میں شوہر اور خاندان کے دیگر افراد کا تعاون رہے گا تو حاملہ ماں اپنے لیے کھانے پینے کا نظام الاوقات بچے کا خیال رکھتے ہوئے کرپائے گی کہ کب جاگنا چاہیے؟ کب قرآن کی بلند آواز سے تلاوت سننی چاہیے؟ کون سی غذالینی چاہیے؟
صرف چار ہفتے کے حمل میں انسانی ایمبریو کا دماغ بن چکا ہوتا ہے۔ پانچویں ہفتے میں دماغ کے دونوں اطراف میں دو چھوٹے سے سوراخ(Hole) بن جاتے ہیں۔ یہ کان کے اندرونی حصے کی ساخت کے بننے کا آغاز ہوتا ہے۔
*پہلا اور بارہواں ہفتہ :
حمل کے بارہویں ہفتے میں کاکلیا کے اندر چھوٹے چھوٹے بال اگنا شروع ہوتے ہیں، جنہیں ساؤنڈ ٹرانسمیٹرز کہا جاتا ہے۔ یہ بال کاکلیا کے ساتھ ہی نس (Nerve) میں بھی شفٹ ہونا شروع ہوجاتے ہیں، جو آواز کے سگنل دماغ تک لے جا رہی ہے۔ یہ آواز کے سگنل لے جانے والی نس ہمارے برین کے’’ ٹیمپورل لوب‘‘ میں موجود’’ آڈیٹری کارٹیکس‘‘ کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، جہاں بے معنی شور کو جوڑ کر ایک (process) طریقہ کار سے گزار کر دماغ اس کے معنی اور مخصوص پہچان عطا کرتا ہے۔
یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب بچہ رحم مادر میں سنی گئی آوازوں سے دنیا میں آنے کے بعد بھی مانوس ہونے کا تاثر دیتا ہے ۔ڈسکوری چینل نے تجربے اور مشاہدے پر مبنی ایک پروگرام کیا تھا جس میں بچے کو بارھویں ہفتے سنائی گئی آوازیں جو ایک مخصوص میوزک کی تھی پیدائش کے بعد ان آوازوں سے مانوس پایا ۔
حمل کے تئیسویں ہفتے میں بچہ کوکھ سے باہر کی دنیا میں سے آواز سنتا ہے۔ باہری دنیا کی آوازوں میں سے بچہ پہلے low-pitched ساونڈز سنتا ہے۔ بچے کے کان ان سے مانوس ہونے لگتے ہیں۔ ماں سے جڑے افراد جس میں والد محترم کی بھی آوازیں شامل ہیں۔والد محترم کی طرزِ گفتگو (way of communication) کو بچہ ماں کے پیٹ میں سنتا ہے۔ گھر میں وہ ماں کی آواز سے پہلے باپ کی آواز سنتا ہے۔
یا کوئی بھی مردانہ آواز، بلند آواز گفتگو بچے کو ماں کے اندرون میں بہت ہلکی سنائی دیتی ہے۔ جیسے کہ وہ بلی کی آواز نہیں سن سکتا، لیکن کتے کے بھونکنے کی آواز سن سکتا ہے۔ مگر جیسے جیسے کانوں اور دماغ کے درمیان رابطے میں بالیدگی ( mature communication)پیدا ہوتی ہے وہ ماں کی آواز بھی سننے لگتا ہے۔
ماں کے پیٹ میں بچے کا کان انتہائی حساس ہوتا ہے۔ اللہ نے اس کی حفاظت کے لیے تین تہہ بنا دی ہیں۔ سب سے پہلے ماں کے پیٹ کی اسکن، دوسرے نمبر پر کوکھ کی اسکن اور تیسرے نمبر پر کوکھ میں موجود پانی جو کان تک انتہائی اونچی آواز جانے میں حائل ہوجاتا ہے۔ اس تدریجی عمل کو پڑھ کر یہ آیت واضح ہوتی ہے:
کہ اﷲ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ قانون فطرت ہے کہ ہر گزرتا لمحہ انسان کو آنے والے لمحے کے تیار کرتا ہے۔ بچے کی سماعت کو بھی دنیا میں آنے سے پہلے اللہ تعالی سننے کا متحمل بناتا ہے ۔
اگر صرف کوکھ میں یہ پانی ہی نہ ہو تو کسی بس کا ہارن کی آواز سے یاکسی دروازہ کے زور سے بند ہونے پر ماں کے پیٹ میں ہی بچے کی سماعت متاثر ہو سکتی ہے۔
یہاں بچے کی ارتقائی حالت کا ذکر مقصود ہے کہ ہمارے معاشرے میں نئی نویلی بہو جب پہلا حمل سنبھال رہی ہوتی ہے اور سسرال کے نئے ماحول سے مطابقت (Adjestment) میں کچھ دشواریاں ہوتی ہیں، اس وقت سسرال اور میکے کے افراد اور خود ماں بھی لڑائی جھگڑا، بحث و مباحثے، شکوہ شکایت میں گزارنے کے بجائے اُس وجود پر توجہ مرکوز کرے جو ماں کے پیٹ میں پل رہا ہے ، جس کا ارتقاء لمحہ بہ لمحہ ہورہا ہے۔ لڑائی جھگڑے خارجی عوامل ہیں جو نفسیاتی طور پر ماں کو مایوسی کا شکار (depressed) بناتے ہیں۔ خوشگوار ماحول رکھنے میں مانع بنتے ہیں۔ جس کے اثرات بچے پر مرتب ہوتے ہیں۔ ماں کی کوکھ میں سنی گئی آوازیں بچے کے لیے ابتداء بے معنی ہوتی ہیں۔ اسے علم نہیں ہوتا کہ یہ کیا کہا جا رہا ہے لیکن چیخنے کی آوازیں، تیز اور ترش لہجہ بچے کی شخصیت کا بھی حصہ بننے لگتا ہے گفتگو کا وہ انداز پیدائش کے بعد بھی اس کی سماعت میں موجود ہوتا ہے۔
چوبیس تا بتّیس ہفتے :
اسی طرح MEG Meekar M. D نے اپنے ریسرچ پیپرStrong Father Strong Daughtr میں لکھا ہے کہ بچے کی سماعت کے ارتقائی عمل میں یہ بھی نوٹ کیا جاسکتا ہے کہ بچے کی ماں کا تعلق اگر شہر سے ہو ۔ ہاسپٹل جاتے ہوئے یا باہر جاتے ہوئےسنی گئی گاڑیوں اور بسوں کے ہارن کی آوازوں سے بچہ مانوس ہوتا ہے، جب کہ قصبے یا دیہات میں جہاں ٹریفک کم ہے، وہاں حاملہ خاتون وقت گزار چکی ہے اور اس دوران یعنی ستائیس تا بتیس ہفتے کے دوران علاج کی غرض سے شہر آئی ہو اور ہارن کی آوازیں بچے نے پہلی مرتبہ سنی ہو تو بچے کی حرکت میں خوف کا احساس رہے گا۔’’آواز کے اجنبی ہونے پر بچے کے چہرے کے تاثرات foetal scanner سے نوٹ کیا گئے ہیں۔‘‘
پینتسویں ہفتے تک بچہ اپنے آس پاس سنی جانے والی اپنی امی، ابو، دادی یا دیگر رشتے داروں کی آواز سے غیر شعور ی طور پر مانوس ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو باہر کی دنیا میں وہ اپنی ماں کی راست (direct) آواز سن کر روتے ہوتے ہوئے فوراً خاموش ہو جاتا ہے اور یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے چہرے کے تاثرات کچھ یوں ہوتے کہ گویا سوچ رہا ہو یہ آواز سنی سنی سی لگتی ہیں ۔ اجنبی کا خوف اسے نہیں ہوتا۔
سو لوگوں کی آوازوں میں سے وہ چند منٹوں کی زندگی کا بچہ اپنی ماں کی آواز اور قریبی رشتے میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
بچے کی سماعت کا خیال ماں کی کوکھ میں کیسے رکھا جائے؟
1) کسی بھی قسم کی دوائیاں، بغیر ڈاکٹر کے مشورے کے نہ کھائیں، گھریلو خواتین کے مشورے سے دوا لینے کی بجائے ڈاکٹر سے مشورہ کریں اپنی فیلڈ میں مہارت کی اپنی اہمیت ہے۔بچے کے معاملے میں احتیاط ہر چیز سے بہتر ہے۔
2) دوران حمل کوئی بھی اینٹی بائیوٹک کھانے سے پہلے مستند ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔
3) حمل میں دانتوں کا علاج کروانے سے گریز کریں۔ اس میں بہت ہیوی اینٹی بائیوٹک کھانی پڑتی ہے۔ جو بچے کی سماعت کو خراب یا ختم بھی کر سکتی ہیں۔
4)مانع حمل ادویات کا استعمال ابتدائی ماہ دانستہ یا نادانستہ اگر کیا ہوتو اپنے معالج کو ضرور بتائیں تاکہ احتیاطی تدابیر کی جاسکے ۔
5) بہت تیز آواز سے خود کو بچائے رکھیں۔ جیسے شادی بیاہ کے موقع پر ڈے جے کی آواز، میوزک سسٹم کی بہت تیز آواز حتی کہ آپ کا گھر مسجد سے بالکل ملحق ہوتو صحن کے بجائے اندرون کمرے چلے جائیں ۔
6) کسی پروگرام کے موقع پر اسپیکرز کی آواز بہت ہی قریب ہو تو فاصلہ بنالیں اسپیکرز کی اتنی تیز اور ہائی آواز ہوتی کہ بڑے لوگوں کی سماعت متاثر ہوسکتی ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچہ یا نومولود بچہ تیز آوازوں کا بار نہیں اٹھا سکتا
7) اس کے علاوہ بہت اونچی بولنے والی خواتین کے پاس حاملہ لڑکی 10 تا 20 منٹ سے زیادہ نہ بیٹھے۔ اونچی آواز میں میوزک نہ چلائیں اور نہ موبائیل بہت تیز آواز سے میوزک پر رکھیں ۔بہتر ہے کہ موبائیل رنگ ٹون کوئی آیت کو رکھ لیں۔میوزک کے مقابلہ قرات کی پِچ قدرے کم ہوجاتی ہے۔
8) شادیوں میں بینڈ والوں سے دور رہے۔ایسی شادیوں میں جانے ہی سے گریز کریں ۔
9) دیوالی یا کسی خوشی کے موقع پر دوران حمل آپ کے آس پاس پھوڑا گیا کوئی پٹاخہ یا بم آپ کے پیٹ میں موجود بچے کو ساری عمر کے لیے سننے کی صلاحیت سے محروم کر سکتا ہے۔
جنگ سے متاثر علاقوں میں پیدائش سے پہلے بم کی آواز سے متاثر بچے بہرے اور گونگے ریکارڈ کیے گئے ہیں ۔
10)کسی بھی قسم کی نشہ آور دوائیں یا مشروبات سے حتی المقدور دوری بنائیں۔ سافٹ ڈرنکس اور مختلف کوک جیسے کوکا کولا اور اسپرائیٹ، سیون اپ وغیرہ سے اجتناب برتیں۔ یہ عادت بھی بچے کی سننے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے۔
11)سیگریٹ پینے والے افراد کے قریب بھی نہ جائیں۔ شوہر کو عادت ہوتو اس بہانے ان سے عادت چھڑوانے کی کوشش کریں۔اگر نہ مانتے ہوں تو سیگریٹ پینے تک ان سے دوری بنائیں۔ احساس ذمہ داری رکھنے والے مرد حضرات خود اس سے اجتناب برتتے ہیں۔ میگ میکر ایم ڈی نے اپنی کتاب ’’strong father strong daughter‘‘ میں لکھا ہے کہ میں کچھ عرصے اسرائیل میں دوران تعلیم میں نے محسوس کیا کہ حاملہ خاتون کو خوش رکھنا اور دیگر عادات سے حاملہ کو بچانے کی ذمہ داری مرد نبھاتا ہے۔ کہتے ہیں:’’میں اپنے دوست کے ڈرائینگ روم میں بیٹھا تھا، جوں ہی سگریٹ نکالی، میزبان نے مجھے روکنے کے بجائے ساتھ باہر چلنے کو کہا اور ٹہلتے ہوئے میں نے اپنا شوق پورا کیا۔ باتوں کے درمیان مجھے بتایا گیا کہ ہم نے ’’بے بی کنسیو‘‘ کیا ہے۔
مطلب میری بیوی حاملہ ہے اور بچے کی صحت کے لیے سگریٹ نوشی مضر ہے۔‘‘
اسی طرح حاملہ کا خیال رکھیں اور حاملہ لڑکی کو نو ماہ انتہائی خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ اسے کوئی دکھ پریشانی نہ دیں۔ مالی مشکلات کو قرض لے کر ہی عارضی طور پر ختم کر لیں۔ ماں کا دوران حمل پریشانی و ٹینشن میں رہنا، یا ناخوش رہنا، ذہنی تناؤ میں رہنا بھی بچوں میں متعدد معذوریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ عموماً حاملہ کو سسرالی یا شوہر بیٹا ہونے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ یہ خواہش ایک ماں کے لیے کتنا بڑا عذاب بن جاتی ہے۔ حاملہ ماں کے ساتھ کوکھ میں پل رہا بچہ بھی متاثر ہوتا ہے۔
بچے کی پیدائش سے ماں پر صنف (Gender)کا تقاضہ ایک بوجھ ہے۔ اس بوجھ کے درد کو ایک ماں اور اس کا رب ہی سمجھ سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
’’ ان اﷲ عندہ علم الساعۃ ،وینزل الغیث ،ویعلم مافی الأرحام ،وما تدری نفس ماذا تکسب غدا ،وما تدری نفس بأی أرض تموت ،ان اﷲ علیم خبیر ‘‘(سورۃ القمان:31۔34)
’’اُس گھڑی کا علم اللہ کی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے۔ کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کِس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے۔ اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘
ماں کے پیٹ میں کیا پل رہا ہے؟ اس کا علم مخفی رکھنے میں حکمت ہے۔اس لیے اس ماں پر بوجھ نہ ڈالیں، ورنہ پیٹ میں پل رہے بچے میں نقص رہ جائے گا۔
دورانِ حمل مچھلی، انڈے کھائیں اور بادام روزآنہ رات کو بھگو کر صبح کھائیں۔ زیتون اور کچا ناریل کا استعمال ضرور کریں۔ یہ پیدا ہونے والے بچے میں سماعت کی حس کو قدرتی طور پر اچھا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ان غذاؤں میں وٹامن اے پایا جاتا ہے، جو سماعت کے لیے بہتر
ہے۔ بچے کی سماعت کے ارتقاء کے لیے پیدائش کے بعد بھی کچھ باتوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری)
’’اُس گھڑی کا علم اللہ کی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے۔ کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کِس سرزمین میں اس کو موت آنی ہے۔ اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘
0 Comments