جولائی ٢٠٢٢
ہر ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کے مثالی ماں باپ بنیں۔ اس کی ہر ضرورت پوری کریں۔ اور اس کی زندگی کو زیادہ بہتر اور بامقصد بنائیں۔یہ سوال ہر ماں اور باپ کو درپیش رہتا ہے کہ اس سلسلہ میں کیا وہ اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقہ سے ادا کر رہے ہیں؟ کیابچے کے تئیںان کا رویہ صحیح ہے؟ اور کیا ان کا بچہ ان سے خوش ہے؟ اس فکر مندی کے باوجود صحیح بات یہ ہے کہ اکثر والدین وہ صحیح نظر اور رویہ نہیں رکھتے جس کی بچے کو ضرورت ہوتی ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق ہر بچہ محبت، توجہ اور اہمیت چاہتا ہے ۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنا مقام اور اپنی مستقل حیثیت اور شناخت چاہتا ہے۔ اس کی حیثیت اور شناخت کا شعور ہمیں اسے صحیح طرح سے سمجھنے میں مدد کرتا ہے اور گہرائی سے اس کے احساسات کے فہم کے لائق بناتا ہے۔ بچوں کی ضرورتیں، ان کی خواہشیںاور ان کے خوف،یہ تمام چیزیں ہم بھی جان سکتے ہیںاگر ہم ان کےقدم سے قدم ملا کر چلیں۔ایک بچے میں بھی وہ تمام احساسات ہوتے ہیں،جو ایک بالغ شخص میں ہوتے ہیں، لیکن اس کے پاس تجربہ کی کمی ہوتی ہے۔ بچہ احساسات تو رکھتا ہے لیکن ان کوبیان کرنے سے قاصر ہوتا ہے ۔اپنے جذبات کو الفاظ کی شکل وہ نہیںدے سکتا۔اس لیے یہ ماں باپ کا فرض ہے کہ اپنے بچے کے جذبات کو سمجھیں، اور ان جذبات کوالفاظ دینے میں اس کی مدد کریں۔
بچہ کیا چاہتا ہے؟
’’مجھے کچھ فرصت کے لمحات چاہئیں۔ اسکول ہوم ورک، ٹیوشن، کراٹے کی کلاس، سویمنگ؛ یہ سب مجھے تھکا دیتے ہیں۔‘‘
کیا آپ کا بچہ غیر معمولی طور پرمصروف ہے۔ کیا اس کے پاس اس کے اپنے لیے فرصت کے کچھ لمحات ہیں؟ ماہرین نفسیات نے آج کل مصروف والدین کی زندگیوں میں ایک نئے رجحان کو نوٹ کیا ہے۔اپنے بچوں کو اپنے وقت کے سانچے میں ڈھالنے کا رجحان۔اپنے مصروف ترین اوقات کے سانچے میں ہم اپنے بچوں کو بھی ڈھالنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ وہ تمام ذمہ داریاں سنبھالے جو اس کی پہنچ سے باہر ہیں۔ مقاصد کے پیچھے بے تحاشہ بھاگتے بچے کے پاس چند لمحات بھی نہیں ہوتے ،جن میں وہ اپنے تصورات اور صلاحیتوں کی دنیا میں کچھ وقت گزارسکے۔بچے جب کھیلتے ہیں اور کھلی وادیوں اور میدانوں میں گھومتے ہیں ، تو ان کا دماغ کائنات کے بہت سے سربستہ رازوں کو جاننے اور تخلیقیت و اپج کی نشو نما میں مصروف ہوتا ہے۔وہ ایک درخت کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ ایسا کیوں ہے؟ ایک جانور کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ہوم ورک اور کلاسوں کے بوجھ میں پھنسے آج کے بچے کے پاس یہ سب سوچنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے ۔ جب کہ چھپی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے فرصت کے لمحات بہت اہم ہوتے ہیں۔
بچپن صرف گزاردینے کے لیے نہیں ہوتا ۔یہ زندگی کا بہت اہم دور ہوتاہے اور اسی دور میں شخصیت کو بنیادیں فراہم ہوتی ہیں۔اس لئےاپنے بچوںکے اوقات اور ان کی مصروفیات کا انتظام کرتے ہوئے ہمیں سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہیے۔ فرصت کے لمحات انہیںمہیا کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے ساتھ ٹی وی کے سامنے گھنٹوں بیٹھ جائیں بلکہ انہیں چہل قدمی کے لیے لے جائیں یا ان کے ساتھ کچھ پڑھیںیا کھیلیں۔
کھیل اور تخلیقی کھیل
’’مجھے اپنے ابوکے ساتھ کھیلنا بہت پسند ہے۔ وہ مجھے سوئمنگ پر لیجاتے ہیں اورمیرے ساتھ فٹ بال بھی کھیلتے ہیں۔‘‘
چند لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ کیا کھیلیں؟ بچوں کے ساتھ تو بچے ہی کھیل سکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے اور بچہ کے درمیان موجود دیوار کو گرانا ہے یا اس رشتہ کو تقویت دینی ہے تو کھیل ایک بہت ہی اچھا ذریعہ ہے۔ ماہرین نفسیات کی یہی رائے ہے کہ بچوں کے ساتھ کھیلنا بہت ضروری ہے چاہے وہ کھیل پہاڑی سے پتھر چنناہی کیوں نہ ہو۔
اللہ کے رسول ﷺ حضرت حسن اور حضرت حسین کو اپنے کاندھوں پر بٹھاکر سواری کراتے تھے۔ بچوں کے ساتھ کھیلنے کے کئی واقعات ہمیں آپ کی سیرت میں ملتے ہیں۔
بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کے ارتقاءکے لیے آپ کی مستقل حوصلہ افزائی اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچہ چاہے ۶ سال یا ۱۰ سال کا ہی کیوں نہ ہو، وہ چاہتا ہے کہ آپ اسے قبول کریں ۔اسے مانیں، اور وہ سیکھتا ہی اپنے آپ کو منوا کر ہے۔یہ ایک قدرتی بات ہے کہ ہر انسان اپنے ہر عمل کو صحیح سمجھتا ہے، چاہے وہ ایک چھوٹی سی عمر کا بچہ ہی کیوںنہ ہو۔
اپنے بچوں سے محبت کیجیے،ان کے ساتھ گزرے وقت کو غیرمفیدمت سمجھیے۔ بہت غور سے ان کی باتیں سنیے اور ان کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ بچوںکے ساتھ کھیل کے اوقات کو روز مرہ کا معمول بنایئے۔بچوں سے مواصلات(Communication) کے لیے یہ ایک بہت بڑا ہتھیارہے ۔ بچے رسمی گفتگو کو پسند نہیں کرتے۔ کھیل کے دوران ہی آپ ان سے بہت کچھ ڈسکس کر سکتے ہیں۔ آپ یہ جان سکتے ہیںکہ آپ کی عدم موجودگی میں یااسکول کا وقت انہوںنے کیسے اور کس کے ساتھ گزارا؟
کھیلتے کھیلتے بات چیت کے دوران آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے بچوں کے دوست احباب کیسے ہیں ؟ وہ ان سے اپنے تعلق کو کیسےنبھاتاہے؟اگربچپن سےہی آپ ڈسکشن اور کمیونی کیشن(Communication) کی عادت ڈالیں گے،چاہے آج یہ گفتگو آپ کے لیے غیر اہم ہی کیوںنہ ہو، آئندہ اپنی زندگی کے اہم موقعوں پر بھی وہ ساری باتوں کا بغیر کسی ہچکچا ہٹ کے آپ کے سامنے اظہار کرے گا،اور آپ کے اور اس کے درمیان وہ گیپ نہیں رہے گا جس کی شکایت اکثر نو عمر Teenagers اور نوجوان بچوں کے والدین کرتے ہیں۔
مہر بانی کر کے مجھے سنیے!
’’میرے بابا مجھے ہر رات چہل قدمی پر لے جاتے ہیں اور گزرے ہوئے دن کی مصروفیت پوچھتے ہیں۔‘‘
بہت سے ماں باپ کو یہ کہتے تو سنا ہے کہ ہم اپنے بچوں سے باتیں کرنے کی بہت کچھ کوشش کرتے ہیں مگر وہ اپنی دن بھر کی مصروفیت ہم سے شیئر نہیں کرتے۔ لیکن آپ سبزی بنا رہی ہوں، یا کپڑے تہہ کر رہی ہوں یا آپ کمپیوٹر کے سامنے اسکرین پر نظریں جمائی بیٹھی ہوں تو کیا بچہ کچھ بول پائے گا؟ اسے آپ کی توجہ چاہیے۔ آپ سے نظر کا رابطہ (Eye contact) چاہیے۔ ہر بچہ اپنے ماں باپ سے بھر پور وقت اور توجہ چاہتا ہے۔ بٹی ہوئی توجہ وہ قبول نہیں کرے گا۔
ماہرین نفسیات مشورہ دیتے ہیں کہ بچےکی بات پوری توجہ سے سنی جانی چاہیے۔اس پر ظاہر کیجیے کہ آپ سن رہی ہیں اور اسی کی طرف متوجہ ہیں۔جب وہ دیکھے گاکہ آپ کی بھرپور توجہ اسے حاصل ہے، تو وہ آپ پر بھروسہ کرےگااور اپنی زندگی کی کوئی بات کہنے سے نہیںہچکچائے گا۔
اس دوران ماں باپ اپنے بچوں کا گہرائی سے مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔ بھر پور توجہ سے انہیں سنیے۔ ان کو درپیش مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ آپ کا بچہ ،جس کی عمر صرف ۷ سال ہے، اس کی اور آپ کی سوچ میں فرق فطری ہے۔ بعض باتیں جو آپ کے نزدیک بالکل غیر اہم ہیں، اس کے لئے اہمیت کی حامل ہو سکتی ہیں۔ایسی صورت میںاس پر ظاہر نہ ہونے دیںکہ اس کی بات کو آپ اہم نہیں سمجھ رہی ہیں۔اس کی باتوں کو اہمیت دیں۔ کچھ ماں باپ ایسا بھی کرتے ہیں کہ بچہ اپنی بات کی ابتداء ہی کرتا ہے، اور انہیں کہیں کچھ غلط لگتا ہے تو ٹوک دیتے ہیں ، آگے کیا ہوا وہ بالکل نہیںبتائےگا۔ایسا ہر گز نہ کریں۔بہت توجہ اور صبر سے اس کی پوری بات سنیں ۔پھر اسے مشورہ دیں۔
ایک بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ اپنے بچے کو بھر پور توجہ سے سنیں ۔وہ آپ کو بتائےگا کہ اسے کیسے پروان چڑھانا ہے۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچہ آپ کی بات سنے تو آپ کو پہلے اس کی بات سننی ہوگی۔بچوں کو کبھی لیکچر نہ دیں۔ انہیں اچھے اور برے دونوں پہلوؤں سے آگاہ کردیںاور فیصلہ انہیں کرنے دیں۔اپنی توجہ اور محبت سے ان کے رویوں کو درست کریں۔
والدین کے تنازعات
’’جب کبھی ممی اور پاپا آپس میں لڑتے ہیں تو میں سہم جاتی ہوں، رونا چاہتی ہوں لیکن رو نہیں پاتی۔‘‘
ایک بہت مشہور بات ہے ’’ اگر آپ کسی کے بارے میں اچھی رائے قائم نہیں کر سکتے تو کچھ بھی کہنے سے گریز کیجیے!‘‘ ماں باپ کا اپنے بچوں کے سامنے لڑنا جھگڑنا بچوں کے لیے بہت ہی نقصاندہ ہوتا ہے، یہ ان کے لیے زہر ہے۔ ان کی شخصیت کو توڑ پھوڑ دیتا ہے۔ ایک سائیکا ٹرسٹ کے مطابق’’ بچوں کے سامنے لڑائی ایک خاموش وبا ہے‘‘۔
کچھ والدین بچوں کا سہارا لے کر بھی لڑتے ہیں ،اور یہ چیز بچوں کے احساسات کو مجروح کردیتی ہے۔ وہ اداسی سے سوچتے ہیں کہ اس جھگڑے کی اصل جڑ وہ ہیں اور یہ چیز ان کی شخصیت کی قاتل ہوتی ہے۔
معمولی لڑائی جھگڑے تو ہر گھر میں ہوتے ہی رہتے ہیں، لیکن روز روز کے لڑائی جھگڑے بچوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں،اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کے سامنے بالکل بھی نہ لڑیں، خاموشی اختیار کریں۔ بچوں کا خمیر ہی محبت سے بنا ہوتا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ والدین ان سے محبت کریں اور آپس میں بھی کریں۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ بچوں کے سامنے نہ لڑیں۔ یا ایسا ہو بھی جائے تو انکے سامنے ہی اس جھگڑے کو ختم کرنا ضروری ہے۔
محبت کا اظہار بھی کریں!
’’کیا ہی اچھا ہوممی پاپا ہر دن مجھ سے کہیں کہ ہم تم سے بہت محبت کرتے ہیں ۔‘‘
سبھی والدین اپنے بچوںسے محبت کرتے ہیں ۔ لیکن چند بچے جان ہی نہیں پاتے کہ ان کےوالد، والدہ ان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ اگر آپ بچے سے محبت کرتے ہیں تو اسے محسوس بھی ہونے دیں۔
ایک اور ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ آپ اپنے بچے سے جتنی محبت کرتے ہیں ،اس کا اظہار بھی کریں اور ہر دن ایک مرتبہ اس کے اظہارکا موقع نکالیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جس سے بھی ہم کو محبت ہو، اس کا اظہار کریں۔ ’’ اگر تم اپنے بھائی سے محبت کرتے ہو تو تمہیں چاہیے کہ اس کو یہ بتادو کہ تمہیں اس سے محبت ہے۔ ‘‘ (ابو داوٗد)
بچے تو اس اظہار کے زیادہ ضرورت مند ہیں۔ ایک نوزائید ہ بچہ اپنی نئی نئی دنیا کو لمس، نظر، آواز اور خوشبو سے ہی سمجھ پاتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے وہ اپنے والدین کے لمس سے ہی ان سے اپنا رشتہ سمجھتا ہے۔ اس بچے کے لیے آپ کے چہرے کے جذبات اور آپ کی آواز بہت اہم بن جاتی ہے۔اگر اس بچے کے کام کرتے ہوئے اس کی ماں اور دیگر رشتہ دار ہمیشہ پریشان رہیں، غصے اور چڑچڑے پن کا مظاہرہ کریں، یا اس کے ساتھ پھوہڑپن سے پیش آئیںتو بچہ جان لے گا کہ لوگوں کے ساتھ رہنا کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہے۔ باہمی اعتماد کا جذبہ پروان نہیں چڑھے گا ،اور دیگر لوگوں سے تعلق قائم کرتے ہوئے اس بچےکو ہمیشہ دشواری پیش آئے گی۔چنانچہ محبت اور خلوص کے اظہار کی بڑی اہمیت ہے۔ ننھے منے بچوں کو پیار کرنا، گلے سے لگانا اور ان سے کہنا کہ میں آپ پر فخر کرتا ہوں/ کرتی ہوں، ان کی شخصیت کو بااعتماد اور پر امید بنانے اور مثبت طرز فکر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بار بار تعریف کیجیے ، لیکن ایمانداری کے ساتھ اور بغیر کسی تصنع کے۔ بچے جان جاتے ہیں کہ آپ کی بات آیا آپ کی دل کی بات ہے یا محض تصنع۔
’’ہمیں اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کا موقع دیجیے۔جب میں کہوں کہ میں بس کنڈیکٹر بننا چاہتا ہوں تو ہنسیے مت۔‘‘
ہمیں اپنے بچوں کی پسند اور ان کے خوابوں کے لیے بہت حساس ہونا چاہیے۔بچے اپنی زندگی کی سلطنت میںاپنی حکمرانی چاہتے ہیں۔و ہ چاہتے ہیں کہ انہیں بھی فیصلہ کرنے کا موقع ملے ۔اگر کچھ احتیاط سے انہیں یہ موقع دیا جائے تو وہ انہیں طمانیت اور تحفظ کا احساس دےگا اور وہ سمجھیں گے کہ ان کے والدین ان کی صحیح فکر کرتے ہیں۔ نوعمر بچوںکے والدین کو اپنے بچوں کی سمت درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ،لیکن یہ کوشش اس طرح ہونی چاہیے کہ بچے کو ہر فیصلہ اپنا فیصلہ محسوس ہو۔ اسے زور زبردستی کا احساس نہ ہو۔ والدین ایک حد میں رہتے ہوئے ان کی نگہداشت کریں، ورنہ بچے انہیں اہمیت اور عزت دینا چھوڑدیں گے۔ وہ بات جسے ہم بچےکے لئے بہتر سمجھتے ہیں ، اس کے بہتر نہ ہونے کاامکان بھی موجود ہے۔اس امکان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔اس لئے بچے کو فیصلے کی آزادی دیجیے اور یہ بھی بتائیے کہ ہر آزادی کے ساتھ ذمہ داری بھی وابستہ ہوتی ہے۔
ایک بچے کی زبان میں اس کے اہم مطالبات کا خلاصہ ہم اس طرح بیان کر سکتے ہیں:
(۱) مجھے اپنے مثبت طرز عمل اور اپنی مثال سے سکھائیے کہ میں خود سے محبت کیسے کر سکتا ہوں؟ اور توجہ اور اعتماد کا مطلب کیا ہے؟
(۲) میری موجودگی کو محسوس کیجئے۔ میرے وجود سے خوشی اور فرحت حاصل کیجیے، تاکہ میں اس احساس اور اعتمادکے ساتھ بلوغ کی دہلیز پر قدم رکھوں کہ میںبھی اہم ہوں،اور میں دوسروں کے اندر بھی خودی کے اس احساس کو جگا سکوں۔
(۳) کشادہ اور محبت سے لبریز قلب رکھیے۔پوری توجہ سے مجھے سنیے تاکہ میں جانوں کہ مجھے دیکھا اور سنا جارہا ہے،اور میں خود بھی بعد میں ایک اچھا سننے والا(Good Listener)بن سکوں۔
(۴) میری اچھی باتوں کو بار بار سند قبولیت دیتے رہیےاور مجھے بتاتے رہیے کہ میری کون سی باتیں آپ کو پسند آرہی ہیں۔مجھے معلوم ہوگا کہ میں بھی کسی لائق ہوں اور مجھے بھی دوسروں کی اچھی باتوں کی ستائش کا سلیقہ آئے گا۔
(۵) ہنسیے اور مجھ کو بھی ہنسائیے ۔زندہ دلی کا مظاہرہ کیجیے تاکہ میں اپنی زندگی کو پر لطف بناسکوں اور دوسروں کی زندگیوں میں بھی مسرتوں اور خوشیوں کا ذریعہ بن سکوں۔
(۶) مجھ میں نظم وضبط پیدا کیجیے اور میری غلطیوں کو خلوص اور پیار کے ساتھ سدھاریے، تاکہ میں ایک اچھی زندگی خود داری اور اعتماد کے ساتھ گزار سکوں۔
(۷) مجھے غلطیاں کرنے اور خود اپنی رائے قائم کرنے کے مو قعے دیجیے،تاکہ میں آزادانہ فیصلے کرنے اور ان فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے لائق بن سکوں۔
(۸) اپنی زندگی کو بھرپور طریقہ سے گزاریے۔ حوصلے بلند رکھیے اورجوش و ولولہ کے ساتھ اپنی امنگوں اور خوابوں کی تعمیل کیجیے تاکہ میں بھی آپ کے ولولوں جوش اور توانائی کا کچھ حصہ حاصل کروں اور بھرپور زندگی گزارنے کا حوصلہ پائوں۔
(۹) ایماندار بنے رہیے۔ زندگی کی اعلیٰ قدروں کو پورے کمال کے ساتھ اپنی زندگی میں برتیے۔ میں آپ کے تجربہ سے سیکھوں گااور بااصول زندگی گزاروں گا۔
(۱۰) مجھے دوسروں کی خدمت کے لائق بناؤ، اور انسانوں میں موجود فرق کا احترام کرنا سکھائیے۔ میں کشادہ ذہنی اور وسیع القلبی کی قدروں کے ساتھ انسانی زندگی کی رنگا رنگی کو قبول کر سکوں گا۔
(۱۱)مثبت اور اچھی باتوں اور زندگی کے اچھے واقعات پر توجہ مرکوز کیجیے۔ مشکل اوقات میں بھی اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہویئے ،تاکہ ہر نئے دن کو میں مواقع کی ایک نئی دنیاکے طور پر دیکھ سکوںاور مثبت طرز فکر کو پروان چڑھا سکوں ۔
(۱۲) میری معصوم زندگی کے تمام اتار چڑھائو کے دوران، مجھ سے غیر مشروط محبت کیجیے۔ میں اس محبت کو ساری انسانیت میں لٹائوں گا۔

’’میرے بابا مجھے ہر رات چہل قدمی پر لے جاتے ہیں اور گزرے ہوئے دن کی مصروفیت پوچھتے ہیں۔‘‘
بہت سے ماں باپ کو یہ کہتے تو سنا ہے کہ ہم اپنے بچوں سے باتیں کرنے کی بہت کچھ کوشش کرتے ہیں مگر وہ اپنی دن بھر کی مصروفیت ہم سے شیئر نہیں کرتے۔ لیکن آپ سبزی بنا رہی ہوں، یا کپڑے تہہ کر رہی ہوں یا آپ کمپیوٹر کے سامنے اسکرین پر نظریں جمائی بیٹھی ہوں تو کیا بچہ کچھ بول پائے گا؟

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ٢٠٢٢