والدین کے تعلقات کےبچوں پر اثرات (قسط: 1)
زندگی کی بہار اور حاصلِ زندگی اولاد ہے۔ان کے وجود سے جسمانی اور روحانی خوشیاں اپنے کمال کو پہنچتی ہیں ۔ اولاد ایسی نعمت ہے، جن سے ماں اور باپ جیسے دو عظیم کردار ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ قدرت نے بچوں کی نشوونما کے لیے خاندان کو منظم کیا۔ خاندان، والدین اور اولاد سے بنتا ہے ۔جس قدر والدین کا آپسی تعلق بہتر ہوگا، اسی قدر گھر کا ماحول سازگار رہے گا۔
بچے کی زندگی اور اس کی نشونما میں والدین کے آپسی تعلق کی بڑی اہمیت ہے۔بچے اور والدین کے تعلق کے سلسلے میں والدین کے آپسی تعلقات کا استوار ہونا بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ عام طور پر ان بچوں کی تربیت بہت بہتر انداز میں ہوتی ہے، جہاں ماں باپ کے درمیان آپس میں خوش گوار تعلق ہوتا ہے ، دونوں ایک دوسرے کے جذبات کا دل سے احترام کرتے ہیں، ایک دوسرے کے مصالح کی ریاعت کرتے ہیں، دونوں مل کر ذمہ داریاں اٹھاتے ہیں، تمام امور میں آپس میں بات چیت کرتے ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے مزاج کا خیال رکھتے ہیں۔
اس طرح دونوں ایک خوبصورت نمونہ پیش کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح رشتے میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے۔اس ماحول میں جو بچہ پروان چڑھتا ہے، اس کے اندر امن و امان کا احساس بہت گہرا ہوتا ہے۔ اس کے سامنے بہترین نمونہ ہوتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ کسی طرح تعامل کیا جائے۔ پھر اس کے اندر یہ شعور پروان چڑھتا ہے کہ اس زندگی میں سب سے مامون جگہ گھر ہے۔ باہر کے ماحول سے اس کا رابطہ بطور ضرورت رہتا ہے اور گھر کو اپنی ذات کے لیے سب سے محفوظ جگہ سمجھنے لگتا ہے ۔جس قدر اسے گھر اور گھر کے افراد پر اعتماد رہتا ہے، اسی قدر سماج میں دیگر افراد کے سامنے اس کا اعتماد بحال رہتا ہے۔
اس کے برخلاف ایسا ماحول، جس میں ہر وقت ماں باپ کے درمیان بحث و تکرار ہوتی ہو،ایک دوسرے کے خلاف چیخ و پکار کا ماحول رہتا ہو، غصہ میں آوازیں بلند ہوتی ہوں، پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو برا کہنے اور برا سمجھ کر سرگوشی کرنے کا مزاج ہو تو ایسے ماحول میں جو بچہ پروان چڑھتا ہے، وہ خوف وہراس میں مبتلا اور انتشارِ ذہنی کا شکار ہوتا ہے۔ وہ ایک طرف تو ماں باپ سے یکساں طور پر محبت کرتا ہے، مگر دوسری طرف اس کشمکش میں مبتلا رہتا ہےکہ دونوں میں سے کس کی طرف داری کرے۔ اس کو دونوں کے درمیان تفریق اور گھر کے بکھرنے کا امکانی خطرہ ستاتا رہتا ہے۔ وہ غیر محسوس اندیشوں کا شکار رہتا ہے اوراس کاخوف اسے احساس محرومی کا شکار بنا دیتا ہے۔
ایسے ماحول میں پلنے والے بچے کے لیے کسی اجتماعی سرگرمی Activity اور گھریلو تقریب سے لطف اندوز ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس ماحول میں کھانے کے اوقات، سفر، اجتماعی سرگرمیاں، سب اختلاف کی نذر ہوجاتی ہیں۔
اس ماحول میں بات کرنے کی اجازت بالکل نہیں ہوتی، بچہ شام کوسونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹا ہو، نیند کی آغوش میں جانے سے پہلے والدین کے جھگڑے ہوتے ہوں، ایسے میں والدین کی بلند آوازیں اس کو بہت پریشان کرتی ہیں۔ اس طرح بچہ جب اسکول سے واپس ایسے ماحول میں آتا ہے، جہاں غصے کا ماحول ہوتا ہے اور ہر طرف تناؤہی تناؤ نظر آتا ہے۔ ازدواجی تعلقات میں اس طرح کے اختلاف کے سبب بچے اور والدین کے درمیان اچھے اور خوشگوار تعلقات قائم نہیں ہوپاتے ، کیوں کہ ہرایک تناؤ کا شکار رہتا ہے اور ہر کوئی ذہنی الجھن،کوفت اور تکان میں مبتلا رہتا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ ازدواجی تعلقات میں بعض دشواریوں اور پریشان کن لمحات کا آنا فطری عمل ہے۔ یہ بھی ضمانت دینامشکل ہے کہ ماں باپ کے درمیان جو کچھ بھی ہو، بچہ اس سے دور رہے ، نہ اس کو دیکھے اور نہ سنے۔اگر والدین کے درمیان کسی وقت کوئی بحث و تکرار ہوجائے اور بچہ اس کو دیکھ لے تو یہ بہرکیف بہتر ہے کہ والدین خاموش رہیں۔ اپنے بچوں کو نفسیاتی دباؤ سے بچانے کے لیے زوجین کا یہ اقدام بھی ایک بڑی قربانی ہی شمار ہوگا۔
خاندانی زندگی کے لیے بہتر ہے کہ افرادِ خانہ کے درمیان صراحت کا چلن ہو، جہاںوہ براہِ راست آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو کرسکتے ہوں۔ بچوں کے لیے ہمیشہ وہ گھر بہترقرار پاتا ہے، جس میں ماں باپ ایک دوسرے کی رائے اور نقطۂ نظر کا پورا احترام کرتے ہوں اور ہرفرد کو اپنے افکار و احساسات کے اظہار کی آزادی حاصل ہو۔ ایسا کرنے سے ایک دوسرے کو اس کی شخصیت و انفرادیت کو باقی رکھنے میں مدد ملتی ہے، رشتوں میں احترام باقی رہتا ہے اور ایک دوسرے کی قدر وقیمت بھی رہتی ہے۔ کیوں کہ انسانیت کی قدر وقیمت کے شعورسے آگہی پر ہی انسان کی خوش نصیبی و خوش بختی منحصر ہے۔ اس کے علاوہ اس گھر کے ماحول کو بھی مناسب قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں اختلاف رائے کے موقع پر صلح جوئی اختیار کی جائے اور آزادی کے ساتھ بات چیت کرلی جائے، بجائے اس کے کہ بات جھگڑے تک پہنچنے اور تندوتیز آوازوں میں الفاظ کا تبادلہ ہو۔
شور شرابہ اور جھگڑے سے اختلاف کو حل کرنے میں ایک بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کچھ ایسے لوگ دونوںفریقوں کی طرف سے کھڑے ہوجاتے ہیں، جن کی اہلیت اتنی بھی نہیں ہوتی کہ ہم ان سے مشورہ کریں۔ تاہم جب زوجین لڑنے لگیں تو ہر کس وناکس پند ونصائح کا دفتر کھول دیتا ہے ۔ہر ایک درمیان میں بولنے لگتا ہے۔ اس طرح زوجین اپنی قدر و منزلت اپنے ہاتھوں کھودیتے ہیں۔ سیانے لوگ کہا کرتے تھے: ’’گھر کی مٹھی بند ہوتو لاکھ کی، کھول دو تو خاک کی‘‘ ۔صورت حال اسی مصداق بن جاتی ہے۔
زوجین کے اختلاف کی ابتدا معمولی سی بات سے ہوتی ہے، جس کا حل سادہ سی گفتگو سے ممکن ہوتا ہے،لیکن غیر شعوری طور پر وہ بڑھ کر ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔پھر کوئی فریق رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔جذبات بھڑکتے ہیں، باتوں کا تکرار اور موافق کا ٹکراؤ ہوتا ہے، ہرایک فریق دوسرے کو نیچا دکھانے دوسرے کو قصور وار ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بلکہ ایک طرح سےانتقام کی کوشش کرتا ہے۔ آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ٹکراؤ کی سی صورت حال کچھ اس طرح پیدا ہوجاتی ہےکہ پھر اس میں بچے کے ساتھ کوئی مثبت اور ثمر آور عمل انجام نہیں پاتا۔ چند دن گھر میں یہی ٹکراؤ کی صورت حال باقی رہتی ہے، تناؤ کے ماحول میں آدمی کی زبان سے وہ نکلتا ہے جو کہنا بھی نہیں چاہتا اور اسی تناؤ کے سبب سننے والا وہ سمجھتا ہے، جو کہنے والے کا قصد نہیں ہوتا۔ پھر دونوں ہی جو کچھ سنتے اور سمجھتے ہیں کہ اس کو دوسرے مواقع کے لیے اٹھارکھتے ہیں۔پھر چند دنوں یا ہفتوں کے بعد ازسر نو جنگ چھڑتی ہے تو اس موقع پر بھی اس کے اثرات نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں درمیان میں بھی گفتگو پر ان تلخ یادوں کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔
والدین کے اختلافات کے بچوں پر اثرات :
1۔ والدین کی لڑائی جھگڑے دیکھ کر بچوں کی شخصیت سے امن اور شانتی کا عنصر ختم ہوجاتا ہے۔
2۔ والدین کے جھگڑے میں بچوں کو جج کیا جاتا ہے کہ وہ کس کی طرف ہیں اور کس کو غلطی پر سمجھتے ہیں؟ اس کیفیت میں وہ تذبذب کا شکار ہوتے ہیں اور بچوں کی قوت فیصلہ زندگی کے ہر معاملے میں ہمیشہ کے لیے متأثر رہتی ہے۔
3۔ گھر کے جھگڑوں میں والدین اکثر غصہ میں رہتے ہیں اور غصہ میں انسان اپنی زبان پر کم ہی قابو رکھ پاتا ہے اور بچے بھی بدزبانی سیکھ لیتے ہیں۔
4۔ گھر کے ماحول میں لڑائی جھگڑے کا خوف اس کو دوستانہ ماحول فراہم نہیں کرپاتا اور وہ احساسِ محرومی میں ہمہ وقت گھرا رہتا ہے۔ ایسی کیفیت میں وہ باہر والوں پر انحصار کرتا ہے۔
5۔ اکثر اس طرح کے ماحول میں پرورش پانے والے بچے افیئرز کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وجہ یہی ہوتی کہ ان کے گھر کا سکون نہ ہونا، انہیں ایسی حرکات میں انٹمیسی فراہم کرتا ہے،جس کے ذریعے وہ خود اپنی زندگی برباد کردیتے ہیں۔
6۔ ٹین ایجرس ایسے ماحول سے راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے غیر ذمہ دارانہ رویے اختیار کرتے اور اینٹی سوشل ایکٹیوسٹ بن جاتے ہیں۔
والدین کو سمجھناچاہیے کہ ان کے درمیان ہونے والا تفرقہ بچوں پر ظاہر نہ ہو۔ بچوں کو ان معاملات سے بچانے کے لیے وہ جو بھی قربانی دے سکتے ہیں، انھیں دینا چاہیے۔ (جاری )

بچوں کے لیے ہمیشہ وہ گھر بہترقرار پاتا ہے، جس میں ماں باپ ایک دوسرے کی رائے اور نقطۂ نظر کا پورا احترام کرتے ہوں اور ہرفرد کو اپنے افکار و احساسات کے اظہار کی آزادی حاصل ہو۔ ایسا کرنے سے ایک دوسرے کو اس کی شخصیت و انفرادیت کو باقی رکھنے میں مدد ملتی ہے، رشتوں میں احترام باقی رہتا ہے اور ایک دوسرے کی قدر وقیمت بھی رہتی ہے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ٢٠٢١