یوم اطفال ایک جائزہ اور ہماری ذمہ داریاں
’’بچے پھول جیسے ہوتے ہیں۔‘‘ اس قول کے دو پہلو ہیں: ایک یہ کہ بچے پھول کی طرح پیارے اور کسی بھی گھر یا معاشرے کی رونق ہوتے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ بچے ذہنی اور جسمانی طور پر حساس، نازک اور ناپختہ ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں والدین اور معاشرے کی طرف سے خاص خیال، پیار اور تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے قوم کا مستقبل ہیں۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ، ان کی فلاح و بہبود، بہترین تعلیم و تربیت کسی بھی قوم کا اولین مقصد ہونا چاہیے ۔
اقوام متحدہ نے یہ دن 20نومبر کو رائج کیا، جس کا مقصد دنیا بھر کے بچوں کو درپیش مسائل کا سدِّباب اور بچوں کی فلاح و بہبود میں بہتری لانا طے ہوا تاکہ بچے معاشرے کے مفید شہری بن سکیں ۔
اگر ہم بغور جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بچے ہمارے معاشرے کا ایک مظلوم طبقہ ہیں، جہاں وہ کھیل کود، تفریح، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں، وہیں جبری مشقت، اغوا براائے تاوان اور جنسی تشدد جیسے قبیح و گھناؤنے معاشرتی افعال کا بھی تسلسل کے ساتھ شکار ہیں۔
بھارت کے دستور میں بچوں کے تحفظ کے لیے دفعات موجود ہیں:
دفعہ 15 کی رو سے ریاست کو خواتین اور بچوں کے لیے خصوصی سہولتیں فراہم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
دفعہ 24 کی رو سے 14 سال سے کم عمر بچوں کو کسی بھی جوکھم بھرے کام کے مقام پر ملازمت سے روک ہے۔
دفعہ 39 (C) کی رو سے بچوں کے استحصال، اخلاقی اور مادی محرومی پر روک ہے۔
دفعہ 45 کی رو سے کم عمر بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی سہولت کی وکالت کی گئی ہے ۔
پانچ سالہ منصوبوں میں بچوں کی فلاح و بہبود پر توجہ دی گئی ہے ۔ بہت سے ممالک بچوں کے حقوق کے حوالے سے موجود بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں، مگر خاطر خواہ عمل نہیں ہوتا۔ ملکی آئین میں قوانین ہونے کے باوجود ان پر عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی بچوں کے لیے انتہائی غیر محفوظ بن کر رہ گیا ہے۔ آئے روز بچوں پر جنسی تشدد، ہراسانی اور قتل کی خبریں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اعلیٰ حکام نے نوٹس لے لیا ہے اور جلد مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ لیکن ایک واقعے کی بازگشت کانوں سے نہیں جاتی کہ دوسرا واقعہ سر اٹھاتا ہے۔
بچوں پر تشدد کے کئی اقسام ہیں۔ جیسے گھریلو تشدد، جنسی تشدد، بچے کو مکمل طور پر نظر انداز کر دینا، آن لائن تشدد وغیرہ۔ گھر میں بچے پر جنسی اور دوسرے طریقے سے تشدد، سوتیلے ماں باپ یا گھر میں آنے والے دوست و احباب، گھر کے ملازمین، ٹیوشن ٹیچرز کی طرف سے ہوتا ہے، گھر کے باہر اجنبیوں سے، دوست یا پڑوسیوں سے۔
بچوں پر کسی بھی طرح کا تشدد ہو تو اس کے فوری اور طویل مدتی دونوں طرح کے شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، دماغی نشوونما متأثر ہوتی ہے، اعصابی و مدافعتی نظام کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے، بچوں میں ادراکی صلاحیت پروان نہیں چڑھتی،ذہنی صحت کے مسائل ہوتے ہیں، خود کو نقصان پہنچانے والے اقدامات میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے یا دیگر بچوں پر تشدد کرنے کا رجحان فروغ پانے کے خدشات بھی ہو سکتے ہیں۔ ملک عزیز میں بچے کل آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ رکھتے ہیں، لیکن ان کے مفادات کو کبھی ترجیح نہیں دی گئی۔ آئے دن ان کے حقوق پامال ہوتے رہتے ہیں، حالیہ دنوں میں کوڈ -19 کا اثر بھی پڑا ہے ۔عالمی اقتصادی فورم رپورٹ 2020 کے مطابق کوڈ – 19کا اثر بچوں پر اس طرح پڑا کہ ان کی تعلیمی سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئیں اور ان پر ذہنی دباؤ بڑھ گیا ہے۔حالیہ اگست تک دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ بچے تعلیمی ادارے بند ہونے سے اب بھی متاثر ہیں ۔
یومِ اطفال منانے کا مقصد بچوں پر ہونے والے ظلم و تشدد کا خاتمہ، ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا اہتمام، ان کی اچھی صحت کا خیال اور بچوں سے محنت طلب کاموں کی روک تھام ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بچے قوم کے معمار اور مستقبل کے قائد و ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ ان کی اعلیٰ تعلیم اور اچھی تربیت ہی ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کا سبب ہے۔ ایک صحت مند اور تناور درخت ہی خوش ذائقہ پھل اور خوشبو دار پھول دے سکتا ہے-
20 نومبر یوم اطفال کی مناسبت :
اس وقت مغربی ممالک سمیت پوری دنیا میں بچوں کے حقوق کو لے کر جو چہل پہل دکھائی دے رہی ہے، دانشوران فرنگ اس سلسلے میں جس حساسیت کا اظہار کررہے ہیں،مختلف این جی اوز کی جانب سے جو شعور بیداری مہم چلائی جارہی ہے اور ہرسال اس حوالے سے جو مختلف قوانین وضع کیے جارہے ہیں،بہ نظر غائر دیکھاجائے تو آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل،جب انسانیت جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی تھی،اسی وقت پیغمبر اسلامؐنے بچوں کی قدر ومنزلت اور ان کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے وہ زریں اصول اور رہنما ہدایات عطا فرمائیں، جو قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے لیے سرمۂ چشم کی حیثیت رکھتے ہیں۔آج کے دانشور اور ماہرین نفسیات بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی تربیت کے بعض پہلوؤں کو اہمیت دیتے ہیں،لیکن اسلام نے ازدواجی زندگی کا طور طریق،شریک حیات کا انتخاب،نسل و نسب کی پاکیزگی اور بچوں کے جسم وروح کی تربیت کے سلسلے میں قدم قدم پر والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داریوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔اسلام نے بچوں کو بھی وہی مقام و مرتبہ دیا جو انسانی نوع کے دیگر طبقات کو حاصل ہے۔ نبی اکرم ؐ نے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا، وہ معاشرے میں بچوں کے مقام و مرتبہ کا عکاس بھی ہے اور ہم سب کے لیے مشعل راہ بھی۔ اسلام میں بچوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اسلام نے بچوں کے حقوق کا آغاز ان کی پیدائش سے بھی پہلے کیا ہے۔ بچوں کے حقوق کا اتنا جامع احاطہ تلاش بسیار کے باوجود دنیا کے کسی نظامِ قانون میں نہیں ملتا۔ سردست ہم دین اسلام کی جانب سے عطا کردہ بچوں کے بعض حقوق وفرائض پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
حقِ حیات:
افلاس وبھکمری کا خوف زمانۂ جاہلیت میں قتل الاطفال اور وأد البنات کا محرک ہوا کرتا تھا، اہل جاہلیت بہ طور خاص اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے، اس ڈر سے کہ وہ ان پر بوجھ بن کر ان کو معاشی لحاظ سے کمزور کردیں گی اور ان کے لیے ان کا سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔اسلام نے بچوں پر اہم ترین احسان یہ کیا کہ انھیں زندگی کا حق عطا کیا۔ نکاح یا شادی کے ثمرے کے طور پر وجود پانے والے بچے کو اسلام یہ حق دیتا ہے کہ وہ زندہ رہے اور والدین کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ اس کی زندگی کو خوشی سے قبول کریں اور اس کی بقا کے لیے ناگزیر و ضروری اقدامات بھی کریں۔غور کیاجائے تو آج اسی برائی نے منعِ حمل یعنی ضبط ولادت اور منصوبہ بندی کا نام اختیار کرلیا ہے۔ اندیشہ وہی ہے جو قدیم زمانے میں تھا کہ ’آنے والے کو رزق کہاں سے ملے گا؟‘ وہ بھی اپنے آپ کو رازق سمجھتے تھے۔ آج بھی قومیں اپنے آپ کو وسائل رزق کا خالق سمجھتی ہیں، لیکن سورۂ بنی اسرائیل کی آیت کریمہ(اور نہ قتل کرو اپنی اولاد کو، ناداری کے اندیشے سے، ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی، بے شک ان کا قتل بہت بڑا جرم ہے) ان معاشی بنیادوں کو بالکل منہدم کردیتی ہے۔ جس میں صاف حکم دیا گیا ہے کہ اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ قتل نہ کرنے سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ پیدا ہونے کے بعد انھیں قتل نہ کرو، رازقِ حقیقی انہیں بھی رزق دے گا اور ان کی برکت سے تمہیں بھی رزق عطا کرے گا۔
نسب و شناخت،پرورش و پرداخت:
اسلام نسب کے تحفظ کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور شریعت ِاسلامیہ کے کئی احکامات کا انحصار بھی اسی پر ہے۔علامہ شاطبیؒ اپنی مشہور زمانہ کتاب الموافقات میں شریعت کے پانچ مقاصد ذکر فرمائے ہیں:
1۔حفاظتِ دین
2۔حفاظتِ عقل
3۔حفاظتِ جان
4۔حفاظتِ نسب
5۔حفاظتِ مال
ان میں دین کا ایک بہت بڑا مقصد نسب کی حفاظت ہے،جو کہ نکاح کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اگر نکاح کا عمل مفقود ہوجائے تو دین کا ایک بہت بڑا مقصد ادھورا رہ جائے گا۔ شریعت اسلامیہ نے حفاظتِ نسب کے ذریعے اللہ کے بندوں کو ان کے حقوق دلانے کا ایک بہترین انتظام فرمایاہے، تاکہ کوئی بچہ والدین کے پیار سے محروم نہ رہے، اسے باپ کی شفقت اور ماں کی ممتا برابر ملتی رہے،اس کی اچھی تربیت کی جاسکے اور ساتھ ساتھ اس کے قریبی رشتہ داروں میں ایسے افراد موجود ہوں جو بچے کے درست رویے پر حوصلہ افزائی اور کوتاہیوں پر بروقت تنبیہ کرسکیں۔ اگر اس تصور کو نظر انداز کیا جائے تو بھلا بچہ کیا مستقبل سنوار سکے گا؟ اسے خیر و شر کا ادراک کون کرائے گا؟اسے معیاری تعلیم و تربیت کہاں سے دی جائے گی؟اسے ایک بھائی کا ساتھ اور بہن کی غم خواری کا احساس کون دلائے گا؟ یقیناً وہ ان محرومیوں کے سبب معاشرے میں سرکشی مچا کر دکھائے گا اور اپنی جہالت کا مخاطب ہر کس و ناکس کو بنائے گا۔
تعلیم و تربیت:

والدین پر بچوں کے سلسلے میں یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ جہاں بچوں کو اچھی زندگی کے لیے اچھی خوراک،عمدہ کپڑے اور زندگی کی دوسری اشیاء مہیا کریں،وہیں ان کی دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کا بھی بھرپور انتظام کریں۔نیز زندگی اور اس کے نشیب وفراز کے بارے میں اپنے تجربات اور مشاہدات سے بچوں کو مستفید کریں تا کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ماہرین کے مطابق بچہ پیدائش کے بعد تربیت کے حوالے دو دور سے گزرتا ہے:
1۔بچپن کا دور:یہ دور ایک سال کی عمر سے سات سال تک ہوتا ہے۔اس دور میں بچہ کے اندر براہِ راست تربیت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی،کیوں کہ وہ اس دور میں اپنی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے۔
2۔سات سے چودہ سال کی عمر تک کا دور:اس دور میں عقل تدریجاً بڑ ھتی ہے اور فکری فعالیت کے لیے آمادہ ہوتی ہے۔اس دور میں انسان سیکھتا اور تعلیم و تربیت حاصل کرسکتا ہے۔
پہلے دور میں تربیت،براہ راست نہیں ہونی چاہیے اور اس عمر میں بچے کو کسی چیز سے روکنے اور کسی چیز کا حکم دینے میں سختی بھی نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اس کے لیے اچھا ماحول،پاکیزہ فضا اور مناسب دوست فراہم کرنا چاہیے؛تاکہ وہ اپنے ماحول اور معاشرے سے تربیت پاتا اور ادب سیکھتا رہے۔یہی وہ زمانہ ہے، جس میں اخلاق کی پہلی بنیاد پڑتی ہے اور وہ اپنے ماحول کے بارے میں اچھی یاد داشتیں اور مناسب طرزِ عمل کو محفوظ کرلیتا ہے۔
دوسرے دور میں بچے کو آزاد نہیں چھوڑنا چاہیے اور اس کی غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ اس کو اس کی بے ادبیوں سے روکنا چاہیے، اسے نظم وضبط سکھانا اورحد سے زیادہ کھیل کود وغیرہ میں وقت ضائع کرنے سے روکنا چاہیے،عبادت اور نیک کاموں کی طرف اسے رغبت دلانا چاہیے۔ نبی پاک ؐ نے ارشاد فرمایا:’’اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو، جب وہ سات سال کے ہوں اور انہیں نماز پر مارو جب وہ دس سال کے ہوں اور علیحدگی کردو ان کے درمیان خواب گاہ ہوں میں۔‘‘ (ابوداؤد) ان عمروں میں اگرچہ ان پر نماز فرض نہیں ہے، لیکن عادت ڈالنے کے لیے انہیں ابھی سے نمازی بنانے کی تاکید کی جارہی ہے۔

عدل و مساوات:
حقوق اطفال کے حوالے سے آخری اور اہم بات جسے والدین کو اپنے بچوں کے سلسلے میں ملحوظ رکھنا چاہیے وہ یہ کہ والدین بچوں کے درمیان کسی بھی چیز کی تقسیم وغیرہ کے موقع پر عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔کیوں کہ بچوں کو ابتداء سے ہی عدل وانصاف کا خوگر بناناچاہیے تاکہ وہ اس کی خوبی کو محسوس کریں، اس کی اہمیت سے آشنا ہوجائیں، اسے اپنی زندگی اور معاشرہ کے لیے ضروری سمجھیں اور بے انصافی،ظلم اورہر طرح کے امتیازسے پرہیز کریں۔کیوں کہ بچوں کی زندگی میں کوئی چیز چھوٹی نہیں ہوتی، لہٰذا عدل وانصاف کے نفاذ میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کا خیال رکھنا بھی از حد ضروری ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے اپنا کچھ مال عنایت کیا۔ میری والدہ نے کہا کہ میں اس وقت تک اس پر راضی نہیں ہوں گی، جب تک تم رسول اللہ ؐ کو اس پر گواہ نہ بنا لو۔ چنانچہ میرے والد رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ اس کو مجھے دیے گئے ہدیہ پر گواہ بنائیں۔ رسول اللہؐ نے دریافت فرمایا کہ:’’کیا تم نے اپنے تمام لڑکوں کو اسی طرح ہدیہ دیا ہے؟‘‘میرے والد نے کہا: ’’نہیں۔‘‘رسول اللہ ؐ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے بارے میں عدل سے کام لو۔‘‘چناں چہ میرے والد نے وہ ہدیہ مجھ سے واپس لے لیا۔
ایک دوسری روایت میں رسول اللہؐ کا ارشاد اس طرح مروی ہے کہ آپؐ نے میرے والد سے پوچھا:’’کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ سب لڑکے فرمانبرداری اور حسن سلوک میں برابر ہوں؟‘‘انھوں نے کہا:’’ ہاں، کیوں نہیں۔‘‘آپ ؐ نے ارشادفرمایا: ’’تب تو ایسا نہ کرو‘‘ (متفق علیہ)
یعنی تم بچوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام نہ لو گے اور برابری نہ کرو گے تو تمہارے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت و فرمانبرداری میں بھی تمام بچے یکساں نہ ہوں گے، بلکہ جن بچوں میں محرومی کا احساس ہوگا اور وہ والدین کی طرف سے نا انصافی محسوس کریں گے، ان کے اندر والدین کی نافرمانی کا جذبہ ابھرے گا۔
خلاصۂ کلام:
بچوں کی تعلیمی، معاشی اور معاشرتی ضروریات کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ضروریات بھی بہت اہمیت کی حامل اور والدین کی توجہ کی متقاضی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ نہ صرف بچے کی تعلیمی و معاشی ضروریات پر توجہ دیں،بلکہ بچوں کی سماجی اور نفسیاتی ضروریات کو بھی سمجھیں اور ان ضروریات کی تسکین کامناسب انتظام کریں،دن بھر میں بچوں کے لیے کچھ وقت فارغ کریں،ان کے ساتھ گفتگو کریں،ان کے سرپر دست شفقت رکھیں،ان کی پریشانی پوچھیں اور اسے حل کرنے کا تیقن دیں، وغیرہ۔ دورجدید کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت ہی نہیں ہے، جب کہ پرانے زمانے میں والدین بچوں کو وقت دیتے تھے، انہیں قصے اور کہانیاں سناتے تھے اور ان کی فکری تربیت کرتے تھے۔ یوں بچوں کی نفسیاتی ضرورت بھی پوری ہو جاتی تھی اور تعلیم وتربیت بھی۔ یومِ اطفال کے موقع پر بچوں کے والدین اور سرپرست حضرات میں ان باتوں کے متعلق بیداری لانا بے حد ضروری ہے۔

    ملکی آئین میں قوانین ہونے کے باوجود ان پر عمل در آمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی بچوں کے لیے انتہائی غیر محفوظ بن کر رہ گیا ہے۔ آئے روز بچوں پر جنسی تشدد، ہراسانی اور قتل کی خبریں،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

نومبر ٢٠٢١