اپنے پسندیدہ ناول پر تبصرہ ناول نگار کے تعارف کے ساتھ

ناول:مصحف
مصنفہ:نمرہ احمد
تبصرہ نگار:قدسیہ عندلیب فردوس خان
مصحف اس ناول کی مصنفہ نمرہ احمد ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جونمرہ احمد کو نہیں جانتا۔
یہ ایک ایسی ناول نگار ہے جو لفظوں کا استعمال اتنے خوبصورت انداز میں کرتی ہے کے پڑھنے والا آس پاس کی دنیا کو بھول کر اِن الفاظ کے سحر میں کھو سا جاتا ہے۔یہ مقامات کا ذکر تو کچھ یوں کرتی ہے کہ گویا محسوس ہوتا ہے کہ اِن مقامات کا نظارہ ہم خود اپنی آنکھوں سے کر رہے ہیں۔اِن کی پیدائش 9 ستمبر 1990 کو پاکستان کے ایک شہر بھکّر میں ہوئی۔ انہوں نے ناول نگاری کا آغاز 2007سےکیااورجنت کے پتے, نمل, میں انمول جیسی لاجواب ناولوں کے ذریعے بہت ہی کم عرصے میں قارئین کے دلوں میں ایک خاص مقام حاصل کر لیا۔ مصحف بھی انہیں بہترین ناولوں میں سے ایک ہےجس کاشمار میری پسندیدہ ناولوں میں سب سے اوپر آتا ہے۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ صرف ہیرو اور ہیروئن کی کہانی نہیں ہے بلکہ اگر آپ مجھ سے پوچھے تو میں کہونگی کے یہ ہیرو, ہیروئن کی کہانی ہےہی نہیں۔ یہ کہانی تو دو لڑکیوں کی ہے۔ دو ایسی لڑکیوں کی جن کا کردار شروعات میں جو بتایا گیا کہانی کے اخیر میں یہ اُس سے بالکل، بلکل ہی مختلف بن گیا۔ اب آپ سوچ رہے ہونگے کے ایسا کیا ہوا جِس نے اُنکو یو اپنے اصل سے مختلف بنا دیا۔ یہی خیال مجھے بھی آیا تھا جب میری سہیلی نے مجھے اِس ناول کے بارے میں بتایا۔ مجھے ناول پڑھنے کا شوق پہلے سے نہیں تھا یہ شوق تو مجھے تب ہوا جب میں اپنے نیٹ کے امتحان دے کر فارغ ہوئی تھی۔ اِس سے پہلے نا تو مجھے اردو ادب میں کوئی دلچسپی تھی نا ہی اردو کتابیں پڑھنے میں حالانکہ میرے دادا جان حمیداللہ خان حامد اردھاپوری ایک مشہور و معروف شاعر اور مصنف رہ چکے ہیں۔ خیر تو مجھے اردو میں دلچسپی اُسی فراغت کے وقت میں ہوئی ۔ میں نے نمرہ احمد کے بارے میں کافی سن رکھا تھا کے وہ ایک بہت اچھی ناول نگار ہےتو سوچا کے دن رات موبائل استعمال کرنے سے بہتر ہے کہ کوئی اچھی ناول پڑھ لی جائے۔ میں نے اپنی سہیلی عذرا جو کے نمرہ احمد کی بہت بڑی فین ہے اور اُن کے تمام ناولز پڑھ چکی ہے اُس سے پوچھا کہ مجھے اُن کی سب سے اچھی ناول کا نام بتاؤ۔ جواب آیا کے”ویسے تو نمرہ احمد کی ساری ناولز بہت اچھی ہے لیکن تم سب سے پہلے مصحف پڑھو”۔ اُسی کے کہنے پر میں نے مصحف کی شروعات کی۔344صفحات پر مبنی اِس کتاب کو جب میں نے کھولا تو پہلے ہی صفحے پر لکھا ہوا تھا کہ یہ کہانی “مصحف” کے ساتھ جڑے والی دو لڑکیوں کی ہے۔ مجھے مصحف کا مطلب نہیں پتا تھا۔ میں کافی دیر تک سوچتی رہی کے آخر مصحف کا کیا مطلب ہوسکتا ہے پھر خیال آیا کے پوری کہانی پڑھنے کے بعد شاید پتا چل جائے اور اِس تجسس کے ساتھ میں نے آگے پڑھنا شروع کیا۔ کہانی کی شروعات ہی عجیب پُر اسرار تھی۔ اِس میں ایک طرف تومحمل ابراہیم جو کہانی کی ہیروئن ہے اِسکا ایک بہت بڑا خاندان بتایا گیا ہے۔ محمل کے والد آغا ابراہیم اُسکے بچپن میں ہی فوت ہو چکے ہیں۔ محمل کے مطابق اُسکے تایا اور دوچچا اپنے پورے خاندان سمیت اُنکے گھر پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں حالانکہ وہ گھر اور بزنس اُسکے ابا کا ہے۔ وہ اور اُس کے امی کی حیثیت گھر میں کسی ملازمہ سے زیادہ نہیں۔ محمل کی زندگی بے انتہا مشکلات اور پریشانیوں سے گھری ہوئی ہوتی ہے تو دوسری طرف ایک سیاہ فارم لڑکی جو پچھلے دیڑھ مہینے سے روز مخصوص اوقات میں بس کا انتظار کر تی محمل کے ساتھ بس اسٹینڈ کی بینچ پر آکر بیٹھتی ہے۔ اُس سیاہ فارم لڑکی کے ہاتھ میں سیاہ جلد والی بھاری سی، قدیم، پُراسرار کتاب ہے جسمیں اُس لڑکی کے مطابق ماضی، حال، مستقبل میں کیا پیش آنے والا ہے لکھا ہوا ہے اور تمام پریشانیوں کا حل بھی ہے۔ سیاہ فارم لڑکی یہ کتاب محمل کو دینا چاہتی ہے لیکن بے انتہا پریشانیوں کے باوجود بھی محمل وہ کتاب سیاہ فارم لڑکی سے نہیں لیتی کیونکہ اُسے لگتا ہے کہ وہ کوئی جادو ٹونے والی کتاب ہے اور وہ کسی غلط کام میں ملوث نہیں ہونا چاہتی لیکن ایک دن زندگی کی پریشانیوں سے تنگ آ کر مشکلات کا حل ڈھونڈنے کےلیے محمل وہ کتاب اُس لڑکی سے لے لیتی ہے۔جب وہ پڑھنے کے لیے کتاب کھولتی ہے تو دیکھتی ہے کہ وہ کوئی جادو ٹونے والی نہیں بلکہ مقدس کتاب قرآن ہے تو وہ سمجھتی ہے کہ سیاہ فارم لڑکی نے اُس کی تزلیل کی، مزاق اڑایا۔ غصہ میں آکر وہ کتاب سیاہ فارم لڑکی کو واپس کرنے چلی جاتی ہے۔ اُسکے بعد کا سین نمرہ احمد نے کافی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے محمل کا وہ کتاب سیاہ فارم لڑکی کو واپس کرنے جانا اُسی وقت فواد کا وہاں آنا محمل کا فواد کے ساتھ جاتے ہوئے اُس کے جال میں پھنس جانا۔ ایک منٹ رُکئےاب آپ سوچ رہے ہونگے کے فواد کون ہے۔ فواد دراصل محمل کا تایازاد ہوتا ہے جو لڑکیوں کی خریدوفروخت میں ملوث ہے اور وہ محمل کو اپنے محبت کے جال میں پھنسا کر تین کروڑ کے نفع کی خاطر ایک رات کے لیے بیچ دیتا ہے۔ لیکن ہمارے ہیرو صاحب اے ایس پی ہمایوں داؤد کی بدولت وہ بچ جاتی ہے۔ یہاں تک پڑھنے کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کے محمل نے کیا کھویا اور کیا حاصل کیا۔ محمل نے قرآن کو کھو یا یعنی کے سکون کو کھو یا، آسانیوں کو کھو یا، بلندی کو کھو یا اور حاصل کیا کِیا؟ ذلت، رسوائی، بے سکونی۔ لیکن یہ انجام نہیں تھا کہانی ابھی باقی تھی اس لیے میں نے آگے پڑھنا شروع کیا۔ کہانی میں آگے ہیرو کے ساتھ ایک اور نئی کردار کا اضافہ ہوتا ہے اور وہ کردار ہے فرشتے کا۔ فرشتے، ہمایوں کی خالہ زاد بہن ہے وہ اپنے نام کی طرح ہی ایک نیک لڑکی ہے اور ایک اسلامک اسکول بقول نمرہ احمد کےسنگِ مر مر کے چمکتے برآمدوں اور اونچے ستونوں والی مسجد میں پڑھاتی ہے۔ فرشتے کے ذریعے ہی محمل اُس مصحف کو تھام لیتی ہے جسے وہ سیاہ فارم لڑکی کو واپس کر آئی تھی۔ یہاں سے محمل کی زندگی ایک نیا رخ لے لیتی ہے۔ قرآن کے ذریعے اُسے اپنے ہر سوال کا جواب ملتا جاتا ہے۔ یہاں سے وہ اللہ کی رسی کو اُس مضبوطی سے تھامتی ہے کہ پھر وہ رسی محمل سے کبھی نہیں چھوٹتی تو دوسری طرف فرشتے، ہمایوں سے بچپن سے محبت کرتی ہے لیکن جب اُسے محسوس ہوتا ہے کہ ہمایوں اور محمل ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے ہے تب وہ اللہ کے لیے قربانی دیتے ہوئے ہمایوں کی شادی اپنی بہن سے کروا دیتی ہے۔ ایک منٹ “بہن” دیکھ کر آپ لوگ چونک گئے ہونگے میں بھی چونکی تھی لیکن سچ ہے۔ فرشتے، محمل کی سوتیلی بہن ہوتی ہے۔ آغا ابراہیم کی دوسری بیوی سے ہوئی بیٹی”فرشتے ابراہیم “۔ شادی کے بعد ہمایوں اور محمل ایک خوشگوار زندگی گزارتے ہیں اُنکا ایک پیارا سا بیٹا ہوتا ہے اور فرشتے اُن کی زندگیوں سے دور چلی جاتی ہے۔ اُسکے بعد کہانی ایک دوسرا نیا رُخ لیتی ہے جب محمل ایک حادثے میں معذور ہو جاتی ہے وہ سات سال تک کوما میں ہوتی ہے اِن سات سالوں میں بہت کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔ فرشتے اُن کی زندگیوں میں واپس آجاتی ہے۔ بظاہر تو وہ محمل کے لیے آئی ہے لیکن جب وہ محمل کو معذور دیکھتی ہے تواُس کے دل میں ہمایوں کو پھر سے پانے کی خواہش بیدار ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آہستہ آہستہ قرآن فرشتے سے چھوٹتا جاتا ہے، اُس کا دل نور سے خالی ہوتا جاتا ہے۔ تو دوسروں طرف محمل کی معزوری کے باعث ہمایوں، محمل سے دور ہوتا چلا جاتاہے ۔اِتنی دور کہ ایک چھوٹے سے شک کے باعث وہ محمل کو چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن جب سچ پتا چلتا ہےاور محمل بے گناہ ثابت ہوتی ہے تو ہمایوں اور فرشتے دونوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ محمل اپنے بیٹے کو لے کر اُن سب سے دور جانے کا حتمی فیصلہ کر لیتی ہے اور اِسطرح اِس کہانی کا اختتام ہوتا ہے۔یہ کتاب میری زندگی کی سب سے بہترین کتاب ہے۔ مصحف سے میں نے بہت کچھ سیکھا بے شک کوئی کتاب آپکی زندگی نہیں بدل سکتی لیکن ہر کتاب آپ کو کچھ نہ کچھ سِکھا ضروردیتی ہےجو ایک نیا انسان بننے میں آپکی مدد کر تی ہے۔میری زندگی میں مصحف نے جو کردار ادا کیا وہ یہ تھا کے اِس کتاب نے مجھے قرآن سے ملوایا۔یہ کتاب پڑھنے کے بعد جو دوسری کتاب میں نے کھو لی وہ قرآن تھی کیونکہ مجھے بھی محمل کی طرح اپنی زندگی سے متعلق سوالوں کے جواب ڈھونڈنے تھے اور یقین کریں قرآن پڑھنے کے بعد مجھے پتاچلا کے یہ مقدس کتاب صرف محمل اور فرشتے سے ہی بات نہیں کرتی یہ ہراُس انسان سے بات کرتی ہے جو اِس میں خود کو تلاش کرتا ہے۔
بےشک یہ ایک بہت بہترین ناول ہے۔ لیکن ایک بات جو مجھے سمجھ نہیں آئی وہ یہ کے اِس میں ہمارے ہیرو صاحب کو کان کے بڑے ہی کچّے بتایا گیا ہے۔ اے ایس پی ہونے کے باوجود وہ اصل ثبوت اور گواہ ڈھونڈنے کے بجائے ہر دکھائی گئی اور سنی سنائی بات پر تفتیش کئے بغیر ہی یقین کر لیتے ہیں۔چونکہ یہ ایک تبصرہ ہے اسلیے اِس ناول میں جو تضاد مجھے نظر آیا میں نے لِکھ دیا۔ نمرہ احمد کے فین ہرگز ناراض نہ ہو ۔

Comments From Facebook

7 Comments

  1. عمیر

    بھت اچھا لکھا ہوا ہے

    Reply
    • ام کسوا

      آپ کو جو تضاد نظر اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نمرہ جی نے اس کردار کو حقیقت کی بہت قریب جا کر لکھا ہے

      Reply
  2. اریشہ تقدیس

    ماشاءاللہ۔۔واقعی عمدہ لکھاوٹ ہے آپکی۔۔مذید لکھا کریے۔۔مزہ آیا آپ کا تبصرہ پڑھ کر۔

    Reply
  3. افرین

    ماشاء۔ الله بہت لا جواب

    Reply
  4. Mohammad Anas

    Mashallah bahot khub ????☺️????

    Reply
  5. Mohammad Anas

    Mashallah bahot khub ????☺️????

    Reply
  6. Imad

    Masha allah ,bahot umdaa

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے