اپنے پسندیدہ ناول پر تبصرہ ناول نگار کے تعارف کے ساتھ

کتاب : میری ذات ذرہ بے نشاں
مصنف: عمیرہ احمد
تبصرہ نگار : ایمن ثناء
عمیرہ احمد کی پیدائش سیالکوٹ میں ہوئی، تعلیم سیالکوٹ سے ہی حاصل کی، وہ مشہور مصنفہ ہیں، ان کا مشہور ناول “میری ذات ذرہ بے نشاں”  جو مجھے بیحد  پسند ہے ، جو ناول اور ڈرامہ کی شکل میں موجود ہے عمیرہ احمد کی بہت سارے “ناولز” آئے جو ڈرامے کی شکل میں بھی ہے، مشہور ناول میں الف ٬ پیر کامل ٬ محبت  صبح کا ستارہ ہے ٬ زندگی گلزار ہے٬ من و سلویٰ٬ حاصل ٬ لا حاصل جیسے بہت مشہور ناول لکھ چکی ہیں ڈرامے کی شکل میں الف٬  زندگی گلزار ہے ٬ محبت صبح کا ستارہ ہے اور بھی بہت سارے ہیں ۔
یہ ایک ایسے کردار کی عکاسی کرتا ہیں صبا جو مرکزی کردار ہے جو مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے حق کے لیے لڑنا جانتی ہے  وہ ایک ایسے خاندان سے ہیں جہاں لڑکیوں کا یونیورسٹی جانا معیوب سمجھا جاتا ہے ؛  اسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہوتا ہے لیکن اس کے لیے اسے اپنے تایا ابو اور تائی امی سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ابھی وہ  سوچ ہی رہی ہوتی ہیکہ کیسے ان دونوں سے اجازت  لی جائے، اسی درمیان صبا کے کزن عارفین عباس جو امریکہ میں رہتا ہے پاکستان چھٹیاں گزارنے آیا ہوا تھا اس کی ملاقات صبا سے ہوتی ہے، پہلی ہی ملاقات میں عارفین سے پوچھتی ہے کہ تعلیم کیسی چیز   ہے؟ اور کیا صرف لڑکوں کو حاصل کرنی چاہیے؟ یہ سوال سن کر عارفین عباس جواب دیتا ہے کہ یہ تو بہت اچھی چیز ہے اور دونوں کو کرنی چاہیے  اس پر صبا جواب دیتی ہے :
کہ پھر آپ کے ابو اور امی مجھے یونیورسٹی تک جانے کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے بیٹے کو تو ملک سے باہر بھیج رکھا ہے ؛ صبا کو پتہ نہیں تھا کے یہ سوال اور جواب اس کی ہمیشہ کے لیے زندگی بدل دیں گی اور ہوا وہی، عارفین عباس نے اپنے گھر میں شادی کے لیے اسی لڑکی کا نام لیا جس سے اس کے ماں اور باپ دونوں خاندان میں سب سے زیادہ ناپسند کرتے تھے، ناپسند کرنے کی سب سے بڑی وجہ تعلیم حاصل کرنا ، لوگوں سے سوال کرنا اور اس کی خودمختاری تھی یہ تینوں ایک انسان کو بہت مضبوط بناتے ہے لیکن ناول میں دکھایا گیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں یہ تینوں ہی سب سے بری چیز سمجھی جاتی تھیں
اور یہ ناول ایک ایسے کردار کے ارد گرد گھومتا ہے جو تعلیم تو حاصل کرتی ہے لیکن پھر وہی تعلیم اس کے گلے پڑ  جاتی ہے یعنی کے صبا کو اس کے تعلیم کی وجہ سے  اس کی کزن اسے پسند کرتا ہے اور پھر اس سے شادی کے لیے اپنے گھر میں ضد کرتا ہے جو کہ اس کے ماں باپ کو صبا بالکل ہی پسند نہیں ہوتی ہے لیکن بیٹا کے سامنے ہار ماننا پڑ جاتا ہے اور پھر دونوں کا نکاح کر دیا جاتا ہے ۔کہانی یہاں سے رخ بدلتی ہے عمیرہ احمد لکھتی ہیں کہ معاشرہ میں کس طرح ایک عورت ہی ایک عورت کی دشمن بنتی ہے اور پھر تائی امی کی ناپسندیدگی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ صبا پر زنا کاری کا الزام لگاتی ہے اور جب صبا سب کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے تب تائی امی اسے ثابت کرنے کے لیے  قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھاتی ہے۔  صبا   بے قصور ہوتی ہے لیکن اسے  سزا کے طور پر عارفین عباس سارے  خاندان کے سامنے طلاق دیتا ہے صبا اپنی تائی امی کو  قرآن مجید پر ہاتھ رکھے دیکھ کر بالکل ہی حیران و مبہوت ہو جاتی  ہے اسے یقین نہیں ہوتا ہے کہ ایک عورت جو  تہجد گزار ٬ پانچ وقت کی نمازیں پڑھتی ہے وہ کیسے جھوٹی قسم کھا سکتی ہے لیکن وہ اب تو ہاتھ رکھ چکی تھی خاندان والوں کو تو ماننا تھا کہ  تائی امی سچ بول رہی کیوں کہ انکے نیک ہونے کا چرچا پورے خاندان میں تھا  مزید یہ کہ قرآن مجید جیسی مقدس و پاکیزہ کتاب پر ہاتھ رکھ کر کوئی بھی جھوٹی قسم نہیں کھا سکتا تائی امی اسی گھمنڈ میں ہاتھ رکھتی ہے کہ انہیں اللہ معاف کردے گا لیکن  کسی پر الزام تراشی اور جھوٹی قسم خدا بھی کبھی معاف نہیں کرتا پھر صبا  کی شادی ایک پچاس سالہ مرد سے کر دی جاتی ہے، اس پر صبا خاموش رہتی ہے اسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور وہ ضرور انصاف  کرے گا بولا جاتا ہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، ایک بار پھر صبا کو زنا کاری کی سزا ملتی ہے اور اسے پھر طلاق ہوتی ہے وہ اپنی ایک بیٹی سارہ کو لے کر یہ در در بھٹکتی ہے اسے پھر بھی یقین ہوتا ہے کہ اللہ ضرور میرے ساتھ انصاف کرے گا اور وہ بولا جاتا ہے نا خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں پھر وہی ہوتا  ہے کہ جھوٹی قسم کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے  صبا کی تائی امی کو اس چیز کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے وہ کینسر جیسی  جان لیوا بیماری میں مبتلا ہو جاتی ہے ایک بیٹی کی طلاق ہوتی اور ایک بیٹی بیوہ ہوتی ہے ٬ ایک جھوٹ کے وجہ سے سارا خاندان ٹوٹ جاتا ہے بھائی بھائی میں رشتہ ختم ہو جاتا ہے بغیر  غلطی کے ارتکاب کیے صبا ساری زندگی تکلیف جھیلتی ہے٬ خونی رشتے سے اعتبار اٹھ جاتا ہے ۔
یہ سب ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ ہی ہوتا ہے ایک دوسرے پر بہتان لگایا جاتا ہے اور پھر جھیلتا پورا خاندان ہے
اسلیے ہمیں سیکھنا چاہیے بلا وجہ کبھی کسی کے کردار پر بات ناکریں! اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لیے جھوٹی قسم نا کھائیں اور نا ہی کسی کو اپنے سے کمتر سمجھیں ورنہ وہی ہوگا جو “میری ذات ذرہ بے نشاں” میں “شکیلہ بیگم” یعنی تائی امی کے ساتھ ہوا .

Comments From Facebook

4 Comments

  1. بشریٰ سلمان

    Bahut khoob

    Reply
    • Mahfuzalam5130

      ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت اور اعلیٰ و عمدہ کارکردگی ہے

      Reply
  2. Mohammadi Belal

    ماشاء اللہ…. آپ کا تبصرہ کرنے کا انداز کافی جو صورت ہے

    Reply
  3. Aftab Ahmad R

    اس ناول میں بہت ہی اچھی اچھی بات لکھی گئی ہے اور اس کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو پڑھائی کے طرف رجحان کرنا ہوگا اگر کوئی نہیں جانتا ہے تو اس کتاب کو ایک مرتبہ پڑھ لے اُسکے بعد وہ پڑھائی کرنے پر آمادہ ضرور ہوگا ان شاء اللہ

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے