جنت کے پتے

ناول: جّنت کے پتے
مصنفہ : نمرہ احمد
تبصرہ نگار: اریشہ تقدیس شعیب شہباز

وہ کچھ دن پہلے ٹھنڈ میں ڈوبی ایک خوبصورت سی صبح تھی۔ جب موبائل میسیج کی ٹون نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔وہاں ڈھیروں میسیج میں مجھے وہ میسیج دیکھاٸی دیا۔
وہ ہادیہ میگزین کی طرف سے آیا تھا۔
‘اپنی پسندیدہ ناول پر تبصرہ’ افف! میں کچھ پل اس لفظوں کےسحر میں ڈوب سی گٸی۔ کسی سحرذہ سی کیفیت میں، میں کتنے ہی پل فون پکڑے بیٹھی رہی۔ کچھ پل وقت کی قید میں کسی خوبصورت خیال کے ساتھ رہنا کتنا دلفریب ہوتا ہے نا!!

کتنے پل بیتے۔کتنے دن گزرے۔جب میں نے خود کو اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھی ہوٸی سیاہ پین پکڑے سامنے کھولی ہوٸی ضخیم کتاب پر پین سے کچھ خاص الفاظوں پر لاٸنس مارک کرتے ہوۓ پایا۔اسے دوبارہ شروع سے پڑھنے کا مزہ ایک مختلف احساس تھا۔تبصرہ لکھنے کا نہ مجھے شوق تھا نہ تجربہ۔اسلیے جب پہلی دفعہ لکھنے بیٹھی تومجھےپتہ نہ چلا کہ کب دل کی کیفیت کو میں نےنظم میں ڈھالیا تھا۔تبصرہ تو لکھا نہ گیا ۔البتہ میرے دل کی حالت کو نظم نے خود میں پناہ دی۔ وہ کچھ یوں لکھی گیی تھی۔

پسندیدہ کتاب اب پھر کُھل سی گٸی
تبصرہ کرنے کو خود پر مچل سی گٸی
یادوں کا افسانہ میرا ساتھ کُھل اٹھا
کیسے کیا جاۓ تبصرہ ، دل کہہ اٹھا
اتنا سچ تو نہ لکھا جایگا،جو کہ سچ ہے
کیا کرے!
دل پہلی کتاب کی محبت میں مست ہے

کھولوں اسے تو مجھے واپسی مشکل لگتی ہے
اس کے کرداروں میں، یادیں جھلکتی ہے
منظرنگاری مجھے مخمور سی کرتی ہے
تو ترکی کی وادیاں مسرور کرتی ہے
یہ مجھے خود میں ہی مصروف کرتی ہے
کیا کرے!
دل کو یہ اپنی محّبت میں مجبور کرتی ہے

لوگ کہتے ہیں ، اتنی اچھی بھی نہیں ہے یہ
پتہ نہیں! مجھے کیوں اتنا مدہوش کرتی ہے
اس کو کھولوں میں تو زمانے بیت جاتے ہے
یہ میرے وقت کو اسطرح خاموش کرتی ہے
کہا ہے! تبصرہ ایمانداری سے لکھنا شرط ہے
میں کہوں!
یہ مجھے اس ذمہ داری سے فراموش کرتی ہے

یہ کتاب میرے لیے کوٸی عام کتاب نہیں تھی۔ اس کتاب سے میری پہلی ملاقات میرے عزیز ماموں فاطر ماما کے گھر پر ہوٸی تھی۔ آج سے سات سال پہلے۔ اس کتاب کی ملاقات اس لڑکی سے نہیں ہوٸی تھی جو ابھی یہاں اسے کسی سحرذدہ سی پڑھ رہی تھی۔بلکہ یہ اس لڑکی سے ملاقات کررہی تھی جسے اردو ادب سے کوٸی خاص لگاٶ نہیں تھا۔اس کم عمر لڑکی نے بچپن میں کچھ کتابوں سے دوستی کرکہ ، بڑھتی عمر کے ساتھ کب اپنارشتہ اردو سے توڑا اسے پتہ ہی نہ چلا تھا۔لیکن اس کتاب کے نام سے میں واقف ضرور تھی۔کسی دوست کے منہ سے جب میں نے اسکا نام سنا تو مجھے یہ کچھ خاص پسند نہ آٸی۔مجھے اسکا نام لینے والی دوست بھی کچھ خاص پسند نہ تھی۔ غیر ہم مزاج شخص کا دوست بننے سے بہتر میرے لیے اکیلے رہنا تھا۔لیکن پھر ایک ٹیچر نے بھری کلاس میں اسکا ذکر کیا۔ چونکہ وہ فارغ وقت تھا۔ اس لیے سب ہی طلبہ ان کی بات سن رہے تھے۔وہ کہنے لگیں۔آپ میں کس کو کتابیں پڑھنے کا شوق ہیں؟ ساری کلاس نے ہی اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا۔میں بھی چونکہ بچپن میں ہی کافی کتابیں پڑھ چکی تھی اور تب بھی میں اسلامی کہانیاں بڑے شوق سے پڑھا کرتی تھی ۔تو مسکراکر ہاتھ اٹھاتے ہوۓ میں نے بھی سب کا ساتھ دیا۔وہ ٹیچر خوش ہوگٸی۔پھر انھوں نے پوچھا۔کس نے یہ ناول پڑھا ہیں؟ ساتھ بیگ سے کوٸی موٹی سی کتاب بھی نکالی۔میں نے اپنی پوری آنکھیں کھولے اسے غور سے دیکھا۔وہ پیلے کور کی کوٸی موٹی بلکہ بہت موٹی سی کتاب تھی۔کتاب کو ٹیچر نے کچھ اس طرح پکڑا تھا کہ اسکا نام چُھپ گیا تھا۔بس نیچے مصنفہ کا نام دِکھاٸی دے رہا تھا۔میں نے تھوڑا آگے ہوکر چہرہ اٹھاۓ غور سے وہ نام پڑھا۔”نِمرہ احمد“۔ہاں یہی نام لکھا نظر آرہا تھا۔میں نے یہ نام پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔وہ لڑکی جسے میں نے لفظی طور پر دوست کہا تھا جوش سے چیخی۔

“میم!میں نے پڑھا ہے یہ ناول ابھی۔” میں نے پلٹ کر اسے دیکھا۔اور میرے لبوں سے “اوہ” نکلا۔وہ ٹیچر مارے خوشی کے اس لڑکی کے قریب گٸی۔
“کیا سچ میں؟” وہ اس سے کہنے لگی۔
“جی میم! ابھی پڑھا ہے۔یہ جہان سکندر کی کہانی والی ناول ہے نہ؟۔”میں اپنا چہرہ پیچھے کی طرف موڑے ، باتیں سننے لگی۔
“بھلا یہ کیسا عجیب سا نام تھا جہان سکندر! میں نے تو کہیں بھی یہ نام نہیں سنا تھا۔”میں خود سے کہنے لگی۔مجھے ہیرو کا نام کچھ خاص پسند نہ آیا۔ چونکہ مجھے کہانیاں ہمیشہ سے بہت پسند تھی اس لیے ان کی باتیں بورینگ لگنے کے باوجود بھی میں سن رہی تھی۔ٹیچر کہہ رہی تھی۔
“میں نے اس جیسی ناول کبھی نہیں پڑھی۔کتنی اچھی ہے نہ؟” اور پتہ نہیں کیا کیا تعریفیں وہ دونوں آپس میں خوش گپیوں والے انداز میں کرنے لگیں تھیں۔آف پریڈ ہونے کی وجہ سے کلاس میں لڑکیوں کا شور سا تھا۔ان کی آوازیں مجھ تک آنا بند ہوگٸی۔لیکن یہ نام میرے ذہن میں رہ گیا۔جہان سکندر۔عجیب سا نام تھا!! ہیں نا؟
پہلے میں آپ کو نمرہ احمد کے بارے میں بتاتی ہوں کہ وہ کون ہے؟

نمرہ احمد۔ جن کا تعلق نیازی خاندان سے ہے۔وہ موجودہ دور میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔وہ میرے دل کے ساتھ کٸی قارئين کےدلوں میں اپنی منفرد راٸٹنگ اسٹاٸل کی وجہ سے حکمرانی کررہی ہے۔

نمرہ احمدنے 2007 میں ناول نگاری کا آغاز ”میرے خواب میرے جگنو“ نامی ناول سے کیا جو ”شعاع ڈائجسٹ“ سے قسط-وار شائع ہوتا رہا۔ مجھے حیرانی ہوتی ھیکہ محظ دس سالوں قلیل عرصے میں انھوں نے بارہ ناول اور کٸی افسا نے لکھے۔

میرا اوپر لکھے کلاس کے واقعے کے چند دن بعد کسی کام سے حیدرآباد کا سفر ہوا۔عزیز فاطر ماما جن کا اوپر ذکر کیا ہے وہ وہیں رہتے تھے۔ وہ میرے لیے اپنے نام کی طرح بہت خاص شخصيت ہے۔بہت محّبت کرنے والے۔خوش مزاج اور ہم مزاج بھی۔ان کے گھر پر مجھے وہ کسی کونے میں رکھی دکھاٸی دی۔میں نے پر جوش سے انداز میں اسے کھولا۔وہ وہی تھی۔اس وقت میں نے کبھی اس جیسی موٹی سی بڑی کتاب نہیں دیکھی تھی۔اب میں بیٹھی سونچتی ہوں کہ اچھا ہوا اس وقت میں نے نمل نہیں دیکھی تھی۔ورنہ کبھی ناولوں کی سحر ذدہ سی دنیا میں قدم نہ رکھتی۔میں نے اسے کھولا۔وہاں بڑا بڑا سا جنت کے پتے لکھا دیکھاٸی دے رہا تھا۔وہ کوٸی 860 صفحات کی کتاب تھی۔میں بہت حیران ہوٸی ۔بھلا کوٸی اتنی ضخیم کتاب کیسے لکھ سکتا تھا؟ میں نے پاس بیٹھے فاطر ماما کو آواز دی۔ وہ اپنی بہن اور میری مّمی سے باتیں کرنے میں مشغول تھے۔پلٹ کر مجھے دیکھا۔
“آپ نے پڑھا ہیں اسے؟” میں نے پلک جھپکا کر پوچھا۔مجھے یقین تھا کہ وہ نہ ہی کہےگے۔بھلا ان جیسا مصروف انسان اتنی موٹی کتاب کیوں کر پڑھےگا؟ میں سوچ ہی رہی تھی کہ انھوں نے جواب دیا۔
“ہاں پڑھا تھا۔کافی وقت ہوگیا۔”میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔اتنی بڑی کتاب پڑھ لی آپ نے ! کیسے؟؟میرا اشتیاق بڑھا۔ اس لڑکی جسے اوپر دوست کہا تھا اسے چھوڑ کر ٹیچر اور فاطر ماما کی باتیں سن کر میرا تجس بڑھا تھا۔کچھ تو تھا اس کتاب میں۔ مجھے پڑھنا چاہیے تھا۔ فاطر ماما سے کی گٸی مزید بات چیت میں پتہ چلا کہ انہیں یہ کتاب کچھ خاص پسند نہ آٸی تھی۔البتہ انہیں اسی مصنفہ کی لکھی مصحف پسند آٸی تھی جو کہ اس وقت ان کے گھر میں موجود تھی۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ دونوں کتابوں کو اغوا کرکہ ساتھ گھر لے جایا جاۓ۔ اس شیطانی خیال سے میری آنکھیں مسکرانے لگیں۔ وہی کتاب جسے لوگ جنت کے پتے کہتے ہیں، میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ہی پڑھنا شروع کر دیا ۔پتہ نہیں جنّت کے پتے کیسا نام تھا۔جنّت میں کیاپتّے ہوتے ہیں؟ وہ بھی بغیر شجر کے پتّے!! میں سر جھٹکتی پڑھنے لگی۔

وہ کتاب 2016 اگست میں اشاعت کی گٸی تھی کسی منشورات پبلیشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز کی طرف سے۔پہلے صفحے پر پبلیشرز کی ویب ساٸٹ www.manshurat.in بھی لکھی تھی۔قیمت پر میری نگاہ ٹہر گٸی۔400 روپیے!! واقعی؟ اتنی مہنگی کتاب!! وہ بھی ناول؟ اس کے قیمتی ہونے کے احساس نے اس کے اغوا کرنے کے خیال کو مذید بھڑکایا۔ میری نگاہ سرسری آگے کے صفحے دیکھنے لگی۔وہاں انتساب لکھا تھا ۔جس میں مصنفہ اپنی کوٸی بیس دوستوں کے نام یہ کتاب کررہی تھی۔ میں نے بغیر ان کے جذبے کو سراہے صفحہ پلٹا۔ وہاں پیش لفظ لکھا تھا۔ایک تو مجھے کتابوں کے پیش لفظ بڑے بورینگ لگتے تھے۔میں یونہی سرسری طور پر دیکھنے لگی۔ لیکن وہاں لکھے ان الفاظ پر میری نگاہ ٹہر گٸی۔

“یہ کہانی ہے اذیت سہنے والوں کی، درد اٹھاکر صبر کرنے والوں کی، جدوجہد کرنے والوں کی، کانٹوں پر چل کر موتی بننے والوں کی۔” افف! میں لرز گٸی۔اتنا ڈیپ!! اور یہ لفظ کتنے گہرے تھے۔جادوٸی الفاظ۔ اب تک اس کتاب کے تعلق سے مجھے صرف یہ الفاظ فیسینیٹ کیےتھے۔میں نےصفحے پلٹاکر اسے پڑھنا شروع کیا۔اور میں پڑھتی چلی گٸی۔کچھ دس صفحات پڑھنے کے بعد میں نے بیزاری سے اسے بند کردیا۔”افف !کتنی بورینگ ناول۔بھلا اس میں کسی کو کیا پسند آسکتا؟” میں نے چند صفحات پڑھے اور اسے واپس شیلف میں رکھ دیا۔وہ مجھے کچھ خاص پسند نہیں آٸی۔وہی عام سی کہانی۔اسے اغوا کرنے کا ارادہ بھی ترک کردیا۔مجھے کہانی کا تمہیدی انداز بورینگ لگتا تھا۔کہانی میں شروع میں ہی کچھ ٹریجیڈی ہونا مجھے پسند آتا تھا۔لیکن بوریت کی وجہ سے کچھ گھنٹے بعد ہی وہ کتاب میرے ہاتھ میں تھی اور میں اسے پڑھتی کسی اور دنیا میں کھوگٸی ۔”حیا“ جو کہانی کی ہیروین تھی۔ اپنے کسی بچپن کے نکاح میں بندھے شوہر کو ڈھونڈنے کسی اسکالر شپ پر ترکی جاتی ہے۔”اوہ انٹریسٹینگ۔” مجھے مزہ آنےلگا۔ داور بھاٸی کی شادی میں بنایا گیا ویڈیو لیک ہونا ،میجر احمد کا اسکی مدد کرنا، کسی اجنبی کا بار بار بُکے دینا۔ابھی میں بڑے محو ہوکر پڑھتے ہوۓ دماغ کے گھوڑے دوڑاۓ سوچ رہی تھی کہ شاید میجر احمد ہی اسے بُکے بھیج رہا ہوگا۔میرا دماغ کہہ رہا تھا کہ اسکا فضول شوہر، پھوپھو کا بیٹا۔ کیا نام بتایا تھا اوپر اسکا کوٸ سکندر۔نہیں نہیں۔۔ ہاں ! یاد آیا۔جہان سکندر۔وہ شاید ویلن ہوگا۔اسکا حیا سے طلاق ہوگا پھر میجر احمد سے اسکی شادی۔ہاں یہی ہوگا۔آگے دیکھنا۔تبھی کسی نے میرے ہاتھ سے کتاب چھینی۔میں ہڑبڑاٸی۔سامنے مجھے میری جیسی سیاہ آنکھیں خود میں غصہ سماۓ گھور رہیں تھیں۔
“ممی! ڈرا دیا نا آپ نے۔” مّمی ہاتھ میں پکڑی کتاب کو بند کرتی غصے سے کہنے لگیں۔

” آوازیں آنا بند ہوگی کیا؟ کب سے کہہ رہی ہوں بستر ڈالو۔بیگ جماٶ۔کل صبح کی گاڑی ہے واپس ناندیڑ کی۔کب سے کتاب میں منہ دیے بیٹھی ہو۔ اب تمھارے ہاتھ میں یہ کتاب نظرنہیں آنی چاہیے “ ممی نے دھمکی آمیز لہجے میں کہتے ہوۓ کتاب سامنے الماری کے اوپر رکھ دیں۔ میں نے وقت دیکھا۔رات کے بارہ بج رہے تھے۔

“اوہ! میں تو دس بجے سے ایسی ہی بیٹھی تھی۔اور دو گھنٹے بیت گیے۔” میں نے شرافت سے جلدی جلدی وہ سارے کام کیے جو ممی نے کہا تھا۔ذہن میں مسلسل یہی چل رہا تھا کہ اگر میجر احمد کا تعلق ساٸیبر سیل سےنہیں تھا تو پھر کہاں سے تھا؟ اس خیال کے زیر اثر سارے کام ہوگیے۔میرا ارادہ رات کو پھر کتاب کی سیر کرنا تھا۔لیکن مّمی کی گھورتی نگاہوں نے بستر کا سیر کروایا۔خیر ہے۔کتاب کو اغوا تو کرنا ہی تھا۔اس کے خوابوں میں رات کٹ گٸی۔دن نکل آیا۔عزیز فاطر ماما نے مجھے خود ہی وہ کتاب تحفے میں دےدی۔ اچھے قاری نے اچھے قاری کی تڑپ کو پہچان لیا تھا۔ میں نے لگے ہاتھوں مصحف کی بھی فرماٸش کردی۔ ایک سے بھلے دو سہی۔ انھوں نے مسکراکر وہ کتاب بھی میرے حوالے کردی۔ ہم مسکراکر انہیں خیر کی دعاٸیں دیتے اپنے سفر کی طرف نکل گیے۔ جوں جوں میں نے پلٹتے صفحوں کے اوپر نگاہوں کا قدم رکھا وہ سفر زندگی کا حسین سفر بنتا چلا گیا۔خوبصورت۔دلفریب۔یادگار سفر۔

حیا کی آنکھوں سے دیکھایا گیا ترکی میرے دل میں اتنی خاموشی سے اتررہا تھا کہ آہٹ بھی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ اس کی وادیاں، اس کی جھیل۔ مجھے لگا میں ٹرین میں نہیں حیا کے ساتھ ترکی پہنچ گٸی ہوں۔ میں نے ترکی کی آب و ہوا کو ،نیلی مسجد کے اوپر اڑتے کبوتروں کو اسی طرح محسوس کیا جس طرح حیا نے کیا تھا۔ ڈی ۔جے نے مجھے خوب ہنسایا۔اس کی باتیں بہت مزےدار تھی۔ اسکا ”پاکستان کا جھنڈا لگ رہی ہو“۔ والا ڈاٸیلوگ میرے چہرے پہ آج بھی مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔لیکن ایک شخص مجھے بالکل پسند نہ آیا۔کیا کہا۔ عبدالرحمن پاشا؟ انہوں! وہ تو مجھے اچھا لگا۔ پراٶڈی اور امیر سا۔ مجھے جو شخص پسند نہیں آیا وہ تو غریب شخص تھا۔پھوپھو کا بیٹا۔ اس سے پہلے جتنی بھی کہانیاں میں نے پڑھی تھی اس میں عموماً ہیرو امیر ہوتا تھا۔اور پھوپھو کا بیٹا تو ہرگز نہیں ہوتا۔میرا یقین بڑھنے لگا کہ یہ ہیرو تو نہیں ہوگا۔ اتنا غریب ہوکر اتنا اٹیٹیوڈ کیوں ہے بھلا اس کے پاس؟ اور حیا کیوں اس کو بھاٶ دےرہی ہے؟ خیر آگے تو پتہ چلنا ہی تھا اور اس کےلیے مجھے صفحے پلٹنا تھا۔میں نے صفحہ پلٹا۔ وہاں پر جہان کے ابّا نے حیا کی گردن دبوچی ہوٸی تھی۔”افف! باپ اور بیٹا دونوں بھی پاگل ہیں۔” میرے منہ سے بےساختہ نکلا۔ پھر جہان کے ماضی کی کہانی۔مجھے بور ہونے لگا۔بھلا اتنا بھی کیا تّجس کے ہیرو کون ہے اس پر روشنی ہی نہ ڈالی جارہی ہو۔میں نے یاسیت سے ناول بند کردی۔ میں انجانے میں اسی کتاب میں گُم سی باہر دیکھنے لگی۔ذہن میں کتاب کے سطریں گونج رہی تھی۔

“پہلی بار اسے احساس ہوا تھا کہ وہ کم گو ، سنجیدہ طبعیت کا، لیے دیے رہنے والا شخص ضرور ہے۔”ٹرین کی کھڑکی سےباہر درخت کسی ندی کی طرح بہتے ہوۓ پیچھےکی سمت جارہےتھے۔موسم بھی دلفریب تھا۔

“مغرور بھی ہے، جلدی گھلتا ملتا بھی نہیں۔ ” ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکیں میرے وجود میں ٹھنڈک کا احساس پیدا کررہے تھے۔

“مگر اندر سے وہ بہت خیال رکھنے والا بھی ہے۔ اور باریک بین بھی ۔” کوٸی میرے وجود میں کتاب کے الفاظ دہرارہا تھا۔ پتہ نہیں یہ الفاظ میں نے کس کے لے پڑھے تھے ابھی؟ میری نگاہیں باہر بادلوں میں چھپے سورج پر ٹکی سونچ رہیں تھی۔

“جو معمولی باتیں وہ نظرانداز کردیتا تھا۔” پتہ نہیں وہ کون تھا۔یا یہ الفاظ ہیرو کے لیے لکھے گیے تھے؟ میں نے خود سے پوچھا۔ ہاں! ظاہر ہے مصنفہ نے ہیرو کےلیے ہی لکھے ہوگے۔لیکن کون ہے ہیرو؟ میرا ذہن ایک شناسا نام پر زور دینے لگا۔

“وہ جہان کے زیرک نگاہوں سے چھپی نہیں رہتی۔” میں کود کے کھڑی ہوگٸی۔”کیا واقعی وہ جہان سکندر ہے؟ ہیرو جہان سکندر ہے!! مگر کیسے؟ میں کھڑی تیز تیز خود سے ہی باآوز بولے جارہی تھی۔سامنے لیٹے ہوۓ ممی نے اور میری سیٹ کےکارنر سیٹ پر بیٹھے ابّو نے موباٸل فون سے نگاہیں ہٹا کر مجھے حیرانی سے دیکھا۔ ان کےنگاہیں خود پر محسوس کرتے ہی میں لمحے بھر میں سیدھی واپس سیٹ پر بیٹھ گٸی۔
“کیا ہوا؟ ہیرو مر گیا کیا ناول کا؟ ابو نے ہنس کر پوچھا۔ میں “نہیں” کہہ کر عجلت میں کتاب مڑے ہوۓ ورق سے واپس کھولتی اس میں پھر غوطہ زن ہوگٸی۔ اب حیا اور جہان بگھی میں بیٹھے باتیں کررہے تھے۔اوہ!رکیے۔ مجھے اپنا جملہ صحیح کرنے دیجیے۔حیا بات کررہی تھی اور وہ، وہ موبائل میں مصروف اسے سننے کی اداکاری کررہا تھا۔کم از کم مجھے تو یہی لگ رہا تھا۔لیکن اگلے صفحے پر جہان سکندر کے لیے لکھے گیے الفاظ ‘ہر کام پھرتی سے کرنے والے جہان سکندر کی نماز بہت ٹہری ہوٸی اور پرسکون تھی’ مجھےبہت مسحور کن لگے۔ گُڈ۔میں نے مَن ہی مَن ستاٸش کی اور آگے بڑھی۔ترکی کے بیوک ادا نے میرے دل کو اپنی مٹھی میں لےلیا تھا۔اتنی خوبصورتی سے کی گٸی منظر نگاری پڑھ کر بلکہ محسوس کرکر میں اس لمحے نمرہ احمد کی فین ہو گٸی تھی۔ لیکن ایک بات مجھے سخت مایوس کن لگی۔حیا ، جہان کے سامنے کیوں جھک جاتی؟ کیوں خاموش ہوجاتی؟ کتنی بار وہ انجانے میں ہی سہی لیکن اسکی انسلٹ کرجاتا۔ اس کو کمتر ثابت کرتا، اور ہر کسی کے سامنے تڑ تڑ بولتی حیا کی زبان اس کے سامنے خاموش ہوجاتی۔ وہ موم بن جاتی۔کڑوے گھونٹ پی لیتی۔کیوں؟ یہ بات مجھے پسند نہ آٸی۔

خیر میں اپنے تبصرے کرتی بلکہ سونچتی آگے بڑھ رہی تھی کہ ابو نے ہماری منزل کے آنے کی اطلاع دی۔پانچ گھنٹے اس کتاب کے صدقےگزر گۓ۔ میں کتاب رکھتی سامان سمیٹنے میں ممی کی مدد کرنے لگی۔گھر پہنچ جانے کے بعد اس سے ہم کلام ہونے کا موقع مل ہی نہیں رہا تھا۔ دوسرے دن اسکول بھی تھا۔رات سات بجے کے قریب مجھے موقع مل ہی گیا۔میں چونکہ بڑی موقع پہ چوکا لگانی والی ثابت ہوٸی ہوں تو فوری کتاب کولیتی اپنے کمرے میں بند ہوگٸی۔

یہاں حیا میڈم بالوں کو مذید سجانے کی چیزوں میں الجھی فیری سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔”افف! اب کیا ہوگا؟” میں تھوڑا آگے ہوتی کتاب کو منہ کے سامنے کیے پڑھنے لگی۔وہ کوٸی عبدالرحمن کا گھر تھا۔اور اس کی ماں سے ملاقات کا وہ سین۔ کہانی کا ایک دوسرا حصہ۔مجھےیہ کچھ خاص مزے کا نہیں لگ رہا تھا۔بس ٹھیک ہی تھا۔میری نگاہوں نے آگے کا سفر کیا۔اور یہ الفاظ پر نگاہ رُکی۔جب حیا عبدالرحمن کی ماں کو انکار کرتی واپس پولیس اسٹیشن آتی ہے اور وہ اس پر چلاّتا ہے!!بھلا وہ اس پر کیوں چلایا؟ کوٸی تُک نہیں بنتی تھی اس کی چلاّنے کی۔وہ جانتا بھی نہیں تھا کہ وہ اس کی بیوی ہے۔ اس کی نظر میں وہ صرف ایک کزن تھی۔ کوٸی صرف کزن کی حیثیت سے اپنی کزن پر برُی طرح چلّا نہیں سکتا۔ ایڈیٹ۔

کچھ صفحے پڑھے بعد میرا ماتھا سَرکا جب حیا بے حیا بن کر کچھ دن بعد واپس اس کے برگر کنگ پہنچ جاتی ہے۔مزید ذلیل ہونے۔ اور اس وقت بھی وہی اسکا ایٹیٹیوڈ! مطلب حیا کا کیریکٹر یہاں مجھے ڈھیلا لگا۔ حیا کی نظر میں اس کی کوٸی عزت ہی نہیں تھی۔وہ بار بار جہان کےہاتھوں بےعزت ہونے چلی آتی تھی۔ یہاں جہان کا ریسٹورنٹ ٹوٹا حیا کا منہ چڑارہا تھا۔جو کہ ظاہر ہے حیا کی مدد کا وعدہ کرکہ عبدالرحمن نے کیا تھا۔انٹریسٹنگ۔ میری بلا سے جہان کے ساتھ جتنا برا ہو اتنا کم تھا۔مجھے واقعی وہ بہت برالگا۔

چند ورق پلٹے۔حیا کو حیا براداشت ہی کہاں تھی۔وہ اپنی سہیلوں کو لیے پھوپھو کے گھر چلی گٸی۔ویسے اس کھڑوس سے لڑکے کی ماں اور اسکی پھوپھو مجھے اچھی لگیں۔کیوٹ اور پیارکرنے والی۔اچھا سین تھا جب تک جہان کی انٹری نہیں ہوٸی تھی۔ اور وہ آۓ ساتھ ہی مصیبت کا فرمان لاۓ کی طرح یہ غریب آدمی نے حیا کو اس کی دوستوں کے سامنے بے حیا کردیا۔یہاں مجھے سمجھ نہیں آیا کہ اسے ہیرو کیوں بنایا گیا۔اور اگر بنایا بھی تو کچھ اخلاق ہی مصنفہ نے اسے سیکھاۓ ہوتے۔اور ایک لاٸن پر میں مسکراگٸی۔

‘آج کے بعد میں کسی پھوپھو کے گھر قدم نہیں رکھوں گی۔میں اتنی ارزاں تو نہیں ہوں کہ میرے مغرور رشتہ دار میری یوں توہین کریں۔’ تو واقعی حیا میڈم کو خیال آہی گیا تھا۔لیکن کب تک اس بےعزتی کا اثر رہتا۔کوٸی نہیں جانتا تھا۔اور ہاں اب تک آدھی کہانی ہوچکی تھی۔مجھے کہانی کا مقصد جوکہ پردہ تھا۔ ہر جگہ سے پردہ میں ہی نظر آیا۔

چند وقت مزید صفحات کو پلٹتے گزر گیے۔اور پھر نمرہ احمد کا لکھا اب تک کا بہترین سین آیا۔جو کہ ایموشنل تھا۔دکھی سا۔جسے پڑھ کر مجھے دھچکا لگا۔’کیا واقعی زندگی اتنی جلدی گزر جاتی ہے۔اس سے بھی زیادہ جلدی’ وہ تھا ڈی۔جی کی موت کا سین۔مجھے ڈی۔جے کا کردار شروع ہی سے پسند آیا تھا۔اور اس کی موت نے مجھے بہت غمگین کردیا۔میں دھڑکتے دل کے ساتھ پڑھ رہی تھی کہ ایک دفعہ پھر کسی نے میرے ہاتھوں سے کتاب لےلی۔میں نے صدمے سے چُور آنکھوں سے سامنے دیکھا۔وہاں ابو کھڑے کتاب کھولے اس میں دیکھ رہے تھے۔

“کیا ہے ایسا اس کتاب میں جو چھوٹ ہی نہیں رہی تمہارے ہاتھ سے؟” ابو نے تجس سے پوچھتے ہوۓ کتاب کھنگالا۔وہاں ڈی جے کی موت کا سین بناآواز رورہا تھا۔ میں نے منّت بھرے لہجے میں کہا۔

“کچھ نہیں ہیں ابوّ۔اسٹوری ہے۔میرے پڑھ لینے کے بعد آپ پڑھ لینا۔ابھی بہت اہم سین چل رہا ہے۔ مجھے پڑھنے دو نا۔” میں کتاب ان کے ہاتھ سے لینا چاہتی تھی۔

“وقت دیکھا ہے کیا ہوا ہے؟”میں نے کہا۔” ہاں دس بجے ہے۔” وہ حیرانی سے کہنے لگے۔”ارے بیٹا!بارہ بجے ہے۔مّمی نے کہا اسکول ہے کل تمہارا۔جاٶ سوجاٶ۔اب کل پڑھنا باقی کا۔”وہ اپنی کہہ کر کمرے سے چلے گۓ۔نہیں نہیں !! کتاب رکھ کر نہیں، ساتھ لےکر گۓ۔ڈی۔جے مرگٸی تھی۔اور مجھے ،حیا سے زیادہ افسوس ہورہا تھا۔اب مجھے کل تک کا انتظار کرنا تھا۔ میں رات میں تھکی ہوٸی آنکھوں کو موندیں نیند کی آغوش میں چلی گٸی۔اس رات سارے خواب مجھے ترکی کے ہی آرہےتھے۔ڈی۔جے کی موت نے مجھے وقتی طور پر ہلادیا تھا۔ لیکن دوسرے دن، میں جلد بازی میں اسکول گٸی۔مجھےاپنی ٹیچر کو بتانا تھا کہ میں نے بھی وہ کتاب پڑھ لی ہے۔ میں گزرتے وقت کے ساتھ انکے لیکچر کا انتظار کرنے لگی۔انتظار۔دھیرے دھیرے بیتتے وقت کا احساس۔ان کا لیکچر شروع ہوا۔اور آخر میں مجھے موقع ہی مل گیا۔میں نے کہا “میں نے جنت کے پتے پڑھی ہے ابھی۔” وہ حیرانی سے مجھے دیکھنے لگی۔
” اتنی جلدی پڑھ بھی لی؟” میں نے کہا۔
“آدھی پڑھی ہے۔ڈی۔جے کی موت تک۔”وہ لیکچر مکمل کرکر میرے پاس آٸی۔”کیا واقعی پڑھ لی ہے؟ انکی سوالیہ آنکھوں میں تعّجب تھا۔میں نے ‘ہاں’ میں سر ہلایا۔وہ وہی کھڑے کھڑے خوشی سے پوچھنے لگی۔
“کیسی لگی؟” مجھے سمجھ نہ آیا کہ وہ واقعی مجھے کیسی لگی تھی؟کیونکہ کہانی ہیرو اور ہیروٸن سے مل کر بنتی ہے۔اور ہیرو مجھے اب تک سمجھ نہیں آیا تھا۔لیکن میں نے کہہ دیا اچھی لگی۔” وہ مزید کریدنے لگی۔
“تمہیں پتہ ہے اب آگے کیا ہونے والا ہے؟” ان کے لہجے میں کوٸی راز چھپا تھا۔میں نے سوچا اب اس کے آگے کیا ہی ہوسکتا تھا۔ڈی۔جے کو ماردیا۔بلاوجہ!! اب مذید کیا ہوسکتا! وہ کہنے لگی۔
” ابھی تو اصل ٹوٸیسٹ آنا باقی ہے۔پھر کہانی پلٹ ہی جاٸیگی۔”میں نے حیرانی سے ابرو اٹھایا۔”کیا واقعی؟”
وہ مجھے کسی راز کی پیشن گوٸی کرتی چلی گٸی۔میرے ذہن کو سونچوں کے محور میں چھوڑ کر۔جیسے تیسے وقت کٹا۔میں نے گھر آکر فوری کتاب میں سردیا۔یہاں پر دو نٸے کرداروں نے میرا استقبال کیا۔عاٸشے گل اور بہارے گل۔پیاری سی بہنیں۔یہ کردار مجھے حیا کےکردار سے بھی زیادہ پسند آۓ تھے۔خاص کر عاٸشے گل کا کردار ۔ ڈی جے کی موت کے بعد جہان میاں زبردستی حیا کے ساتھ اسلام باد بھیجواۓگیے تھے۔ اور یہاں موصوف کے نخرے عروج پر تھے۔ایپل ٹی، جوتے گھر کے باہر چھوڑنا۔بلاوجہ نواب زادہ بننا چاہ رہے تھے موصوف۔لیکن کچھ دن گزرنے کے ساتھ ہی انہیں اپنا ذہن ٹھکانے پر لانا پڑا۔جیسے اسکا قیمہ پاستا بنانا۔اسے دیکھ کر بلکہ پڑھ کر بلکہ اسکا بنایا ہوا پاستے کا ذاٸقہ محسوس کرکہ میں نےبھی گھر میں ٹراۓکیا تھا۔بہت لذیذ بناتھا۔نرم ریشےدار گوشت کے درمیان ساس میں ڈوبا نرم منہ میں ڈالتے ہی گھل جانے والا پاستہ۔ جہان کی پوری پرسنالٹی میں سب سے اچھی بات یہ تھی کہ اسے بہت ذاٸقےدار کھانا بنانے آتا تھا۔اور اچھا کھانے بنانے والے کتنے موڈی ہی کیوں نہ ہو اچھے ہی لگتےہیں۔

سسرال میں رہ کر جہان صاحب کچھ سدھر گۓتھے۔ ورنہ اتنی ہم دردیاں اپنے ترکی میں تو کبھی نہیں دِکھاٸی۔میں من ہی من سونچتی پاستہ والا سین پڑھتی آگے بڑھ رہی تھی۔مجھے حیا کے والد اپنے داماد اب کچھ امپریس لگے۔گُڈ۔مطلب بندہ اتنا بُرا بھی نہیں تھا۔میں نے تاٸید کی۔
پھر شروع ہوٸ اصل کہانی۔پہیلیوں کی زبانی۔

میں نے سیدھا بیٹھتے ہوۓ کتاب کو سلیقے سے نیچے رکھا۔اب پورے انہماک سے دوبارہ پڑھنا شروع ہوٸی۔ یہاں پر کچھ اوراق پڑھ کر مجھے ایک بات عجیب لگی۔جہان میاں کو اپنی بیگم کے بیگم ہونے کی اطلاع ہی نہیں تھی۔مطلب اتنا غیر یقین ٹوٸیسٹ!!اوپر سے مزے کی بات یہ ھیکہ سارے خاندان کو یہ بات پتہ تھیں اور ایک ہمارے ہیرو صاحب اپنی شادی سے انجان تھے۔ ہمارے یہاں اگر کسی کی بات بھی پّکی ہوتی تو سارا خاندان اسے چھیڑ چھیڑ کر پاگل کردیتا۔ اور دوسری بہت مزیدار بات۔ بچپن کا نکاح!! یعنی چھوٹے بچوں کا نکاح بھی ہوتا ہیں؟؟ یہ تو میں نے ابھی ہی سنا تھا۔ اور پڑھتے ہی میری ہنسی نکل گٸی۔مطلب منگنی ہوتی ہے۔ یاچلو بات پکی کرتے ہے کچھ خاندان میں۔ یہ میں نے ڈراموں میں دیکھا ضرور تھا۔لیکن نکاح ہی کردیا!! یہ تو سراسر مذاق تھا۔ذرا کہانی کو ساٸیڈ میں رکھ کر سوچییے کہ وہ دونوں بچپن میں نکاح کے بعد کھیل رہیے ہونگے۔ اور چھوٹی سی حیإ نے ،معصوم بے بی جہان کو کوٸی کھلونا دینے سے انکار کردیا تو بےبی جہان کو غصہ آیا۔ اب اگر اس چھوٹے بچے نے غصے میں ناراض ہوتے ہوۓ اپنی توتلی سی زبان میں کہا کہ۔

“ادر تم مدے کھلونا نہیں دودی تو میں تمہں تلات دےدوندا۔”(اگر تم مجھےکھلونا نہیں دوگی تو میں تمہيں طلاق دےدونگا)اور اگر اس نے اسی ناراضگی میں تین دفعہ اپنی توتلی زبان سے “تلات، تلات، تلات”(طلاق، طلاق، طلاق) کہہ دیا تو کیا انکا نکاح ختم ہوجاۓگا۔روکیۓ! مجھے سوچ کر ہی اتنی ہنسی آرہی ہیں کہ مجھ سے آگے لکھا نہیں جارہا۔پہلے مجھے دل کھول کر اس منظر پر ہنس لینے دیجیے کہ کیسا ہوگا؟ جہان میاں اب تک اتنے موڈی واقع ہوۓ ھیکہ وہ اپنے بچپن میں ضرور ایسا کچھ کردیتے۔ اور مزے کی بات تو یہ تھی کہ یہ بات صرف مجھے ہی نہیں، ان کی پیاری سی ماں کو بھی معلوم تھی۔ تب ہی تو ان آنٹی نے نکاح کے فوری بعد اپنے بیٹے کو لیے پاکستان سے ہی چلے گٸی۔ آنٹی بڑی سمجھدار تھیں ویسے۔ورنہ سوچیے! اگر یہ میاں بیوی بچپن میں ہی کسی کھلونے پر لڑکر طلاق لے لیتے تو کہانی آگے کیسے بڑھتی؟ اور ہم کیا پڑھتے پھر؟ کہانی کا تو کچرہ ہوجاتا نا؟۔

تو سب لوگ یہاں رک کر باآواز آنٹی کا شکریہ ادا کرٸیے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو نکاح کے فوری بعد ترکی لےجانے کا عظیم فیصلہ لیا۔ میرے خیال سے یہ کہانی کی اصل بنیاد ہی سبین پھوپھو نے رکھی ہیں۔ پھوپھو کا شکریہ ادا کرکہ اب میری ہنسی کچھ قابو میں آٸی ۔ اب آگے سنیے۔یہاں نکاح کا سراسر مذاق بنایا گیا۔ہندو دھرم میں بھی بال وِوہا لڑکی کے سات آٹھ سال کے بعد ہی ہوتے تھے۔لیکن ہماری مصنفہ نے اس معاملے میں ہندو دھرم کو بھی پیچھے چھوڑدیا۔ایک سال کی لڑکی کا نکاح کرادیا؟ اس ایک سالہ لڑکی نے قبول ہے کیسے کہا ہوگا؟کیونکہ ایک سال میں تو بات کرنا بھی نہیں آتا۔ اور پیپر ساٸن کرنے کےلیے دیا ہوگا تو کس طرح کی لکیرے کھینچ دی ہوگی۔ یا پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں نکاح کا کوٸی اور طریقہ تو نہیں ہے جو ہم میں سے کسی کو نہیں پتہ اور وہ طریقہ صرف نمرہ احمد ہی جانتی ہے۔جس کی وجہ سے انہوں نے ان کا نکاح بھی کردیا۔ اور سب سے طریقہ بھی چھپادیا۔ میرا ذہن مزے لیتا کچھ اور ہی سوچنے لگا تھا۔ ویسے نمرہ احمد کو ان دونوں کے نکاح کا ،پورا منظر لکھنا چاہیے تھا۔ اتنا اہم سین انھوں نے نہیں لکھ کر مجھ پر بڑا ظلم کیا۔ مجھے سوچ کر ہی اتنا مزہ آرہا ہے۔ نجانے پڑھ کر کیا ہی حال ہوتا۔ بچپن کا نکاح!!سیریسلی؟؟ دراصل نمرہ احمد کا اس بچپن کے نکاح کروانے کی وجہ ”پردہ“ ہے۔
اگر ان کی ہیروٸین ایک نامحرم کزن سے رابطے میں رہتی، ملتی ، اسکے ہاتھوں خود کو بار بار بے عزّت ہونے دیتی تو پھر پردہ کا اچار بن جاتا نا۔ جوکہ ظاہر ہے کوٸی پسند نہ کرتا۔پھر انھوں نے سوچا کہ اب کیا کیاجاۓ؟ تو یقیناً کسی فارغ انسان کے مشورے پر انھوں نے بچپن کے نکاح کا پلان کیا ہوگا۔کیونکہ ماشااللہ نمرہ احمد بہت ذہین ہیں اور میں ان کی بہت بڑی فین بھی ہوں ۔تو میں یہ بات ماننے سے انکار کرونگی کہ یہ فضول سا آٸیڈیا ان کا ہوسکتا ہے۔۔ لیکن جب میں نے پڑھا کہ حیا اپنے ان دیکھے شوہر کی محبت میں گرفتار ہے۔اس کی جس کو نہ کبھی دیکھا، نہ فون پر رابطہ کیا، نہ کبھی ملی۔ مطلب پہلی نگاہ کی محبت کے بارے میں تو سُنا تھا۔ لیکن اَن دیکھے شخص کی محبت میں گرفتار۔مطلب ؟؟ اب کی بار میرے منہ سے “سیرٸیسلی” بھی نہ نکل سکا۔کون ہے یہ لڑکی؟ کہاں پاٸی جاتی ہیں ایسی لڑکیاں؟ مطلب اتنی فرمانبردار!! جو باپ کے کہنے کے باوجود خلع بھی نہ لے۔ اور اپنے اَن دیکھے شوہر کو ڈھونڈنےنکل پڑے۔ وہ خوبصورت تھی۔ پڑھی لکھی بھی تھی۔جو شاید اس نے اسلام آ باد میں ہی پڑھا تھا۔کیونکہ تُرکی میں تو ایسا کوٸی سین نہیں لکھا ہے جس میں حیا میڈم کتابیں پکڑے پڑھ رہی ہو۔ پورا ترکی وہ صرف ایک فرمانبردار بیوی بنی رہی۔جو صرف گھومتی پھرتی ہے۔ اپنے انجان سے میاں کی بے عزتی کو خاموشی سے سہتی ہے۔اور بس۔ اس کو پڑھ کر مجھے غالب کا شعر یاد آیا ۔

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

اسلام آباد میں وہ ٹھیک تھی۔اسے کوٸی اچھا لڑکا مل جاتا۔ کسی اجنبی کے لیے اتنا سفر کون طۓ کرتا ہے بھلا؟ لیکن میں ہّمت کا دامن مضبوطی سے پکڑے آگے پڑھتی گٸی۔امید سے دل لبالب بھرا تھا کہ آگے کچھ ضرور خاص لکھا ہے۔ٹیچر نےبھی یہی کہا تھا۔تو دل کو کچھ راحت ملی۔خیر! ناول اچھی جارہی تھی۔اچھی کا مطلب سمجھتے ہیں نا؟ میرا مطلب ‘بورینگ’ سے تھا۔کونسی پہیلی کے چکر میں پڑ گٸی یار اب یہ حیإ ، اور فلاسفی کے نام پر پتہ نہیں کیا لکھا گیا تھا۔ٹہریۓ۔آپ سمجھ نہیں رہے ہوگے کہ کونسی فلاسفی۔یہاں وہی لوگ ٹھہریے جس نے یہ شاہکار ناول پڑھ رکھا ہیں۔اور میرے طرح اس ناول کے بہت دیوانےہیں۔جس نے یہ نہیں پڑھی تو آپ کیوں ٹہرے ہیں بھاٸی؟ آپ جاٸیے آگے پڑھیے۔آپ کی سمجھ میں ویسے بھی کچھ نہیں آنے والا۔کیونکہ آپ بغیر ناول پڑھے کچھ سمجھ نہیں سکوگے۔مجھےبھی کافی وقت لگا سمجھنے کے لیے۔’پہیلی’ یہ ہے۔
‘ایک ہی دریا میں کوٸی شخص دو بار نہیں اترسکتا_ہراقلیطس۔’

اب حیا میڈم اپنے لڑکے دوستوں کے ساتھ اس پہیلی کو حل کرنے میں سر کھپارہی ہیں۔لیکن چونکہ سارے لڑکے حیا کے فرینڈز ہیں تو کوٸی بھی اس پہیلی کا حل نکال نہیں سکا۔افسوس۔چند ورق مزید پلٹتے گٸے۔ یہاں پر نمرہ احمد اسرائيل اور ترکی کا نجانے کونسا مسٸلہ لےکر بیٹھ گٸی تھی۔ مجھے سمجھ نہ آیا۔ مجھے وہ کہانی کا حصہ نہیں لگرہا تھا۔کہانی اس فلوٹیلا ترکی اور اسرائيل کی کسی بحث سے بور ہورہی تھی۔اور پھر حیا میڈم اغوا ہوگٸی۔افسوس! بُرا ہوا۔لیکن مجھے مزہ آیا۔اب کہانی میں کچھ مزے کا ہونے والا تھا۔یہ میرا وجدان کہہ رہا تھا۔

کچھ ورق پلٹنے لگے۔میں نمرہ احمد کی ایک بات سے کافی متاثر ہوٸی۔انکی منظر نگاری کمال کی تھیں۔ مطلب وہ اس طرح سے لکھتی ھیکہ پڑھنے والے کو لگے کہ وہ کہانی پڑھ نہیں رہی بلکہ دیکھ رہا ہو۔ احساسات ،جذبات جو کردار محسوس کرتے ہیں وہ قارئين بھی محسوس کیۓ بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ میں نے کہانی کے ساتھ اتنا لمبا سفر طۓ کیا تھا۔ اس کے اغوا والا سین بہت خوبصورتی سےلکھا گیا تھا۔میں بہت غور سے ایک ایک لفظ پر دھیان دیتی پڑھتی جارہی تھی۔عبدالرحمن نے اسے اغوا کیا تھا؟ میں حیران ہوٸی۔اور آگے بڑھی۔اس پستہ قد روسی آدمی نے سلاخ جلاٸی اور حیا کے بازو پر دہکتی ہوٸ سلاخ رکھی۔”افف!!” میرے جسم میں کانٹے آنے لگے۔کیا وہ اسے ماردےگا؟ اسکا ناکام شوہر تو اسے بچانے آنے سے رہا۔پتہ نہیں اسے کون بچانے آۓگا۔؟ کیا میجر احمد؟ پتہ نہیں کیوں، لیکن مجھے میجر احمد شروع سے ہیرو ہی لگا تھا۔وہ اس کے پھوپھوکےبیٹے سے کافی اچھا سلجھا ہوا تھا۔ خیر میرے گمان ایک طرف۔لیکن یہ کیا؟؟ وہ پستہ قد روسی اسکا بازو الگ الگ سلاخوں سے داغے جارہا تھا۔” کوٸی اسے بچانے کیوں نہیں آرہا تھا؟” میں بےچین ہونے لگی۔۔”شاید آۓ۔”کسی نے میرے اندر کہا۔میں سر جھٹکتی پڑھنے لگی۔لیکن یہ کیا!! “حیا کے بال۔نہیں! حیا کے بال۔حیا کے بالوں پر۔اس کے لمبے گھنے سیاہ بالوں پر ویکس گرادی؟ یااللہ! اب حیا گنجی سی کیسے لگےگی؟ اوہ گاڈ!! اس کے پاس بالوں کے علاوہ تھا ہی کیا۔اب اسکا کیا ہوگا؟” مجھے پہلی بار مجھے حیا کے لیے دل سے بُرا لگ رہا تھا۔داغے جانے کا غم تو بالکل الگ ہی تھا لیکن بالوں کے اوپر ویکس کا ڈالے جانے کے غم کا کوٸی مقابلہ نہیں تھا۔

“گنجی حیا۔کیسی لگےگی؟ نمرہ احمد اس کا سراپہ اب کن الفاظ میں بیان کرے گی؟” میرا ذہن پریشان ہوا تھا وہ اس کے سراپہ کے الفاظ تصّور کرنے لگا۔

وہ سیاہ سوٹ پر دوپٹہ کاندھوں پہ ڈالے، اپنی خوبصورت سیاہ آنکھوں میں کاجل لگاۓ،دودھیالے چہرے پر تھکان سی مسکراٹ اور چاند سے گنجے سر پر بال آنے کا انتظار کرتی ہوٸی وہ باہر نکلی۔

“نہیں نہیں!! چاند سا گنجا سر؟” میں نے جھرجھری لی اور برا منہ بناتے ہوۓ اپنے تصّور کا غبارہ پھوڑدیا۔نہیں! حیا کے بالوں کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔بھلا اس بیچاری کے پاس اس کے علاوہ تھا ہی کیا؟ ایک ناکام شوہر جس نے اسے ہاسٹل چھوڑ کر پلٹ کر خیریت بھی نہیں پوچھی تھی۔ میں دل میں ڈھیروں افسوس لیے پڑھتی گٸی۔وہاں میں نے حیا کی آنکھوں سے دیکھا کہ کوٸی اسے بچانے آیا ہے۔کوٸی فرشتہ۔اور یہ پھوپھو کا بیٹا نہیں تھا۔ہو ہی نہیں سکتا تھا۔میرے دل نے گواہی دی تھی۔تو پھر یہ کون تھا؟ حیا نے سنا تھا کہ پاشا نے اسے اغوا کیا ہے۔تو ظاہر ہے پاشا تو بچانے نہیں آۓگا۔پھر کون ہوسکتا؟ کیا میجر احمد ہوگا یہ؟ میں تجسس بھرے انداز میں دوبارہ پڑھنے لگی۔حیا بےہوش ہوۓ بعد کہی اور پہنچ گٸی تھی۔وہ کوٸ سفید محل تھا۔خوبصورت سا سفید محل۔اور یہ کیا۔۔باب مکمل۔افف!! میں نے کہتے ہوۓ صفحہ پلٹا۔پانچ باب مکمل ہوچکے تھے۔اب چھّٹا باب مجھے بے چین نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کہ اسے بھی فوری پڑھ لیا جاۓ۔میں چونکہ فرمانبردار لڑکی ہوں تو اس کی بات مانتی فوری پڑھنے لگی۔اور جیسے جیسے میں پڑھتی گٸی میری سانسیں تیز ہوتی گٸی۔
“آپ جانتے ہیں وہ۔۔مطلب حیا اس وقت کس کے گھر میں موجود تھی؟” افف! مجھے تو یقین ہی نہیں آیا۔وہ عبدالرحمان پاشا کے گھر میں تھی۔اور اس نے حیا کو نہیں اغوا کیا تھا۔اس نے تو اس وقت اس کی مدد کی تھی۔مجھے بہت مزہ آنےلگا تھا۔بوریت کے بادل چھٹنے لگے تھے۔یہاں عاٸشے گل بھی تھی۔وہی جس کا اوپر ذکر کیا تھا۔وہ جو مجھے حیا سے بھی زیادہ اچھی لگی تھی۔بہارے کی بہن۔
“اوہ تو یہاں بہارے بھی ہوگی؟؟” وہ کیوٹ سی بچی۔میں خود سے ہی پوچھ کر خوش ہونے لگی۔اور یکایک میری کتاب کے سطریں پڑھتی ہوٸی آنکھیں رُکیں۔میں اس سطر کو حیرانی سے باربارپڑھنے لگی۔اور پھر میرے لبو سے بے ساختہ نکلا۔”اوہ گاڈ!! حیا کے بال بچ گٸے۔وہ ذاٸع نہیں ہوۓ۔” سطر یہ تھی۔

‘وہ ایسے ہی تھے، اتنے ہی لمبے، اتنے ہی گھنے مگر ان کی چمک کھوگیٸ تھی۔وہ ریشمی پن جو ہمیشہ ان میں چمکتا تھا، اب وہاں نہیں تھا۔’

“ریشمی پن کا کیا اچار ڈالنا ہےحیا کو؟بال تو بچ گٸے نا بہت تھا۔” میں نے سوچا۔ لیکن یہ چمتکار ہوا کیسے؟ میرا ذہن دوڑنے لگا تھا۔ویکس تو اس کے بالوں پر پوری گرگٸی تھی۔پھر اسکے بال اپنے اصل حالت میں کیسے پاۓگٸے؟ میں نے سر جھٹک کر پڑھنا شروع کیا۔اتنا سسپینس!!مجھےیہ دلچسپ لگا۔مجھے اب مزہ بھی آرہا تھا۔جیسا میں نے کہا تھا عاٸشے گل مجھے بہت اچھی لگی۔اسکا ٹہر ٹہر کر بولنے والا نرم سا انداز ، اس کی کم عمری کے باوجود سمجھداری اور میچورٹی مجھے بہت پسند آٸی۔عاٸشے کی باتیں بھی اسی کی طرح خوبصورت تھیں۔جیسے یہ پڑھیے۔

“ہماری امت کے صبح کے کاموں میں بررکت ہوتی بہارے! جو علی الصبح روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں انکا رزق بڑتا ہے ، جو پڑھتے ہیں انکا علم بڑھتا ہے۔ اورجو سوتے ہے انکی نیند بڑھ جاتی ہے اور وہ سارا دن بس سوتے ہی رہتے ہیں۔” کمال کی باتیں کرتی تھی عاٸشے۔میرے دل نے ستاٸش کی۔اور یہاں سے کہانی نے ایک دلفریب سفر کیا۔میں چہرے پہ مسکراٹ لیے پڑھتی جارہی تھی۔عاٸشے اور بہارے کے سین نمرہ احمد نے بہت خوبصورتی سے لکھے تھے۔ یہاں عاٸشے گل حیا کو دین کی کٸی باتیں اپنے ازلی خوبصورت انداز میں سمجھاتی ہے۔ جسے یہاں مجھے یہ الفاظ بہت پسند آۓ۔

“عبادت ! ہم عبادت کے لیے پیدا کیے گٸے ہیں، سو ہمیں اپنے ہر کام کو عبادت بنالینا چاہیے۔عبادت صرف روزہ،نماز، نوافل کا نام نہیں ہوتا۔بلکہ ہر انسان کا ٹیلنٹ بھی اسکی عبادت بن سکتا ہے۔”

میں آگے بڑھ رہی تھی۔حیا اب ٹھیک ہورہی تھی۔عاٸشے گل کی باتوں کا مرہم اسے صحت مند بنارہا تھا۔ اور پھر آیا میجر احمد کا خاموشی سننے والا سین۔تین گھنٹے بیس منٹ۔وہ اسکی خاموشی سنتا رہا۔یہ بندہ مجھے شروع سے ہی ہیرو مٹیریل لگا تھا۔لیکن اب پاشا بھی کچھ کچھ اچھا لگا تھا۔بس اس بندے کا ہی کوٸی پتہ نہیں تھا جسے نمرہ نےزبردستی ہیرو بنا کر ہمارے سر پر بیٹھادیا تھا۔عجیب سا ہیرو تھا وہ غریب آدمی بھی! اسکا کوٸی سین ہی نہیں آیا تھا کتنی دیر سے۔

اوہ! پھوپھو کے بیٹے کی سو سالہ عمر ہے ویسے۔ ابھی یاد کیا کہ وہ مادام تشریف لے آۓ۔ میں پڑھنے لگی۔اس نے حیا کو فون کیاتھا۔پہلے اسکا موڈ خوشگوار تھا اور پھر آخر میں وہ ناجانے کونسی بات سے ناراض ہوکر فون کاٹ دیا۔ مجھے کیا، حیا میڈم کو بھی سمجھ نہ آیا۔ موڈی نہ ہوتو!! میں اسکو حیا کی طرح جہنم میں تو بھیجنے سے رہی اس لیے سر جھٹک کر آگے بڑھ گٸی۔آگے پھر وہی پھوپھو کے بیٹے کا سین تھا۔وہ مجھے تھوڑا ساٸیکو لگا۔ شاید تھوڑے سے زیادہ ہی۔وہ اب آرہا تھا۔ بیوک ادا۔ حیا سے ملنے۔اور یہ حیا میڈم اسکے آنے کی خبر سن کر پاگل ہوگٸی تھی۔ خیر مجھے کیا!!مجھے تو کہانی سے مطلب تھا۔وہ آیا۔اسکا مزاج خلاف توقع اچھا تھا۔ سمندر کا وہ سیپ والا سین۔جس میں دونوں سیپ چنتے ہیں۔چلو بڑے دنوں بعد وہ حیا سے انسانوں والے لہجے میں ملا تھا۔ شاید اپنا اٹیٹیوڈ کا تھیلا گھر بھول آیا تھا۔پھر وہ اسی دن چلا گیا۔مطلب حیا کے اسی دن۔میرے اسی دن کی تو اب رات ہونے والی تھی۔اور یقینا آج بھی میرے ہاتھ سے کوٸی کتاب چھیننے آنے والا تھا۔اور مجھے اس سے پہلے بہت کچھ پڑھنا تھا۔میں نے سونچوں کو جھٹکتے ہوۓ کتاب پر نگاہوں کے قدم دوڑانے شروع کٸے۔ساتواں باب شروع ہورہا تھا۔بہارے کا موتیوں کے مالا کا سین۔عبدالرحمان کا اسے گفٹ دینا۔پانی میں موتیوں کا ڈوب جانا۔بہارے کا رونہ۔عاٸشے اور بہارے کی لڑاٸی۔میرے نگاہوں کے گھوڑیں بہت تیزی سے دوڑ رہے تھے۔اور مجھے خوشی ہورہی تھی کہ حیا میڈم عاٸشے کی صحبت میں کچھ سدھر رہی ہے۔گُڈ۔”پردہ” جو کتاب کا مقصد تھا۔ وہ اب شروع ہوا تھا۔چلو بالاآخر اصل موزوع تو شروع ہوا۔پھر عبدالرحمن کا ایک وسیع سین۔اس کی اور دیمت کی گفتگو۔ یہ کسے ملک سے نکالنا چاہتا تھا؟جیسے جیسے میں پڑھتی گٸی ویسے ویسے سمجھ آیا کہ یہ پھوپھو کے بیٹے کی بات کررہا تھا۔مجھے چونکہ پھوپھو کے بیٹے سے کوٸی خاص قسم کی ہمدردی نہ تھی تو مجھے پرواہ نہیں ہوٸی۔کم از کم حیا کو پھوپھو کےبیٹاسے بھی اچھا شوہر مل سکتا تھا۔اچھا ہے جان چھوٹے۔میں پڑھتی گٸی۔حیا غریب آدمی کا پیچھا کرتے ہوۓ کوٸی آرٹیکل لکھنے کے بہانے ہوٹل گرینڈ پہینچ گٸی تھی۔اور اوہ شٹ!! وہ پکڑی گٸی۔ جہان میاں نے اسے خود کا پیچھا کرتے ہوۓ پکڑلیا تھا۔ ماننا پڑیگا جہان ہوشیار بڑا تھا۔چاہے لاکھ موڈی سہی لیکن اسکی ذہانت مجھے اچھی لگی تھی۔ بندہ واقعی ذہین تھا۔مجھے بالاآخر اسکی کسی بات کی تعریف کرنے کا موقع مل ہی گیا۔ پھر کہانی بس چلنے لگی۔یہ کہانی بہت لمبی لکھی گٸی تھی۔درمیان میں کٸی سین بہت بوجھل تھے۔بورینگ ٹاٸپ۔اگر اتنی کہانیوں کو جیسے عبدالرحمن کے بھاٸی کی کہانی، ٹالی کا اسرائيلی مورچہ،معتصیم اور وہ لڑکے، پہیلی کی پہیلی۔یہ سب بوریت پہلارہے تھے۔ایسا لگا جیسے جان بوجھ کر کہانی لمبی کرنے کے لیے انہیں لایا گیا۔بلکہ بنایا گیا تھا۔انکے بغیر کہانی زیادہ خوبصورت دیکھاٸی دیتی۔ میں سرسری پڑھتے ہوۓ آگے گزر رہی تھی۔ولید لغاری کسی ہوٹل میں حیا کے اباکے ساتھ اسکا انتظار کرتے بیٹھا تھا۔اوہ! ولید لغاری آیا ہے۔چلو اب مزے آۓگا۔ پڑھتے پڑھتے میری آنکھیں حیرانی سے پھیلی۔کیا مطلب۔وہ جانتا تھا۔وہ غریب آدمی۔میرا مطلب جہان۔وہ جانتا تھا کہ حیا اسکی بیوی ہے؟ پھر بھی اس نے اس کے ساتھ اتنا روڈ برتاٶ کیا۔اسٹرینج!! مجھے دھچکا لگا۔یہ آدمی میری سمجھ سے باہر تھا۔ جہان کے اوپر جتنا تعجب کیا جاۓ اتنا کم تھا۔اس لیے میں کفایت شعاری دیکھاتے ہوۓ آگے بڑھ گٸی۔وہاں حیا نے پہیلی حل کرلی تھی۔اور غالب کے بقول:

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

کی طرح میری آنکھوں کا لہو پلٹتے صفحات پر تیزی سے ٹپک رہا تھا۔اور پھر میں نے حیرانی سے ایک سطر پڑھی۔میری پوری آنکھیں کھل گٸی۔کتاب کا سب سے بڑا راز میں جان چکی تھی۔
“کیا؟؟؟” میرے منہ سے بے ساختہ باآواز نکلا۔صد شکر کے کمرے میں کوٸی نہ تھا۔” وہ۔۔وہ کون۔تھا۔۔؟ کیا وہ وہی تھا۔۔؟لیکن کیسے؟” میرا سر گھومنے لگا۔”ایسا کیسے ممکن تھا۔۔؟ وہ، وہ کیسے ہوسکتا تھا؟ نہیں!!میں نے شاید غلط پڑھا۔”میرا سانس تیز ہونے لگا۔میں دوبارہ وہی سطر پڑھنے لگی۔کیا میں اب تک پچھلے تین دن سے ایک فریب میں جی رہی تھی؟ کیا وہ سب،ویسا نہیں تھا جیسا میں نے حیا کی آنکھوں سے دیکھا تھا؟ لیکن پھر میرے کان میں کسی کے کہے الفاظ گونجنے لگے۔
“جب تک انسان دوسرے کی جگہ پہ کھڑا ہوکر نہیں دیکھتا اسے پوری بات سمجھ نہیں آتی۔”

تو کیا میں اب تک صرف حیا کی کہانی پڑھ رہی تھی؟ابھی اسکی کہانی باقی تھی۔میں ششدر رہ گٸی۔ پھر جس رفتار سے میں نے کٸی اوراق پلٹے اسی رفتار سے میرے دماغ کی گھومتی کیفیت میں تیزی آنے لگی۔اتنا بڑا فریب!!اتنا بڑا راز!!مجھے سخت دھچکا لگا۔کیا آپ کو بھی لگا تھا؟ پہلے یہاں پر براۓ مہربانی وہ لوگ واپس جاٸیے جس نے اب تک یہ ناول نہیں پڑھا ہو اور جو اسکی کہانی سے بھی اب تک واقف نہ ہو۔شاباش جلدی جاٸیے مجھے ان لوگوں کو اپنے جذبات شٸیر کرنے ہیں جو یہ کہانی اور سارے راز جانتے ہیں۔

خیر آپ نے کہا میری ماننی ہیں۔بلکہ آپ نے تو ابھی اپنے عینک پر لگی گرد صاف کی ہوگی تاکہ آگے کے الفاظ مزید غور سے پڑھ سکے۔لیکن میں بھی، میں ہوں۔ یہاں میں نے کچھ نہیں کہنا۔میرا اب کسی راز سے پردہ اٹھانے کا رادہ بدل گیا ہے۔اب آپ خود ہی پڑھیے اور معلوم کرٸیے کہ کیا راز تھا۔

پھر یہاں سے کہانی شروع سے بلکہ بہت شروع سے دوبارہ شروع ہوٸی۔مجھے ہیرو میاں کا ماضی پڑھنا شدید بوجھل لگرہا تھا۔ بھلا کون فریحہ۔ کون کرامت بے۔مجھے کیا کرنا ہے ان سے!! یہ پورا حصہ یقیناً آپ نے میری طرح اسکیپ کیا ہوگا۔خیر میں نے کوٸی اسکیپ نہیں کیا۔پورا پڑھا۔لفظ بہ لفظ۔ لیکن سات سال بعد ابھی چند دن پہلے۔اور مجھے اب بھی اس حصے کو پڑھنے کے لے خود کے ساتھ زبردستی کرنی پڑھی۔(تبصرہ جو لکھنا تھا) پھر آٸی اصل کہانی۔جسے میں کہتی ہو۔وضاحتیں اور وضاحتیں۔ بھٸی سارا ناول خاموشی سے موڈی بن کررہنا والا ہیرو اچانک اتنی لمبی کہانی کہنے لگا کہ مجھے تو بالکل چھپ رہ کر سننا ہی پڑا۔ یہاں پر مجھے جہان سکندر پسند آنے لگا۔ لیکن یہاں نمرہ احمد نے اپنا جادوٸی انداز بدل کر عام سا انداز کردیا۔جسے وہ کہانی کو دیکھایا کرتی تھی۔لیکن ہیرو کی کہانی اس نے سناٸی ہے۔جیسے کوٸی بوجھ اتارا ہو۔ ہاں مانتی ہوں ہیرو میاں اپنی طرف کی کہانی سنا ہی رہے ہیں۔لیکن وہ تصّور کراکر دیکھا بھی سکتی تھی۔یہ مزید مزیدار ہوسکتی تھی اگر اس حصے کو بھی دیکھایا جاتا۔خوبصورت الفاظ سے۔ جو کہ نمرہ احمد سے بڑھ کر اور کوٸی نہیں کرسکتا تھا۔یہ یقینًا اسی فارغ انسان کا مشورہ ہوگا جس نے نمرہ کو شروع میں حیا اور جہان کے بچپن کے نکاح کا آٸیڈیا دیا ہوگا۔ورنہ نمرہ احمد سے ایسی گستاخیاں کہاں ہوتی ہے۔ میرے دل نےصدا لگاٸی۔ وہ نمرہ کے خلاف کوٸی بات کہاں برداشت کرسکتا تھا!! پھر ہیرو سارا کچھ کہتا چلا گیا۔ جو کہ ظاہر ہیں آپ سب نے پڑھا ہوگا۔اور جو نہیں پڑھ کر بھی یہاں ڈھیٹ بن کر بیٹھے ہیں انہیں میری صرف سے ڈھیروں مبارکباد۔ماشاءاللہ۔آج آپ سبھی ایک اچھے قاری بن چکے ہیں۔ڈھیٹ بھی ہو اور قاری بھی ہو تو بندہ لکھاری بھی بن ہی جاتا ہے۔تجربہ سے بتارہی ہوں۔

میں آگے پڑھنے لگی۔ یہ کیا ہوا۔۔؟ ہیرو صاحب پھر غاٸب ہوگٸے؟ آنکھ مچولی شروع ہوگٸی۔ میں ٹہر ٹہر پڑھنے لگی۔ چونکہ یہاں سے کہانی دلچسی کی پٹری پر سوار ہوچکی تھی۔ مجھے یہاں سے دوبارہ مزہ آنا شروع ہوا۔سارے راز کھل چکے تھے۔اب مذید کوٸی راز نہیں بچا تھا۔سواۓ ایک کے۔کیا جہان مرجاۓگا؟ اسے بارڈر کراس کرتے وقت حیا کی آنکھوں سے اسے آخری دفعہ دیکھتے ہوۓ میں نے یہی سوچا تھا۔اور جیسےاس بات نے میرا دل مٹھی میں لےلیا۔نہیں! سیڈ ینڈینگ نہ ہو!!بلکل بھی نہ ہو۔ پھر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ “مرحبا” کہنے والے شخص کی آواز سن کر دل کو سکون آیا۔
“اوہ شکر!!کچھ نہیں ہوا۔” پھر آیا ولید لغاری۔شریفو کے مجرے کی ویڈیو۔”افف! اب کیا ہوگا۔۔؟” حیا کی طرح مجھے بھی یہی لگا تھا کہ کیسیٹ جہان کے ہاتھ آتے ہی وہ توڑ دیگا۔لیکن یہ کیا۔۔؟ اس نے کیسیٹ نہیں توڑی!! سارا سین بےترتیب سانسوں کے ساتھ پڑھا۔دل نے پھر تسلیم کیا کہ وہ کہاں وہ کرتا تھا جو ہم سونچتے تھے۔وہ تو اپنی مرضی پہ چلنے والا موڈی سا انسان تھا۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ کردار ناول کےآخر تک میرا فیوریٹ کردار بن چکا تھا۔وجہ تھی اس کی ذہانت۔وقت سے پہلے مستقبل کی پلاننگ کرنے والا جہان سکندر مجھے ابن صفی کے قلم سے نکلا کردار فریدی جیسا لگا۔اسمارٹ۔ذہین۔گہری نگاہ رکھنے والا۔

آخر میں ہوٸی انکی شادی اور پھر آٸیہ ہماری خدیجہ گُل۔چار سالہ انکی پیاری سی بیٹی۔یہاں ہوٸ کہانی ختم۔ یہاں پر سکون کا سانس لیا۔ میں نے نہیں، مّمی نے۔جتنا انھوں نے میرے ہاتھ میں تین دن سے پکڑی کتاب دیکھ کر نمرہ احمد کو کوسا تھا۔شاید ہی کسی اور کی اّماں نے انہیں اتنا کوسا ہوگا۔خیر ممی نے شکرانہ ادا کیا۔ پھر وہ کیا جسکا میں نے سوچا بھی نہ تھا۔ انھوں نے میری کتاب اس طرح سے غاٸب کی کہ پھر پانچ سال مجھے وہ کہی نہ دیکھاٸی دےسکی۔اسے دوبارہ پڑھنے کے سارے ارمان آنکھوں ہی میں ٹوٹ گٸے تھے۔

یہ کتاب آج تک میری زندگی کی سب سے خوبصورت کتاب ہے۔میں نے اس جیسی کوٸی ناول ان گزرے سات سالوں میں بھی نہیں پڑھی۔نہ ہی مجھے لگتا ھیکہ ساری زندگی بھی اس جیسی کوٸی کتاب میں پڑھ سکونگی۔ ہاں اس سے کچھ کم اچھی اور کچھ زیادہ اچھی ضرور پڑھی ہے لیکن اس جیسی کوٸی کتاب میرے ہاتھ نہ لگی۔ وجہ پتہ ہےکیا ہے؟ مجھے لگتا ہے وجہ پہلی بار کسی کتاب کی محبت میں گرفتار ہونا ہے۔ اس میں کٸی ایسی باتیں ہیں جو مجھے پسند نہ آٸی۔لیکن اس سے میری محبت میں کچھ فرق نہ پڑھا۔

ہم نے اول سے پڑھی ہیں یہ کتاب آخر تک
ہم سے پوچھے کوٸی ہوتی ہے محبت کیسی

دوسری وجہ ہے اس کتاب نے مجھے مجھ سے ملوایا۔یہ کتاب پڑھنے سے پہلے میں انجان تھی کہ مجھ میں بھی کوٸی راٸیٹر چھپا ہے۔اس کتاب نے مجھے لکھنا سیکھایا۔نمرہ احمد جیسی مشہور شخصیت سے ملاقات کرواٸی۔یہ کتاب میں آج بھی درمیان سے کھول کر پڑھنے لگتی ہوں تو مجھے اچھا محسوس ہوتا ہے۔اپناٸیت بھرا احساس۔

لیکن کچھ چیزیں مکمل ہوکر بھی ادھوری رہ جاتی ہیں۔ٹھیک اسی طرح اس کہانی میں بھی کچھ چیزیں ادھوری سی لگی۔حقیقت سے کوسو دور۔ میرا لکھنے کا دل تو نہیں چاہ رہا۔لیکن چونکہ تبصرہ ایمانداری سے لکھنا شرط ہے اس لیے لکھنا پڑھ رہا ہے۔میری طرح اس ناول کے دیوانے لوگ بُرا نہ مناٸیں۔

شروعات کرتے ہے ہیرو سے۔جیسے ہیرو صاحب ماشااللہ آرمی میں ہیں لیکن نہایت ویلے بھی ہے۔ سارا وقت اگر وہ اپنی بیوی کے پیچھے ہی گھومنے میں نکالتے ہے تو بیچارے آرمی کا کام کب کرتے ہوگے؟ کچھ پاک ڈراموں میں آرمی کی زندگی کے بارے میں بتایا۔ہندوستان میں بھی کٸی فلمیں ان کی زندگی پر بنی۔کسی کو بھی دیکھ کر یہ نہ لگا کہ یہ اتنے ویلے بھی ہوسکتے تھے جتنا ہمارے ہیرو صاحب تھے۔سارا ناول یہ بس اپنی بیگم کے پیچھے ان کی رکھوالی میں گھومتے ہوۓ گزار دیتے ہیں۔مطلب حد ہے۔ انہیں کم از کم آرمی آفیسر تو نہیں بتانا چاہیٸے تھا۔ یہاں آرمی لاٸف اور آفیسر دونوں کا بھی مزاق بنا ہیں۔مجھ جیسی معصوم لڑکی نے تو اسے پڑھ کرآرمی جواٸین کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا تھا۔ وجہ جہان کی پرسنالٹی سے متاثر ہونا نہیں تھا وجہ جہان صاحب کی فراقت سے متاثر ہونا تھا۔

پھر دوسری بات جو بہت بے یقین تھی وہ حیا کا کرادر تھا۔ یہ لڑکی کیوں اپنی پڑھاٸی پر اور کرٸیر پر توجہ نہیں دیتی؟ یہ ترکی پڑھنے کے لیے گٸی تھی۔لیکن یہ وہاں پر ایک دن بھی نہ پڑھی۔ہر دن کالج بنک۔نہ اسکا جہان کو حاصل کرنے کے علاوہ کوٸی مقصد تھا۔کرٸیر وغیرہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔حیا ایل ایل بی کر چکی ہے۔ لیکن اسکے کسی بھی سین سے نہیں لگتا کہ اسے پڑھنے کا رتّی برابر شوق ہے۔ نہ ہی اسکا اپنے ابا کا آفس سنبھالنے کا کوٸی ارادہ تھا۔کیوں؟ کیونکہ وہ خاص سے عبایا میں ایک عام سی لڑکی تھی۔خاص عبایا اس لیے کیونکہ اسے نمرہ احمد نے پہنایا تھا۔ایسی لڑکی جسکا مقصد باقی عام لڑکیوں کی طرح محبت حاصل کرنے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔میرامطلب اَندیکھے شخص کی محبت۔

تیسری چیز ہے۔جہان کا مکمل پرفیکٹ ُلُک۔جس طرح نمرہ احمد نے جنّت کے پتے کسے کہتے ہیں؟ اس کے جواب میں لکھاکہ وہ آپ کو ڈھانکتےہیں اور آدم اور حوا نے جب وہ پھل کھایا تھا تو وہ بےلباس ہوگٸے تھے اور کس طرح ان دونوں نے جنت کے پتوں سے خود کو ڈھانکا وغیرہ وہ انھوں نے اچھے سے بتایا۔لیکن ان پتّوں سے آدم اور حوا دونوں نے خود کو ڈھانکا تھا تو پھر کہانی میں کیوں صرف حوّا نے مطلب ہیروٸین نے خود کو ڈھانکنے کےلیے ان پتوں کا سہارا لیا۔ہمارے ہیرو نے کیوں ان پتوّں کا سہارا نہیں لیا۔کمی تو دونوں میں تھی۔وہ اگر بےحیا تھی تو یہ بھی تو بداخلاق تھا۔ اس کی ساری بداخلاقی کو راٸیٹر نے اسکا مزاج بتایا اور اسکی وضاحت بھی بڑی خوبصورت انداز میں پیش کی۔جو کہ میرے سمجھ بالکل نہیں آٸی۔جس طرح حیا کا کردار پروان چڑھا اسی طرح جہان کا کردار پروان نہ چڑھ سکا۔اسے شروع سے ہی مسٹر پرفیکٹ بتایا۔جوکہ مجھے حقیقت سے دور۔۔بلکہ بہت دور لگا۔

چوتھی کمی ہے مسٹر پرفیکٹ ہیرو کا تب تک اپنی بیوی کو بیوی نہ ماننا جب تک وہ اس کے بناۓ معیار پر پوری نہ اترے۔مطلب سیریسلی؟؟ نمرہ اس سے اپنے قارئين کو کیا سیکھانا چاہ رہی ہیں مجھے سمجھ نہ آیا۔وہ چاتی ھیکہ ایک لڑکی بیوی بننے کے بعد بھی بیوی نہیں بن سکتی جب تک کہ وہ اپنے سوکالڈ شوہر کے معیار پر پوری نہ اتریں۔اس کے لیے اسکا شوہر اسے ہر روز آزماتا رہے جب تک وہ اپنی بیوی سے مطمئن نہ ہوجاۓ۔اور اس طرح اپنی بیوی کو ہی کسی اجنبی کے نام پر صرف ستانے اور آزمانے کےلیے بکُے بھیجنا تو میرے نزدیک ہراسمنٹ میں شامل ہوتا ہے۔ مجھے سخت غصہ چڑھا۔ اور مزے کی بات یہ ھیکہ اپنے سوکالڈ پرفیکٹ ہیرو کو نمرہ احمد نے آخرمیں کوٸی سزا نہیں سناٸیں۔نہ ہی جہان سکندر کو کوٸی احساس ہوا!!

پانچویں چیز ہے ہیروٸین صاحبہ کا ہر طرف ابا کا شہر ہے سمجھ کر نکل پڑنا۔ وہ ایک مسلم لڑکی تھی۔مانتی ہوں کانفیڈنٹ بھی تھی۔لیکن یہاں پر وہ ایک پراپر حجابی لڑکی بتاٸی گٸی تھی۔کیا قرآن اور حدیث کسی بھی مسلم لڑکی کو منہ اٹھاۓ کہی بھی بغیر محرم کے نکل جانے کی اجازت دیتا ہے کیا؟ نمرہ احمد ماشااللہ خود قرآن کی طلبہ ہے۔کیا وہ یہ بات نہیں سجھتی؟ میرا مطلب وہ سین ہے آخر والا۔ جب حیا جہان کا سچ معلوم ہوجانے کے بعد اسے ڈھونڈنے اکیلے نکل جاتی ہے۔ہاں!باڈی گارڈ کے ساتھ سوری۔آٹھ سالہ بہارے کو میں کیسے بھول سکتی ہوں۔باڈی گارڈ!!رٸیلی؟

یہ کہانی جن لوگوں نے نہیں پڑھی وہ لوگ اسے ناول سمجھ کر ہی پڑھیے۔ جس طرح اکثر لڑکیاں کہتی ھیکہ یہ کہانی ہمیں پردہ کرنا سیکھاتی ہے۔ایسا نہیں ہے۔یہ محظ کہانی ہے۔یہ آپ کو ہمت دے سکتی ہے۔کچھ دینی باتیں بھی بتاسکتی ہے۔لیکن پردہ کرنا نہیں سیکھاتی۔پردے کا مقصد سمجھنےکےلیے آپ کو سورہ نور پڑھنا ہوگا۔جنّت کے پتے نہیں۔ یہ مزیدار کہانی ہے اسے مزے کے لیے ہی پڑھیے۔ کیونکہ ہر مزہ دینے والی شۓ سے نقصان ہو ایسا ضروری نہیں ہوتا۔یہ کہانی میری پسندیدہ کہانی ہے امید ہے آپ کی بھی بن جاۓ تو پڑھیے گا ضرور۔

Comments From Facebook

12 Comments

  1. Sana yameen baig

    Style of writing was really amazing. It was fun and Joy to read this

    Reply
    • ارم جہاں

      ماشاءاللہ۔آج کل بچیاں ناول پڑھ کر ہر چیز ہی سچ سمجھ رہی ہیں اور اس کے مطابق ہی زندگی کا تصور کررہی ہیں ایسے وقت میں اس جیسا تبصرہ پڑھ کر دل باغ ہوگیا جو یہ بتاۓ کہ ناول پڑھ کر کیا لینا چاہیے اور کیا چھوڑنا۔آخری پیراگراف میں جس انداز سے اس کی خامیاں پر روشنی ڈالی گٸی وہ بہت اچھا تھا۔اللہ آپ جیسی لکھاری کو ہمت دے ۔

      Reply
  2. فاکہہ فردوس

    بہت ہی عمدہ اریشہ۔۔۔۔ آپکا بھی انداز کافی attractive ہے۔۔۔ مکمل تبصرہ پڑھنے پر ہی چین آیا۔۔۔ ماشاءاللہ بہت بہترین انداز ????

    Reply
  3. افرح شیخ

    اریشہ تقدیس۔۔واقعی یار آپ موقع پر چوکا لگانے والی ہی ثابت ہوٸی ہے۔۔ہادیہ ٹیم نے کیا ناول کی دنیا میں رہنے والیوں کو تبصرہ کا موقع دےدیا۔۔آپ نے تو اس فاٸدہ اٹھا کر لاجواب ہی کردیا۔۔

    Reply
  4. ارحم شبانہ

    افففف۔۔پرانی یادیں تازہ ہوگٸی۔۔کیا بات ہے اریشہ۔۔جہان حیا کے بچپن کے نکاح کا سین ۔۔????ا

    Reply
  5. عنایہ صدیقی

    ماشاءاللہ۔۔بھٸ کیا کہنے۔۔کیا انداز ہے لکھنے کا۔۔اللہ قلم میں برکت دے۔اریشہ آپکے مزید تبصروں کا انتظار ہے ہمیں۔

    Reply
  6. عفت شہناز

    بہت اچھا لکھا ہے۔ماشااللہ۔۔۔ایک بات جو مجھے پسند آٸی وہ یہ کہ آپ نے تبصرہ بھی کیا اور جہاں تنقید کی ضرورت تھی۔۔۔وہاں تنقید براۓ اصلاح کا کام کیا۔مجھے آخر ی ٕحصہ بہت پسند آیا۔واقعی جو کچھ کمیاں اس ناول میں مجھے کسی زمانے میں پڑھ کر محسوس ہوٸی تھی۔آپ نے وہی ساری باتیں رکھی۔

    Reply
  7. آمنہ شیخ

    اریشہ تقدیس۔۔بہت زبردست۔۔میں حیا اور جہان کے بچپن کے طلاق کا سین پڑھ کر ابھی تک ہنس رہی ہوں۔اور حیا کا گنجاسر۔۔آپ کا خیالی جہاں مھے بہت مزیدار لگرہا ہے۔مذید لکھا کریے۔دل واقعی خوش ہوگیا پڑھ کر۔

    Reply
  8. عابدہ پروین

    کسی زمانے میں یہ ناول پڑھی تھی میں نے۔اس وقت جہان سکندر ہر لڑکی کا خواب بنا ہوا تھا۔وہ دن یاد آگیے تبصرہ پڑھ کر۔لیکن یہ تبصرہ پڑھ کر محسوس ہوا کہ آج کے دور کی لڑکیاں سمجھدار ہوگٸی ہیں۔وہ سچ اور جھوٹا خیال کا فرق پہچاننے لگی ہیں۔دل سے خوشی ہوٸی یہ جان کر۔

    Reply
    • Adrees jahan

      its really very intresting and beautiful book review of my fvrt novel

      And another thing Which give me smile is your style and jokes about jahan marriage

      Its looking very funny and cute also

      Keep it up sis

      Reply
  9. قدسیہ

    ماشاءاللہ، آپ بہت اچھا لکھتی ہے۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے