شمسِ فلسطین

شمسِ فلسطین
25 فروری 2017
“بابا ……بابا!” اپنی چہکتی آواز میں پکارتی ہوئی ہانی تقریبًا دوڑتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔
“آرام سے آرام سے۔” شفیق احمد نے اسے اٹھا کر اپنے بغل کی کرسی پہ بٹھاتے ہوئے کہا۔ “اب فرمائیں اُمّ ہانی صاحبہ کیا کہنا تھا آپ کو ؟” شفیق کے سامنے والی کرسی میں ہانی کا چھہ سالہ بھائی عمیر بیٹھا مزے سے ناشتہ کر رہا تھا۔
آج اُم ہانی کی گیارہویں سالگرہ تھی جس وجہ سے وہ بہت پرجوش تھی۔ ہاتھ ہلا ہلا کر بولتی ہوئی وہ اپنے سارے طےکردہ پلانز اپنے بابا کو بتا رہی تھی۔ آسیہ خانم ٹیبل پر مختلف قسم کے پکوان سجاتی ہوئی وقفے وقفے سےمسکرا کر ام ہانی کو دیکھ لیتی۔ آسیہ نےام ہانی کے سامنے ایک تشتری رکھی تو ام ہانی کی زبان کو بریک لگی۔ تشتری میں رکھے بسبوسا کو دیکھ کر پہلے خوشی اور حیرت سے اس کامنہ کھلا اور پھر : “وَللہِ ماما، آپ دنیا کی سب سے اچھی ماما ہیں ۔” ایک دم سے اس نے آسیہ کے دونوں ہاتھ پکڑتے ہوئے پر جوش انداز میں کہا۔
“وَللہِ اُم ہانی، آپ دنیا کی سب سے اچھی بیٹی ہیں۔” آسیہ نے ہنستے ہوئے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ ناشتہ ختم کرنے تک ہانی اپنے بابا کے ساتھ مل کر شام کا سارا پراگرام پلان کر چکی تھی۔شام کے بارے میں سوچ کر ہی ہانی کے من میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔ وہ کچھ گنگناتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ گھر کے باقی افراد بھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔
معمول کے کام کرتے ہوئے آسیہ نے گھڑی کی طرف دیکھا تو دوپہر کے ڈیڑھ بج رہے تھے۔ آج اسکول کی چھٹی ہونے کی وجہ سے عمیر بھی اپنے بابا کے ساتھ چلا گیا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی تو آسیہ نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف سے بوکھلائی ہوئی نسوانی آواز گونجی: “آسیہ بازار میں بھگدڑ مچی ہے، اسرائیلی فوجی اندھادھند گولی باری کر رہے ہیں! تم گھر سے باہر مت نکلنا۔” آسیہ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور سوال کرتی دوسری طرف سے کال ختم ہو چکی تھی۔ وہ فون تھامے ہوئے ہی صوفے میں گر سی گئی۔ ” یا اللہ خیر کا معاملہ کرنا! یا اللہ رحم کرنا۔” اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر اس نے منہ پر رکھ لیا اور مسلسل دعا کرنے لگی۔
یہ غزّہ تھا۔ ہر ایک دن ایسے ہی کسی دہشت ناک سانحہ کے ڈر کے سائے میں گزرتا تھا۔ ہانی کے خاندان نے بھی ایسے کئی حادثے جھیلے تھے۔ ” یا اللہ رحم، یا اللہ رحم، یا اللہ رحم…………” وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آسیہ کی دعاؤں میں بھی شدت آتی جا رہی تھی۔ وہ زور زور سے آگے پیچھے ہلتی بس یہی الفاظ دہرائے جا رہی تھی۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ۔ آسیہ جھٹکے سے اٹھی لیکن اس کے قدم بڑھانے سے پہلے ہی ہانی اپنے کمرے سے نکل کر بھاگتی ہوئی دروازے کی طرف چلی گئی۔ آسیہ بھی تیز قدموں سے اس کے پیچھے لپکی۔ چہکتی ہوئی ہانی نے دروازہ کھولا تو سامنے لوگوں کا ایک ہجوم کھڑا تھا۔ ہانی ان سے کچھ پوچھتی ، اس سے پہلے ہی آسیہ کے زور سے چیخنے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ ہانی نے بے ساختہ پیچھے مڑ کر اپنی ماں کو دیکھا جو لپکتے ہوئے باہر کی طرف نکل رہی تھی۔ دروازہ کے کھلتے ہی آسیہ کی نظر اس سفید کپڑے میں لپٹے ننہے وجود پر پڑ چکی تھی جسے کسی نے گود میں اٹھارکھا تھا۔ ہجوم میں شامل لوگ آسیہ سے بہت کچھ کہہ رہے تھے لیکن اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اس نے لپک کر اس وجود کو اپنے سے لپٹا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ہانی کو سمجھتے دیر نہ لگی کہ اس سفید کپڑے میں لپٹا کون ہے۔”عُم… عُ …میر!”گویا کہ اس کے حلق میں آواز پھنس گئی ہو۔ وہ آگے بڑھنے لگی تھی کہ ایک دم سے ذہن میں کھٹکا ہوا۔ ” بابا؟ میرے بابا کہاں ہیں؟ ” اسکے سوال پر آسیہ نے بھی نظریں اٹھا کر بھیڑ کی طرف دیکھا۔ شفیق احمد وہاں کہیں نہیں تھے۔ ہانی وہاں کھڑے لوگوں سے سسکتے ہوئے بار بار پوچھ رہی تھی۔ بھیڑ میں سےکسی نے اسے اٹھا کر گلے سے لگا لیا ۔
بازار میں اس روز اسرائیلی فوجیوں نے بہت دہشت پھیلایا تھا۔ انہوں نے پہلے دکانوں کو نظرآتش کیا۔ کسی نے مزاحمت کی تو انہوں نے اندھادھند فائرنگ شروع کر دیا۔ اس بھگدڑ میں نہ صرف لوگوں کی جانیں گئی تھیں ، بلکہ اسرائیلی فوج کئی مردوں اور بچوں کو جبراً اٹھاکر بھی لے گئی تھی۔ شفیق احمد انہیں اغوا کئےگئے لوگوں میں سے ایک تھے۔ انہیں کہاں لے جایا گیا تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔ ہجوم میں سے کوئی یہ روداد سنا رہا تھا اور آسیہ اسے ایک ٹک دیکھتی سن رہی تھی۔ اس کا دل بالکل خالی ہو گیا تھا۔
27 مارچ 2017
” میں واپس لوٹ کر یہ پوری دنیا کو بتاؤں گی۔ ” اپنی گلی میں چہل قدمی کرتی ہوئی اُم ہانی کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے تو اس نے مڑ کر آواز کی جانب دیکھا۔ قریب ایک پیڑ کے سائے میں دو عورتیں بیٹھی نظر آ رہی تھیں۔ ایک عمر دراز خاتون جنہیں ہانی پہچانتی تھی، اور ان کے سامنے ایک 25-26 سالہ لڑکی بیٹھی تھی جو اپنے گھٹنے پر رکھے نوٹ بک میں کچھ لکھ رہی تھی۔ ہانی نے اسے پہلے کبھی وہاں نہیں دیکھا تھا ، نہ ہی وہ مقامی فلسطینی لڑکی کی طرح لگتی تھی۔ ہانی وہیں رک کر انہیں دیکھنے لگی۔ ان کی کچھ باتیں سن کر اسے سمجھ آیا کہ وہ لڑکی زہرہ بی بی سے غزّہ کے حالات اور وہاں کے لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں سوال کر رہی تھی اور زہرہ بی بی تفصیل سے ان کے جواب دے رہی تھی۔ ہانی کے ذہن میں کئی سوال پیدا ہونے لگے۔ پھر کسی سوال کے جواب میں پچھلے مہینے ہوئے سانحہ کا ذکر ہوا اور ایک دم سے ہانی کے اندر کڑواہٹ پھیل گئی۔ زہرہ بی بی کی نظر ہانی پر پڑی تو انہوں نے اسے اپنے قریب بلانا چاہا ۔ اس لڑکی نے بھی مسکرا کر اس کی جانب دیکھا لیکن ہانی کی دلچسپی اب ان میں ختم ہو چکی تھی۔ وہ پیچھے مڑی اور تیز قدموں سے اپنے گھر کی طرف چلی گئی۔ “اس حادثے میں ہانی نے اپنے باپ اور بھائی کو کھو دیا تھا ، تب سے ہی یہ ایسی کم گو ہو گئی ہے۔” زہرہ بی بی تھوڑا خفت کا شکار ہوتے ہوئے وضاحت کرنے لگیں ۔
تیز تیز چلتی حانی کو بھی ایک دم سے شرمندگی محسوس ہونے لگی۔ یہ پہلی بار تھا کہ اس نے ایسی حرکت کی تھی۔ پچھلے ایک مہینے میں وہ کافی بدل چکی تھی۔ آسیہ خانم کو بھی چپ لگ گئی تھی اور ہانی نے بھی پہلے کی طرح اچھل کود کرنا چھوڑ دیا تھا۔ رشتےدار اور ہم سائے آتے تو دونوں کو تسلی اور دلاسا دینے کی کوشش کرتے ۔ دھیرے دھیرے آسیہ نے صرف ہانی کی خاطر زندگی کی طرف لوٹنا شروع کر دیا۔ ایک مہینے بعد بھی شفیق احمد اور ان کے ساتھ اغوا ہوئے لوگوں کی کوئی خبر نہ تھی۔ ہانی نے بھی اب ان کے بارے میں لوگوں سے سوال کرنا چھوڑ دیا تھا۔
28 مارچ 2017
اسکول سے واپسی کے راستے میں آج پھر اُم ہانی کو وہ اجنبی لڑکی نظر آ گئی۔ وہ ا یک دکان کے سامنے بینچ پر بیٹھی فون پر بات کررہی تھی۔ اُم ہانی کو اپنے کل والے رویے پر شرمندگی تھی لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس کے پاس جائے یا نہیں۔ اتنے میں اس لڑکی نے بھی ہانی کو دیکھ لیا۔ ہانی کو ایک دم سے گھبراہٹ محسوس ہونے لگی۔ اس لڑکی نے فون رکھ دیا تھا اور اب ہانی کی طرف آ رہی تھی۔ اس کے قریب رک کر وہ نیچے جھکی اور مسکراتے ہوئے ہانی کو سلام کیا۔ ہانی نے دھیمے آواز میں اس کا جواب دیا۔
“میرا نام بریعہ سلطان ہے۔ مجھے آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔” اس لڑکی نے اپنا تعرف کرایا اور مصافحہ کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ وہ جان بوجھ کر چھوٹے چھوٹے جملے بول رہی تھی تاکہ ہانی اس سے مانوس ہو جائے۔ ہانی نے ہچکچاتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھا ” میں ہانی ہوں۔ اُم ہانی۔” پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے کہا: ” میں کل کے اپنے حرکت کے لئے آپ سے معافی چاہتی ہوں ۔” اس کی بات پر بریعہ ایک دم سے ہنس پڑی ۔ ” مجھے بالکل بھی برا نہیں لگا۔ لیکن اگر آپ کو برا نہ لگے تو کیا ہم تھوڑی دیر بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟” جواب میں ہانی نے سر ہلاتے ہوئے ہامی بھری۔ بریعہ اس کا ہاتھ پکڑے اسے بینچ کی طرف لے آئی ۔ اتنی دیر میں ہانی کافی حد تک کمفرٹیبل ہو چکی تھی۔ “آپ فلسطینی ہیں؟”بینچ پر بیٹھتے ہوئے ہانی نے قدرے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
” ہاں میں فلسطینی ہوں ۔” بریعہ مسکرا دی۔ “میری قومیت، میرا دل اور میری روح سب فلسطینی ہے، سوائے میری شہریت کے!” بریعہ سلطان امریکی شہریت کی حامل ایک فلسطینی لڑکی تھی، جس کے خاندان کو 1948 کے نکبے میں جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ پھر انہیں کبھی اپنے ملک واپس لوٹنا نصیب نہیں ہوا۔ بریعہ امریکہ میں ہی پیدا ہوئی لیکن اپنے محب وطن ماں باپ کی وجہ سے وہ کبھی فلسطین سے نا آشنہ نہیں رہی۔ 25 سال تک اپنے آبائی ملک کے بارے میں سنتے سنتے اس کے اندر بھی فلسطین کو دیکھنے کی خواہش دن بہ دن بڑھتی گئی یہاں تک کہ اسے غزّہ میں ایک ہفتہ گزارنے کی اجازت اور ویزہ دونوں مل گئے۔
“آپ لوگوں کے انٹرویوز کیوں لے رہی ہیں؟” ہانی نے اگلا سوال کیا۔
“کیوں کہ میں فلسطین کے بارے میں پوری دنیا کو سب کچھ بتانا چاہتی ہوں ۔ اور اسرائل کے بارے میں بھی۔ میں امریکہ لوٹ کریہ سب میڈیا کو دے دوں گی۔ ”
“اس سے کیا ہوگا؟”
“اس سے بدلاؤ آئےگا۔ ہر کسی کو اسرائل کے جرائم کا پتا چل جائے گا۔ اور لوگ، انسانی حقوق کے علمبدار تنظیمیں، الگ الگ ملکوں کے لیڈرز سب فلسطین کے حق میں ہو جائں گے اور اسرائل کے ظلم پر پابندی لگانے کی کوشش کریں گے۔” بریعہ کی آواز میں امید تھی، یقین تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔
“کیا اس سے میرے بابا واپس آ جائیں گے؟” یہ طنز نہیں تھا ، ایک سادہ سا سوال تھا ۔ لیکن بریعہ کو اس کی توقع نہ تھی۔
“انشاء اللہ۔ ہم سب کوشش کریں گے تو ضرور واپس آ جائیں گے۔ ” بریعہ کو سمجھ نہیں آیا کہ اس سے زیادہ وہ کیا کہے کیوں کہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی کہ وہ لوگ اب کبھی واپس ملیں گے یا نہیں۔
” میں ان کو ہر روز خواب میں دیکھتی ہوں۔” ہانی نے سر جھکائے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ” میں عمیر کو بھی اکثر خواب میں دیکھتی ہوں ۔ میرے ذہن میں ہر وقت ان کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ ” بریعہ خاموشی سے سنتی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے اس کے الفاظ سے زیادہ اپنے آنسو ضبط کرنے کی کوشش پر رحم آ رہا تھا۔ ہانی بولتی رہی۔ ” میں ماما کو نہیں بتاتی کہ وہ بھی اداس ہو جائیں گی۔ میں اسکول کے راستے میں بھی خاموش رہتی ہوں کیوں کہ میری باتیں سننے کے لئےاب عمیر ہے ہی نہیں۔” بریعہ نے دھیرے سے اپنے بازو ہانی کے گرد حمائل کئے تو ہانی کا ضبط جواب دے گیا۔ وہ رو پڑی۔ اسے شفقت بھری نظروں سے دیکھتےہوئے بریعہ کو بھی اپنے آنسو اندر اتارنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔ “میں چاہتی ہوں بس ایک بار وہ مجھے واپس مل جائیں، بس ایک بار بابا گھر لوٹ آئیں تو مین انہیں دوبارہ کبھی بازار نہیں جانے دوں گی۔” وہ سسکیوں کے بیچ بھرائی آواز میں بول رہی تھی۔ جب وہ چپ ہوئی تو بریعہ نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا: “تمہارے بابا ضرور واپس آ جائیں گے اُم ہانی۔ ہمارا فلسطین ایک دن ضرور آزاد ہو جائے گا۔ اور تب یہ ساری آزمائشیں ختم ہو جائیں گی۔ تم دیکھنا ایسا ضرور ہوگا۔” یہ ہانی کے لئے دلاسے سے زیادہ بریعہ کا خود سے ایک عزم تھا۔ امریکہ میں رہتے بھی فلسطین میں ہونے والے واقعات اسے بہت تکلیف دیتے تھے۔ لیکن جب اس نے یہاں آ کر سب کچھ دیکھنا اور سننا شروع کیا تو غزّہ کے حالات نے اسے اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اب اسے واپس جا کر اپنے وطن کے لئے کام کرنا تھا ، اس نے اپنا ارادہ اور زیادہ پختہ کر لیاتھا۔
بریعہ سے بات چیت کے بعد ہانی مایوسی سے باہر نکل کر تذبذب کے مرحلے میں آ گئی تھی۔ اس کے ذہن میں کئی طرح کے سوالات چل رہے تھے۔ رات میں آسیہ نے اس کا کھویا کھویا چہرہ دیکھا تو اس کے پاس بیٹھ گئی۔ ہانی نے سر اٹھا کر آسیہ کو دیکھا پھر کچھ سوچتے ہوئے پوچھا: ” ماما کیا فلسطین آزاد ہو جائے گا؟ ” آسیہ نے نظریں پھیرکر اسے دیکھا اور دھیرے سے مسکرائی۔ “انشاءاللہ۔ تمہیں نہیں لگتا کہ ایسا ہوگا؟” انہوں نے اسی کا سوال دہرایا۔
“میں چاہتی ہوں کہ فلسطین آزاد ہو جائے ۔ ہم سب سکون سے رہنے لگیں۔ لیکن اتنا کچھ خراب ہو چکا ہے کہ مجھے یقین نہیں آتا کہ یہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔” ہانی نے تھوڑے اداس لہجے میں کہا۔
“آزمائشیں ختم ہو جاتی ہیں ہانی۔ اندھیرے کے بعد روشنی ضرور آتی ہے۔ اگر کسی رات میں بہت آندھی آئے اور کئی گھر اجاڑ دے تو کیا اس رات کے بعد دن نہیں نکلےگا؟ ویسے ہی فلسطین کا سورج بھی ضرور نکلے گا۔ اللہ پر یقین رکھو۔”
ہانی کو وہ نظم یاد آیا جو اس نے اپنے بابا کے ساتھ دیکھی ہوئی فلم میں سنا تھا۔
ہانی نے اپنی ڈائری میں اس نطم کے الفاظ بڑے بڑے حروف میں لکھ لیا : “ستشرک شمسک رغم المذابح ورغم القیود و رغم الطغاہ!” ( فلسطین اس نسلکشی، قید اور ظلم کے باوجود تمہارا سورج ضرور نکلےگا)
24 فروری 2018
وقت کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وقت گزرتا جاتا ہے۔ام ہانی کے خاندان کے ساتھ ہوئے حادثے کو ایک سال ہو چکا تھا۔ اور کل اس کی بارہویں سالگرہ تھی۔ آسیہ اورام ہانی دونوں نے ایک بار پھر خاموشی کا دامن تھام لیا تھا۔ آسیہ کو یادوں سے زیادہ ام ہانی کے ذہنی حالت کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کل کے دن وہ کیا کرےگی۔ دوسری طرف ام ہانی کا ذہن سچ میں الجھا ہوا تھا۔ دنیا بھر کی باتیں اور دنیا بھر کے خیالات اس کے اندر شور مچا رہے تھے۔ اس نے شدت سے دعا کی کہ کاش کل کا دن آئے ہی نہ! کاش گزشتہ سال بھی کل کا دن آیا ہی نہ ہوتا۔ وہ اپنے دل و دماغ کو صحیح رکھنے میں ہلکان ہوئی جا رہی تھی۔
اپنے خیالوں میں گم ام ہانی گھر میں داخل ہوئی تو آسیہ کے ساتھ محلے کی ماریہ کو بیٹھے پایا۔ وہ سلام کرتی ہوئی ان کے قریب گئی ۔ ماریہ نے مسکرا کر جواب دیا اور پھر اپنے بیگ سے ایک لفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ ام ہانی نے سوالیہ نگاہ سے ماریہ کو دیکھا تو ماریہ نے کہا : “امریکہ سے تمہارے لئے پیغام ہے ۔”ام ہانی نے حیرت سے لفافہ تھام لیا۔ وہ کسی ای میل کا پرنٹ آؤٹ تھا جو کہ بریعہ سلطان کی جانب سے موصول ہوا تھا۔ ام ہانی حیرت ، تجسس اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے دو چار ہو رہی تھی۔ اس دن اسکول کے راستے میں ہونے والی ملاقات کے بعد ان گیارہ مہینوں سے بریعہ سے ہانی کا کوئی رابطہ نہ تھا۔ام ہانی اسے اور کے پر امید عزم کو اکثر یاد کرتی تھی۔ انٹر نیٹ پر اس نے کئی بار اسے ڈھونڈھنے کی بھی کوشش کی لیکن وہاں سیکڑوں بریعہ میں سے اس بریعہ کو ڈھونڈھنا مشکل تھا۔ام ہانی کو لگتا تھا کہ اگر وہ مل بھی جاتی تو کیا پتا اسے ہانی یاد بھی ہو یا نہیں۔ اس طرح اچانک اس کا پیغام ملنا ام ہانی کے لئے بالکل غیر متوقع تھا۔ اس نے میل پڑھنا شروع کیا۔ میل میں بریعہ نے کوئی خاص بات نہیں کی تھی فقط اس کا حال احوال پوچھا تھا اور پیغام ملنے کے باد ویڈیو کال کے ذریعے سے رابطہ کرنے کو کہا تھا۔ اس نے چہرہ اوپر اٹھایا تو ماریہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ مسکراتے ہوئے اس نے خود ہی کہنا شروع کیا: “ہم الازہر یونیورسٹی کے کچھ طلبہ بریعہ اور اس کے دوستوں کے ساتھ ایک چینل شروع کر رہے ہیں – شمسِ فلسطین۔ جس کے ذریعے سے ہم فلسطین کی کہانی پوری دنیا تک پہنچائیں گے۔ جیسے ہی بریعہ کو میرے رہائشی علاقے کے بارے میں پتا چلا اس نے سب سے پہلے تمہارے بارے میں پوچھا اور پھر یہ پیغام تم تک پہنچانے کو کہا۔ ” تھوڑی دیر کے بعد ماریہ چلی گئی تو آسیہ اور ام ہانی بھی اپنے کاموں کے لئے اٹھ گئے۔ام ہانی کے ذہن میں بس ایک چیز چل رہی تھی: ” شمس فلسطین!” پچھلے ایک سال سے وہ ہر روز فلسطین کی آزادی کے بارے میں سوچتی آئی تھی۔ کیوں کہ پہلی بار اس کی ماما نے فلسطین کی آزادی کو سورج سے تعبیرکیا تھا اس لئے آزادی کے لفط کی جگہ شمس کے لفظ نے لے لی تھی۔ ” کیا بریعہ کے لئے بھی شمسِ فلسطین کا وہی مطلب ہے جو میں سمجھتی ہوں؟” اس طرح کے کئی سوال اس کے ذہن میں چل رہے تھے۔
رات کے کھانےکے بعد ام ہانی نے بریعہ کو ویڈیو کال کر لیا۔ بریعہ اسکرین پر اسے دیکھتے ہی چہک اٹھی۔ ادھر ام ہانی کے چہرے پر بھی مسلسل مسکان سجی تھی۔ دونوں کافی دیر ایک دوسرے سے بات کرتی رہیں ، ایک دوسرے کے حال احوال، پچھلے ایک سال میں ہوئے کچھ خاص واقعات اور یہ کہ انہوں نے ایک دوسرے کے بارے میں کتنا سوچا۔ایسے جیسے دو پکی سہیلیاں برسوں بعد ملی ہوں۔ فلسطینی ایسے ہی تو ہوتے ہیں، ہر کسی کو اپنا بنا لینے والے، ہر کسی کے لئے مخلص۔
غزّہ میں ام ہانی سے ملنے کے اگلے ہی دن بریعہ امریکہ واپس چلی گئی تھی ۔ وہاں جا کر اس نے اپنے سارے اکٹھے کئے انٹرویوز، کہانیاں اور تصاویر کو ترتیب دیا اور بڑے میڈیا پلیٹ فارمز سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ پہلے ہی چینل کے جواب سے اس کے امیدوں کی دھجّیاں اڑنی شروع ہو گئیں۔ جتنے زیادہ پلیٹ فارمز سے وہ رابطہ کرتی جاتی ان کے جوابات اور مطالبات سن کر اس کا صدمہ بڑھتا جاتا۔ ان میں سے بعض نے ایسا کوئی “کامپلیکیٹیڈ” موضوع کو کور کرنے سے منا کر دیا۔ کچھ چھوٹے موٹے پلیٹ فارمز کور کرنے کو راضی ہو گئے لیکن وہ اس میں اپنے پسند کی کانٹ چھانٹ چاہتے تھے۔ اور کچھ کو لگتا تھا کہ یہ بلا وجہ اپنے دشمن بنانے کا راستہ ہے۔ بریعہ کو ایسے نتیجے کی امید ہرگز نہ تھی۔ یہ امریکہ تھا! ہیومن رائٹس کا سب سے بڑا مبلغ، جمہوریت کا نام جپنے والا ملک! بھلا یہاں کیسے ایسا ہو سکتا تھا۔ بریعہ ڈپریشن کا شکار ہونے لگی تھی۔ جو کچھ وہ فلسطین میں دیکھ اور سن آئی تھی اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ چینخ چینخ کر دنیا کو وہ ساری باتیں بتا دے۔ اُم ہانی سے ہوئی گفتگو اور اس کا یوں اس سے لگ کر رونا اسے رہ رہ کر یاد آتا تھا۔ اسے احساس ہوا کہ فلسطینی چاہے فلسطین میں ہوں یا امریکہ میں ان کی سننے والا کوئی نہ تھا۔ وہ ام ہانی کو بہت برے حال میں چھوڑ آئی تھی اور یہ خیال کہ غزہ میں سیکڑوں بچےام ہانی کی طرہ کے یا اس بھی بدتر حالات میں جی رہے تھے، بریعہ کا سارا سکون ختم کر دیتا تھا۔ اچھی خاصی ذہنی تگ و دو کے بعد بریعہ کو ایک راستہ نظر آ گیا۔ اس نے دوسرے نیوز چینلز اور ہیومن رائٹس تنظیموں کا پیچھا چھوڑ کر فلسطینیوں کا اپنا میڈیا پلیٹ فارم بنانے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے امریکہ میں ہی رہائش پذیر اپنے جیسے فلسطینیوں کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ جب وہاں ان کی ایک ٹیم بن چکی تو انہوں نے ایک پروفیسر کے توسط سے الازہر یونیورسٹی میں رابطہ کیا اور وہاں بھی پر جوش طلباء کا ایک گروپ بریعہ کے مقصد میں ساتھ دینے کو راضی ہو گیا۔ دو ٹیموں کی ضرورت اس لئے تھی کہ غیر ملک میں رہ رہے فلسطینیوں کو اپنے ملک واپس لوٹنے کی اجازت تو پہلے سے ہی نہیں تھی لیکن بریعہ کے مختلف تنظیموں سے ہوئے رابطے نے اب اس کا ٹورسٹ ویزا ملنا بھی ناممکن بنا دیا تھا۔ پچھلے دو مہینے سے وہ لوگ شمس فلسطین کے ورکنگ میتھڈ، کونٹینٹ اور دیگر ضروری چیزوں پر کام کر رہے تھے اور کل 25 فروری کو شمس فلسطین کا باقاعدہ آغاز ہونا تھا۔
27 مئی 2018
پچھلے تین مہینے میں بریعہ اور اس کی ٹیم دنیا کی اچھی خاصی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ غزہ کی ٹیم وہاں ہونے والی ہر چھوٹے بڑے واقعے کی رپورٹ، تصاویر اور ویڈیوز امریکہ کی ٹیم کو بھیجتی تھی جسے وہ ضروری ایڈٹنگ اور انگریزی ترجمہ کے ساتھ اپنے چینل پر براڈکاسٹ کیا کرتے تھے۔ شروعات میں اس کے چینل کی پہنچ بہت زیادہ نہ تھی۔ پھر صرف امریکہ نہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے میں فلسطینیوں نے اور فلسطین سے محبت رکھنے والے لوگوں نے بریعہ کے مشن کو اپنا مشن بنا لیا۔ سوشل میڈیا پر شمس فلسطین کے مواد کو پھیلانے کے لئے کئی پیج بن گئے تھے جو مختلف زبانوں میں ان مواد کو آگے پہنچانے کا کام کر رہے تھے۔ اُم ہانی بریعہ سے رابطے میں تھی اور یہ رابطہ اور شمس فلسطین کی کامیابی اس کے لئے بہت مثبت ثابت ہو رہے تھے۔ دھیرے دھیرے وہ پھر سے اس حادثے سے پہلے کہ ام ہانی بنتی جا رہی تھی۔
“آپ نے شمس فلسطین نام کیوں رکھا؟” ایک دن ویڈیو کال پرام ہانی نے بریعہ سے پوچھ لیا۔
“کیوں کہ شمس کا کام ہوتا ہے دنیا میں روشنی پھیلانا۔ رات کی تاریکی کو ختم کر کے سوئے ہوئے لوگوں کو جگانا۔ میرا مقصد بھی یہی ہے۔ پوری دنیا میں فلسطین کی روشنی پھیلانا۔ ہر ایک کو مغربی میڈیا کی سلائی نیند سے جگانا۔” ام ہانی کو یہ بات بہت اچھی لگی تھی۔ اس نے اپنی ڈائری کے کچھ صفحات اسکین کر کے بریعہ کو بھیج دیا۔ ان صفحات میں کچھ کہانیاں تھیں لیکن لکھی ہوئی نہیں تھی بلکہ کارٹونز کے ساتھ بیاں کی ہوئی تھیں۔ یہ ام ہانی کے اسکول کے بچوں کی کہانیاں تھیں جنہیں اس نے بریعہ سے متاثر ہو کر جمع کیا اور پھر بنایا تھا۔ کچھ صفحات میں چھوٹے موٹے نظم بھی تھے اور وہ بھی کسی بچے کی خواہشات، حسرتوں یا تکلیف کی ترجمانی کر رہے تھے۔ بریعہ کو اس کا یہ کام بہت پسند آیا تھا۔ اس نے ان سب کو بھی شمس فلسطین کا حصہ بنا لیا اور اس طرح ام ہانی بھی شمس فلسطین سے جڑ گئی۔
آج کال پر ام ہانی کو بریعہ کچھ ٹھیک نہیں لگی تھی۔ اس نے استفسار کیا تو بریعہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی “مجھے تھوڑی مایوسی ہو رہی ہے ہانی۔ پتا نہیں ہماری اتنی محنت کا کوئی نتیجہ نکلے گا یا نہیں۔” ام ہانی کو حیرت ہوئی۔” مایوسی کفر ہے بریعہ!” اس نے جیسے اسے یاد دلایا۔ بریعہ تھوڑی شرمندہ ہوئی پھر اس نے پوچھا: ” تمہیں اتنا یقین کیوں ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا؟ ”
“کیوں کہ ہمیشہ ہو جاتا ہے۔ حضرت ایوب ؑ کی بیماری ٹھیک ہو گئی تھی، حضرت یوسف ؑ کے ساتھ سب ٹھیک ہو گیا تھا، بنی اسرائل بھی آزاد ہو گئے تھے، مکہ بھی فتح ہوا تھا اور صلاح الدین ایوبی نے فلسطین کو بھی عیسائیوں کے قبضے سے چھڑا لیا تھا۔ اس بار بھی ہم آزاد ہو جائیں گے۔” ام ہانی نے مضبوط لہجے میں کہا۔
“وہ بڑے لوگ تھے ہانی! ہمارے پاس کوئی موسیٰؑ ہیں نہ صلاح الدین ایوبی۔”
ام ہانی ہلکا سا ہنس کر بولی: ” ان کی آزمائشیں صرف اس لئے نہیں ختم ہو ئی تھیں کہ وہ نبی اور بہت نیک لوگ تھے، بلکہ اللہ کے چاہنے سے ختم ہوئی تھی۔ ہمارے پاس بھی وہی اللہ ہے بریعہ! جس نے ان لوگوں کو مصیبت سے نکال لیا وہ ہمیں بھی نکال لےگا۔ ” بریعہ کو ایک دم سے اطمنان محسوس ہوا تھا، اس نے ہامی میں سر ہلایا۔ اسے دیکھ کرام ہانی کو کچھ یاد آیا تھا ۔ “آپ نے فرنٹیرز آف ڈریمز اینڈ فیئر دیکھی ہے؟ مجھے اس کی ایک نظم بہت پسند ہے۔” اس نے بریعہ سے پوچھا ۔
” اچھا! کون سی؟” بریعہ نے تجسس سے پوچھا۔
“فلسطین افدی ثراک بعمری (یا فلسطین میں اپنی عمر تم پر نثار کر دوں)
یھون لاجلک نبض الحیاۃ (میری نان تم پر قربان ہو)
ستشرک شمسک رغم المذابح (اس نسل کشی کے باوجود تمہارا سورج نکلے گا )
و رغم القیود و رغم الطغاہ (قید کے باوجود اور ظلم کے باوجود بھی)”
کال بند کر کے بریعہ نے اس پیغام کو دیکھا جو کسی نامعلوم آئی ڈی سے شمس فلسطین کو موصول ہوا تھا۔ یہ اسرائیل کے خلاف اپنی تحریک کو بند نہ کرنے پر برے انجام کی دھمکی تھی۔ پھر بریعہ نے اس آڈیو ریکارڈنگ کی جانب دیکھا جس میں اس نے ابھی ابھی ہانی کی باتیں ریکارڈ کی تھی۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے یہ دونوں چیزیں سوشل میڈیا پر نشر کر دی۔
“مایوسی کفر ہے بریعہ۔” محلے کی دکان پر بیٹھے صالح کے کانوں میں جب یہ الفاظ پڑے تو چائے کی پیالی منہ تک لے جاتا اس کا ہاتھ رک گیا۔ صالح ایک 16 سالہ فلسطینی لڑکا تھا جس نے ایک اسرائلی حملے میں اپنے گھر اور خاندان کے ساتھ اپنے خواب اور امید بھی کھو دیا تھا۔ اس کی زندگی کا نہ کوئی مقصد تھا نہ اسے جینے کی کوئی خواہش تھی۔ دن بھر دکان میں ہی مدد کرا دیا کرتا اور رات میں دکان کی پینٹری میں سو جاتا۔ لوگ اسے بہت سمجھاتے جس کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ لیکن آج ام ہانی کے الفاظ پر وہ ٹھٹھک کر رک گیا تھا۔
3 جون 2018
پچھلے ہفتےام ہانی کی آڈیو ریکارڈنگ اور اس دھمکی نے شمس فلسطین کے چینل کو ایک دم سے بہت مشہور بنا دیا تھا۔ مختلف سوشل میڈیا پر ‘ہیش ٹیگ اسرائلی ٹیررازم’ اور ‘ہیش ٹیگ فری پالیسٹائن’ ٹرینڈ کرنے لگا تھا۔ اس کے بعد ان کی ٹیم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ لوگ ام ہانی کا باقاعدہ انٹرویو نشر کریں گے۔ آج شام بریعہ کو یہ انٹرویو ریکارڈ کرنی تھی۔ وہ پر جوش سی ساری تفصیلات سوچتی ہوئی گھر لوٹ رہی تھی۔ اس کے گھر کے قریب کی گلی آج بالکل کھالی تھی۔ وہ اپنے سوچوں میں گم دھیرے دھیرے چلتے آگے بڑھ رہی تھی۔ اسکے پیچھے زور سے ٹائر کے گھسیٹنے کی آواز آئی تو اس نے بے ساختہ پیچھے مڑ کر دیکھا۔ گلی کے دہانے پر ایک کالے شیشوں والی وین آ کر رکی تھی اور اب اس کا شیشا نیچے کیا جا رہا تھا۔ بریعہ کچھ سمجھ پاتی اس سے پہلے ہی اسے کوئی چیز اپنی پیشانی کو چھید کر گزرتی ہوئی محسوس ہوئی اور پھر وہ کچھ سوچ نہ سکی۔
5 جون 2018
بریعہ کے قتل کی خبر فلسطین کے حمایتیوں پر قیامت بن کر ٹوٹی تھی۔ امریکی پولیس نے اسے ذاتی دشمنی میں ہوا حادثہ قرار دے کر فائل بند کر دیا تھا۔ لیکن دنیا بے وقوف نہیں تھی۔ ہر ایک کو پتا تھا کہ بریعہ کا قتل کیوں اور کس نے کروایا ہے۔ لوگ سوشل میڈیا پر اپنی بھڑاس نکال رہے تھے۔خاص طور پر غزہ پچھلے دو دنوں سے سوگ کے ماحول میں ڈوبا ہوا تھا۔ام ہانی کے غم کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔ لیکن اس بار اس نے اپنے حواس نہیں کھوئے تھے۔ اس شام شمس فلسطین چینل نے ام ہانی کی ایک آڈیو کلپ انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ براڈکاسٹ کی۔
دکان کی پینٹری میں بیٹھا صالح اپنے ہاتھوں پر باکسنگ کی پٹی لپیٹ رہا تھا۔ قریب ہی اس کے فون پر شمس فلسطین کا آڈیو کلپ چل رہا تھا: “مجھے یقین نہیں آتا دنیا اتنی ظالم ہو سکتی ہے۔ عرب ممالک کے لیڈرز اور دنیا کے ہر با اثر انسان سے میں کہنا چاہتی ہوں کہ تم اپنے ہاتھوں میں چوڑیاں پہن لو۔ہمیں اب تم سے کوئی امید باقی نہیں۔ لیکن یاد رکھنا تمہاری مدد کے بغیر بھی ہم آزاد ہو جائں گے۔ اسرائلی دہشتگردوں کو بھی میرا یہی پیغام ہے کہ یہ صرف تمہارا وہم ہے کہ تم نے ہمیں خوفزدہ کر دیا ہے۔ ” یہ وہ آواز تھی جو اسے مہینوں کے غم اور مایوسی سے باہر کھینچ لائی تھی بالکل ویسے ہی جیسے ڈیڑھ سال پہلے بریعہ کی آواز نے ہانی کے لئے کیا تھا۔ “یہ صرف تمہارا وہم ہے کہ بریعہ کی شہادت سے شمس فلسطین بھی غروب ہو جائے گا۔ یہ ہم میں سے ہر ایک فلسطینی کا مشن ہے۔ تم نے بریعہ کو مار دیا ، کل تم مجھے بھی مار دوگے تب بھی ہمیں نہیں روک سکوگے۔ ہم تب تک لڑتے رہیں گے جب تک فلسطین کا سورج نہیں نکل آتا۔” ام ہانی کی درد بھری آواز پینٹری میں گونج رہی تھی اور کسی کے دل میں ایک نیا عزم جنم لے رہا تھا۔
ختم شد۔

Comments From Facebook

6 Comments

  1. عبیر

    Bravo????????
    Palestine will be free In sha Allah

    Reply
    • بشریٰ سلمان

      انشاء اللہ

      Reply
  2. شفق اقبال

    شمس فلسطین کبھی غروب نہیں ہو گا فلسطین ضرور آزاد ہوگا ان شاء اللہ

    Reply
  3. شفق

    بہت عمدہ لکھا ہوا ہے بشریٰ دے خدا تمہارے قلن میں اور زور ????????

    Reply
  4. نسرین

    ماشاءاللہ

    Reply
    • Samida

      MashaAllah ????????

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے