ناول : پیر کامل (عمیرہ احمد)

کچھ روز پہلے میں ایک پوسٹ پڑھیں ہادیہ میگزین کے حوالے سے اپنے پسندیدہ ناول پر تبصرہ اور تب سے یہ بات میرے ذہن میں رہ گئ۔ اور میں نے سوچی ضرور میں اس پر ضرور لکھنا چا ہوگی۔
کچھ ایک دو سال پہلے میں نے ایک کتاب پڑھی تھی، جس کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں تھا مصنفہ کے متعلق ،عنوان کے متعلق میں بلکل بے خبر تھی۔ یہ میری پہلی ناول تھی جسے میں نے مکمل پڑھا ۔ وہ ناول تھی “پیر کامل”۔
پیر کامل کے متعلق میں نے اپنے دوستوں ،رشتہ داروں سے کبھی نہیں سنا ۔یہ کتاب بس اتفاقاً میرے ہاتھ میں آگئ ۔ اور یہ ایک حسین اتفاق تھا ۔ اس کتاب سے میرے کچھ خاص ہی جذبات جڑے ہوئے ہیں۔اور مجھے اس کا موقع ملا کہ ان احساسات کو لفظوں میں اتاروں۔ میں لفظوں اور کاغذ کی رشتوں کی ماہر نہیں ہوں ۔ مگر کوشش کرنا چاہتی ہوں۔
جب یہ کتاب میں نے پڑھی تو میرے ذہن میں کئ بار آیا کہ پڑھوں یہ نہ پڑھوں ، اور جب میں نے یہ کتاب پڑھنے کی سوچی، مجھے اس کے عنوان نے خاصا متاثر کیا ۔ “پیر کامل” یہ پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ مجھے اسے پڑھنا چاہیے ۔ اور جب آگے میں نے اس ناول کا پیش لفظ پڑھا۔اور اسے پڑھ کر میں نے اس کتاب کو بند کر دیا میں کچھ دیر اس پیش لفظ کو پڑھ کر سوچنے لگی کہ وہ الفاظ کتنے گہرے ہیں ۔ اور وہ واقعی میرے دل کو پوری طرح چھو چکے تھے۔
ان لفظوں میں کھو کر میں اپنی زندگی کو سوچنے لگی تھی۔اس وقت میری ذندگی کچھ الگ ہی موڑ پر تھی پھر وہ لائن جس نے مجھے خاصا متاثر کیا ۔ پہلی لائن جب مصنفہ لکھتی ہیں پیر کامل میں نے آپ کے لیے لکھا ہے۔آپ سب کی ذندگی میں آنے والے اس موڑ کے لیے جب روشنی یا تاریکی کے انتخاب کا فیصلہ ہم پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
اور پھر پھر ہدایت انھی کو ملتی ہے جو ہدایت چاہتے ہیں۔
پیر کامل کا یہ سفر کچھ خاص معنی رکھتا ہے میرے لیے ۔
یہ ایک کہانی ہے جو شروع ہوتی ہے حق سے ، ایمان کی روشنی سے ۔ اس ایمان کی روشنی سے جس میں دنیا کو قربان کرنے کا کوئ مداوا نہیں ۔بس اللہ اور اس کے رسول کی محبت سے بڑی کوئ چیز نہیں ۔یہ ایک محبت ہے اس پیر کامل سے جس کی ذات میں کوئ کمی نہیں۔
اس کہانی کے مرکزی کردار ہیں امامہ ھاشم اور سالار سکندر ۔ان دونوں کو ہی ہدایت سے نوازا گیا ۔ اور یہ ہدایت چاہتے تھے۔
اس کہانی کے شروع میں امامہ اور سالار دونوں ہی دین سے ناواقف اپنی ذندگی جی رہے تھے امامہ اپنی پڑھائی کے متعلق کافی سنجیدہ ایک ڈاکٹر بننا چاہتی تھی ۔ امامہ کا خاندان مالی حیثیت سے کافی اچھا تھا ۔امامہ کے خاندان کی سماج میں کافی عزت تھی۔
ایک دفعہ امامہ اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگا رہی تھی ، اور انھی باتوں سے امامہ کی ذندگی کا وہ موڑ تھا جب امامہ کو روشنی یا تاریکی کا انتخاب کرنا تھا ۔امامہ کے پاس دین اور رسول سچا عقیدہ نہیں تھا ۔جب سے ہی امامہ کی ہدایت کا سفر شروع ہوا۔جس کے لیے امامہ نے اپنا گھر، اپنی تعلیم اپنے ماں باپ کو چھوڑا۔اور ایک ایسے شخص سے نکاح کر لیا جس سے وہ سخت نفرت کرتی تھی۔جس کا وجود اس کے لئے ناقابل برداشت تھا۔
وہ جس نے چار دفعہ خودکشی کی کوشش کی تھی۔وہ جس کا آئیکیولیول ۱۵۰ تھا ۔وہ جو فوٹو گرافیک میموری رکھتا تھا۔وہ شخص جو سگریٹ کا دھواں اڑانےوالا، بئیرکے گونٹ لینے والا،نائٹ کلب کا عادی، گرل فرینڈرکھنےوالا۔ وہ تھا ‘سالار سکندر’۔
اس کتاب کو جب میں دیکھتی تھی مجھے لگا اچھی خاصی بڑی کتاب ہیں۔۔۔ یہ کب ختم ہونگی۔لیکن جب اس کو پڑھنے کی شروعات ہوئی تو پھر کیا دن کیا رات۔راتوں کو چین نہیں تھا۔ان دنوں میری پوری سوچ،خیالوں کا مرکز فقط پیرِکامل تھی۔
امامہ کو ہدایت مل چکی تھی۔امامہ کالج میں تھی جب امامہ کے کانوں نے ایک شخص کے نعت پڑھنے کی آواز سنی ، امامہ کو اس آواز میں سکوں ملنے لگا۔اس آواز سے امامہ کو محبت ہوگئ۔وہ شخص آپ ﷺ کی محبت میں جو نعت پڑھ رہا تھا امامہ کو اس آواز سے، اس شخص سے محبت ہوگئ۔وہ جلال انصر تھا۔امامہ جلال سے نکاح کرنا چاہتی تھی ۔لیکن امامہ کی قسمت میں کچھ اور تھا ۔اس کا نکاح سالار سے ہوگیا ۔امامہ کو گھر چھوڑتے وقت سالار سے نکاح کرنا پڑا ۔جلال نے نکاح نے نکاح کرنے سے منع کردیا امامہ کو گھر چھوڑنا تھا اُسے جو ہدایت ملی تھی جو روشنی ملی تھی بس اس کو تھام کے رکھنا تھا ۔سالار ہی ایک آخری راستہ تھا ۔سالار کو اِس نکاح سے کوئی مطلب نہیں تھا وہ بس اُسکے کی ایک ایڈوینچر تھا ۔چونکہ سالار امامہ کا پڑوسی تھا اور امامہ اُسے جانتی تھی بس اسے گھر سے بھاگنے کے لیے کوئی راستہ چاہیے تھا ۔امامہ نے سالار سے نکاح کے بعد سب کچھ چھوڑ کر لاہور کی گلیوں میں اپنی ذات کو گمنام کردیا۔
امامہ نے سالار سے رابطہ کیا تھا وہ اس سے طلاق چاہتی تھی لیکن سالار جس کے لیے یہ سب جو ایک کھیل تھا وہ اس کھیل کو جاری رکھنا چاہتا تھا جب دن گزرتے گئے سالار کے گھر میں پتہ چلا کہ امامہ کو بھگانے میں سالار کا ہاتھ ہیں اور سالار اس سے نکاح کر چکا ہیں سالار کے والد اپنے بیٹے کی بچانے کی کوشش کرنے لگے ۔ پھر ایک بار جب امامہ نے سالار سے پھر رابطہ کیا اُس وقت فون پر سالار نہیں سالار کے والد نے امامہ سے بات کی اور اسے بتایا کے سالار مر چکا ہیں امامہ کو اس بات کا کچھ خاصا دُکھ نہیں تھا وہ جانتی تھی کے یہ سالار کی خودکشی کی ایک کوشش ہیں جو اب کامیاب ہوگئی۔۔۔
امامہ اور سالار کے راستے اب الگ ہوچکے تھے پر منزل ایک ہیں تھی
سالار کی زندگی میں اب ہدایت کا مل جانا لکھا تھا ایک دفعہ سالار لونگ ڈرائیو پر نکلا وہ کافی دور آچکا تھا ۔وہ اس رات اس کو ڈاکوؤں نے قید کرلیا سنسان جنگل میں گاڑی ،فون سب کچھ لیے لیا اور سالار کو تنہا جنگل میں باندھ دیا ۔۔
وُہ رو رو کر اب خدا کو پکارنے نے لگا ۔اس وقت پہلی بار اس پر یہ ہولناک انکشاف ہوا کیا کہ اس نے زندگی میں اب تک کوئی نیکی نہیں کی تھی جسے وُہ اس وقت اللّٰہ کے سامنے پیش کرکے اس کے بدلے رہائی مانگتا اس وقت اُسے آئی امامہ کی یاد جس کی اس نے مدد کی تھی وہ کہنے لگا میرے خدا ۔اگر ایک بار میں یہاں سے بچ نکلوں تو تو میں امامہ کو ڈھونڈھوں گا اسے طلاق دوگا ۔سالار اس رات بچ گیا لیکن اس کے یہ سمجھ آگئی تھی ۔زندگی میں ہم کبھی نہیں کبھی اُس مقام پر آجاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہوجاتے ہیں وہ صرف ہم ہوتے ہیں اور اللّٰہ ہوتا ہیں صرف اللّٰہ ہی ہمیں تھامے رکھتا ہیں ۔ہماری دعائیں وہ کبھی بھی کسی بھی طرح قبول کرلیتا ہیں ۔ ہمیں ہدایت دیتا ہیں ۔سالار کو بھی ھدایت کا چراغ مل چکا تھا ۔اب اُسے ساری چیزیں بے اثر لگتی تھیں۔ سالار کا بدلتا ہوا کردار ۔سالار کی زندگی کے معمولات بگڑ رہے تھے اُن ہی دنوں اُسے مذہب میں دلچسبی ہونے لگی وہ حافظ قرآن بن گیا ۔وہ ایک ایسا شخص بن گیا جو سچے دل سے توبہ کرتا اسکی زندگی بدل گئی ۔سالار کے دل میں ابھی ایک کیفیت تھی جسے وہ پہلے سمجھ نہ سکا وہ تھی امامہ کی محبت کو اس کے دل میں ڈالی گئی تھی وہ امامہ سے محبت کرنے لگا جیسے اُس کا سکون صرف امامہ کی ذات سے ہو اُسے نو سال امامہ کا انتظار کیا ۔۔ وہ کعبے کے صحن میں کھڑا ہوکر اللّٰہ سے امامہ کی محبت مانگتا رہا امامہ کو مانگتا رہا ۔ وہ بس سچے دل سے توبہ کرنے والا شخص تھا ۔جس کی محبت سچّی تھی پاک تھی ۔اُسے اپنی محبت کو پانے کے لیے اللّہ سے خوب دعائیں مانگی ۔
سچ کہتے ہیں سچّی محبت انسان کو بدل دیتی ہیں یہ بھی اللّٰہ کی طرف سے ایک نعمت ہیں ۔وہ سچے دل سے مانگی ہوئی ہوئی محبت وُہ محبت جس نے اللّٰہ سے قریب کردیا۔ ایک جزبہ جس کے حصول کے لیے انسان ہزار جتن کرے ۔۔
سالار نے اپنی محبت کے لیے حرم پاک میں بہت دعائیں مانگی ۔۔۔!!
سالار کے ایک قریبی جس سے سالار کو نکاح کرنے کرنے کے لیے کہاں سالار کی زندگی جس وقت بدل رہی تھی اُس وقت سالار کو ایک شخص ملے جنہوں میں سالار کی مدد کی تھی وہ سالار کی ساری زندگی سے واقف تھے۔ انہوں نے سالار کو نکاح کرنے کے لیے کہاں
سالار کے دل میں تو صرف امامہ تھی ۔لیکن اُسکا رِشتہ آمنہ نے جڑنے جارہا تھا ۔سالار کو لگ رہا تھا کہ اُس کی دعائیں قبول نہیں ہوئی اُس نے ہے طریقے سے دعائیں مانگی صرف امامہ کو مانگا لیکن اسے آمنہ مل رہی تھی ،امامہ نہیں ۔۔آمنہ سے سالار کا نکاح ہوگیا ۔سچّی محبت سالار نے صرف امامہ سے کی تھی سچے دل سے دعا مانگی تھی ہمیں نہیں پتا ہوتا کے اللّٰہ جب ہماری دعاؤں کیسے ،كس طرح قبول کرتا تھی ۔اور دعائیں ہمارے سامنے معجزے کی طرح قبول ہوکر آتی ہیں ہمارے گمان سے بڑھ کر اللّٰہ ان دعاؤں کو قبول کرتا ہیں
وہ ایک معجزہ ہے تھا آمنہ دراصل امامہ ہاشم ہی تھی سالار کی دعا قبول ہوگئی اس طرح قبول ہوئی جیسے کوئی ایک خوبصورت معجزہ۔۔
امامہ اور سالار دونوں ہی ہدایت یافتہ اور ایک دوسرے کی محبت تھے
امامہ سالار سے کہتی ہیں” جس محبت میں صدق نہ ہو وہ محبت نہیں ملتی ” اس لائن کو پڑھ کر میں بہت عرصے سوچتی رہی کہ آخر اس کا مطلب کیا ہوسکتا ہیں آخر یہ بات کیا تھی ؟؟ مجھے تھے لائن بہت معنی خیز لگی اسکا مطلب مجھے حقیقی زندگی میں معلوم ہوئے ۔ یہ لائن واقعی گہری ہیں ۔۔
انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی وہ لمحے ضرور آتے ہیں جو اسکی زندگی کو تبدیل کردیتے ہیں زندگی کے مقصد کو سمجھاتے ہیں بے لگام زندگی کو تھامنا سکھاتے ہیں ایسے جذبات سے آگاہ کراتے ہیں جن سے ہم انجان ہوتے ہوتے ہیں ۔۔محبت ایک ایسا ہی جزبہ ہیں جس نے قربانیاں تو مانگی لیکن رسوا نہیں کیا ۔ محبت نے آزمائش میں تو ڈالا لیکن نعمتوں سے بھی نوازا ۔دعا کرنا سکھائی ۔دعا کے قبول ہونے پر یقین کرنا سکھایا ۔۔
میـں نے جب اس ناول کو پڑھا مـیں مصنفہ کے متعلق کچھ نہیں جانتی تھی -مکمل ناول ختم ہو نے تک میں مصنفہ کے متعلق انجان تھی -لیکن ناول ختم ہو تے ہی میرا رحجان میرا تجسس تھا کہ میں مصنفہ کے بارے میں معلومات حاصل کروں, جنوں نے ایک ایسی کہانی لکھی جو قابل تعریف ہیں
اس ناول کی مصنفہ “عمیرہ احمد ” پاکستان سے تعلق رکھتی آپ کی پیدائش، پاکستان کے شہر سیالکوٹ، میں ۱۰ ,دسمبر کو ۱۹۷۶ کو ہوئ – انھوں نے اپنی تحریری کریر کا آغاز ۱۹۹۸ میں بہت چھوٹی عمر میں کیا – مصنفہ نے تقریبًا 16 کتابیں لکھی ہے جن میں مکمل ناول اور مختصر کہانیوں کی تالیفات شامل ہیں -تاہم ان کی ناول “پیر کامل” بہت مقبول ہے’
میں آج بھی جب اس کتاب کو پڑ ھنا چاہو تو وہی محسوس ہوتا جو پہلے بار پڑھنے پر ہوا-اس کتاب سے یہ احساس کا رشتہ ہے -بالکل بہت سی اچھی کتابیں ہے لیکن اس کتاب کے لیے میرے الگ ہی مقام ہیں؛

Comments From Facebook

2 Comments

  1. Maaz

    عمدہ

    Reply
  2. مصیرہ خان

    تبصرہ پڑھ کر ناول کا ہر حصہ تصویر بن کر آنکھوں کے سامنے آگیا ۔????

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے