وی اسٹینڈ ود فلسطین

عنوان : وی اسٹینڈ ود فلسطین
_________________________
ہر طرف شور ہی شور تھا، دل کو لرزاں دینے والی دلخراش چیخیں تھیں، ہر انسان جو اس تباہی کے آگے فولادی دیوار کی مانند جان بچانے میں کامیاب ہوا تھا خون کے آنسوں رو رہا تھا، چہرہ واضح طور پر ظلم کی داستان سنا رہا تھا، ہر بچ جانے والا اپنے زندہ رہنے پر ماتم کناں تھا کیونکہ ایسی زندگی کے کیا معنی جس میں ہم عزیزوں کی موت کے چشم دید گواہ ہو! ایسی زندگی کس کام کی جہاں خونی رشتوں سے ظالم نے ہمیں محروم کردیا! ایسی زندگی کیا کسی قیامت سے کم ہے کہ جہاں ایک بے بس ماں اپنے لخت جگر کو کفن میں اٹھائے بھاگی بھاگی پھر رہی ہے۔۔۔وہ معصوم جانیں جنہوں نے نہ کوئی گناہ کیا نہ کوئی خطا کی ان کی روحیں والدین کی آنکھوں کے سامنے قفس عنصری سے پرواز کر گئیں۔۔۔۔مگر ایسے میں بھی وہ خدا کے پیارے مایوس نہیں تھے، وہ غمزدہ ضرور تھے، وہ ٹوٹے ہوئے اور بکھرے ہوئے ضرور تھے مگر رضائے الہیٰ میں راضی تھے۔

ایسے جنگی ماحول میں وہ اپنے بیٹے کو ہاتھ میں اٹھائے طبی امداد کی تلاش میں دوڑ رہا تھا۔۔۔وہ رو رہا تھا مگر خوش تھا کہ اس کے نور چشم کی سانسیں چل رہی تھیں۔ تبھی وہ ایک ایمبولنس کے قریب رکا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایمبولنس کی خستہ حالی کا یہ حال ہے کہ اس کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں، ہر طرف خون کے چھینٹے ہیں، دوائیاں اور طبی چیزیں ندارد‌۔۔ایسے میں ایک چیخ اس کے منہ سے نکلی کہ یارب! میرے بیٹے کو میری عمر دے دے۔ اس کا یہ سوچنا تھا کہ گود میں موجود ننھے سے محمد کی دھیمی سی سرگوشی نے اس کی سماعت کو متوجہ کیا۔
محمد چار سالہ نہایت معصوم اور اس کا پیارا بیٹا جس کی آنکھوں میں اسے زندگی نظر آتی تھی، جس کی مسکراہٹ پر وہ دنیا نچھاور کرسکتا تھا، جس کی معصومانہ ادائیں اور جسکی پیاری باتیں اس کے لیے سکون کا باعث تھی۔ وہی محمد نہایت تکلیف سے کہہ رہا تھا،” بابا! مجھے بسکٹ چاہیے۔” یہ سننا تھا کہ اسے لگا شاید اسے زندگی نے پھر سے موقع دیا ہے۔ اس کا بیٹا، اس کا محمد اس سے وہی معصومانہ انداز میں کہہ رہا تھا کہ اسے بسکٹ چاہیے۔ اسکی خوشی کی انتہا نہ تھی کہ اس کا لخت جگر محمد بول رہا ہے اس نے لمحے کی دیری کیے بغیر محمد کو گود سے اتار کر زمین پر لٹایا جہاں ایک بوسیدہ سا کپڑا بچھا ہوا تھا جس پر ہر طرف خون ہی خون تھا جس کے ارد گرد کفن میں لپٹے شہدا کے جسد خاکی رکھے تھے۔ اس نے محمد کو بوسہ دیا اور کہا،”اے میرے بیٹے، میری جان میں ابھی لے آتا ہوں۔ تم ہمت نہ ہارنا۔ تم نے ابھی زندگی کی خوبصورت بہاریں بھی دیکھنی ہے۔ میرے محمد میں ابھی تمہارے لیے بسکٹ لے آتا ہوں۔۔!” یہ سوچے بغیر وہ اپنے بیٹے کو تسلی دے رہا تھا کہ ایسے قیامت خیز ماحول میں وہ بسکٹ کہاں سے لائے گا۔ وہ اٹھا اور دیوانہ وار دوڑنے لگا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ وہ بھاگتے ہوئے اپنے تباہ و برباد آشیانے کے ملبے پر پہنچا جہاں سے اب بھی بارود کا دھواں اٹھ رہا تھا۔ جہاں اسی کی طرح باقی لوگ بھی اپنے عزیز و اقارب کی تلاش میں خاموش آنسوں بہا رہے تھے کبھی کبھی چیخیں بھی فضا میں بلند ہوتی کہ کوئی خدائی نصرت آجائے۔ بے بسی کی انتہا پر وہ لوگ آسمان کی جانب دونوں ہاتھ اٹھا کر پوری قوت کے ساتھ کہتے یاااارب!!! یاااا رب۔۔۔۔
ایسے میں وہ اس تباہ کن دکان کے قریب پہنچا جہاں سے سارے لوگ کرانہ لیا کرتے تھے۔ دکان جل کر راکھ ہوچکی تھی۔ اس نے آگے قدم بڑھائے۔ وہ چیزیں تلاشنے لگا جو کہ اب لائق استعمال نہیں رہی تھی۔ کوئی چیز کھانے لائق نہیں تھی مگر اس کی نظر کونے میں پڑے اس بسکٹ پر گئی جس کی خواہش اس کے بیٹے نے کی تھی۔ مگر بسکٹ کا ریپر ہلکا سا جل چکا تھا۔ اس نے بسکٹ کو ایک جھٹکے سے اٹھایا اور صاف کیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری تھے مگر اب کی بار یہ آنسوں شدت شکر سے ابل پڑے تھے کہ ایسے حالات میں بھی اللہ نے اسے اپنے بیٹے کی خواہش کو پورا کرنے کا موقع دیا ہے۔ وہ برق رفتاری کے ساتھ دوڑا۔ وہ خوش تھا کہ اب محمد اپنی تکلیف بھول جائے گا۔ وہ دوڑتا ہوا واپس اسی جگہ آیا جہاں اس نے محمد کو لٹایا تھا۔ یکدم اس کے قدم تھم سے گئے۔ اس کی آنکھیں، اس کا دل، اور وقت ایک لمحے کے لیے سب رک گیا۔ محمد کا رنگ سفید ہوچکا تھا۔ اس نے بے یقینی سے اسے پکارا “محم۔۔۔محمممد۔۔۔محممممممدددد!!!!”
اس نے محمد کو گھسیٹ کر گلے لگایا اور دیوانہ وار بوسہ دینے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ محمد کا جسم سرد ہوچکا تھا۔ اس کے ہونٹ نیلے پڑچکے تھے۔ اس نے پوری قوت کے ساتھ اپنے ننھے سے محمد کو جھنجھوڑا۔ اس کے قلب و ذہن پر بے یقینی کی کڑی ضرب لگی تھی۔ اس کا وہی بیٹا جس نے کچھ وقت پہلے بسکٹ کی فرمائش کی تھی اب وہ نہیں رہا تھا۔ اس نے کمال صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے جگر کے ٹکڑے کو زمین پر لٹایا اور خاموش آنسوؤں کے ساتھ وہ بسکٹ جو وہ اس ملبے سے اٹھا لایا تھا اس کے ہاتھ میں تھمایا اور کہا کہ،” جاؤ میری جان۔۔۔اسے بھی اب اپنے ساتھ جنت میں لے جاؤ۔۔۔” وہ اسے گود میں اٹھائے ہوئے کھڑا ہوا ماحول کی آوازوں سے بے پرواہ وہ اپنے ننھے شہید کو سپرد خاک کرنے کے لیے جارہا تھا۔ تبھی اس نے فولادی استقامت اور لاجواب صبر کے ساتھ آواز بلند کی،
“حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔۔‌
حسبنا اللہ و نعم الوکیییییل۔۔۔”

اس نے اپنے اندر کچھ ہمت محسوس کی اور اطمنان ہوا کہ اس کا محمد اب خدا کی جنتوں کی سیر کررہا ہوگا اب اسے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ اب اسے جتنے چاہے اتنے بسکٹ ملیں گے۔

اس تباہی کا نظارہ وہ گھر بیٹھے اپنے موبائل میں کررہا تھا کہ کس طرح ایک بے بس باپ اپنے بیٹے محمد کو سپرد خاک کر آیا۔ اس نے اپنے دوسرے ہاتھ میں موجود کوکاکولا کا ایک سپ لیا اور اس ویڈیو کو اپنے اسٹیٹس پر لگایا اور لکھا کہ،
“وی اسٹینڈ ود فلسطین!!!”

Comments From Facebook

22 Comments

  1. اریشہ تقدیس

    ماشاءاللہ۔۔۔انشإٕ بہت اعلیٰ۔۔اللہ تعالی فلسطينيوں کی مدد فرماۓ۔۔اور ہمارا نام مکمل طور پر انکا ساتھ دینے والوں میں شامل فرماۓ۔۔

    Reply
  2. Aliya kausar

    Allahumma Barik
    Ma shaa Allah…..Bahut hi .umda Afsana Insha
    Allah SST Palestine ke musalmano ki madad farmaye.

    Reply
  3. Aliya kausar

    Allahumma Barik
    Ma shaa Allah….. Bahut hi umda Afsana Insha
    Allah SWT Palestine ke musalmano ki madad farmaye

    Reply
    • Huda khan

      Mashaallah insha bohot zyada acha hai such mein rula diya????

      Reply
  4. شاز مين شیخ

    ماشا ء الله انشاء
    الله تعالٰیٰ تمہیں مزید صلاحیتوں سے نوازیں
    بہت ہی عمده طریقے سے تم نے افسانے میں فلسطین کی عوام کے دردناک حالات کی منظر کشی کی ہے
    الله تعالٰی فلسطنیوں کی مدد فرمائیں
    آمین

    Reply
    • Ramza Khan

      hasbunallahu wa ni’mal wakeel????

      Reply
      • Shafaq khan

        Mashallah allahummabarik bhut pyara likha hai ..allah ne khubsurat salaahiyat di allah usme or barkat de.. aameen ❤️

        Reply
    • Nain

      Mashallah Allah unse sabr jameel ata kre aur unki madad farmaye aameen

      Reply
      • ادیبہ مسکان

        ماشاءاللہ
        بارک اللہ فیکم
        بہت بہترین لکھا ہے بہن۔۔ اللہ قلم کی جولانیاں برقرار رکھے۔

        Reply
  5. Huda khan

    Mashaallah Insha bohot acha hai such mein rula diya????

    Reply
    • Mrs SAIMA PARVEZ AHMED

      Assalamualaikum
      Pyari insha!! HAR BAR KI TARHA tumhari ye tahreer
      padh kar be had khushi hui be had qabil e tarif tahreer
      mavad e mazmoon nihayat hi Dil ko chu Jane wala PARWARDIGAR AAPKO DONO JAHA ME KAMYABI SE NAWAZE AAMEEN SUMMA AMEEN

      Reply
    • مدیحہ عنبر

      آہ۔ منظر نگاری اور جذبات نگاری????
      بہت خوب لکھا انشا
      ضمیر کو جنجھوڑتی۔ تحریر

      Reply
  6. Iqra Khan

    Mashallah bhot khub Insha ✨

    Reply
  7. Imtiyaz mukarram

    mashaAllah darhakikat ye afsana nahi balke gaza ki hakikat hai Allah ahle plastine ko fate o Nusrat ata farmaye ameen Allah beti insha ki slahiyato me barkat de aamin bhot khob likha hai

    Reply
  8. Ramza Khan

    hasbunallahu wa ni’mal wakeel

    Reply
  9. Sadaf

    Mashallah bht pyara likha h aap ne insha

    Reply
  10. Namira

    Mashallah bohot he pyaara likha h apne ????

    Reply
    • Mrs SAIMA PARVEZ AHMED

      Jitni baar padhu utni bar Dil aapki tahreer ki tareef karta h Ma Sha Allah
      Waiting for your winning trophy pic

      Reply
  11. تسکین شیخ

    ما شاء اللہ
    بہت ہی عمدہ افسانہ
    اللھم بارک ✨

    Reply
  12. عائشہ

    کیا خوب ماشاءاللہ ۔۔۔اللہ آپکی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔ لاجواب افسانہ بہن!!
    اللہ ہمارے فلسطینیوں پر اپنی نصرت کے دروازے کھول دے اور ظالموں کو نیست و نابود کرے۔۔۔آمین!!

    Reply
    • حفصہ تزئین فاطمہ

      ماشاءاللہ ، بہت خوب لکھا انشا
      اللہ تعالیٰ صلاحیتوں میں مزید اضافی کرے آمین

      Reply
  13. عمارہ فردوس ، جالنہ

    آنکھیں نم ہوگئیں ۔۔۔بہت خوب لکھا ہے انشاء ۔۔سارا روح فرسا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا ۔خدا فلسطینیوں کی نصرت فرمائے آمین ????

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے