ہونے کو ہے خواب شرمندہ تعبیر

عنوان ۔۔۔۔۔۔ہہونے کو ہے اب خواب شرمندہ تعبیر۔۔۔۔
ڈاکٹر مارلن جیسے ہیcasualty میں داخل ہوئی چاروں طرف بھگدڑ نظر آئی ۔کوئی ایمرجنسی آگئی شاید وہ دل میں سوچتے ہوئے ڈاکٹرس روم کی طرف بڑھی ۔تاکہ ایپرن اور gloves پہن کر ریڈی ہو سکے۔ تبھی نرس نے بتایا heavy casualty ہے میڈم آج۔۔۔۔RTA ہے۔۔۔ایک شادی کا ٹرک پلٹ گیا ہے 100 سے زیادہ لوگ تھے اس میں ۔
ایمبولنس ان کو لے کر آتے ہی ہونگے۔
اوہ۔۔۔مارلن پریشان ہو گئی اور تیزی سے خود کو تیار کرنے لگی ۔ وہ انٹرن شپ کی طالبہ تھی۔. اسکے ساتھی ڈاکٹر س بھی ریڈی ہو کر وارڈ میں پہنچ چکے تھے۔۔۔ چند منٹ بعد ہی ایمبولنس کے سائرن نے فضا کو مرتعش کر دیا۔ ۔۔اور کچھ ہی دیر میں بچوں کے رونے چیخنے کی آوازیں ۔ مریضوں کی کراہیں ۔ اور عورتوں کے ہائے واویلا ان سب سے ماحول ماتم کدہ بن گیا۔
وہ بھی تیزی سے کام میں جٹ گئی۔ کبھی زخم صاف کرتی تو کسی کو ٹانکے لگانے میں مدد کرتی تو کہیں وارڈ بوائے کو انجکشن اور میڈیسن کے لیے دوڑاتی غرض جو کام ہاتھ کو لگتا وہ کر رہی تھی کیونکہ یہ لوگوں کی زندگی کا سوال تھا
آخر شام تک جب سب کنٹرول میں آگیا اس نے اپنے بعد آنے والے ڈاکٹرز کو تمام احوال دیا اور اپنے ہاسٹل کی طرف بڑھ گئی ۔
سارے راستے بس یہی سوال ذہین میں ابھر رہا تھا کہ 100کے قریب کی تعداد کے لوگ زخمی ہونے سے یہ عالم ہو رہا ہے تو فلسطین کے ہزاروں کی تعداد میں مارے جانے والے لوگوں اور معصوم بچوں کا کیا حال ہہوا ہہوگا ۔
وہ بوجھل قدموں سے روم میں داخل ہوئی اس کے روم میٹ عرشیہ اور کومل اسی کے منتظر تھے
عالی گ بائی ۔۔۔کتنی دیر لگا دی رے تو نے کومل اپنے مخصوص مراٹھی لہجے میں اس سے پوچھنے لگی
جبکہ عرشیہ بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی کیا ہوا مارلن کچھ ٹف تھا کیا ؟۔
ہاں یار اس نے دونوں کو ایک ساتھ جواب دیا اور ساتھ ہی اوور کورٹ اور باقی چیزیں ترتیب سے رکھتے ہوئے کہا پہلے فریش ہہولوں پھر ا کر بتاتی ہوں ۔
وہ دونوں اثبات میں سر ہلا کر چپ ہو گئے اور مارلین فریش ہونے چلی گئی ۔
عرشیہ مارلین اور کومل تینوں میڈیکل کے فرسٹ ایئر سے روم میٹ تھے اور ان کی دوستی آپس میں اتنی گہری ہو گئی کہ انہیں کبھی روم پارٹنر تبدیل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی ۔
عرشیہ دین اسلام کی بیٹی تھی تو مارلین کرسچن اور کومل ہندو کے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی تھی ۔
مارلن کو مراٹھی زبان میں مشکل ہوتی تھی وہ انگلش اور ہندی اچھی طرح سے بول سکتی تھی اس لیے عرشیہ سے گہری دوستی ہو گئی جب کہ کومل ہندوؤں کے اس طبقے سے تعلق رکھتی تھی جس میں اسے کوئی احترام کی نظر سے نہ دیکھتا تھا۔ لیکن عرشیہ کی نظروں میں اس قسم کا بھید بھاؤ نظر نہیں آتا تھا اس لیے وہ عرشیہ سے زیادہ قریب ہو گئی ۔
مہاراشٹر کے ایک شہر کے میڈیکل کالج میں تینوں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور مہاراشٹر سے ہی ان کا تعلق بھی تھا
مارلین فریش ہو کر آئی لیکن پھر بھی وہ پژمردہ ہی لگ رہی تھی کیا ہوا ڈیئر عرشیہ اسے تھام کر قریب بٹھاتے ہوئے پوچھنے لگی ۔
یار۔۔۔ تو ہر وقت فلسطین کا بتاتی ہے نا مجھے بہت برا لگتا تھا لیکن جو آج دیکھا ہے اس سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ فلسطین کے لوگوں پر کیا قیامت آئی ہوئی ہے۔
کیا ہوا رے ساری بات بتا ناں؟ کومل بے تابی سے پوچھنے لگی۔
تب مارلن نے ہاسپٹل میں آنے والیcasualty کی ساری بات بتاتے ہوئے کہا یار وہ چھوٹے بچے تیار ہو کر شادی کے لیے گھروں سے نکلے تھے کتنے ایکسائٹڈ ہوں گے نا وہ لیکن ٹرک کے پلٹ جانے سے بری طرح زخمی ہوئے اور وہ جس طرح چیخ رہے تھے اف فف۔ ۔۔۔۔۔۔۔
مارلن نے بہت زور سے اپنی آنکھیں میںچ لی جیسے وہ اس منظر کو خیالوں میں بھی نہیں دیکھنا چاہ رہی ہو ۔
عرشیہ گہری سانس لے کر رہ گئی اس کے آنسو بھی رواں ہوئے جیسے کسی نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہو ۔
یہی تو فلسطین میں ہو رہا ہے یہ تو حادثہ تھا مگر وہاں تو پلان کر کے قتل عام کر رہے ہیں اپنی زمین مانگنا اپنی آزادی مانگنا اور اپنا حق مانگنا کوئی جرم نہیں اس لیے فلسطین کے لوگوں نے بھی کوئی جرم نہیں کیا ۔۔۔۔
ہاں یار وہ ملک تمہارے لیے بھی holy place ہے اور ہمارے لیےبھی۔ Jesus کا birth وہاں ہوا مدر میری وہاں ماں بنی اور jesus کو وہاں پر ہی صلیب پر لٹکایا گیا مارلن اپنے عقیدے کے مطابق فلسطین کی اہمیت بتا رہی تھی ۔۔۔۔
اور تمھارا کیا ہے۔ ۔۔؟؟؟
کومل عرشیہ کی طرف پلٹ کر پوچھنے لگی ۔۔۔۔۔۔
jesus
کو ہم بھی مانتے ہیں لیکن حضرت عیسی کے نام سے اس کے علاوہ قران میں اسے برکت والی زمین کہاں ہے کیونکہ یہاں نبیوں کا مسکن ہے اور دیکھو نا کتنی برکت والی زمین ہے کہ ہر دور میں اگر سب سے زیادہ شہادتیں کہیں ہوتی ہیں تو وہ فلسطین میں۔ اور شہید لوگ تو امر ہو جاتے ہیں تو سب سے زیادہ امر لوگ فلسطین کے ہوں گے تو اس طرح بھی یہ ہوئی نہ برکت والی جگہ ؟؟؟
پھر حضرت سلیمان نے یہاں سے ہی حکومت کی حضرت یحییٰ اور زکریا یہیں سے تعلق رکھتے تھے اور سب سے اہم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے انبیاؤں کی امامت اسی مسجد اقصی میں کی اور یہیں سے معرا ج کا سفر شروع کیا ۔ ۔ ۔۔
اس لیے مسلمان اور خاص طور پر فلسطین کے مسلمان اس کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ۔۔،شہید ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ پھر بھی ان کا حوصلہ کم نہیں ہوتا ہاں یار کل ہی تو تو نے وہ ویڈیو دکھایا تھا جہاں ایک فلسطینی چھوٹا سا بچہ اپنے گھر کے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھ کر قران پڑھ رہا تھا ۔۔۔
کھرچ بہت حوصلہ ہے ان میں ۔۔
ہاں کومل اور اگر میں بتاؤں کہ وہ کیا پڑھ رہا تھا تو تم کو سمجھ میں آئے گا کہ اتنا حوصلہ کہاں سے آیا ان میں ہاں بتانا یار اس کو ٹرانسلیٹ کر کے
وہ دونوں بھی تجسس سے اس کے قریب ہو گئے ۔۔۔۔کیونکہ رات میں ہی انہوں نے عرشیہ کے ساتھ وہ ویڈیو دیکھا تھا لیکن تب صرف زبانی افسوس کر کے رہ گئے۔ لیکن آج ان کے دل گداز ہو گئے تھے ۔اس لیے وہ سننے کے لیے بے چین تھے ۔عرشیہ نے بتایا کہ وہ بچہ سورہ بقرہ کی 155 اور 156 والی آیات پڑھ رہا تھا جس کا ٹرانسلیشن ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”اور ہم ضرور تمہیں خوف وہ خطر فاقہ کشی وہ جان وہ مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری ازمائش کریں گے ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے _””
عرشیہ نے یہ آیات کا ترجمہ پڑھا اور اس کے ساتھ ہی ان تینوں کی نگاہوں میں وہ فلسطینی بچہ اور سارا منظر گھوم گیا کہ وہ اپنے ماں باپ بھائی بہنوں کی لاشوں کے درمیان بھوکا پیاسا تہی دامن کھڑا اللہ کے آزمائشوں پر صبر کا پیغام سنا رہا ہے ۔ ۔ ۔ تینوں ہی خاموش ہو گئے بس آنسو ں رواں تھے ۔۔۔
چند دن بعد عرشیہ والدہ سےفون پر بات کر رہی تھی۔۔۔
بیٹا پرسوں 22 جنوری ہے ____
ہاں پتہ ہے امی ۔۔۔۔اس نے سمجھ کر کہا تو آج ہی گھر اپس آجاؤ تمہارے ابو بھی فکر کر رہے ہیں۔۔۔ کچھ نہیں ہوتا امی اس طرح حالات سے ڈر کر اپنے کاموں سے ہٹ کر گھروں میں دبک جانا کوئی عقل مندی نہیں ماحول خراب ہو رہا ہے بیٹا اور تم سب غیروں کے درمیان اکیلی ہو ہم لوگ فکر منند رہتے ہیں رات کو نیند بھی نہیں اتی اب تو ۔۔۔۔۔امی روہانسی سی ہو گئی۔۔۔۔
اوہ امی۔۔۔ پریشان مت ہوئیے یہاں میری سب سے دوستی ہے چھ سال سے ہم لوگ سب ساتھ ہیں سب لوگ اچھی طرح ملتے ہیں ۔۔۔۔
فلسطین کے لوگوں کو دیکھیے ۔کتنے حوصلے سے رہ رہے ہیں اپنے مقصد سے ایک انچ نہیں ہٹتے وہ لوگ ۔۔۔
ہاں بیٹا ادھر مندر کا کام مکمل ہو گیا ادھر فلسطین میں لاشوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔۔۔۔
اللہ ‘ نہ فلسطین میں ابابیلوں کا لشکر اتار رہا اتارا ہے نہ یہاں رام مندر بننے میں رکاوٹ آ رہی ہے ہائے کتنی دعا کر رہی ہوں میں اللہ تعالی سے کہ یا اللہ جب سارے کفار ایک جگہ جمع ہو رہے ہیں 22 کو تو ایسا زلزلہ ائے کہ سارے کے سارے ایک ساتھ دفن ہو جائیں کمبخت ۔۔۔۔
سارے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں بس ظلم ہی ظلم کر رہے ہیں۔۔
ارے۔ ارے امی بس کریں کیا کہہ رہی ہیں میں جانتی ہوں اپ پریشان ہیں لیکن صبر سے کام لیں عرشیہ تحمل سے امی کو تسلی دینے لگی دیکھیے ابابیل کا لشکر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آیا تھا کیونکہ کعبے کی حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا لیکن اب تو ہمارے نبی نے لشکر کے لشکر تیار کیے ہیں۔۔۔۔ ہم ایمان والے ہیں اللہ کے ابابیل جو حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔۔
اور رہی بات ہمارے ملک کی تو امی اپ کو صلح حدیبیہ یاد ہے جب اللہ کے نبی پوری شان کے ساتھ احرام باندھے اپنے جانثار صحابہ کی کثیر تعداد لے کر حج کرنے گئے تھے
لیکن وہاں اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا گیا تھا کتنے دل گرفتہ ہوئے تھے نا سارے صحابہ لیکن مصلحت یہی تھی کہ اس وقت صلح کی راہ ۔امن کی راہ اپنائی جائے کیونکہ اس کے بعد جو کامیابی اللہ نے فتح مکہ کے موقع پر دکھائی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
بس ہمیں بھی انہی اصولوں پر چلنا ہوگا کہ صلح حدیبیہ کے بعد صحابہ کرام اور ہمارے نبی مایوس ہو کر نہیں بیٹھے اور اپنے ایمان اخلاق اور عادات وہ اطوار کی ایسی روشنی پھیلائی کہ لوگوں کو اس اسلام میں سکون نظر انے لگا ۔۔۔
وہ کچھ توقف کو رکی پھر گویا ہوئی
امی آج ہندوستان میں بھی لوگ بہت بے چین ہیں ۔۔۔۔ مذہبی فساد بھڑکائے جا رہے ہیں مفاد پرست آپس میں لڑوا کر اقتدار حاصل کر رہے ہیں۔۔۔ زہریلے بھگوے ناگ ہمارے امن وہ سکون کو ڈس رہے ہیں لیکن اگر ہم سب نے اس ماحول میں ایک مخصوص طریقہ کار پر عمل کیا تو سب کو جنت اسلام میں ہی نظر ائے گی ۔۔۔
اور اللہ نے چاہا تو فتح مکہ کی طرح اس ملک میں بھی عظیم انقلاب برپا ہوگا۔۔
انشاء اللہ ۔انشاء اللہ۔
امی پرجوش ہو کر گویا ہوئیں میری بیٹی بڑی سوجھ بوجھ والی ہو گئی ہے کہاں سے اتی ہے اتنی اچھی باتیں تمہارے ذہین میں۔
امی جی ائی او کی ممبر ہوں وہ اترائی
ماشاءاللہ ماشاءاللہ اچھا چلو اپنا خیال رکھو اللہ تمہیں استقامت عطا کرے امی کی دعاؤں پر اس نے فون بند کیا اور نوٹس بنانے لگ گئی عرشیہ ہاسپٹل جانے کی تیاری کر رہی تھی تبھی مارلن دھاڑسے روم میں داخل ہوئی اور آتے ہی عرشیہ کے گلے لگ کر خوشی سے چلائی
گڈ نیوز ۔گڈ نیوز۔ گڈ نیوز۔
او ہو آرام سے بھائی کیا بات ہے شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی ہے کیا عرشیہ ہانپتے ہوئے پوچھنے لگی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ مارلن John کے ساتھ انگیجڈ ہے .
ارے اس سے بڑی گڈ نیوز ہے میری جان
مارلن خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ کہنے لگی۔۔۔
اچھا بتاؤ پھر ؟؟
میں اور john اسلام قبول کر رہے ہیں !!!!
کیا!!!! عرشیہ حیرت سے چلائی ۔۔
مارے حیرت کے انکھیں پھیل گئیں اور منہ کھلا کی کھلا رہ گیا ۔
کیا کہہ رہی ہو مارلن کیا میں نے غلط سنا ارے نہیں سچ میں john کئی دن سے ریسرچ کر رہا تھا اسلام پر ۔۔۔فلسطین کے حالات اور وہاں کے لوگوں کا حوصلہ دیکھ کر وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر ایسا کیا ہے اس ریلیجن میں اور جیسے جیسے وہ ریسرچ کرتا وہ اسلام سے قریب ہوتا رہا ۔
پھر جب بھی مجھ سے بات کرتا میں تمہارے بارے میں بتاتی ۔
عرشیہ نے خفگی سے گھورا تو مارلن جلدی سے کہنے لگی مطلب تم جو اسلام کے بارے میں بتاتی تھی وہ باتیں اسے میں بتاتی اس طرح اسے پکا یقین ہو گیا کہ اسلام ہی سچا دین ہے
پھر جب اس نے مجھ سے کہا کہ میں اسلام قبول کر رہا ہوں اور اگر تم بھی راضی ہو تو ہم دونوں پہلے اسلام کو قبول کریں گے اور اس کے بعد نکاح
واؤ !!!!عرشیہ خوشی سے چلائی۔ اور سنو تو جب میں نے اس سے ایسے ہی مذاق سے کہا کہ اگر میں اسلام قبول نہ کروں تو ؟؟؟؟
پتہ ہے وہ کچھ سیکنڈ چپ رہا پھر کہا دیکھو مارلن تمہاری باتوں سے مجھے لگتا تھا کہ تم بھی اسلام کو پسند کرتی ہو اور اس کی سچائی جانتی ہو کیونکہ تمہاری سب بیسٹ فرینڈ بھی مسلم ہیں لیکن اگر تم قبول نہیں کرو گی تو شاید ہمارے راستے الگ ہو جائیں گے اور پتہ ہے عرشیہ یہ سن کر میں ناراض ہونے کے بجائے بہت خوش ہوئی کیونکہ ایسا ہی فیصلہ میں بھی پہلے ہی دل میں کر چکی تھی اور پھر میں نے رضامندی دے دی مارلن نے شرما کر کہا تو عرشیہ دوبارہ خوشی سے مارلن کے گلے لگ گئی اور مسلسل خوشی سے اس کے آنسو بہے جا رہے تھے پھر وہ دونوں فورا سجدے میں گر گئیں اور پتہ نہیں کتنی دیر اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز رہی اسی بات کو ہوئے کچھ وقت اور گزر گیا اس کی خبر ابھی کسی کو نہیں دی گئی تھی کومل بھی اس معاملے سے انجان تھی مصلحتاً اسے چھپایا گیا۔۔۔
پھر ایک دن جب عرشیہ اپنے روم میں نماز سے فارغ ہو کر دعائیں کر رہی تھی تبھی کومل اس کے بازو میں آ کر بیٹھ گئی
عرشیہ نے ذکر کو روک کر استہفامیہ نظروں سے کومل کو دیکھا تو کومل نے اپنے دونوں ہاتھوں سے عرشیہ کے ہاتھوں کو تھاما اور کہا تجھ کو ایک بات بتاؤں ؟؟
عرشیہ کو اس کا انداز کچھ الگ لگا ہاں کہو کومل کیا بات ہے ارے وہ میرے گاؤں میں میرے اجی۔ اجوبا مطلب دادا دادی اور ممی پپا میری بہن اور ایک بھائی ہم سب اسلام دھرم میں ارہے ہیں۔۔۔۔!!!
ہاں!!!! کیا کیا کہا عرشیہ کچھ نہ سمجھی کہ حالت میں الجھ کر پوچھنے لگی تو کومل نے کہا دیکھ میں تیرے کو پوری بات بتاتی ہوں اصل میں گاؤں میں سب ہم کو نچلی ذات ہونے کی وجہ سے طرح سے دیکھتے تھے ایک دم نظروں سے گرا کر لیکن ہمارے گاؤں میں ابھی ایک مہینہ پہلے ایک بڑے مولوی آئے ان کا ایک پروگرام تھا مسجد پریچئے کا تو ہمارے گھر کے سب لوگ ادھر گئے تو پتہ ہے میرے دادا کو پاپا کو انہوں نے اپنے بازو میں بٹھایا کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا پھر مسجد میں نماز کا وقت ہوا تو گاؤں کے سب مسلم آئے اور سب نے ایک ساتھ نماز پڑھی اس میں پھل بیچنے والے چاچا بھی تھے جھاڑو لگانے والے چاچا بھی اور رکشہ چلانے والے مزدوری کرنے والے بھیا بھی سیٹھ صاحب بھی اور گاوں کے بہت بڑے بیوپاری بھی جو بہت امیر ہیں۔کوئی آگے کوئی پیچھے ایک ساتھ نماز پڑھی ۔۔پھر سب نے بیٹھ کر ایک ساتھ ریفریشمنٹ بھی کھائی تب میرے پاپا اور دادا نے ڈیسائڈ کیا کہ ہم اسلام دھرم میں جائیں گے
عرشیہ بھونچکا رہ گئی اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت صرف ایک پروگرام کی وجہ سے تمہارا پورا گھر دھرم بدل رہا ہے اس نے دل میں امڈتے شبہات کو الفاظ کی شکل دی ارے نہیں ایک پروگرام کی وجہ سے نہیں ۔۔۔
کومل اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے اسے سمجھانے والے انداز میں بولی شروع سے بھی گاؤں کے لوگوں کا برتاؤ سب کو دکھی کرتا تھا لیکن ہمارے پڑوس میں جو خان چاچا کی فیملی رہتی تھی ناں۔ وہ ہمارا بہت دھیان رکھتے تھے پتہ ہے تمہارے رمضان آتے تو ہمارا پورا گھر تم لوگوں سے بھی زیادہ خوش ہوتا کیونکہ شام کا سارا کھانا خان چاچا کے گھر سے ہم سب کو بھیجتے تھے وہ ۔۔۔وہ بھی خود کے روزہ کھولنے سے پہلے
میرے پاپا کے مہینہ بھر شام کے کھانے کے پیسے بچ جاتے تھے جو ہمارے لیے بہت بڑی بات تھی پھر باقی گاؤں کے مسلم بھی ہمارے دکھ سکھ میں بہت ساتھ دیتے تھے اس لیے تو ہم سب کو پہلے سے ہی یہ دھرم بہت پسند تھا مسجد پریچے تو ایک بہانہ تھا ۔
اور پہلے ہم لوگ ڈرتے تھے کہ ہماری برادری والے لوگ ہمارا بائیکاٹ کر دیں گے ہم کو قتل بھی کر سکتے ہیں۔ یا پھر بچوں کو مار دیا تو کیا ہوگا ؟؟؟یہ سب ڈر کی وجہ سے ہم اتنے دن سے چپ تھے لیکن جب سے فلسطین کی جنگ شروع ہوئی ہم نے دیکھا کہ لوگ سب کچھ لٹا کر بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے وہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں عورتیں بچے بوڑھے سب اپنی جان کو مال کو اولاد کو ماں باپ کو سب کو قربان کر کے بھی اللہ کا شکر ادا کر رہے ہیں تو میرے پاپا نے کہا کہ ہم کیوں ڈریں ہم بھی ہمت سے اللہ کو خوش کریں گے ۔۔۔اور لوگ ناراض ہوں تو ہوں ہمیں کیا ؟؟؟
فلسطین کے مسلمانوں کی وجہ سے اصل ہمت آئی اور ہم نے یہ فیصلہ کیا عرشیہ نے جب ساری بات سنی تو بے اختیار کومل کے گلے لگ گئی۔۔۔اور پھر بے اختیار سجدے میں چلی گئی اور اس نے کہا
یا اللہ سنت نبوی پر چل کر۔ ہونے کو ہے اب خواب شرمندہ تعبیر۔۔۔۔ انشاءاللہعنوان ۔۔۔۔۔۔ہہونے کو ہے اب خواب شرمندہ تعبیر۔۔۔۔
ڈاکٹر مارلن جیسے ہیcasualty میں داخل ہوئی چاروں طرف بھگدڑ نظر آئی ۔کوئی ایمرجنسی آگئی شاید وہ دل میں سوچتے ہوئے ڈاکٹرس روم کی طرف بڑھی ۔تاکہ ایپرن اور gloves پہن کر ریڈی ہو سکے۔ تبھی نرس نے بتایا heavy casualty ہے میڈم آج۔۔۔۔RTA ہے۔۔۔ایک شادی کا ٹرک پلٹ گیا ہے 100 سے زیادہ لوگ تھے اس میں ۔
ایمبولنس ان کو لے کر آتے ہی ہونگے۔
اوہ۔۔۔مارلن پریشان ہو گئی اور تیزی سے خود کو تیار کرنے لگی ۔ وہ انٹرن شپ کی طالبہ تھی۔. اسکے ساتھی ڈاکٹر س بھی ریڈی ہو کر وارڈ میں پہنچ چکے تھے۔۔۔ چند منٹ بعد ہی ایمبولنس کے سائرن نے فضا کو مرتعش کر دیا۔ ۔۔اور کچھ ہی دیر میں بچوں کے رونے چیخنے کی آوازیں ۔ مریضوں کی کراہیں ۔ اور عورتوں کے ہائے واویلا ان سب سے ماحول ماتم کدہ بن گیا۔
وہ بھی تیزی سے کام میں جٹ گئی۔ کبھی زخم صاف کرتی تو کسی کو ٹانکے لگانے میں مدد کرتی تو کہیں وارڈ بوائے کو انجکشن اور میڈیسن کے لیے دوڑاتی غرض جو کام ہاتھ کو لگتا وہ کر رہی تھی کیونکہ یہ لوگوں کی زندگی کا سوال تھا
آخر شام تک جب سب کنٹرول میں آگیا اس نے اپنے بعد آنے والے ڈاکٹرز کو تمام احوال دیا اور اپنے ہاسٹل کی طرف بڑھ گئی ۔
سارے راستے بس یہی سوال ذہین میں ابھر رہا تھا کہ 100کے قریب کی تعداد کے لوگ زخمی ہونے سے یہ عالم ہو رہا ہے تو فلسطین کے ہزاروں کی تعداد میں مارے جانے والے لوگوں اور معصوم بچوں کا کیا حال ہہوا ہہوگا ۔
وہ بوجھل قدموں سے روم میں داخل ہوئی اس کے روم میٹ عرشیہ اور کومل اسی کے منتظر تھے
عالی گ بائی ۔۔۔کتنی دیر لگا دی رے تو نے کومل اپنے مخصوص مراٹھی لہجے میں اس سے پوچھنے لگی
جبکہ عرشیہ بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی کیا ہوا مارلن کچھ ٹف تھا کیا ؟۔
ہاں یار اس نے دونوں کو ایک ساتھ جواب دیا اور ساتھ ہی اوور کورٹ اور باقی چیزیں ترتیب سے رکھتے ہوئے کہا پہلے فریش ہہولوں پھر ا کر بتاتی ہوں ۔
وہ دونوں اثبات میں سر ہلا کر چپ ہو گئے اور مارلین فریش ہونے چلی گئی ۔
عرشیہ مارلین اور کومل تینوں میڈیکل کے فرسٹ ایئر سے روم میٹ تھے اور ان کی دوستی آپس میں اتنی گہری ہو گئی کہ انہیں کبھی روم پارٹنر تبدیل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی ۔
عرشیہ دین اسلام کی بیٹی تھی تو مارلین کرسچن اور کومل ہندو کے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی تھی ۔
مارلن کو مراٹھی زبان میں مشکل ہوتی تھی وہ انگلش اور ہندی اچھی طرح سے بول سکتی تھی اس لیے عرشیہ سے گہری دوستی ہو گئی جب کہ کومل ہندوؤں کے اس طبقے سے تعلق رکھتی تھی جس میں اسے کوئی احترام کی نظر سے نہ دیکھتا تھا۔ لیکن عرشیہ کی نظروں میں اس قسم کا بھید بھاؤ نظر نہیں آتا تھا اس لیے وہ عرشیہ سے زیادہ قریب ہو گئی ۔
مہاراشٹر کے ایک شہر کے میڈیکل کالج میں تینوں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور مہاراشٹر سے ہی ان کا تعلق بھی تھا
مارلین فریش ہو کر آئی لیکن پھر بھی وہ پژمردہ ہی لگ رہی تھی کیا ہوا ڈیئر عرشیہ اسے تھام کر قریب بٹھاتے ہوئے پوچھنے لگی ۔
یار۔۔۔ تو ہر وقت فلسطین کا بتاتی ہے نا مجھے بہت برا لگتا تھا لیکن جو آج دیکھا ہے اس سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ فلسطین کے لوگوں پر کیا قیامت آئی ہوئی ہے۔
کیا ہوا رے ساری بات بتا ناں؟ کومل بے تابی سے پوچھنے لگی۔
تب مارلن نے ہاسپٹل میں آنے والیcasualty کی ساری بات بتاتے ہوئے کہا یار وہ چھوٹے بچے تیار ہو کر شادی کے لیے گھروں سے نکلے تھے کتنے ایکسائٹڈ ہوں گے نا وہ لیکن ٹرک کے پلٹ جانے سے بری طرح زخمی ہوئے اور وہ جس طرح چیخ رہے تھے اف فف۔ ۔۔۔۔۔۔۔
مارلن نے بہت زور سے اپنی آنکھیں میںچ لی جیسے وہ اس منظر کو خیالوں میں بھی نہیں دیکھنا چاہ رہی ہو ۔
عرشیہ گہری سانس لے کر رہ گئی اس کے آنسو بھی رواں ہوئے جیسے کسی نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہو ۔
یہی تو فلسطین میں ہو رہا ہے یہ تو حادثہ تھا مگر وہاں تو پلان کر کے قتل عام کر رہے ہیں اپنی زمین مانگنا اپنی آزادی مانگنا اور اپنا حق مانگنا کوئی جرم نہیں اس لیے فلسطین کے لوگوں نے بھی کوئی جرم نہیں کیا ۔۔۔۔
ہاں یار وہ ملک تمہارے لیے بھی holy place ہے اور ہمارے لیےبھی۔ Jesus کا birth وہاں ہوا مدر میری وہاں ماں بنی اور jesus کو وہاں پر ہی صلیب پر لٹکایا گیا مارلن اپنے عقیدے کے مطابق فلسطین کی اہمیت بتا رہی تھی ۔۔۔۔
اور تمھارا کیا ہے۔ ۔۔؟؟؟
کومل عرشیہ کی طرف پلٹ کر پوچھنے لگی ۔۔۔۔۔۔
jesus
کو ہم بھی مانتے ہیں لیکن حضرت عیسی کے نام سے اس کے علاوہ قران میں اسے برکت والی زمین کہاں ہے کیونکہ یہاں نبیوں کا مسکن ہے اور دیکھو نا کتنی برکت والی زمین ہے کہ ہر دور میں اگر سب سے زیادہ شہادتیں کہیں ہوتی ہیں تو وہ فلسطین میں۔ اور شہید لوگ تو امر ہو جاتے ہیں تو سب سے زیادہ امر لوگ فلسطین کے ہوں گے تو اس طرح بھی یہ ہوئی نہ برکت والی جگہ ؟؟؟
پھر حضرت سلیمان نے یہاں سے ہی حکومت کی حضرت یحییٰ اور زکریا یہیں سے تعلق رکھتے تھے اور سب سے اہم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے انبیاؤں کی امامت اسی مسجد اقصی میں کی اور یہیں سے معرا ج کا سفر شروع کیا ۔ ۔ ۔۔
اس لیے مسلمان اور خاص طور پر فلسطین کے مسلمان اس کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ۔۔،شہید ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ پھر بھی ان کا حوصلہ کم نہیں ہوتا ہاں یار کل ہی تو تو نے وہ ویڈیو دکھایا تھا جہاں ایک فلسطینی چھوٹا سا بچہ اپنے گھر کے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھ کر قران پڑھ رہا تھا ۔۔۔
کھرچ بہت حوصلہ ہے ان میں ۔۔
ہاں کومل اور اگر میں بتاؤں کہ وہ کیا پڑھ رہا تھا تو تم کو سمجھ میں آئے گا کہ اتنا حوصلہ کہاں سے آیا ان میں ہاں بتانا یار اس کو ٹرانسلیٹ کر کے
وہ دونوں بھی تجسس سے اس کے قریب ہو گئے ۔۔۔۔کیونکہ رات میں ہی انہوں نے عرشیہ کے ساتھ وہ ویڈیو دیکھا تھا لیکن تب صرف زبانی افسوس کر کے رہ گئے۔ لیکن آج ان کے دل گداز ہو گئے تھے ۔اس لیے وہ سننے کے لیے بے چین تھے ۔عرشیہ نے بتایا کہ وہ بچہ سورہ بقرہ کی 155 اور 156 والی آیات پڑھ رہا تھا جس کا ٹرانسلیشن ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”اور ہم ضرور تمہیں خوف وہ خطر فاقہ کشی وہ جان وہ مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری ازمائش کریں گے ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے _””
عرشیہ نے یہ آیات کا ترجمہ پڑھا اور اس کے ساتھ ہی ان تینوں کی نگاہوں میں وہ فلسطینی بچہ اور سارا منظر گھوم گیا کہ وہ اپنے ماں باپ بھائی بہنوں کی لاشوں کے درمیان بھوکا پیاسا تہی دامن کھڑا اللہ کے آزمائشوں پر صبر کا پیغام سنا رہا ہے ۔ ۔ ۔ تینوں ہی خاموش ہو گئے بس آنسو ں رواں تھے ۔۔۔
چند دن بعد عرشیہ والدہ سےفون پر بات کر رہی تھی۔۔۔
بیٹا پرسوں 22 جنوری ہے ____
ہاں پتہ ہے امی ۔۔۔۔اس نے سمجھ کر کہا تو آج ہی گھر اپس آجاؤ تمہارے ابو بھی فکر کر رہے ہیں۔۔۔ کچھ نہیں ہوتا امی اس طرح حالات سے ڈر کر اپنے کاموں سے ہٹ کر گھروں میں دبک جانا کوئی عقل مندی نہیں ماحول خراب ہو رہا ہے بیٹا اور تم سب غیروں کے درمیان اکیلی ہو ہم لوگ فکر منند رہتے ہیں رات کو نیند بھی نہیں اتی اب تو ۔۔۔۔۔امی روہانسی سی ہو گئی۔۔۔۔
اوہ امی۔۔۔ پریشان مت ہوئیے یہاں میری سب سے دوستی ہے چھ سال سے ہم لوگ سب ساتھ ہیں سب لوگ اچھی طرح ملتے ہیں ۔۔۔۔
فلسطین کے لوگوں کو دیکھیے ۔کتنے حوصلے سے رہ رہے ہیں اپنے مقصد سے ایک انچ نہیں ہٹتے وہ لوگ ۔۔۔
ہاں بیٹا ادھر مندر کا کام مکمل ہو گیا ادھر فلسطین میں لاشوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔۔۔۔
اللہ ‘ نہ فلسطین میں ابابیلوں کا لشکر اتار رہا اتارا ہے نہ یہاں رام مندر بننے میں رکاوٹ آ رہی ہے ہائے کتنی دعا کر رہی ہوں میں اللہ تعالی سے کہ یا اللہ جب سارے کفار ایک جگہ جمع ہو رہے ہیں 22 کو تو ایسا زلزلہ ائے کہ سارے کے سارے ایک ساتھ دفن ہو جائیں کمبخت ۔۔۔۔
سارے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں بس ظلم ہی ظلم کر رہے ہیں۔۔
ارے۔ ارے امی بس کریں کیا کہہ رہی ہیں میں جانتی ہوں اپ پریشان ہیں لیکن صبر سے کام لیں عرشیہ تحمل سے امی کو تسلی دینے لگی دیکھیے ابابیل کا لشکر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آیا تھا کیونکہ کعبے کی حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا لیکن اب تو ہمارے نبی نے لشکر کے لشکر تیار کیے ہیں۔۔۔۔ ہم ایمان والے ہیں اللہ کے ابابیل جو حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔۔
اور رہی بات ہمارے ملک کی تو امی اپ کو صلح حدیبیہ یاد ہے جب اللہ کے نبی پوری شان کے ساتھ احرام باندھے اپنے جانثار صحابہ کی کثیر تعداد لے کر حج کرنے گئے تھے
لیکن وہاں اپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا گیا تھا کتنے دل گرفتہ ہوئے تھے نا سارے صحابہ لیکن مصلحت یہی تھی کہ اس وقت صلح کی راہ ۔امن کی راہ اپنائی جائے کیونکہ اس کے بعد جو کامیابی اللہ نے فتح مکہ کے موقع پر دکھائی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
بس ہمیں بھی انہی اصولوں پر چلنا ہوگا کہ صلح حدیبیہ کے بعد صحابہ کرام اور ہمارے نبی مایوس ہو کر نہیں بیٹھے اور اپنے ایمان اخلاق اور عادات وہ اطوار کی ایسی روشنی پھیلائی کہ لوگوں کو اس اسلام میں سکون نظر انے لگا ۔۔۔
وہ کچھ توقف کو رکی پھر گویا ہوئی
امی آج ہندوستان میں بھی لوگ بہت بے چین ہیں ۔۔۔۔ مذہبی فساد بھڑکائے جا رہے ہیں مفاد پرست آپس میں لڑوا کر اقتدار حاصل کر رہے ہیں۔۔۔ زہریلے بھگوے ناگ ہمارے امن وہ سکون کو ڈس رہے ہیں لیکن اگر ہم سب نے اس ماحول میں ایک مخصوص طریقہ کار پر عمل کیا تو سب کو جنت اسلام میں ہی نظر ائے گی ۔۔۔
اور اللہ نے چاہا تو فتح مکہ کی طرح اس ملک میں بھی عظیم انقلاب برپا ہوگا۔۔
انشاء اللہ ۔انشاء اللہ۔
امی پرجوش ہو کر گویا ہوئیں میری بیٹی بڑی سوجھ بوجھ والی ہو گئی ہے کہاں سے اتی ہے اتنی اچھی باتیں تمہارے ذہین میں۔
امی جی ائی او کی ممبر ہوں وہ اترائی
ماشاءاللہ ماشاءاللہ اچھا چلو اپنا خیال رکھو اللہ تمہیں استقامت عطا کرے امی کی دعاؤں پر اس نے فون بند کیا اور نوٹس بنانے لگ گئی عرشیہ ہاسپٹل جانے کی تیاری کر رہی تھی تبھی مارلن دھاڑسے روم میں داخل ہوئی اور آتے ہی عرشیہ کے گلے لگ کر خوشی سے چلائی
گڈ نیوز ۔گڈ نیوز۔ گڈ نیوز۔
او ہو آرام سے بھائی کیا بات ہے شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی ہے کیا عرشیہ ہانپتے ہوئے پوچھنے لگی کیونکہ اسے پتہ تھا کہ مارلن John کے ساتھ انگیجڈ ہے .
ارے اس سے بڑی گڈ نیوز ہے میری جان
مارلن خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ کہنے لگی۔۔۔
اچھا بتاؤ پھر ؟؟
میں اور john اسلام قبول کر رہے ہیں !!!!
کیا!!!! عرشیہ حیرت سے چلائی ۔۔
مارے حیرت کے انکھیں پھیل گئیں اور منہ کھلا کی کھلا رہ گیا ۔
کیا کہہ رہی ہو مارلن کیا میں نے غلط سنا ارے نہیں سچ میں john کئی دن سے ریسرچ کر رہا تھا اسلام پر ۔۔۔فلسطین کے حالات اور وہاں کے لوگوں کا حوصلہ دیکھ کر وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر ایسا کیا ہے اس ریلیجن میں اور جیسے جیسے وہ ریسرچ کرتا وہ اسلام سے قریب ہوتا رہا ۔
پھر جب بھی مجھ سے بات کرتا میں تمہارے بارے میں بتاتی ۔
عرشیہ نے خفگی سے گھورا تو مارلن جلدی سے کہنے لگی مطلب تم جو اسلام کے بارے میں بتاتی تھی وہ باتیں اسے میں بتاتی اس طرح اسے پکا یقین ہو گیا کہ اسلام ہی سچا دین ہے
پھر جب اس نے مجھ سے کہا کہ میں اسلام قبول کر رہا ہوں اور اگر تم بھی راضی ہو تو ہم دونوں پہلے اسلام کو قبول کریں گے اور اس کے بعد نکاح
واؤ !!!!عرشیہ خوشی سے چلائی۔ اور سنو تو جب میں نے اس سے ایسے ہی مذاق سے کہا کہ اگر میں اسلام قبول نہ کروں تو ؟؟؟؟
پتہ ہے وہ کچھ سیکنڈ چپ رہا پھر کہا دیکھو مارلن تمہاری باتوں سے مجھے لگتا تھا کہ تم بھی اسلام کو پسند کرتی ہو اور اس کی سچائی جانتی ہو کیونکہ تمہاری سب بیسٹ فرینڈ بھی مسلم ہیں لیکن اگر تم قبول نہیں کرو گی تو شاید ہمارے راستے الگ ہو جائیں گے اور پتہ ہے عرشیہ یہ سن کر میں ناراض ہونے کے بجائے بہت خوش ہوئی کیونکہ ایسا ہی فیصلہ میں بھی پہلے ہی دل میں کر چکی تھی اور پھر میں نے رضامندی دے دی مارلن نے شرما کر کہا تو عرشیہ دوبارہ خوشی سے مارلن کے گلے لگ گئی اور مسلسل خوشی سے اس کے آنسو بہے جا رہے تھے پھر وہ دونوں فورا سجدے میں گر گئیں اور پتہ نہیں کتنی دیر اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز رہی اسی بات کو ہوئے کچھ وقت اور گزر گیا اس کی خبر ابھی کسی کو نہیں دی گئی تھی کومل بھی اس معاملے سے انجان تھی مصلحتاً اسے چھپایا گیا۔۔۔
پھر ایک دن جب عرشیہ اپنے روم میں نماز سے فارغ ہو کر دعائیں کر رہی تھی تبھی کومل اس کے بازو میں آ کر بیٹھ گئی
عرشیہ نے ذکر کو روک کر استہفامیہ نظروں سے کومل کو دیکھا تو کومل نے اپنے دونوں ہاتھوں سے عرشیہ کے ہاتھوں کو تھاما اور کہا تجھ کو ایک بات بتاؤں ؟؟
عرشیہ کو اس کا انداز کچھ الگ لگا ہاں کہو کومل کیا بات ہے ارے وہ میرے گاؤں میں میرے اجی۔ اجوبا مطلب دادا دادی اور ممی پپا میری بہن اور ایک بھائی ہم سب اسلام دھرم میں ارہے ہیں۔۔۔۔!!!
ہاں!!!! کیا کیا کہا عرشیہ کچھ نہ سمجھی کہ حالت میں الجھ کر پوچھنے لگی تو کومل نے کہا دیکھ میں تیرے کو پوری بات بتاتی ہوں اصل میں گاؤں میں سب ہم کو نچلی ذات ہونے کی وجہ سے طرح سے دیکھتے تھے ایک دم نظروں سے گرا کر لیکن ہمارے گاؤں میں ابھی ایک مہینہ پہلے ایک بڑے مولوی آئے ان کا ایک پروگرام تھا مسجد پریچئے کا تو ہمارے گھر کے سب لوگ ادھر گئے تو پتہ ہے میرے دادا کو پاپا کو انہوں نے اپنے بازو میں بٹھایا کوئی بھید بھاؤ نہیں کیا پھر مسجد میں نماز کا وقت ہوا تو گاؤں کے سب مسلم آئے اور سب نے ایک ساتھ نماز پڑھی اس میں پھل بیچنے والے چاچا بھی تھے جھاڑو لگانے والے چاچا بھی اور رکشہ چلانے والے مزدوری کرنے والے بھیا بھی سیٹھ صاحب بھی اور گاوں کے بہت بڑے بیوپاری بھی جو بہت امیر ہیں۔کوئی آگے کوئی پیچھے ایک ساتھ نماز پڑھی ۔۔پھر سب نے بیٹھ کر ایک ساتھ ریفریشمنٹ بھی کھائی تب میرے پاپا اور دادا نے ڈیسائڈ کیا کہ ہم اسلام دھرم میں جائیں گے
عرشیہ بھونچکا رہ گئی اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت صرف ایک پروگرام کی وجہ سے تمہارا پورا گھر دھرم بدل رہا ہے اس نے دل میں امڈتے شبہات کو الفاظ کی شکل دی ارے نہیں ایک پروگرام کی وجہ سے نہیں ۔۔۔
کومل اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے اسے سمجھانے والے انداز میں بولی شروع سے بھی گاؤں کے لوگوں کا برتاؤ سب کو دکھی کرتا تھا لیکن ہمارے پڑوس میں جو خان چاچا کی فیملی رہتی تھی ناں۔ وہ ہمارا بہت دھیان رکھتے تھے پتہ ہے تمہارے رمضان آتے تو ہمارا پورا گھر تم لوگوں سے بھی زیادہ خوش ہوتا کیونکہ شام کا سارا کھانا خان چاچا کے گھر سے ہم سب کو بھیجتے تھے وہ ۔۔۔وہ بھی خود کے روزہ کھولنے سے پہلے
میرے پاپا کے مہینہ بھر شام کے کھانے کے پیسے بچ جاتے تھے جو ہمارے لیے بہت بڑی بات تھی پھر باقی گاؤں کے مسلم بھی ہمارے دکھ سکھ میں بہت ساتھ دیتے تھے اس لیے تو ہم سب کو پہلے سے ہی یہ دھرم بہت پسند تھا مسجد پریچے تو ایک بہانہ تھا ۔
اور پہلے ہم لوگ ڈرتے تھے کہ ہماری برادری والے لوگ ہمارا بائیکاٹ کر دیں گے ہم کو قتل بھی کر سکتے ہیں۔ یا پھر بچوں کو مار دیا تو کیا ہوگا ؟؟؟یہ سب ڈر کی وجہ سے ہم اتنے دن سے چپ تھے لیکن جب سے فلسطین کی جنگ شروع ہوئی ہم نے دیکھا کہ لوگ سب کچھ لٹا کر بھی پیچھے نہیں ہٹ رہے وہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں عورتیں بچے بوڑھے سب اپنی جان کو مال کو اولاد کو ماں باپ کو سب کو قربان کر کے بھی اللہ کا شکر ادا کر رہے ہیں تو میرے پاپا نے کہا کہ ہم کیوں ڈریں ہم بھی ہمت سے اللہ کو خوش کریں گے ۔۔۔اور لوگ ناراض ہوں تو ہوں ہمیں کیا ؟؟؟
فلسطین کے مسلمانوں کی وجہ سے اصل ہمت آئی اور ہم نے یہ فیصلہ کیا عرشیہ نے جب ساری بات سنی تو بے اختیار کومل کے گلے لگ گئی۔۔۔اور پھر بے اختیار سجدے میں چلی گئی اور اس نے کہا
یا اللہ سنت نبوی پر چل کر۔ ہونے کو ہے اب خواب شرمندہ تعبیر۔۔۔۔ انشاءاللہ

Comments From Facebook

7 Comments

  1. Shaikh Azeemuddin

    MashAllah

    Reply
    • Syed Anwar

      Mashallah Bahut Khoob bahut badhiya artical

      Reply
  2. Qaisar Hashmi

    بہترین انطباق

    Reply
    • Syed zubair

      Mashallah behtreen zabardast article

      Reply
    • Khaleda Tanveer

      Mashaallah

      Reply
  3. Mahin fatima

    Shandar. Tajziya

    Ummeed afza tahreer

    Keep writing

    Reply
  4. Insha Anwar 3

    .Allahumma bareek fee..Ma sha Allah zabrdast

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے