نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ۔۔۔
سرزمین فلسطین کو قرآن کریم میں پانچ مواقع پر بابرکت زمین سے مخاطب کیا گیا ہے :
۱- ’’سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْر‘‘( الإسراء: ۱) (پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ؛ تاکہ ہم انھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں ۔ بیشک وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے)۔
۲- ’’وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُواْ یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنَی عَلَی بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ بِمَا صَبَرُواْ وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہُ وَمَا کَانُواْ یَعْرِشُون‘‘(الأعراف: ۱۳۷) ( اور جن لوگوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا، ہم نے انھیں اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جس پر ہم نے برکتیں نازل کی تھیں )۔ (اور بنی اسرائیل کے حق میں تمہارے رب کا کلمہ خیر پورا ہوا، کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا۔ اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بناتی چڑھاتی رہی تھی، ،ان سب کو ہم نے ملیا میٹ کردیا)۔
۳- ’’وَنَجَّیْنَاہُ وَلُوْطًا إِلَی الْأَرْضِ الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا لِلْعَالَمِیْن‘‘ (الأنبیاء: ۷۱) اور ہم نے نجات دی اسے اور لوط کواس زمین کی طرف جو (کہ) ہم نے برکت رکھی اس میں تمام جہان والوں کے لیے ۔
۴- ’’وَلِسُلَیْمَانَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِأَمْرِہِ إِلَی الْأَرْضِ الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا وَکُنَّا بِکُلِّ شَیْئٍ عَالِمِیْنَ‘‘ ( الأنبیاء: ۸۱) اور ہم نے تیز چلتی ہوئی ہوا کو سلیمان کے تابع کردیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں اور ہمیں ہر ہر بات کا پورا پورا علم ہے۔
۵- ’’وَجَعَلْنَا بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْقُرَی الَّتِیْ بَارَکْنَا فِیْہَا قُرًی ظَاہِرَۃً وَقَدَّرْنَا فِیْہَا السَّیْرَ سِیْرُوا فِیْہَا لَیَالِیَ وَأَیَّاماً آمِنِیْن‘‘( السبا: ۱۸) اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ، ایسی بستیاں بسا رکھی تھیں جو دور سے نظر آتی تھیں ، اور ان میں سفر کو نپے تلے مرحلوں میں بانٹ دیا تھا اور کہا تھا کہ ان (بستیوں ) کے درمیان راتیں ہوں یا دن، امن و امان کے ساتھ سفر کرو۔
اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کواور ’’سرزمین محشر‘‘ بھی فرمایا ہے ، ارشاد باری عزوجل ہے :
’’ہُوَ الَّذِیْ أَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ مِن دِیَارِہِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ‘‘ (سورۃالحشر:۲) (وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافر لوگوں کو ان کے گھروں سے پہلے اجتماع کے موقع پر نکال دیا۔)
اس وقت پوری دنیا میں ایک ہی موضوع زیرِ بحث ہے اور وہ ہے مسئلہ فلسطین۔ اور فلسطینی عوام ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا پریشان ہے کہ یہ قضیہ مزید کتنی جانیں لے گا اور یہ خطہ مزید کتنی دیر تک چند ایک لوگوں کی خواہشات کی نذر ہوتا رہے گا ؟!
فلسطین اور اسلامی تاریخ
دوستو! اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۷یا ۱۸ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی ہے، اسلامی تاریخ کے مشہور واقعۂ معراج میں بھی بیت المقدس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ میں نوے سال نکال کر ۱۲۰۰ سال مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں ہی کے پاس رہی، مسلمانوں نے ۱۵؍ہجری (۶۳۶ ء) میں اس کو فتح کیا، پھر ایک مختصر وقفہ کے لیے یہ صلیبیوں کے قبضہ میں چلی گئی اور صلیبیوں نے (۱۰۹۹ء- ۴۹۲ ھ) میں اس پر قبضہ کیا اور ۹۰ سال کے لیے یہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی، لیکن پھر مسلمانوں کے عظیم سپاہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے اسے۱۱۸۷ء (۵۸۳ھ) میں واپس لے لیا، اس کے بعد ۱۹۴۸ء میں یہ مسلمانوں کے ہاتھ سے ایک مرتبہ پھر نکل گئی۔
آخر یہ ہوا کیسے اس کی حقیقت کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہرومیوں نے عیسائی مذہب قبول کرنے کے بعد یورپ اور شام میں یہودیوں پر زندگی تنگ کردی تھی۔ انھیں در بدر کیا، ظلم کیے، ذلیل کرکے رکھا اور ان کا قتل کیا۔ جان بچانے اور چین سے جینے کے لیے یہودی ان علاقوں کی طرف رخ کرتے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔ رومیوں کے عیسائیت قبول کرنے کے بعد بیت المقدس سے یہودیوں کو نکالا گیا اور ان کی عبادت گاہیں تباہ کردی گئیں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بیت المقدس کی فتح کے بعد یہودیوں کو شہر میں آنے جانے کی اجازت ملی۔
15 ہجری (637ء) میں بیت المقدس فتح ہونے کے بعد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ نے یہودیوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دی، جبکہ اس سے پہلے عیسائیوں نے ان پر پابندی لگا رکھی تھی۔ عیسائیوں نے یہودیوں سے حد درجہ بغض کی وجہ سے اس چٹان، جس کے اوپر “قبۃ الصخرۃ” (Dome of Rock) بنا ہوا ہے، کو کچرے کے ڈھیر سے ڈھک دیا تھا۔ کیونکہ یہودی اس کو مقدس مانتے ہیں۔ اس چٹان کے اوپر سے کچرہ امیر المومنین عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا۔ مسلمانوں کے نزدیک اس کی اہمیت یہ ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی معراج والی رات، اس چٹان پر سے براق اوپر آسمانوں کو اڑا تھا۔
پھر جب بھی صلیبی جنگ کے بعد عیسائی بیت المقدس پر قابض ہوئے تو مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام کیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد اور بعد میں طویل عرصہ تک سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں یہودی قلیل تعداد میں رہے، لیکن عیسائی ظلم و ستم اور ذلت و خواری والی زندگی سے بہتر حالت میں رہے۔ انیسویں صدی میں یورپ اور روس میں یہودیوں کے خلاف عیسائیوں میں شدید نفرت اور مظالم پھر سے ابھرے۔ ان حالات میں یہودیوں نے عیسائیوں کے ظلم سے تنگ آکر نقل مکانی کی۔ جرمنی، مشرقی یورپ اور روس سے یہودی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہو گئے۔ ان کی بڑی تعداد امریکا، برطانیہ اور کچھ فلسطین میں آگئے۔
اسی دوران میں صیہونیت (Zionism) کی تحریک نے جنم لیا۔ اس تحریک کا مقصد یہودیوں کے لیے اپنا ملک قائم کرنا تھا اور اس کے لیے انھوں نے فلسطین کو چُنا۔ یہ تحریک یورپ، امریکا اور فلسطین میں زور پکڑتی گئی اور یہودیوں نے بڑی تعداد میں فلسطین میں آباد ہونا شروع کر دیا اور یہاں زمینیں خریدنے لگنے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کا آخری زمانہ تھا۔
پہلی جنگ عظیم (1914ء-1918ء) میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اور جب جرمنی ہار گیا تو برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا اور مختلف علاقے مختلف یورپی طاقتوں کے قبضے میں آگئے۔ فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا۔ 1917ء میں برطانیہ کے وزیر خارجہ نے ایک اعلان کیا، جس کو اعلانِ بالفور (Balfour Declaration) کہا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ فلسطین میں برطانیہ آزاد یہودی ریاست قائم کرنے میں مدد کرے گا۔ برطانیہ نے ان کو وہاں آباد ہونے اور منظم کرنے میں مدد دی۔ جب فلسطین کے عرب مسلمانوں میں یہودیوں کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہونے لگے اور دونوں کے درمیان میں شدید جھڑپیں ہونے لگیں تو برطانیہ نے فلسطین سے جانے کا فیصلہ کیا اور اقوام متحدہ سے اس علاقہ کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کہا۔
اقوام متحدہ نے 1947ء میں فیصلہ دیا کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے : مغربی علاقہ جہاں یہودیوں کی اکثریت آباد تھی وہاں یہودی اسرائیل کی ریاست قائم کریں اور مشرقی علاقہ میں فلسطینی عرب مسلمانوں کی ریاست قائم ہوجائے۔ جبکہ بیت المقدس اقوام متحدہ کے کنٹرول میں رہے۔ یہودیوں نے اس فارمولے کو قبول کر لیا جبکہ فلسطینی مسلمانوں اور عرب ممالک نے اپنے درمیان میں ایک یہودی ریاست کے قیام کو یکسر مسترد کر دیا۔
یہودیوں نے 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان میں جنگیں چھڑ گئیں۔ یہ جنگیں 1967ء تک چلیں۔ جنگ کی شروعات میں اسرائیل نے مغربی بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور فلسطین کے کچھ اور علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لیے۔ بقیہ فلسطین کے مختلف علاقوں پر مصر، شام، لبنان اور اردن کا قبضہ ہو گیا۔ بیت المقدس کا مشرقی علاقہ، جس میں حرم شریف اور مسجد اقصیٰ سمیت مقدس مقامات ہیں، اردن کے قبضے میں تھا۔ یہ صورت حال 1967ء تک قائم رہی۔ 1967ء کی عرب-اسرائیل جنگ کے اختتام پر اسرائیل کا پورے فلسطین پر قبضہ ہو گیا۔ مقدس مقامات تاریخ میں پہلی مرتبہ یہودیوں کے قبضہ میں آگئے۔
از قلم علیشہ فاطمہ بنت محمد شریف
مقام لکھنؤ
Mashallah achhi tahreer he allah istiqamat ata farmaye aur masjide aqsa ki hifazat farmaye
Masha Allah