اگست ٢٠٢٢
زمرہ : ادراك
ھادیہ کا اٹھارواں شمارہ آپ کے نظروں کے سامنے ہے ۔اس ماہ ہم نے ھادیہ کے شمارے کی کور اسٹوری میں بزرگوں کی قدر ومنزلت پر بات کی ہے ۔موجودہ دور ٹیکنالوجی ،سوشل میڈیا،میٹا ورلڈ کادور ہے۔ تیزی سے بدلتے دور میں پس منظر،کردار،کہانی،مقصد،کہانی کا سبق سب کچھ بدل گیا ۔وہ خرگوش اور کچھوے کی کہانی سے سستی کاہلی اختیارنہ کرنے کا سبق ملتا تھا ،اب اس کہانی کے کچھوے نے ریس جیتنے کے لیے اسکیٹنگ لگالیا ۔ بدلتے منظر نے تدبیر اختیار کرنے کے نئے در وا کیے۔
آپ نے پہلے کبھی بزرگوں سے نسل نو، نوجوان،اقبال کے شاہین جیسے الفاظ کہتے ہوئے بزرگوں کو تربیت کے محاذ پر اور بچوں کو زیرِ تربیت رہنے کے لیے پُر شوق پایا تھا۔ اب بدلتے دور میں نسل نو سے آپ جنریشن ایکس،جنریشن وائے،جنریشن زیڈ سنتے آرہے ہیں ۔ زندگی میں جنریشن ایکس سنتے ہوئے بزرگوں کی توانائی کے ساتھ ساتھ حوصلے بھی پست ہورہے ہیں۔ تبدیلی کو قبول کرنا کوئی غلط بات نہیں۔
’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘
تاہم نوجوان نسل کا رویہ بزرگوں کے تئیں مثبت ہو نا چاہیے اور بزرگوں کو اس گردشِ ناکردہ کار میں اپنا کارآمد رول پورے جوش کے ساتھ عمر کی آخری سانس تک ادا کرنا چاہیے ۔
یہ احسانِ ربی ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات ہی میں والدین کے لیے احکامات دیئے گئے ہیں، جس کا اثر کہیے کہ آج بھی ہمیں بہت کم والدین اولڈ ایج ہوم میں نظر آتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بارہ شہروں میںحلقہ ٔخواتین نے اولڈ ایج ہوم کا سروے کروایا تھا، تو صرف پانچ مسلم فیمیلی کے بزرگ افراد ملے، وہ بھی وہ تھے جن کی کوئی اولاد نہیں، کسی پاس بیٹا نہیں صرف دو بیٹیاں تھیں ،اور دیگر دوکی مینٹل کنڈیشن ناگفته بہ تھی، جس کی تفصیلات کبھی مکمل ڈیٹا کے ساتھ پیش کی جائیں گی۔ یہاں یہی مقصود ہے کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں بزرگ والدین کے اولڈ ایج ہوم میں بھیجنے کا رجحان نہیں ہے ،جہاں یہ بات خوش آئند ہے وہیں یہ بھی مستحضر رہے کہ کیا گھروں میں ان بزرگوں کو ہم کارآمد زندگی گزارتے دیکھ رہے ہیں ؟تنہائی کے ساتھ،کمزور جسمانی صحت،نفسیاتی مسائل سے دوچار بزرگ؛ ان پر بھی ہمیں سوچنا چاہیے ۔

ایکی گائی Ikigai( مقصد زندگی )جاپان کی ایک بک ہے ،جس میں جاپان کے ایک شہر کا تذکرہ ہے، جہاں افراد نوے سال تک ریٹائرڈ نہیں ہوتے ۔وہاں تھک کر بیٹھ جانے کا کوئی تصور ہی نہیں، وجہ یہی کہ اپنا پسندیدہ کام کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہاں ہماری طرح ضرورتوں کی تکمیل کے لیے انسان سے کام نہیں کروایا جاتا ،وہاں پیشے سے جڑ کر تھکنے کے دنوں کا تصور نہیں ہے ۔اپنی جگہ خود بنانے کے بجائے والدین کی جگہ لینے کا تصور ہی سماج کے مزاج میں تنگ دلی کا غماز ہوتا ہے۔ انسان کے پاس جینے کا تصور لمحۂ موجود کو کار آمدبناتے ہوئے گزرنے کا ہو تو زندگی پرجوش،ذوق و شوق کے ساتھ گزرتی ہے ۔
بزرگ افراد اپنی زندگی کو کارآمد بنانے کے لیے نئے تجربات کرسکتے ہیں، اپنی دیرینہ خواہش کو جو روزگار کی مصرفیات کی نذر ہوگئی تھی، انہیں بحال کرسکتے ہیں ۔اکثر بزرگوں کا خیال یہ ہوتا ہے کہ عمر کے ساتھ دماغی قویٰ بھی کمزور ہوجاتے ہیں ۔حالانکہ نئی تحقیق میں نیوروپلاسٹیٹی، جسے (Neuroplasticity, neural plasticity’ brain plasticity,) یا Rewiring بھی کہا جاتا ہے ہمارے دماغ کا اعصابی نظام پرانی سیکھی گئی چیزوں کو دوبارہ جوڑتا ہے ۔جس کی وجہ سے معلومات کو کبھی بھولتے نہیں ہیں۔ دماغ میں اعصابی نیٹ ورکس کی نشوونما اور تنظیم نو کے ذریعے تبدیل ہونے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔ یہ تب ہوتا ہے جب دماغ کو کسی طرح سے کام کرنے کے لئے دوبارہ جوڑا جاتا ہے ۔عمر کے کسی بھی حصے میں ری وائرنگ کا عمل ہوتا ہے ۔کیا ہی اچھا ہوکہ ہماری نسلیں بزرگوں کو کارآمد ہونے کا خوب احساس دلانے والی ہوں ۔ہمارے بزرگ افراد تھکن سے زیادہ زندگی کو نئے طرز پر گزارنے کے لیے مستعد ہوں ،وہ صحت کے اصولوں کا خیال رکھنے والے ہوں ۔
یہ جملہ عموماً سنا ہے کہــ’’ اب ہم سے کام نہیں ہوتا۔ ‘‘،’’ اب ہمارے زمانے گئے ۔‘‘،’’ اب ہمارے چین سے بسر کرنے کے دن ہیں ۔‘‘’’ اب کیا ہے قبر میں پیر لٹک رہے ہیں ۔‘‘؛یہ جملے مایوس کن جملے ہیں ۔ایسےجملوں سے بزرگوں کی تنہائی دل گرفتہ و دلگیر احساسات کا شکار ہوجاتی ہے ۔بزرگ گھروں کو کنارے کر کے چھوڑ نہ دئیے جائیں، بلکہ زندگی کے ہر لمحے کو کارآمد بنانے کا تصور پیش کیا جائے ۔خود بزرگ افراد بھی صحت و تندرستی کا خصوصی خیال رکھنے والے ہوں ۔صحت مندی کا تعلق اپنی سوچ سے ہے ،سوچ توانا ہوتو خیالات و صحت سبھی توانا ہوں گے ۔
ہمیں اسلامی دنیا سے بھی بے شمار مثالیں مل جائیں گی، جیسے ایک مثال تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ہے۔ اپنی عمر کے آخری حصے میں بصرہ چلی گئیں اور ایک محدثہ کی حیثیت سے درس و تدریس کے فرائض انجام دیتی رہیں، کئی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ نے استفادہ کیا، ان سے اسلام کا فہم حاصل کیا ۔محدثہ ام الدرداء ؒتابعیہ گزری ہیں جواپنی عمر کے آخری حصہ تک دین کی خدمت انجام دیتی رہیں ۔
ملائشیا کے صدر معاصر محمد نوے سال کے تھے، نہ تھکن کا احساس نہ آرام طلبی کی خواہش۔حماس کے لیڈر شیخ احمد یاسین کو ہم نے ان کے مشن میں کسی علت و معذروری کو مزاحمت بنتے نہیں دیکھا ۔اسی طرح دیگر اقوام ِ عالم میں بھی اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ جاپان کی پینٹنگ ایوارڈ یافتہ خاتون 95سال کی عمر میں پوری توانائی کے ساتھ آج بھی نئے طرز پر پینٹنگ کرتی ہے ۔ھادیہ نے بنگلور کی 88 سال کی بزرگ خاتون سے متعارف کروایا جس نے اپنی تجارت کو کامیاب بنایا ۔آپ ارمیلا نامی وطنی بہن راجستھانی فوڈ چینل پر ماں ریسپی کے نام سے نوے سال کی خاتون کو کھانا پکانا سکھاتے ہوئے پائیں گے ۔برادرانِ وطن کے پاس ہم نے میوزک کمیونٹی میں بزرگوں کو سُراور تال سکھاتے ہوئے پایا ہے ۔ سندھی برادری کو ہم نے بزرگ انسانوں کو اپنی دکانوں پر پوری مستعدی سے کیش کاؤنٹر پر نگرانی کرتے ہوئے پایا ۔ان مثالوں کو سامنے رکھیں تو ہمارے پاس بھی مایوس کن جملوں کے برعکس پرجوش اور نئے خواب بننے والے جملوں کی فہرست بنتی ہے ،وہ یہ کہ بزرگ کہیں کہ بیٹا ہمارے پاس اپنے پروجیکٹ ہیں ،ہم اپنے ان خوابوں کو اب تعبیر دیں گے جنہیں جوانی میں فکرِ روزگار نے فرصت نہ دی ۔ ان بزرگوں سے ہم بھی کہیں کہ ننھے بچوں کو آپ کی ضرورت ہے ۔یہ تصور بدلنا ہوگا کہ کام نہ کرنے سے آرام ہے ،یہ تصور آرام ہی تو بیماریاں لاتا ہے اور مصروف ِ مرض رکھتا ہے، پرشوق مصروفیت تو اس آیت کی عکاسی کرتی ہے’’ خلق الانسان فی کبد ‘‘( ہم نے انسان کوسخت ترین مشقت میں پیدا کیا ۔)

بزرگوں کے پروجیکٹ درج ذیل ہوسکتے ہیں :
(1) محلے کے بچوں کو مکتب پڑھائیں۔بچوں کے درمیان رہنے سے بچہ بچوں جیسا رہتا ہے اور توانا دوستوں کے درمیان توانائی محسوس کرتا ہے ۔موبائل پکڑتی نسلوں کو انگلی پکڑ کرمسجد لے جاتے ہوئے دادا جان کی سخت ضرورت ہے ۔وہ دادا محلے کے یا جگت دادا بن جائیں۔ محلےکے یتیم بچے بھی ان کے سایۂ عاطفت میں وقت گزار کر سرشار ہوں تو ایسے بزرگی کے کیا کہنے ۔
(2)مادری زبان آتی ہو تو اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے انگلش اور دیگر زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے منتظر ہیں کہ کوئی بزرگ خاتون اور بزرگ مرد اسے اردو زبان سکھائیں ۔
(3) کمزور پڑتے ازدواجی تعلقات کے دوران پری میرج ،پوسٹ میرج کاؤنسلنگ میں زندگی کے تئیں سنجیدگی سکھانے کے لیے نسلوں کو بزرگوں کی شدید ضرورت ہے۔
(4) وہ بزرگ جو کسی زبان کو پڑھاتے ہوئے بزرگ ہوئے ہیں ،اخبار و میگزین میں ان کی شدید ضرورت ہے کہ وہ پروف ریڈنگ کریں۔ اخبارات میں پروف ریڈرس کی کمی معیار کودن بہ دن گراتی جارہی ہے ۔ ہم نے ان بزرگوں کو بھی دیکھا جو اخبار یا میگزین کی غلطی کی نشان دہی پر خط لکھ کر توجہ دلایا کرتے تھے ،اب تو حالت اس نہج پر ہے کہ اخبارات میں’’ حیا اور پردہ‘‘ جیسے مضامین پر عریاں و نیم عریاں تصاویر لگ جاتی ہیں، دیکھ کرہنس دینے والے ہزار ہیں ،متوجہ کرکے اصلاح دلانے والے اب عنقا ہیں۔
(5) اسکول کی دہلیز پر نگراں کار کے طور بھی تو بزرگ افراد کی نگرانی کی ضرورت ہے ،بزرگوں کا مشاہدہ تیز اور تجربہ۔ اولڈ ایج ہوم جو والدین کو بوجھ سمجھ کر بھیج دیا جاتا ہے، بلاشبہ کسی طور درست نہیں ہے، اس پر بھی ماہرین کی آراء ہیں کہ Peer Group سائیکلوجی میں یہ بات ا ہم ہے کہ انسان کا تعلق ہم عمروں سے ہو، اور ذہنی ہم آہنگی ہو تو انسان کا انر سیلف مطمئن رہتا ہے ۔غیری فطری اولڈ ایج ہوم کے بجائے گروپ بن ہی جاتے ہیں ۔جیسے صبح پر واک پر جانے والے بزرگ جو شوگر پیشنٹ، تھائرڈ پیشنٹ،یا ہارٹ پیشنٹ ہیں ؛واک کے دوران واکنگ پلازہ میں ہم عمروں کا گروپ بن جاتا ہے ۔ میراتھن بھی ایک عمر کا ایک گروپ ہی فام ہوتا ہے ۔اسی طرح ریٹائرڈ ٹیچر خواتین کی ایک کمیونٹی بن جاتی ہے ۔مساجد میں محلے میں ہم عمر بزرگ ایک دوسرے سے دوستی بنالیتے ہیں ۔
(6)خواتین مسجد میں آنے کی عادی ہوں اور خواتین کا نظم مساجد ہو تو عین ممکن ہے کہ وہاں بھی انہیں ہم عمر خواتین کا گروہ مل جائے ۔
(7)بزرگ مرد و خواتین مساجد میں مکتب چلائیں، محلے کے پورے بچے ان کے پاس مکتب میںسیکھیں ۔اسی مسجد کے ہال میں بزرگ افراد غریب بچوں کے لیے بنیادی تصورات کسی بھی مضمون کے مفت سکھائیں ۔
(8) راستوں کی خالی جگہ پر کارپوریشن سے بات کرکے بزرگ افراد کی کمیونٹی پودوں کی دیکھ بھال کا نظم کرواسکتی ہے۔
(9) رشتہ و نسبت کے کام بزرگ افراد کی مداخلت منتظر ہیں کہ وہ رشتہ نسبت کے کام میں باتعامل معاشرے کا تعاون کریں مرد وخواتین۔
( 10) قرآن فہمی کے کورسیز بھی بزرگ خواتین اپنے محلوں میں چلاسکتی ہیں ۔ کسی سلائی سینٹر کی نگران کار ہو سکتی ہیں۔
( 11) تعلیمی اداروں میں ریٹائرڈ انجنیئرز سے میتھ اور فزیکس پر ایکسٹینشن لیکچر رکھا جاسکتا ہے ۔میتھ کے ماہر بزرگ سے بنیادی تصورات کی کلاس کروائی جاسکتی ہے ۔پروفیسر جوشی ڈائٹ Dite کے ریٹائرڈ تھے۔ ہمارے محلے میں بچوں کو مسابقتی امتحان کی تیاری کرواتے ہوئے اب بھی اپنی آخری عمر میں فیض پہنچارہے ہیں ۔ارمیلا میڈیم بچوں کو ایم جی ایم کے کیمپس میں Abacus ویدک میٹھ کی کلاسیز لیتی ہیں، 88 سالہ خاتون ہیں۔
(12)بچوں کو Best out of waste فاضل اشیاء سے کار آمد چیز بنانے کے پروجیکٹ ملتے ہیں ۔بزرگ افراد فضول چیزوں سے کار آمد چیزیں بنانا بچوں کو سکھا سکتے ہیں۔’’ رفیق منزل‘‘ میں پچھلے دنوں ایک آرٹیکل ’’ردی کی ٹوکری سے تعلیم تک ‘‘ شائع ہوا۔جناب اروند گپتا صاحب ،جنہوں نے بچوں کے اندر موجود تخلیقیت کونشو نما دینے اور سائنس میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے بے شمار کھلونے ایجاد کیےہیں۔ اروند گپتا سکھاتے ہیں کہ کس طرح چند دیا سلائیوں اور ربڑ کے ایک ٹکڑے سے بنے کھلونے سے، بچے یہ خود بتا دیں گے کہ پل اور چھت مثلث کیوں ہوتے ہیں ۔اسی لئے آپ کو کھلونوں کا سائنسدان بھی کہا جاتا۔ یہ بھی قابل تقلید ہے ۔
(13) بزرگ افراد کے ہم عمر محفلوں میں صحت،غذا تغذیہ، معاشرت، سیاست پہلے اور اب،تعلیم،حکومت کی سینئر سٹیزن اسکیم،بیوہ بزرگ خاتون کو ملنے والا فنڈ ،کینسر کے علاج پر ملنے والی سرکاری مراعات پر بات ہوسکتی ہے ۔خیالات کا تبادلہ کرتے ہوئے ہر ایک دوسرے سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، اپنے حقوق کے حصول کا شعور پیدا ہوگا ۔
دورِ بڑھاپا عمدہ گزرے گا ۔
انسانی حقوق کے باب میں یہ بھی اہم بات ہے کہ بزرگ افراد سے بیزاری ہم خود پر طاری نہ کریں۔ انہیں امکانات کی دنیا دکھائیں ۔ انسانیت کے بہی خواہی کے پروجیکٹ ان کے سامنے رکھیں۔ وہ خود بھی اپنے دن موت کے انتظار کے بجائے اپنی آخری سانس تک کار آمد بنانے پر فوکس رہیں ۔

ایکی گائی Ikigai (مقصد زندگی) جاپان کی ایک بک ہے ،جس میں جاپان کے ایک شہر کا تذکرہ ہے، جہاں افراد نوے سال تک ریٹائرڈ نہیں ہوتے ۔وہاں تھک کر بیٹھ جانے کا کوئی تصور ہی نہیں، وجہ یہی کہ اپنا پسندیدہ کام کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ٢٠٢٢