اگست ٢٠٢٢
اس سال ہندوستان کو آزاد ہوئے 75 سال مکمل ہونے اور 76 ویں ہندوستانی یوم آزادی کا جشن منایا جائے گا۔ ہندوستان ان تمام رہنماؤں کو سلام کرتا ہے جنہوں نے ماضی میں ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کے لیے برطانوی حکمرانی سے آزادی حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ لیکن ہمارے رہنماؤں،آزادی پسندوں، اورعام لوگوں نے مل کر آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا اور آزادی کے حصول کے لیے پرعزم تھے۔ اس جدوجہد میں ہر کس و ناکس نے اپنا تعاون پیش کیا۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں شامل افراد کا تعلق مختلف مذاہب ، ذات، برادری اور ثقافت سے تھا۔
انگریزوں کا پہلا قافلہ 1601 ءمیں دور جہانگیری میں ہی ہندوستان آیاتھا،اس حساب سے ہندوستان سے انگریزوں کا انخلاء 1947 ءمیں 346 ءسال بعد ہوا۔ اس دوران ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی تھی، جس کا ہرصفحہ ہندوستانیوں کے خون سے لالہ زار ہے، جذبۂ آزادی سے سرشار اورسر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب وتمدن کی بقاء کیلئے بےخطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان پیش پیش تھے،جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں اگر الگ کردی جائیں تو ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کبھی مکمل نہ ہوگی۔
1803ءمیں ہندوستان سے اسلامی اقتدار ختم ہوا ۔وحشت و بربریت ،ظلم وستم کی گھنگھور گھٹائیں پوری فضا کو گھیرچکی تھیں، وطنی آزادی اورمذہبی تشخص ان کے رحم وکرم پر ہوگیا، پرفتن ماحول اور حالات میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بیٹے شاه عبدالعزیز دہلویؒ نے پوری جرأت وبےباکی کےساتھ فتوی جاری کیاکہ ’’ہندوستان دارالحرب ہے۔‘‘یعنی اب ملک غلام ہوچکا ہے۔ لهذا، بلاتفریق مذہب وملت ہر ہندوستانی پر انگریزی تسلط کے خلاف جہاد فرض ہے۔ ان کے فتویٰ کی روشنی میں علماء کھڑے ہوئے۔ سید احمد شہید اور شاه اسماعیل شہید رحمہما الله آگے بڑھے، اور پورے ملک کا دوره کر کے قوم کو جگایا اور ان میں حریت کاجذبہ پیدا کرکے آزادی کی آگ لگادی۔1831 ء میں بالاکوٹ کی پہاڑی پر لڑکر جام شہادت نوش کیا۔ دھیرے دھیرے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی چنگاریاں سلگنے لگیں۔
1857 ءمیں علماء نے پھر جہاد کا فتوی دیا ،جس کی وجہ سے انگیزوں کے خلاف معرکہ کار زار ایک بار پھر گرم ہو گیا۔دوسری طرف انگریزی فوجیں پورے ملک میں پھیل چکی تھیں۔ ہندوستان سے مذہبی بیداری و سرگرمی ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے بے شمار عیسائی مبلغین (پادریوں) کو بھی میدان میں اتار دیا تھا، جنہیں انگریزی فوج کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی،جو جگہ جگہ تقریریں کرتے اور عیسائیت کا پرچار کرتے ،اسی دوران یہ خبر گشت کرنے لگی کہ انگریزی حکومت نے ہندومسلم کا مذہب خراب کرنے کےلیے اور دونوں کےدرمیان اختلاف پیدا کرنے کیلئے آٹے میں گائے اور سور کی ہڈی کا براده ملادیا ہے، کنویں میں گائے اور سور کا گوشت ڈلوادیا ہے۔ان واقعات نے ہندوستانیوں کےدلوں میں انگریزوں کےخلاف نفرت کی ایک ایسی آگ لگادی، جس کی وجہ سےانگریزی فوج میں ملازمت کررہے ہندومسلم سب نے زبردست احتجاج کیا۔کلکتہ سےاحتجاج کی جو چنگاریاں اٹھی تھیں، وہ دھیرے دھیرے پورے ملک میں شعلہ بن گئیں۔ احتجاج کرنے والے سپاہیوں اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی،اور جہاں جہاں احتجاج ہوا اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے سخت سے سخت کاروائی کی گئی،احتجاجیوں کی بندوقیں چھین لی گئیں وردیاں پھاڑ دی گئیں۔
1857 ءمیں شاملی کے میدان میں علماء حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی قیادت میں بانیٔ دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی ،مولانا رشید احمد گنگوہ ؒ،اور حافظ ضامن شہید( رحمہم اللہ) وغیرہ نے انگریزوں سے مردانہ وار مقابلہ کیا۔ بغاوت پھوٹنے کے بعد زیادہ تر آزادی کے دیوانوں نے دہلی کا رخ کیا اور پورے عزم وحوصلہ کے ساتھ دہلی شہر اور مغلیہ حکومت کا دفاع کرتے رہے ،مگر انگریزوں کی منظم فوج کےسامنے آزادی کی یہ جنگ ناکام ہوگئی، اور انگریزوں نے 20 ستمبر 1857 ءکو لال قلعہ پر باقاعده قبضہ کرلیا اور سلطنت مغلیہ کےآخری بادشاہ بہادرشاه ظفر کو گرفتار کرکے رنگون (برما) جلاوطن کر دیاگیا۔1857 ءکی جنگ جسے انگریزوں نےغدر کا نام دیاتھا، اس جنگ کے ناکام ہونے کے بعد انگریزوں نےظلم وستم کی ایسی بجلیاں گرائیں کہ جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ جنگ آزادی میں سب سے پیش پیش مسلمان اور علماء تھے، اسی لئے دہلی سے لاہور تک کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر علماء کی لاشیں لٹکی ہوئی نہیں تھیں۔ چا لیس ہزار سے زائد علماء کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا تھا۔
30 مئی 1866 ءکو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور ان کے ساتھیوں نےدیوبند میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر ’’ دارالعلوم دیوبند‘‘کے نام سےپورےعالم میں مشہور ہوا 1878ءمیں اسی درسگاہ کے ایک فرزند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ جو آگے چل کر’’شیخ الهند‘‘ کےلقب سے مشہورہوئے،’’ تحریک ریشمی رومال‘‘یا بزبانِ حکومت ِبرٹش ’’ ریشمی خطوط سازش کیس ‘‘ انهی کی پالیسی کاحصہ تھی۔’’ ثمرة التربیت ‘‘کے نام سے ایک انجمن قائم کی گئی، جس کا مقصد انقلابی مجاهدين تیارکرنا تھا،اور1911 ءمیں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کلکتہ سےالهلال اخبارکے ذریعہ آزادی کا صور پھونکا تھا۔ 1915ءمیں ریشمی رومال کی تحریک چلی،1916 ءمیں ہندو مسلم اتحادکی تحریک چلی،1917ءمیں مہاتماگاندھی نےچمپارن میں ڈانڈی مارچ اورنمک ستیاگرہ تحریک چلائی اور 1919 ءمیں ’’ جمعیۃالانصار ‘‘کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی، جس کے پہلے ناظم مولانا عبیداللہ سندھی منتخب ہوئے، 23 نومبر 1919 ءمیں دہلی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا، اور اسی اجلاس میں باضابطہ ’’جمعیۃعلماء هند‘‘ کی تشکیل ہوئی۔ جس کے پہلے صدر مفتی محمد کفایت اللہؒ منتخب ہوئے،1919 ءمیں ہی امرتسر کےجلیاں والا باغ کے ایک جلسے میں انگریزوں کی فائرنگ سے خونی واردات ہوئی۔ جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے، جس کے نشانات آج بھی باقی ہیں۔ وہاں پر لاکھوں مسلمان شہید ہوئے جن میں عبدالغنی ،حشمت اللہ خاں ،محمد دین، عبدالکریم،میر بخش ،محمد شفیع صاحب ،شیر علی شیر کے نام قابل ذکر ہیں۔ 1920 ءمیں حضرت شیخ الهند نےترک موالات کافتویٰ دیا، جسے مولانا ابوالمحاسن سجاد بہاریؒ نے مرتب کرکے جمعیۃکی طرف سے شائع کیا،1921 ءمیں مولانا حسین احمد مدنی نے کراچی میں پوری جرأت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ ’’گورنمنٹ برطانیہ کی اعانت اورملازمت حرام ہے‘‘ 1922 ءمیں ہندو مسلم اتحاد ختم کرنےکے لئے انگریزوں نے شُدھی اور سنگٹھن تحریکیں شروع کیں، جسکی وجہ سے بڑے پیمانہ پرملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔
1926 ءمیں کلکتہ میں جمعیۃ علماء ہند کےاجلاس میں جسکی صدارت مولانا سید سلیمان ندویؒ نےکی ،مکمل آزادی کی قرارداد منظور ہوئی۔ 1930ء میں ونمک آندولن، 1935 میں حکومت ہند کا ایک دستور بنایاگیا ، 1942 میں انگریزو ہندوستان چھوڑو تحریک چلی، 1946ء میں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پر پولیس فائرنگ کے دوران ہزاروں مسلمان شہیدہوئے۔ کئی لوگوں نے قیدوبند کے مصائب جھیلے، بالآخر برٹش حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی اور 15اگست 1947ءکو ملک آزاد ہوگیا۔
تحریک آزادی کی پوری جدوجہد کا خلاصہ کریں تو وہ تین الفاظ کے گرد گھومتی ہیں جو آزادی کا بنیادی تصور بھی ہیں:
(۱) قانون کی حکمرانی (Rule of Law)
(۲) جمہوریت (Democracy)
(۳) مذہبی آزادی
آزادی کے بعد ’’ ہندوستان ایک آزاد، سماج وادی، جمہوری ملک کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف، آزادئ خیال،آزادئ اظہار رائے، آزادئ عقیدہ مذہب وعبادات، انفرادی تشخص اوراحترام کو یقینی بنایا جائے گا اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم ودائم رکها جائے گا۔‘‘
جہاں کسی کی آزادیٔ رائے پر قدغن نہ ہو، جہاں کوئی کسی کے حقوق کو سلب نہ کر سکے۔ اسی طرح آپ کی مذہبی آزادی سے بھی وہ نام نہاد آزادی مراد نہیں ہے، جو آج سیکولر ریاستوں نے اپنی رعایا کو منافقانہ طور پر دے رکھی ہے۔
ملک اس سال 76 واں یوم آزادی منا رہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ 76 سالوں میں ہر Community کو اُس کی حقیقی آزادی میسر آئی بھی یا نہیں، یا پھر 76 سال پہلے جہاں تھے اب بھی و ہیں ہیں۔ بدقسمتی سے ہندوستان میں سیاست دان ہوں میڈیا ہاؤسز ، یا پھر بیوروکریسی سبھی اپنی آزادی کے تحفظ کے نام پر ملکی وقار کو داؤ پر لگا رہے ہیں ،جو کہ ایک مہذب معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہے۔ انسان پر انسان کی حاکمیت کا نام غلامی ہے۔ فرد کی غلامی فقط فرد کو انسانی اختیارات سے محروم کردیتی ہے، جبکہ قوم کی غلامی پوری قوم کو اپنے وسائلِ پیداوار اور قومی تہذیب و تمدّن سے محروم کرکے رکھ دیتی ہے اور بعض اوقات اسے تباہ و برباد کردیتی ہے۔
انگریزوں کا پہلا قافلہ 1601 ءمیں دور جہانگیری میں ہی ہندوستان آیاتھا،اس حساب سے ہندوستان سے انگریزوں کا انخلاء 1947 ءمیں 346 ءسال بعد ہوا۔ اس دوران ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی تھی، جس کا ہرصفحہ ہندوستانیوں کے خون سے لالہ زار ہے، جذبۂ آزادی سے سرشار اورسر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب وتمدن کی بقاء کیلئے بےخطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان پیش پیش تھے،جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں اگر الگ کردی جائیں تو ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کبھی مکمل نہ ہوگی۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ٢٠٢٢