امی کی بچپن ہی سے نصیحت ہوتی تھی” جو بھی کرو اللہ کے لیے کرو۔” امی شروع ہی سے نماز کے لیے بہت سختی کرتی تھیں مگر روزے کے لیے بالکل نہیں۔کہتی تھیں روزہ شعور آنے کے بعد رکھنا۔روزہ کا مطلب بھوکا رہنا نہیں ہے۔ کالج میں غیر مسلم لڑکیاں تھیں تو مجھے نصیحت تھی کہ ان سے حسن سلوک کروں۔اور ان کے لیے اچھی مسلم بنوں تاکہ اسلام کی اچھی تصویر ان کے سامنے پیش ہو۔بھیا کے بہت دوست تھے ۔ کوئی کہتا آپ کا بیٹا بگڑ جائیگا تو امی کا جواب ہوتا” ہم نے بچوں کو حلال کھلایا ہے، ان شاء اللہ بگڑینگے نہیں ۔”جماعت کے خدمت خلق کے جتنے بھی کام امی کر سکیں وہ سب پپا کی اجازت اور سپورٹ سے کیے۔ ممی اور پپا میں بہت Understanding تھی۔ امی نے سسرال کے رشتوں کو بھی خوب نبھایا اور ہمیں ددھیال سے جوڑے رکھا۔ضعیف دادی ماں اور پھپو کی بھی خوب خدمت کی۔
(بہو سمیہ جو کہ نور جہاں باجی کی بھانجی بھی ہیں۔)
ہمارے ددھیال والوں کے اصرار پر شادی ہال لیا گیا تھا، جس پر امی ( ساس نور جہاں صاحبہ ) نے سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ دلہن کو گھر سے لے جائیں۔جس پر سب کو حیرانی تھی۔
شادی کے پانچ سال تک مجھے اولاد نہ ہوئی تو میں اور مائیکے والے فکر مند تھے ،ایک ڈر تھا،لیکن امی پر کوئی اثر نہیں تھا۔ میں دبے دبے انداز میں ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہتی تو جماعت کی مصروفیت بتاتیں ۔اصل میں ان کا اللہ پر بہت توکل تھا۔
پانچ سال بعد مجھے اللہ نے بیٹے سے نوازا تو بہت خوشی کا اظہار کیا۔مجھے اس بات کا بہت افسوس ہے کہ میرے بیٹے کی پیدائش (اپریل) کے صرف چار ماہ بعد اگست 2017 ءمیں امی کا انتقال ہوگیا۔
امی کا اسکول غریب محلے میں تھا ۔ جاتے وقت وہ اپنے ساتھ زائد ناشتہ غریب بچوں کے لیے لے جاتی تھیں۔
شادی کے بعد مجھ پر کسی قسم کی پابندی نہ تھی، صرف اس بات کی تاکید تھی کہ کھانا ضائع نہ ہو۔ بچوں کی پلیٹ میں چھوٹے کھانے کو دیکھ کر کہتی تھیں کہ یہ تو چڑیا کا پوراخاندان کھا سکتا ہے۔کسی کا بھی جھوٹا کھانے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔
بہت نرم دل کی مالک تھیں۔ایک نو مسلم خاتون کی ڈیلیوری پر اپنا نیا گدااس غریب خاتون کو دے دیا۔اس دن ان کا بیڈ بغیر گدے کے بہت خراب دکھائی دے رہا تھا۔ کہنے لگیں’’ اس بیچاری کو کتنا آرام لگ رہا ہوگا!‘‘
اپنی ذات کا انہیں بالکل بھی خیال نہ تھا۔ہمیشہ دوسروں کے بارے میں فکر مند رہتی تھیں۔مئی کے شدید گرمی میں دو غریب بچیوں کے گھر جاکر انھیں ساتھ لائیں اور جامعۃ الصالحات میں ان کا ایڈمیشن کروایا۔
جون میں وہ بہت کمزور ہوگئی تھیں۔ پیدل چلنے پر تھک جارہی تھیں۔سانس پھول رہی تھی۔کھانے سے رغبت نہیں رہی تھی۔کمزور ہو گئی تھیں،اس کے باوجود ان کی مصروفیات میں کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔
جماعت کی جانب سے دی جانے والی راشن کٹ بہت چھان بین کرکے ضرورت مندوں کے گھر پہنچاتی تھیں۔ان کی تنخواہ میں سے بھی ضرورتمندوں کا وظیفہ مقرر تھا۔
پانی کی کمی ، یورین انفیکشن ،پھر یکے بعد دیگرے کئی عوارض بہانہ بنے، اور 12 دن شدید بیماری کے بعد دواخانے میں نور جہاں باجی اس دارفانی سے رخصت ہوئیں۔
اللہ ان کی ان بےلوث خدمات کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ نور جہاں باجی کی روح کو نور کا اعلی مقام عطا فرمائے۔
تحسین عامر
ان کے انتقال کی غمناک خبر سن کر ہم بہت دور سے مرحومہ کے گھر آئے ہیں،لیکن گھر میں داخل نہیں ہو سکے ہیں۔گھر کے باہر بڑا سا صحن بھی خواتین سے کھچاکھچ بھرا ہے۔جبکہ بہت سارے مرد حضرات داخلی دروازے کے باہر دونوں جانب کھڑے تھے۔
سمجھ میں نہیں آرہا تھا ہم کیا کریں؟اندر سے آوازیں آرہی تھیں” باہر نکلیں !اندر جگہ نہیں ہے۔“
اسی بیچ کسی نے رہنمائی کی،گھر کے بالکل سامنے مدرسہ جامعۃ الصالحات چلیے۔ہم پلٹ کر وہاں سے مدرسہ میں داخل ہوئے۔دیکھا کلاسز میں بہت سی خواتین بیٹھی ہیں۔
ہم بھی خاموشی سے وہاں بیٹھ گئے۔جائزہ لینے لگے،بہت سی خواتین ہمارے لیے اجنبی تھیں۔
آہستہ آہستہ تعارف ہوا،کچھ پڑوسی خواتین تھیں،کچھ تحریکی خواتین ۔ چہروں سے صاف ظاہر تھا،سب دکھی تھیں، مغموم تھیں،محرومہ کی تعریف کر رہی تھیں، دعائیہ کلمات کہہ رہی تھیں۔
ایک خاتون نے جب دوسری قریبی خاتون سے پوچھا” آپ مرحومہ کی کون ہیں؟“
جواب تھا ” میں ان کی پڑوسن ہوں۔ سب کچھ جانتی ہوں۔“
ایسی عورت میں نے زندگی میں نہیں دیکھی۔ مدرسہ کی گھڑکی سے اشارہ کرکے بتایا کہ صبح صبح گھر کے صحن کے ساتھ یہ راستہ بھی جھاڑتی تھیں۔دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ ٹیچر ہیں۔ ان پڑوسن صاحبہ نے پوچھا بھی تھا” آپ کی جوائنٹ فیملی ہے،صحن مشترکہ ہے،دوسری خواتین بھی صفائی کرسکتی ہیں،آپ کیوں کرتی ہیں؟آپ تو ٹیچر ہیں؟“
جواب تھا: ”ٹیچر ہوں ،اسی لیے تو کرتی ہوں۔بعد میں سارے کام تو وہ خواتین کرتی ہیں۔میں اسکول میں ہوتی ہوں۔“
میں دل سے مان گئی۔ پڑوسی کی گواہی،اب کیا چاہیے مرحومہ کو!
میرا بھی پہلا تاثر یہی تھا مرحومہ کے بارے میں۔ دیکھ کر تو لگتا ہی نہیں تھا کہ ٹیچر ہیں۔عام طور سے ٹیچر خواتین ان کےجدید برقعے، پرس اور سینڈل سے پہچانی جاتی ہیں۔ لیکن یہ مختلف تحریکی ٹیچر تھیں۔بہت سادہ،اخلاص سے بھر پور۔
میری ان سے بہت کم گنی چنی ملاقاتیں تھیں۔میرے بچے چونکہ اس وقت چھوٹے تھے،میں بہت کم اجتماعات میں شریک ہوتی تھی۔ اور شریک بھی ہوتی تو وقفہ میں بچوں کی ضروریات میں مصروف رہتی۔میں نے ان کو وقفہ میں جب بھی دیکھا،دستر خوان بچھاتے اٹھاتے۔تیزی سے مشخابیں لاتے لے جاتے دیکھا۔ وقفہ میں دستر خوان بچھا کر کھانے کے لیے چلیے کی ایسی آواز لگاتی تھیں مانو یہ ان کے گھر کا پروگرام ہے۔ کوئی مہمان چھوٹ نہ جائے،بھوکا نہ رہ جائے۔
جماعت سے میری وابستگی کا ایک سبب نورجہاں باجی کی اخلاص سے پر شخصیت بھی تھی۔ ان کے انتقال پرملال پرلوگوں کے کثیر مجمعے کو دیکھ کراوران کے احساسات جان کر میں نور جہاں باجی کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہیںسکی ،اور اس احساس کے ساتھ لوٹنا پڑا کہ کاش! میں نے ان سے دوستی کی ہوتی، ان کی صحبت میں رہی ہوتی، انتقال کے بعدبھی لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتی گئیں۔
مغموم دل، نم ناک آنکھوں اور دعائیہ کلمات کے ساتھ ہم لوگ رخصت ہوگئے۔
محمد عبد الجلیل صاحب ( سابق امیر مقامی ناندیڑ )
ان کی دوسری خوبی یہ تھی کہ انہوں نے کبھی اپنے اندر کے کارکن کو مرنے نہیں دیا ۔ تحریکی سفر کا گزرتا وقت بسا اوقات افراد کو منصب اور رکھ رکھاؤ کی راہ پر ڈال کر زمینی محنت اور جسمانی دوڑ دھوپ سے دور کر دیتا ہے۔ باجی پیشے سے معلمہ تھیں۔ عالمہ کا کورس بھی کیا تھا ۔ درس اور خطاب بہتر تھا، لیکن باجی نے اپنی شناخت اسٹیج اور ڈائس کی نہیں بنائی۔ وہ آخر دم تک فیلڈ ورکر بن کر رہیں۔ صرف مہمات اور جماعت کی طرف سے کام دئے جانے پر نہیں ،بلکہ عام طور سے ان کا معمول تھا کہ گھر گھر پہنچ کر جماعت کا لٹریچر خواتین کو دیا کرتی تھیں۔ باجی کا ایک وصف تھا کہ وہ دو رنگی سے پاک تھیں۔ ان کا ظاہر اور باطن ایک تھا ۔ ان کی جماعتی زندگی اور نجی زندگی ایک جیسی تھی۔ جہاں وہ جماعتی خواتین کے دل موہ لیتی تھیں،وہیں گھر ،خاندان ، محلہ،جائےملازمت پر بھی دلوں کو جیت لیا تھا۔ ان کے صدر مدرس اور اسٹاف بھی ان کی عظمت کے قائل تھے۔
وسیع تر تعلقات اور ان تعلقات کو خوشگوار بنائے رکھنا ان کا ایک اور نمایاں وصف تھا۔ عزیز واقارب کے ساتھ محلے ، عام خواتین سے لے کر با اثر افراد تک ان کی شخصیت کے گرویدہ تھے۔ دیگلور ناکہ پر سرکل اور مقام کے کتنے پروگرام ہیں جو وہاں کے بعض فنکشن ہال میں ہوتے تھے ،اور یہ ہال باجی کے نام سے پوری خوشدلی کے ساتھ بلامعاوضہ یا نہایت رعایت پر مل جاتے تھے۔
خدمت خلق اور ضرورتمندوں کی مدد کا جذبہ باجی کے رگ وپے میں شامل تھا ۔ عام ضرورتمندوں کی بے لوث خدمت کے ساتھ تحریکی گھرانوں کی خدمت کےلیے وہ دن اور رات کے ہر حصہ میں پیش پیش رہتی تھیں۔ اپنے گھر کی ضرورت کی چیزوں کو وہ ایسے ہمیشہ دوسروں کے لئے تیار رکھتی تھیں جیسے وہ ان چیزوں کو اسی کام کے لئے وقف کر رکھا ہو۔ وہ پابندی سے اسکول کے ٹفن کو اس طرح اور اتنے مقدار میں لے جاتی تھیں کہ غریب طلبا وطالبات اس میں شریک ہو سکیں۔ ان کے زیادہ کارنامے ان کے اور اللہ کے درمیان والے تھے۔ انھوں نے اپنے Greatness کو چھپائےرکھا تھا۔
نور جہاں باجی کی زندگی ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔تحریک کی ایک رکن کیسی ہونی چاہیے ،ہم ان کی زندگی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ہماری بہن ایک اسکول ٹیچر تھیں۔بہترین استاد کا رول ادا کیا ۔ انہیں رکنیت سے پہلے 2005 ءمیں جماعت کی طرف سے’’ بیسٹ ٹیچر ‘‘کا ایوارڈ ملا۔ حیدرآباد میں ارکان کا اجتماع تھا، وہاں نور جہاں باجی کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ دوسروں کا خیال رکھنا ، ایثار و قربانی کا جذبہ ،ہر ایک کے ساتھ بے انتہا محبت ، تڑپ ، فکر ؛یہ ہم نے وہاں پر دیکھا۔ باجی سفر میں بھی سب کا خیال رکھتیں اور وہاں جانے کے بعد بھی ۔ کھانے کا جب ٹائم ہوتا،سب لوگ لائن میں لگ کر اپنا اپنا کھانا لیتے۔ مگر باجی ان بزرگ خواتین کےلیے جو وہاں تک چل کر نہیں جاسکتی تھیں، لائن میں لگ کر کھانا لاتی تھیں، اور ان لوگوں کو دیا کرتی تھیں۔
کسی کے بچے ستاتے تو جھٹ انہیں گود میں لے لیتیں ۔ اپنے پرس میں
ہمیشہ کھانے کی چیزیں رکھتیں،جھٹ وہ نکال کر ان بچوں کو دے دیتیں ۔ جس کے بچوں کو دودھ کی ضرورت ہوتی تو منگوانے کی کوشش کرتیں۔
رات میں جب سب سوجاتے تو باجی سب کا خیال رکھتیں۔ کون کہاں سوئیں ، کیسا سوئیں،ٹھیک سے سوئے یا نہیں ،اوڑھنے کے لیے چادر ہے یا نہیں۔
ہم لوگ کہتے باجی آپ کہاں سوئیں گی ؟کہتیںمیں کہیں بھی جگہ دیکھ کر سو جاؤں گی۔ اتنا ایثار و قربانی والا جذبہ باجی میں ہم نے دیکھا۔
باجی کے گھر سے اسکول جانے کا جو راستہ تھا۔اس میں غریب لوگوں کے گھر تھے۔باجی آتے جاتے ان لوگوں کی خبر لیتیں۔ جس چیز کی ضرورت ہوتی ان تک وہ چیز پہنچاتیں۔ کسی کے گھر کھانے کو نہیں ہوتا ،معلوم ہوتا تو اسکول سے گھر آکر کھانا بناتیں، اور تازہ کھانا انہیں لے جاکر دیتیں۔ کسی کی طبعیت خراب ہے تو انہیں دواخانہ لے کر جاتیں ، ان کے بچوں کا اسکول میں ایڈمیشن کروانا، ان کی پڑھائی کا خیال رکھنا ۔باجی ان ساری چیزوں کا خیال رکھتیں ۔ گھر پر آتے جاتے باجی جماعت کے پمفلٹ تقسیم کیا کرتی تھیں۔ جو بھی راستے میں گھر تھے ان سب کے گھر جاکر باجی بات کرتی تھیں۔باجی نے کبھی بھی اپنا خیال نہیں رکھا۔ ہمیشہ پوری زندگی دوسروں کے لیے جی کر گئیں۔ ایسی مثالی زندگی باجی نے گزاری ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔
ایک بار مرحومہ بہت بیمار ہو گئیں، مرحومہ نے اللہ سے عہد کیا کہ میں جب اچھی ہوجاؤں گی، تو تیرے دین کا کام کروں گی، مرحومہ نے اپنے وعدہ کومرتے دم تک پورا کیا۔مرحومہ خدمت خلق کے کام کرنے میں ہمیشہ سر گرم رہتی تھیں۔اسکول کے کام کے ساتھ ساتھ جماعت کا کام بھی کر تیں، کوئی بھی مہم ہو، پمفلٹ بانٹنا ہو تو اسکول جاتے ہوئے یا اسکول سے گھر آتے ہوئےبانٹتی جاتیں،یا کوئی بڑا پروگرام ہوتا وہاں پر اپنے پیسے دے کر آٹو میں بہنوں کو پروگرام میں شریک کراتیں۔ وہ مسکینوں اور یتیموں کی ہمدردتھیں۔ چاہے بچوں کی فیس کا معاملہ ہو،یا ایڈمیشن کرانا ہو،یا ان کے کھانے کا مسئلہ ہو، ان کا انتظام کر تیں، اور خود ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتیں۔
خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ان کی زندگی کاابھرا ہواپہلو تھا۔اللہ تعالی ان کی قبرکو حدنظر تک وسیع کردے ،اسے جنت کا باغیچہ بنادے،اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے ۔
نام: نور جہاں بنت محمود خان صاحب
تاریخ پیدائش : 14 مئی 1969ء
تاریخ وفات: 26 اگست 2017ء
زوجہ : انجینیر شیخ فرید صاحب۔( رکن جماعت ناندیڑ)
شادی : 15 نومبر 1986ء
مقام: ناندیڑ ( ریاست مہاراشٹر)
تعلیم: .D.Ed.SSc
مدینۃ العلوم ہائی اسکول، ناندیڑ سے دہم اندرا گاندھی ڈی ایڈ کالیج، ناندیڑ
5 سالہ عالمیت جامعۃ الصالحات، ناندیڑ
معلمہ: نظام العلوم پرائمری اسکول ،ناندیڑ
MaSha’Allah MaSha’Allah ky a khatoon thin marhoom noorjahan sahiba, Allah SWT unko jannatul firdaus me aala se aala maqam de. Aameen
ماشاءاللہ nicely written.
Heart mellowing and inspiring.