اگست ٢٠٢٢
الٹ پلٹ کے دیکھ لیا چوڑائی کے رخ سے لمبائی کے رخ سے ڈیڑھ میٹر کے اس کٹ پیس میں پوری آستینوں والی قمیض تو بنتی نظر نہیں آرہی تھی۔ آدھا گز کپڑا کم پڑ رہا تھا ، کوئی ڈیزائن ڈال کر ہی کوئی جوڑ توڑ کرکے بن جائے۔
’’بھئی! ہم نے تو اپنے بزرگوں سے یہی سنا ہے کہ قرآن ہماری بخشش کرائے گا، ہم جو یہ عبادتیں کرتے ہیں ضائع نہیں ہوں گی۔‘‘
کمرے کے کھلے دروازے سے اس نے باہر صحن میں بیٹھی اپنی ساس پر ایک نظر ڈالی اور فرش پرکپڑا بچھاتے ہوئے ازسر نو قمیض کی آستینوں پر دماغ لگانا شروع کردیا۔
’’ پر خالہ! وقت کہاں ملتا ہے عبادت کا ۔ صبح تو ہمارے گھر میں وہ ادھم مچی ہوتی ہے کہ پوچھو مت ۔ ‘‘ جانے پہچانے لب و لہجے پر اسے اندازا ہوا کہ پڑوس کی فہمیدہ آپا آئی ہیں ۔
’’ ارے فہمیدہ! رجب کا مہینہ شروع ہوگیا ہے۔ ایک مہینے بعد رمضان ارہا ہے پھر تم جی بھر کے عبادت کرلینا ۔ رمضان شریف میں ایک ایک عبادت کا ستر گناہ ثواب ملتا ہے ۔ تم ایک پارہ پڑھوگی تو ستر بار پڑھنے کا ثواب ملے گا۔‘‘
’’خالہ ! تم اتنی اللہ کی عبادت کرتی ہو اسی لیے تو تمہیں آخری عشرے کا عمرہ نصیب ہوا ہے ۔ ویسے خالہ کل رات کڑھی خوب بنائی تھی تمہاری بہو نے ۔ میری چھوٹی بیٹی تو انگلیاں چاٹتی ہی رہ گئی۔ کہہ رہی تھی زوبی باجی کے ہاتھوں میں تو جادو ہے جادو۔ سچ کہوں، ذائقہ بڑا ہے تمہاری بہو کے ہاتھوں میں۔ ‘‘

’’لوذائقہ کہاں سے نہ آتا؟‘‘ اماں کے لہجے کی ساری شگفتگی ہوا ہوگئ ۔
پچاس روپے کا تو دہی جھونک دیا اس میں ، ہرا دھنیہ پورا ڈال دیا، تیل اور سوکھے مسالوں کا خرچہ الگ ۔ مجھے تو گوشت سے مہنگی پڑ گئی کڑھی ۔ آستینوں کے ڈیزائن پر غور کرتے ہوئے، وہ اماں کی ایک ایک پائی کے حساب پر جھنجھلا اٹھی ۔
اماں بنیادی طور پر ایک کاروباری ذہنیت کی حامل خاتون تھیں، اور یہ بات اس پر اپنے شادی کے شروعاتی دنوں میں بہت اچھے سے عیاں ہوچکی تھی کہ جس طرح وہ اس کے جوڑوں کی وقتاً فوقتاًکڑھائی، بنوائی، سلوائی کی قیمتیں بڑھا چڑھا کر بیان کرتیں۔
وہ اکثر سوچتی کہ اس کی ساس(اماں) اگر عورت کے بجائے کسی مرد کے روپ میں دنیا میں لاتیں تو یقیناً ایک کامیاب بزنس مین ہوتیں۔ خیر ،اماں کی یہ حساب کتاب کی عادت ان کی ذات کا حصہ تھی اور اماں کی اس عادت و فطرت کو برداشت کرنا کوئی مشکل کام بھی نہ تھا۔ اسے مشکل میں ڈالتا بلکہ زچ کردیتا اماں کا بار بار ٹوکنا ، اور اس کے کیے ہر کام میں نقص نکالنا ۔ اس کی شادی کو چھ مہینے ہوتے آئےاور ان مہینوں میں اماں اس سے کبھی خوش نہ ہوئیں۔
شروعات کے کچھ مہینے تو اس پر بہت بھاری گزرے تھے ،ہر روز ہی اماں کسی نہ کسی بات پر روٹھ جاتیں ۔ شادی کے کچھ دن کی بات ہے وہ اپنے شوہر کے لیے ناشتہ بنا کر میز پر لگاتے ہوئے قریب تخت پر بیٹھی ساس سے بڑے مؤدبانہ انداز میں ناشتے کا پوچھا تو انہوں نے تسبیح کے دانے گھماتے ہوئے صرف سر کے اشارے سے منع کردیا۔ شوہر کے آفس روانہ ہونے پر اس نے سوچا کہ ساس کے لیےچائے ہی بنادوں اور جب چائے کا کپ لے کر آئی تو نہ جانے ساس کے اندر کس جن کی روح سرائیت کر گئی کہ وہ خوامخواہ ہی سنانا شروع ہوگئیں۔
’’صبح پانچ بجے کی اٹھی ہوتی ہوں میں ۔ اب خالی پیٹ چائے پی کر معدے میں السر کرالوں؟‘‘ شوہر کام کےلیے روانہ ہوچکے تھے، نئی نئی شادی اور ساس کے ایسے تیور وہ تو ہکا بکا رہ گئی۔
اماں میں اپ کے لیے پراٹھا بنا دیتی ہوں۔ وہ کپکپاتی آواز میں بولی ۔
’’اب میں تیرے پراٹھے کے انتظار میں چائے ٹھنڈی کروں ۔ جا کوئی ڈبل روٹی کا پیس لادے، پراٹھا بنا دیتی ہوں۔ ہنہہ! اس وقت ہوش نہ آیا جب اپنے میاں کا پراٹھا بنا رہی تھی۔‘‘
دوسرے دن اس نے سوچا کہ اماں اور عفان دونوں کا ناشتہ ایک ساتھ بنادے، یہی سوچ کر وہ پراٹھا بیلتے بیلتے باہر اماں کے پاس آئی ۔
’’اماں ! میں ان کا ناشتہ بنا رہی ہوں ،آپ کےلیے بھی پراٹھا بنادوں ۔‘‘ ہاتھوں کو مسلتے ہوئے اس کو عجیب سا دھڑکا لگا تھا۔
’’لے تُو تو بڑی تیز نکلی کہ ایک ساتھ ہی سارے کام سے فارغ ہو جائے۔ ہائے! تو نے کبھی دیکھا ہے، مجھے اتنی صبح ناشتہ کرتے مجھے کیا پڑی کہ صبح سات بجے ناشتہ کرکے بیٹھ جاؤں مجھے تھوڑی آفس جانا ہے بھلا۔ ‘‘
’’یا اللہ!‘‘
اس کا تو دماغ گھوم گیا ۔ کچن میں آکر بیلا ہوا پراٹھا واپس رکھا ۔ اور تھوڑی دیر بعد جب وہ عفان کے ناشتے اور اماں کی چائےٹرے میں سجائے باہر آئی تو اماں کی خشمگیں نظریں دیکھ کر دل ڈوبنے لگا ۔
’’یہ کیا؟ تو تو پراٹھا بنا رہی تھی ، اب خالی چائےلے کر آگئی ہے۔ ‘‘
اس کا دل چاہا، اس سجی سجائی ٹرے کو زمین پر دے مارے۔
’’آپ نے ہی تو کہا تھا کہ آپ اتنی صبح ناشتہ نہیں کرتیں ۔‘‘ انگلیاں مروڑتے اس نے الجھن زدہ نظروں سے دیکھا۔
’’ارے وہ تو تب کہا تھا ۔‘‘ فقط پانچ منٹ پہلے کی بات کو اماں ہاتھ کے اشارے سے ایسے جتارہی تھیں گویا دو گھنٹے پہلے کی بات ہو۔۔ خیر وہ کہتے ہیں ناں کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدل لیتا ہے ۔
اب وہ پہلے کی طرح جلنے کڑھنے کے بجائےجوابی حملے کے لیے تیار ہو جاتی کیونکہ وہ اس میدان میں نئی نئی اتری تھی، اور مقابلہ بھی اماں جیسی منجھی ہوئی ادکارہ سے تھاتو اکثر و بیشتر شکست بھی اسی کے حصے میں آتی ،اور شکست کی ایک وجہ اس کی عادت اور والدین کی تربیت بھی تھی ۔ باوجود کوشش کے وہ اماں کی طرح دھڑلے سے شکایتیں، الزامات نہیں لگا سکتی تھی، کبھی جو اپنے دفاع کیلے جھوٹ بولنا بھی پڑجاتا تو ہفتوں اس جھوٹ کا غم نہ جاتا۔
لیکن یہ بھی خدا کی قدرت تھی جس طرح اماں کو چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہاتھی جتنا بڑا کرنے کا شوق تھا۔عفان کو ان ہاتھیوں کو چیونٹی جتنا بنادینے میں کمال حاصل تھا ۔
جتنی جھگڑالو طبیعت کی اماں تھیں عفان اتنا ہی نرم خو صلح جو اور منکسرالمزاج تھا۔ البتہ اس کی نند کا مزاج بالکل اماں پر تھا، جب بھی گھر آتیں کوئی نہ کوئی فساد ہی برپا ہوتا، مجال ہے جو کبھی وہ کوئی فتنہ کھڑا کیے بغیر ، کسی الزام تراشی یا شکایتوں کا رجسٹر کھولے بغیر چلی گئی ہوں ۔
رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا ،پچھلے اتوار کوبھی اس کی نندمع شوہر اور بچوں کے افطار پر آچکی تھیں۔ آج اس کا بہت دل تھا کہ وہ بھی امی کے طرف جائے، لیکن ساس سے اجازت مانگی تو کہا کہ کل تو عفیفہ آنے والی ہے تم کبھی اور چلے جانا ، وہ دل مسوس کر رہ گئی۔
صبح سے عفیفہ آپا آئی تھی ،مگر مجال ہے جو کسی کام کو ہاتھ لگایا ہو۔ افطاری بھی اسی نے بنائی تھی اور کھانا بھی ، آلو گوشت کا سالن تقریباً تیار تھا بس آلو ذرا کچے لگ رہے تھے ،اس نے سوچا کہ وہ عصر کی نماز ادا کرلے۔ اماں صحن میں قرآن پڑھ رہی تھیں، ان سے کہا کہ آپ پانچ منٹ میں گیس بند کردیں۔انہوں نے سن کر سر ہلادیا ۔
نماز پڑھ کر وہ باہر نکلی تو جلنے کی بو پر اسکا ماتھا ٹھنکا۔ دوڑتی ہوئی کچن میں پہنچی تو سالن سارا جل چکا تھا۔ اور آلو گوشت کوئلے بنے پتیلی سے چپک گئے تھے۔ اس کا جی چاہا کہ یہ دیگچی کسی کے سر پہ دے مارے یا خود مر جائے۔ غم و غصے سے اس کی حالت خراب ہورہی تھی ۔ اماں اپنے کمرے میں پلنگ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں ،قریب ہی کرسیوں پر عفیفہ آپا اور عفان بیٹھے تھے۔
’’اماں! آپ نے چولہا بند نہیں کیا تھا ؟‘‘ وہ روہانسی ہوئی ۔
’’مجھے کیا پتا کب چولہا بند کرنا ہے، سالن تو تم پکا رہی تھیں۔‘‘
’’پر اماں میں نے آپ سے کہا تو تھا ۔‘‘ وہ رونے والی ہو رہی تھی۔
’’ اے لو مجھ سے کب کہا؟ ‘‘ اماں آنکھیں دکھانے لگیں۔
’’ کیا ہوا؟ پھر تمہارا سالن جل گیا؟‘‘ عفیفہ آپا فکر مندی سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
ان ماں بیٹی کے ڈرامے رمضان میں بھی جاری تھے ہمیشہ کی طرح عفان نے ہی اپنی ازلی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے معاملہ کو رفع دفع کیا بلکہ اماں کے غصے کو بھی ٹھنڈا کیا۔
’’ارے بھئی! یہ قریب ہی نیا ہوٹل کھلا ہے، وہاں سے بریانی لے آتا ہوں اپ لوگ کیوں پریشان ہوتی ہیں خوامخواہ،آپا کھیر کھاؤگی؟‘‘ جوتے پہنتے پہنتے وہ محبت سے بہن سے پوچھ رہا تھا۔
’’شکر کر، ایساہیرے جیسا شوہر ملا ہے تجھے ۔‘‘ اماں نے اسے خشمگیں نظروں سے گھورا۔ وہ کبھی بھی اماں کی چالوں کا مقابلہ نہیں کرسکی تھی۔
’’ہاں، اللہ پاک کو پتہ تھا میں کبھی بھی آپ کی چالوں کا مقابلہ نہیں کرسکوں گی۔ ‘‘ آنکھیں رگڑتے کمرے سے نکلتے اس نے سوچا۔
دو گھنٹے لگا کر اس نے سالن بنایا تھا۔ ہوٹل کی خوشبودار بریانی بھی اس غم کو کم نہ کرسکی ۔ افطار اور کھانے کے بعد وہ کچن میں آئی تو سارا سنک برتنوں سے بھرا پڑا تھا۔ دیگچی دھو کر اس نے چائے چولہے پر رکھی تو اماں بھی کچن میں آگئیں۔
’’یہ کیا برتن ابھی تک دھلے نہیں؟ ‘‘پیچھے سے اماں کی آواز سنائی دی۔
’’ وہ میں ذرا ٹھہر کے دھولوں گی۔‘‘غصے پر قابو پاتے آہستہ آواز میں جواب دیا ۔
’’ابھی میری ہمت نہیں ہے برتن دھونے کی۔‘‘چولہے کی آنچ آہستہ کرتے اس کےمنہ سے نکلا، اور نہ ہی نکلتا تو اچھا تھا۔ وہ جاتے جاتے واپس مڑیں ۔
’’ ایسے کون سے تم نے پہاڑ توڑے ہیں یا ہل جوتے ہیں جو ہمت نہیں ہورہی؟ کام ہی کتنا کیا تم نے؟ ایک سالن تو تم سے ڈھنگ کا نہ بنا۔ اے میری عفیفہ کونسا روز روز آتی ہے ۔‘‘
اب اس مفت کے گیان کو سننے کی اس میں ذرا ہمت نہیں تھی ۔ ایک تو سالن ضائع ہوجانے کا دکھ ، تھکن سے برا حال ۔ ہمت کہاں سے ہوتی ۔
غصے سے کھولتے ہوئےچائے بند کرکے برتن دھونے لگی۔ اماں کے کچن سے نکلتے ہی اس کا جی چاہا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رودے۔ امی کے گھر گزارے رمضان کے دن شدت سے یاد آنے لگے۔(جاری)

بھئی! ہم نے تو اپنے بزرگوں سے یہی سنا ہے کہ قرآن ہماری بخشش کرائے گا، ہم جو یہ عبادتیں کرتے ہیں ضائع نہیں ہوں گی۔‘‘

Comments From Facebook

1 Comment

  1. توفیق الماس

    جواب نہ دیں سب ٹھیک ہو جائے گا

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ٢٠٢٢