اگست ٢٠٢٢
بڑھاپا زندگی کا وہ دور ہے جب انسان اپنے ماضی کی طرف نگاہ کر کے اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ میں نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ انسان کی اصل زندگی 40 سال کے بعد ہی شروع ہوتی ہے، لیکن یہ کہنا بھی مناسب ہوگا کہ وہ اس عمر میں جوانی سے بڑھاپے کی جانب قدم بڑھا رہا ہوتا ہے،بڑھاپے کی عمر جاننے کے لئے لوگوں میں کیے گئے تحقیقی سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چالیس سال آٹھ ماہ وہ عمر ہے جب لوگ اپنے آپ کو جوان کہنا بند کر دیتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے ماہر نفسیات ’’رینی موٹس‘‘ کہتے ہیں کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان تمام عمر ایک ہی شخصیت کے حامل نہیں رہتے، اکثر لوگ یہ سوچنا پسند کرتے ہیں کہ ہماری شخصیت تمام عمر مستحکم رہتی ہے یا ہمیشہ ایک ہی ڈگر جیسی ہوتی ہے، لیکن جدید تحقیق کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہوتا، انسان کی شخصیت عمر کے پروگرام مرحلے کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور وہ جب ادھیڑ عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور ساٹھ ستر کی دہائی میں آتے ہیں تو اس وقت تک ان میں بہت سی تبدیلیاں آ چکی ہوتی ہیں، ان کا رویہ پہلے کی بہ نسبت بہت مختلف ہو جاتا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بڑھاپے کی عمر سے پایا جانے والا تاثر ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا بلکہ عمر کے ہر دور میں رائے تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
بڑھتی عمر کے ساتھ لوگ اپنے آپ کو جسمانی زوال اور بگاڑ سے نمٹنے کے قابل بنانے کےلیے کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ اس عمل کے دوران ان کی شخصیت میں بتدریج تبدیلیوں کے بہت سے حیران کن نتائج اور فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں۔
بڑھاپا بھی زندگی کا ایک مرحلہ ہے؛ اور دیگر مراحلِ حیات کی طرح اس کا اپنا بھی امیج ہوتا ہے، اپنی ہی فضا اور حدت، اپنی خوشیاں اور ضروریات ہوتی ہیں، نوجوانی کی طرح اس عمر میں بھی چند فرائض ہوتے ہیں ،جو انسان کے وجود کو مقصدیت دیتے ہیں۔عمر کا یہ مرحلہ بھی اتنا ہی خوبصورت اور کارآمد ہے جتنا جوان ہونا، اس کو کیسے گزارا جائے، یہ سیکھنا اتنا ہی اہم عمل ہے جیسے دوسرے کوئی اور کار آمد کام،بشرطیکہ اسے زندگی کی مجموعی تقدیس اور مقصدیت کے احترام کے ساتھ تکمیل کو پہنچایا جائے۔
بڑی عمرکے فرد کو ایک بزرگ کے طور پر اپنی زندگی کے مقصدکو پورا کرنے اور اپنے فرائض کی منصفانہ انجام دہی کے لئے بڑھاپے کی یہ عمر اپنے ساتھ جو مسائل لے کر آتی ہے ،اس سے اتفاق کرتے ہوئے اور فطرت کے مطالبات چاہے وہ صحت کے تعلق سے ہوں یا معاشی، سماجی، معاشرتی ان سب کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ضروری ہے۔ یہ مرحلہ بہت سی قربانیاں چاہتا ہے، بہت سی باتیں، عادات کو ترک کرنا پڑتا ہے، اپنی حسیات اور توانائی پر خود اعتمادی سیکھنا پڑتی ہے، وہ راستہ جسے طے کرنا کچھ عرصے پہلے تھوڑی سی چہل قدمی جیسا لگتا تھا، اب بہت طویل اور کٹھن لگنے لگتا ہے، وہ کھانے جن کا شوق اور ان کی طرف رغبت تھی انہیں چھوڑ دینا پڑتا ہے، جسمانی خوشی اور لذت کمیاب ہونے لگتی ہے ،اور اس کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔
پھر عارضوں اور بیماریوں، حواس کے کمزور پڑ جانے، اعضاء کے بتدریج مفلوج ہوجانے، کئی طرح کے درد اور تکالیف پھر اکثر ان کی وجہ سے طویل اور بے چینی سے بھری ہوئی راتوں کا تسلسل، ان سب سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے، ان سے بچا نہیں جا سکتا یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ خود کو یہ دیکھے بغیر ہی پوری طرح شکست و ریخت کے اس منفرد عمل کے حوالے کر دینا بھی محرومی کی مظہر اور ایک المناک بات ہوگی کہ بڑھاپے کی عمر کے بھی اپنے ہی اچھے اور مثبت پہلو ہوتے ہیں، اپنی ہی خوشیاں ہوتی ہیں ساتھ میں ڈھارس بندھنے کے لئے ذرائع بھی میسر ہوتے ہیں۔
یہاں ایک فرد اپنی پچھلی زندگی سے حاصل شدہ ڈھیروں عنایات کو شکر کے جذبے کے ساتھ اور باقاعدہ نام لے کر اپنے لئے تحائف کے طور پر محسوس کر سکتا ہے ،بالخصوص ان تحائف میں سب سے قیمتی عنایت ذہن و قلب میں بسی ہوئی وہ تصاویر کا خزانہ ہے جو کوئی فرد ایک طویل زندگی گزارنے کے بعد بھی اپنی یادوں میں لئے پھرتا ہے ،اور جنہیں جسمانی سرگرمیاں کمزور پڑنے کے بعد بھی ماضی کے مقابلے میں ایک الگ انداز سے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔مثلاًاپنے تجربات سے دوسروں کی مدد کرنا، کوئی ہنر سکھا دینا، یا مخلص رائے اور مشورے دینا وغیرہ۔
بڑھاپے کے اس باغ میں کئی ایسے پھول بھی کھلتے ہیں، جن کی نگہداشت کے بارے میں ماضی میں شاید ہی سوچا جاتا ہے، ان میں سے ایک صبر کا پھول ہے، حقیقی معنوں میں ایک خوشبو دار اور قیمتی پھول، اسے دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے انسان زیادہ پر سکون اور معاملات پر زیادہ تدبر کرنے والا بن جاتا ہے، پھر اس کے اندر جو یاسیت اور کسی معاملے میں مداخلت یا عملاً کچھ کرنے کی خواہش اگر کم ہوجاتی ہے تو یہ صبر کا پھول اس اس اہلیت کو بڑھاتا ہے کہ اپنے اردگرد فطرت اور دوسرے افراد کی زندگی کو آرام سے مگر توجہ سے دیکھے اور سنے، اور اسی اہلیت کی وجہ سے وہ کسی تنقید کے بغیر اور ہر بار ایک حیران کن تنوع کے ساتھ زندگی کو اپنے قریب سے گزرنے دیتا ہے ،اور کبھی کبھی اس متنوع زندگی میں شامل بھی ہو جاتا ہے، کبھی خاموش تاسف کے ساتھ، کبھی مسکرا کر، کبھی کھل کر ہنستے ہوئے، تو کبھی مزاحیہ انداز میں۔
ریسرچ بتاتی ہے کہ اس عمر میں ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور انسان قابل اعتمادشخصیت بن جاتے ہیں، قوت ارادی بڑھ جاتی ہے، بہتر حسِّ مزاح پیدا ہوتی ہے، ان باتوں کی وجہ سے زیادہ عمر کے لوگ اپنے جذبات پربہتر طریقے سے قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کسی بھی طور سے یہ کئی چیزوں کو جینے والا مجموعہ ہے، اور اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بزرگ افراد کے بارے میں جو ایک روایتی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ بد مزاج، چڑچڑے ہوتے ہیں اس پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ انسان کی شخصیت ایک سیال مادے کی طرح ہے اور یہ لچک دار بھی ہے۔
پروفیسر موٹس کہتے ہیں کہ بڑی عمر کے لوگ زیادہ خوش مزاج اور سماجی طور پر لچکدار ہوتے ہیں، وہ اپنی توقعات اور معاشرتی تقاضوں کے مابین توازن قائم رکھنے کی بہتر صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں۔
اس کی چند مثالیں:
ڈاکٹر خالد سہیل جو ایک ماہر نفسیات ہیں وہ اپنے مضمون ’’کیا بڑھاپا آپ کی زندگی کا سنہرا دور ہے؟ ‘‘میں اپنے بزرگ دوست عبد الغفور چودھری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ چودھری صاحب کی پر مزاح، شگفتہ اور سدا بہار شخصیت کو دیکھ کر جو چھیاسی برس کی عمر میں بھی ہمیشہ مسکراتے اور خدمت خلق کے میدان میں سرگرم رہتے ہیں، مجھے وہ سب سینیئر سیڑیزن یاد آتے ہیں جو 3D کا شکار ہیں۔
میں چودھری صاحب کو خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں جنہوں نے سوشل ورک کی اعلیٰ تعلیم بیرونی یونیورسٹیوں سے حاصل کرنےکے لئے معاشرے میں مقام پیدا کیا ۔بیوی کے انتقال کے بعد بچوں کے لیے قربانیاں دیں، ماں اور باپ بن کر ان کی ذمہ داریاں ادا کیں پھر اپنی قابلیت و صلاحیت انسانیت کے لئے وقف کر دی، عوام کے لئے وہ خدمات سر انجام دی ہیں جو ان کی وفات کے بعد بھی ان کے صدقہ ٔجاریہ بن کر قائم و دائم رہیں گی ۔ان سے انسپائر ہو کر دوسرے لوگوں نے بھی فلاح عامہ کے کام کیے، مجھے اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ چودھری صاحب 86 کی عمر میں بھی 46 کے دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ ان کا جسم بوڑھا سہی دل جوان اور امنگ بھرا ہے ،وہ جوانوں کے لئے انسپریشن ہیں ۔
ایک انجانے دانشور کا جملہ ہے:
’’ We only grow old when we stop growing‘‘
86 برس کے پیشہ ور سکئیر’’ یوچیوو میورا‘‘ ایک ایسے بزرگ ہیں جنہوں نے 40 برس کی عمر میں کوہ ہمالیہ سے اپنی کمر پر پیراشوٹ باندھ کر اترنے کی کوشش کی، 70 برس میں انہوں نے پھر سے ہمالیہ واپس جا کر دنیا کی سب سے بلند ترین چوٹی کو سب سے بڑی عمر میں سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ تعجب اس بات پر ہے کہ 85 برس میں پھر ایک مرتبہ کوہ ہمالیہ کو سر کرنے والے بنے۔جاپان میں ایسے بزرگوں کی بہت سی مثالیں بھری پڑی ہیں۔اپنے اطراف اور اکناف بھی ایسے واقعات ملتے ہیں۔
کرناٹک کے ضلع ٹمکور کے قریب کے ایک قریے کی دیہاتی خاتون تمّکّا جس کو (. Saalu Marada Tommakka )کے نام سے جانا جاتا ہے، اس نے ایک سو دس سال کی عمر تک دس ہزار درختوں کی شجر کاری کی ہے، جو ہائی وے کے کنارے پر لگائے گئے ہیں۔تمکا بے اولاد تھیں ،اسی غم میں نہ گھلتے ہوئے انہوں نے یہ عزم کیا کہ وہ شجر کاری کر کے عوام کو اور ماحول کو فائدہ پہنچائیں گی۔ابھی پچھلے سال ان کی وفات ہوئی،اس کام کے لئے ملک و بیرون ملک سے بہت سے ایوارڈ بھی دیے گئے۔
ایسی خواتین کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پچاس ساٹھ سال کی عمر میں انہوں نے قرآن حفظ کیا ہے اور دوسری بچیوں کو حفظ کی کلاس لیتی ہیں۔
چند خواتین اپنی خاندانی ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد کیٹرنگ اور سلائی سنٹرز قائم کر کے مستحق خواتین کو روزگار فراہم کر رہی ہیں۔
ایک پولیس آفیسر کی اہلیہ اپنی اسکول کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد جھونپڑ پٹی کی خواتین کی انجمن بنا کر ان کو گھریلو ملازمت کے لئے باقاعدہ شناختی کارڈ وغیرہ بنوا کر ضرورت مند گھروں میں بھیجتی ہیں ،اور ان کے چھوٹے بچوں کے لیےڈے کئیر بھی چلاتی ہیں۔
غرض اس عمر میں صرف اپنی صحت اور دوسرے مسائل کا شکوہ نہ کرتے ہوئے اس کو مؤثر اور کارآمد بنانا ہی عقلمندی ہے ۔یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ زندگی کا یہ مرحلہ عملی زندگی کا آخری موڑ نہیں بلکہ یہ وہ دور ہے کہ اپنے ماضی کی طرف نگاہ کر کے جو کام وہاں کرنے سے رہ گئے تھے، اور جن کو کرنے کی خواہش اور طلب موجود تھی، لیکن کسی طور پر ان کو انجام نہ دے سکے، انہیں زندہ دلی کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، جو پایا ہے اسے بہتر بنانے کی جد و جہد آخری دم تک کی جائے۔

پروفیسر موٹس کہتے ہیں کہ بڑی عمر کے لوگ زیادہ خوش مزاج اور سماجی طور پر لچکدار ہوتے ہیں، وہ اپنی توقعات اور معاشرتی تقاضوں کے مابین توازن قائم رکھنے کی بہتر صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں۔

ویڈیو :

آڈیو:

audio link

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ٢٠٢٢