اگست ٢٠٢٢
زمرہ : النور
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ محرم کو اللہ عزوجل کا مہینہ قرار دیا ہے جو اس کی عظمت اور تقدس کو بتانے کے لئے کافی ہے ؛چونکہ اللہ عزوجل اپنی نسبت صرف اپنے خصوصی مخلوقات کے ساتھ ہی فرماتے ہیں۔ (شرح النووی علی مسلم8:55)
محرم کے لغوی معنی عظمت والا، لائق احترام، حرام کردہ کے آتے ہیںمحرم ان چار مہینوں میں سے ہے جس کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کیا ہے:
ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السماوات والارض منہا اربعۃ حرم(توبہ: 36)
(بے شک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہے، جب سے اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں ،یہی درست دین ہے، پس تم ان میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، چار مہینے :محرم ،رجب ،ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں۔)
تفسیر جامع البیان میں ہے :
فان الظلم فیہا اعظم وزرا فیما سواہ والطاعۃأ عظم اجرا
(ان مہینوں میں ظلم و زیادتی بہت بڑا گناہ ہے اور ان میں عبادت کا بہت اجر و ثواب ہے ۔)
قرآن کریم میں دوسری جگہ ہے:
ولاالشھر الحرام( المائدہ:2)
(محترم مہینہ ماہ محرم کو حلال نہ سمجھو!)
اسلام کی آمد کے بعد بھی اس ماہ کی حرمت و عظمت کو اس کی سابقہ حالت میں برقرار رکھا گیا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی باقیات میں سے تھے، جس کو لوگ اپناتے آ رہے تھے ،چنانچہ حدیث میں اس ماہ کو’’ شہر اللہ‘‘( اللہ کا مہینہ )( مسلم۔باب فضل صوم المحرم، حدیث: 2813) قرار دیا گیا ہے۔ماہِ محرم الحرام سے اسلامی سال نو کی ابتدا ہوتی ہے، زمانۂ جاہلیت میں لوگ اپنے فوائد ومنافع کی خاطر مہینوں کو آگے پیچھے کیا کرتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج الوداع کے موقع سے یہ اعلان کر دیا کہ اللہ عزوجل نے جب سے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا ہے اسی دن سے اس نے مہینوں کی ترتیب و تنظیم قائم کر دی ۔
اسلامی تاریخ جس کو ہجری تاریخ کہا جاتا ہے، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور یہ تاریخ حضرات صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم) کے مشورے سے طے پائی تھی، چنانچہ علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہجری تاریخ کی بنیاد رکھی، اس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت ابو موسی ٰاشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے مراسلے موصول ہوتے ہیں؛ مگر اس پر تاریخ لکھی نہیں ہوتی ہے ، یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ خط کب کا لکھا ہوا ہے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا، اس وقت اکثر کی رائے یہ تھی کہ ہجرت سے ہی اسلامی تاریخ کی ابتداء ہو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی پر فیصلہ کیا۔( الکامل فی التاریخ 9:1 ،دارالکتاب العربی )کیونکہ ہجرت نے ہی حق اور باطل کے درمیان حد فاصل کا کام کیا۔
ماہ محرم کے روزوں کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، تمام ہی مہینے کے روزوں کی بابت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے چنانچہ ایک حدیث مبارک میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ : سب سے زیادہ فضیلت والے روزے رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے مہینے محرم الحرام کے روزے ہیں۔
( مسلم شریف ، باب فضل صوم المحرم، حدیث:2813)
نعمان بن سعد، علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے علاوہ کون سے مہینے کے روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے صرف ایک آدمی کے علاوہ کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے نہیں سنا، میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا ،اس نے عرض کیا :یا رسول اللہ ! آپ مجھے رمضان کے علاوہ کون سے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا :اگر رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہے تو محرم کے روزے رکھا کرو ؛کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالی نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اس دن دوسری قوم کی بھی توبہ قبول کرے گا ۔(ترمذی: صوم المحرم ، حدیث:741)
ابو قتادہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: یوم عاشورہ کے روزے کے تعلق سے امید کرتا ہوں کہ وہ پچھلےسال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائیں گے۔ (ترمذی)
یوم عاشورہ سے متعلق جن وقائع کا تذکرہ ملتا ہے، ان میں یہ اہم ہیں:
عاشورہ کے دن ہی حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی،اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے۔اور اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی،اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی بھی جبل جودی پر آٹھہری، اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے ، اسی دن نمرود کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈالے گئے،اسی دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات ملی اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ دریائے نیل میں غرق ہوگیا۔حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی بیماری سے شفاء نصیب ہوئی، حضرت ادریس علیہ السلام کو اسی دن آسمانوں کی جانب اٹھالیا گیا۔حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک کی عظیم بادشاہت نصیب ہوئی۔حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹ آئی، اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے نکالے گئے ، حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نکالاگیا، حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت اسی دن ہوئی اور اسی دن آسمانوں کے جانب اٹھا لئے گئے ۔( عمدۃ القاری شرح البخاری، باب صیام یوم عاشوراء 89:7)
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے کہ’’مجھے اللہ سے یقین ہے کہ محرم کے عاشورے کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہوں کو محو کردیتا ہے’’۔رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،لیکن ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب عاشورہ کا روزہ جس کا دل چاہے رکھے اور جس کا دل نہ چاہے تو نہ رکھے۔
ایک اور حدیث حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :یہود کی مخالفت کرتے ہوئے محرم کی نویں اور دسویں کوروزہ رکھا کرو۔
اسی ماہ محرم الحرام کے یوم عاشورہ کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے دیگر حضرت اہل بیت اور وفا شعار ساتھیوں کے ہمراہ میدان کربلا میں مرتبۂ شہادت پر فائز ہوئے۔حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اسلامی سال کے پہلے ماہ میں ہونا ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ مسلمانوں کے نئے سال کی ابتداء بھی قربانی سے ہوتی ہے ۔
بہر کیف، یہ مہینہ نہایت فضیلت واہمیت کا حامل مہینہ ہے، بہت سے بڑے بڑے امور اس مہینہ میں پیش آئے۔ حق کی خاطر ،حصول حق کے لئے جدوجہد ، محنت وجستجو بھی اس ماہ کا خاص وصف ہے ، دین حق کے خاطر ظالم وجابر بادشاہ اور وقت کے حکمراں کے سامنے سینہ پر ہوجانا اور اپنی جان
کی بازی لگادینا یہ اس ما ہ کا خصوصی سبق ہے ، صرف واقعۂ شہادت پر غم وافسوس کا اظہار ہی واقعۂ شہادتِ حسین کا حق نہیں، احقاقِ حق کا جذبہ ہمارے اندر پیدا ہوجائے، یہ اس ماہ کا اصل درس ہے ۔
اسلام کی آمد کے بعد بھی اس ماہ کی حرمت و عظمت کو اس کی سابقہ حالت میں برقرار رکھا گیا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی باقیات میں سے تھے، جس کو لوگ اپناتے آ رہے تھے ،چنانچہ حدیث میں اس ماہ کو’’ شہر اللہ‘‘
(اللہ کا مہینہ) (مسلم۔باب فضل صوم المحرم، حدیث: 2813) قرار دیا گیا ہے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

1 Comment

  1. محمد اطہر

    ماشاءاللہ بہت عمدہ مضمون ہے

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ٢٠٢٢