اگست ٢٠٢٢
زمرہ : النور

أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم
بِسْمِ اللٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸)اِلَّا مَنْ اَتَى اللٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹)
(سورہ الشعرا: ۸۸،۸۹)

ترجمہ

جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولا د،بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔

تشریح

یعنی بھلا چنگا بے روگ دل جو کفر و نفاق اور فاسد عقیدوں سے پاک ہوگا،وہی آخرت میں کام دے گا۔مال و اولاد کچھ کام نہ آئیں گے۔اگر کافر چاہے کہ قیامت میں مال و اولاد فدیہ دے کر جان چھڑا لے تو ممکن نہیں۔یہاں کے صدقات و خیرات اور نیک اولاد سے بھی کچھ نفع کی توقع اسی وقت ہے،جب اپنا دل کفر کی پلیدی سے صاف ہو۔
(حوالہ:شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ)
قرآن مجید اور احادیث نبوی میں قلب کی اصطلاح بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوئی ہے،اس کے مطابق ہماری پوری شخصیت کا نام قلب ہے۔
قلب کیلئے کہیں دل،ر و ح، نفس اور عقل کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔انسان کی پوری شخصیت اور اس کے مختلف پہلو قلب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ان کی طرف قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر اشارہ کیا گیا ہے،مثلاً عقل،سمجھ بوجھ،شعور اور احساس ان سب کا مرکز بھی قرآن کی زبان میں قلب ہے۔
مثلاً:
۱۔ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا(الاعراف : ۱۷۹)
ان کی دل ہے لیکن وہ ان سے سوچتے سمجھتے نہیں ہیں۔
۲۔اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا(۲۴)(محمد : ۲۴)
یہ کیوں قرآن کے بارے میں غور و فکر نہیں کرتے؟کیا ان کے دلوں پر تا لے پڑگئے ہیں؟
جن دوسرے معنوں میں قلب کا استعمال ہوا ہے،وہ ہماری خواہشات ہیں۔یہ خواہشات دنیاوی چیزوں کیلئے بھی ہو سکتی ہیں،ان سے اعلی ٰچیزوں کیلئے بھی ہو سکتی ہیں۔ان خواہشات کا مرکز بھی قلب ہے۔
انسانی جذبات مثلاً شفقت کا جذبہ،محبت کا جذبہ،نرمی کا جذبہ،نفرت کا جذبہ؛ان سب کا مرکز بھی انسانی قلب ہے،اور سب سے آخر میں وہ چیز انسان کو انسان بناتی ہے یعنی اس کا ارادہ اور نیت۔وہ ارادہ جس سے وہ اپنے اعضاء کو حرکت دیتا ہے،کام کرتا ہے،کچھ چیزوں سے رک جاتا ہے،اس ارادے کا مرکز بھی قلب ہے۔ اس حساب سے قلب دراصل انسان کی شخصیت کا پورا مرکز ہے۔
ہاتھ پاؤں نہ بھی رہیں،کٹ جائیں،ختم ہو جائیں،جسم کے اور دوسرے اعضاء بھی ناکارہ ہو جائیں،لیکن ایک چیز انسان کی شخصیت ہے،وہ باقی رہتی ہے،اسی کو قلب کہا گیا ہے۔
بخاری کی ایک طویل حدیث ہے جس کے راوی ہیں ایک انصاری صحابی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اچھی طرح سن لو اور جان لو کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ سدھر جائے تو سارا جسم سدھر جاتا ہے اور اگر وہ بگڑجائے تو سارا جسم بگڑجاتا ہے اور اچھی طرح سے جان لو کہ یہ قلب ہے۔‘‘
قلب کا نام قلب اس لیے ہے کہ وہ الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔(مسند احمد بن حنبل)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینۂ مبارک کی طرف تین دفعہ اشارہ کیا اور فرمایا کہ’’التقوی ھھنا‘‘
تقوی در اصل یہاں ہے۔
تقوے کو ہم کبھی لباس میں ڈھونڈتے ہیں کبھی شکل و صورت میں کبھی ظواہر میں لیکن تقوی کا مرکز اور سرچشمہ تو سینہ(دل) ہے۔
اگر دلوں کے اندر بگاڑ ہوا تو زندگی بھی بگڑے گی،معاشرہ بھی بگڑے گا،سوسائٹی بھی بگڑےگی،ریاست بھی بگڑے گی،سیاست بھی بگڑے گی اور معیشت بھی بگڑے گی۔ دل میں ایمان ہوگا توزندگی میں سکون ہوگا۔دل میں اچھے خیالات آئیں گے۔
بدگمانی،حسد،بغض و کینہ سے دل پاک ہوگا۔دل درست ہوگاتوہر چیز میں سدھار پیدا ہو جائے گا۔
دلوں کی سجاوٹ اور زینت اللہ نے ایمان کے اندر رکھ دی ہے۔ (الحجرات:۰۳)
دل کی زندگی کا انحصار اس پر ہے کہ بندہ اطاعت گزار ہو۔جب بندوں نے اللہ کے ساتھ اطاعت اور بندگی کے اپنے عہد کو توڑ دیا تو اللہ نے ان کے دلوں کو سخت کر دیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دل کی اصلاح کا راستہ قلب سلیم پانے کا طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’ کثرۃ ذکرالموت وتلاوۃ القرآن ‘‘(بیہقی)
موت کو کثرت سے یاد رکھو اور قرآن کی تلاوت کرو۔
قرآن مجید کا بیشتر حصہ موت کو یاد دلاتا ہے( نتیجتاً دل نرم ہوتے ہیں )اورموت کے بعد کی زندگی کی تیاری کی دعوت دیتا ہے۔یہ دو چیزیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی ہیں،جن سے دل کی برائیاں دور ہوتی ہیں،زنگ دھلتا ہے،سیاہی صاف ہوتی ہے اور دل چمکتا ہے۔اس کے اندر ایمان کا نور پیدا ہوتا ہے،اس سے پوری زندگی کی اصلاح ہوتی ہے۔
دل کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہوجائے،اللہ کی یاد دل کے اندر آ جائے تو یہی چیز دل کو قلب سلیم بنا دیتی ہے۔ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء کرام اسی مقصد کے تحت یعنی دلوں کو پاک کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان کارنامہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو بھی بدلا،ان کی سوسائٹی بھی بدلی اور ان کی پوری دنیا بھی بدل دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دلوں کو متأثر کیا،ان کو بدلا اس طرح فرد کی زندگی میں انقلاب آیا،دراصل فرد کی زندگی میں انقلاب معاشرے کے انقلاب کا ضامن ہے۔
جب دل میں ایمان رچ بس جاتا ہے تو باہر کی دنیا بدل جاتی ہے،اس کی بے شمار حیرت انگیز مثالیں ہم دور رسالت میں دیکھ سکتے ہیں۔
ایک صحابی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی ہونے کی بشارت دی،صرف اور صرف دل کی پاکی کی بنا پر۔
وہ جلیل القدر صحابی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہیں،جنہیں آپ صلی اللہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی۔دل کے بارے میں وہ اس قدرڈر اور خوف میں مبتلا رہتے تھے کہ کہیں وہ نفاق کا شکار تو نہیں ہوگیا۔
ایک حبشی کالے کلوٹے غلام (سید نا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ )عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بن گئے جب دل میں ایمان کا بیج انہوں نے بویا۔
قلب سلیم کی بہترین مثال یہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو معزول کیا گیا تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ کا جواب تھا کہ میں اپنے دل میں نہ اس وقت خوشی محسوس کر رہا تھا جب مجھے امارت دی گئی تھی،اور نہ اب ناراضگی محسوس کر رہا ہوں جبکہ مجھے معزول کیا گیا ہے۔
معلوم یہ ہوا کہ زندگی کا مقصد دل کی صفائی اور آخرت کی کامیابی ہے۔
دعاؤں کی ذریعے قلب سلیم کا حصول
وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً( الاعراف :۲۰۵)
اپنے رب کو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ یاد کرو ۔
یہ آیت مبارکہ ہمیں قلب سلیم کے حصول کا طریقہ بتاتی ہے کہ تنہائی میں اللہ کے حضور عاجزی و انکساری سے بندہ اپنے لیے خیر کا طلبگار ہو،اپنے آپ کو حقیر جانے،اس طرح بندے کا قلب پاک بنے گا،اس کے دل میں اللہ کی بڑائی گھر کرے گی،اور دنیا اس کی نگاہوں میں حقیر ہو جائے گی۔ظاہری حسن بے وقعت اور باطنی حسن کی حقیقت سمجھ میں آجائے گی۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ(آل عمرا ن:۸ ۰)
پروردگار جب تو نے ہمیں سیدھی راہ پر لگا دیا ہے تو پھر کہیں ہمارے قلوب کو کجی میں مبتلا نہ کرنا۔ہمیں اپنے خزانۂ فیض سے رحمت عطا فرما کہ توہی حقیقی فیاض ہے۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠( الحشر:۱۰)
پروردگار ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہمارے ان بھائیوں کی جو ہم سے پہلے ایمان لے آئے ہیں اور ہمارے قلوب میں مومنوں کے خلاف کپٹ نہ پیدا ہونے دے بے شک تو بڑا ہی شفقت کرنے والا مہربان ہے۔
نبوی دعائیں بھی قلب سلیم کی تمنا سکھاتی ہیں۔ہم بھی اللہ کے حضور قلب سلیم کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اللھم ثبت قلبی علی دینک
اے اللہ میرے دل کو تیرے دین پر ثابت رکھ!
دل کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہوجائے،اللہ کی یاد دل کے اندر آ جائے تو یہی چیز دل کو قلب سلیم بنا دیتی ہے۔ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء کرام اسی مقصد کے تحت یعنی دلوں کو پاک کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ٢٠٢٢