اور سیلف ڈسپلن ، نظم و ضبط بنیادی طور پر مستقبل کی ترقی کے لیے رویے کو معتدل رکھنے کا نام ہے جو انہیں تاعمر آموزشی عمل سے گزرنے میں مستعد رکھتا ہے ۔نظم و ضبط کے عمومی معنی پابندی کے لیے جاتے ہیں، لیکن یہاں مراد سماج میں متوقع اور ناقابل قبول امور و معاملات سے آگاہی اور سماج کے معمول ( Social Norms)کا سلیقہ سیکھنا ہے ۔ڈسپلن کے نام پر نہ ہم بچوں کو سماج میں تقلیدی رول ادا کرنے والا بنائیں ،نہ ہی سماج میں آزادانہ زندگی وہ تصور رکھیں جو مغربی دنیا کا مادر پدر آزاد معاشرہ روا رکھتا ہے ۔نظم وضبط ان کے لیے زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ہونا چاہیے ۔
زندگی کو انسانیت کی سچی بہی خواہی کے لیے وقف کرنے اور مقصدِ زندگی کو سمجھنے کے لیے. بچوں کونظم وضبط کا پابند بنایا جائے، انہیں اللہ کے حدود کی پابندی سے متعلق آگاہی فراہم کرنے کے طریقےکو سمجھنے میں والدین کیسے مدد گار ہوسکتے ہیں ۔بچوں کو ہم ہر عمل سے پہلے قائل کریں کہ وہ یہ کام بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں ۔ پڑھنا ہو یا ، دعا یاد کروانا ہو ، ادب آداب سکھانا ہو ،یا ہم موبائل کے استعمال کرنے پر انہیں پابند کرنا چاہتے ہوں ۔ہر متوقع کام کروانے کے لیے ہم انہیں سیکھنے پر آمادہ کریں ، آمادگی کے لیے انہیںمنطقی انداز سے لاجیکلی قائل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ جبراًکسی کام کو کروا نے کی پالیسی کو ہم یکسر بدل دیں ۔ اس سلسلے میں جبر کا طریقہ درست ہے نہ ہی تقابل کا۔ اکثر والدین دوسرے بچوں سے تقابل کرتے ہوئے ترغیب دینا چاہتے ہیں ۔تقابل کے طریقے کے بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جبر کی دین میں ممانعت اسی وجہ سے ہے کہ انسانی طبعیت پر زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتا ۔ذیل میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی عملی تکنیک پیش کی جارہی ہے ۔
تربیت کا عملی فطری طریقہ :
عملی طریقے کو ہم ماڈلنگ کہہ سکتے ہیں۔ بچہ اپنے ماحول اور والدین نیز دیگر افراد کے مشاہدے سے بہت کچھ سیکھتا ہے ۔والدین اپنے بچے کے سب بڑے استاد ہیں ۔ بچے سے والدین توقع کرتے ہیں کہ وہ ہر کام کو منظم طریقے سے انجام دے ۔بچے کو ادب و آداب کا سلیقہ آئے ۔جب بچہ گھر کے بڑوں منظم دیکھتا ہے تو اسے بھی عمل کرنا آسان لگتا ہے۔ عملاً اپنانے کے لیے زیادہ مشقت پیش نہیں آتی ہے ۔جب والد کو اپنے بزرگوں کے ساتھ ،اپنی اہلیہ کے ساتھ، اپنے بچوں کے ساتھ احترام سے پیش آتے دیکھتا ہے ،اسے خود بھی آسانی سے اپنالیتا ہے ۔محمدﷺ کی سیرت سے ہمیں تربیت کا عملی انداز ہی ملتا ہے۔بچوں کے ساتھ محبت کا اظہار ہو یا بچوں کا احترام ۔
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں:
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت فاطمہ کے گھر کے صحن میں بیٹھ کر حضرت حسن کے بارے میں دریافت کیا، تھوڑی ہی دیر میں وہ آگئے، آپ نے انھیں گلے سے لگایا، بوسہ دیااور فرمایا: اے اللہ! میں حسن سے محبت رکھتا ہوں تو بھی حسن سے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھ۔(بخاری3749:، باب مناقب الحسن)
آپﷺ بچوں کو عملاً تربیت کا ماحول فراہم کرتے۔جس کا مناسب ترین طریقہ یہ ہے کہ والد محترم ہی بچے کو عادی بننے تک اپنے ساتھ لے جائیں، مسجد کے آداب مقتدی و امام کے اصول بتائیں آپ ﷺ عملا ایسا کرتے،بچوں کو بچپن ہی سے مسجد سے جوڑے رکھتے ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب ؓکا انتقال ہوا تو ان کی صاحبزادی امامہؓ سے آپ بہت زیادہ محبت کا اظہار فرماتے، ان پر بہت زیادہ شفقت فرماتے، بعض دفعہ اپنے ساتھ مسجد بھی لے آتے، وہ آپ پر حالت ِ نماز میں سوار بھی ہوجاتیں، جب آپ سجدہ میں جاتے تو انھیں نیچے اتار دیتے، جب قیام فرماتے تو کاندھے پر سوار فرمالیتے(بخاری516: ،باب إذا حمل جاریة صغیرة)
گلی میں بچوں کو کھیلتے تو سلام میں پہل فرماتے ۔حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ﷺ کی صحبت میں سنِ صغر ہی سے رہے ،تربیت کا ماحول اتنا فطری تھا کہ اپنے والد محترم کے بجائے آپ ﷺ کے پاس رہنے کو ترجیح دیا ۔تربیت کا ماحول فطری ہو عملی مشاہدے پر منتج ہوتو بچوں پر گراں نہیں گزرتا ۔
5سے 7 سال کی عمر کے بچوں کے مطالبات کو بغور سن لینے کے بعد آپ ان دوستانہ مشاورت کریں ۔
اب آپ فیصلہ کریں کہ وہ مطالبہ بچے کی صحت یا تربیت کے لیے کیساہے اگر وہ بچے کے حق میں کارآمد ہے تو صبر کی عادت پیداکرنے کی غرض سے کچھ تاخیر سے بچے کا مطالبہ پورا کریں، اس طرح صبر کی عادت،اپنے فیصلے سے پہلے مشاورت کی عادت پیدا ہوگی،چیز مل جانے کے بعد شکر کی عادت پیدا ہو گی ۔
اس طرح کے سوالات بچے کو مجرم ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ اس طرح کے استفسار میں جھوٹ بولنے کی گنجائش اس کا دماغ نکال سکتا ہے کہ ہاں پڑھ لیا ۔مثلاً ایک بچے کی والدہ نے بچے سے نماز کی تصدیق کے لیے اس کے گیلے آستین چیک کیا اور مطمئن ہوگئیں ۔بچے نے عادت بنالی کہ جب بھی اس سے سوال کیا جاتا وہ اپنی وضو کی گیلی آستین چیک کرواکر ماں کے چہرے کے اطمینان سے سکون پاتا ۔بچے کا میکانزم والدین کو خوش دیکھ کرسکون پاتا ہے ۔ایک مرتبہ جاڑے کے موسم میں فجر کی نماز میں بچے کے والد نے دیکھا ،بچہ تاخیر سے نماز کے لیے آیا، وضو گاہ میں بچہ صرف آستین گیلے کرنے لگا، اس نے وضو سردی کی شدت کے باعث نہیں کیا ،بعد ازاں آخری صف میںآخری رکعت کا سلام پھیر کر رخصت ہوگیا ۔ماجرا کیا ہے؟ والد صاحب نے بچے کو دیکھا ،وہ اپنی والدہ کو بطور تصدیق آستین کا گیلا پن چیک کروارہا تھا ۔اس لیے تربیت کے اصول اور یاددہانی کے لیے کیے جانے والے سوالات بچے کو جرم پر اکسانے والے یا مشکوک بنانے والے یا اعتماد کو کمزور کرنے والے نہ ہوں ۔
مذکورہ بالا سوالات کے بجائے دوستانہ لہجے میں کہیں چلیں مل کر نماز پڑھ لیتے ہیں یا آپ مسجد سے نمازادا کرکے آجائیں تب تک میں بھی ادا کرلوں ،اور بچے پر اعتماد کریں۔گاہے بہ گاہے اس کا اظہار بھی ہو کہ میرا بچہ جھوٹ نہیں کہتا ،وہ محسوس کریں کہ آپ سب سے زیادہ اس پر بھروسہ کرتی ہیں ۔اسی طرح دیگر امور میں یہ کہنے بجائے کہ ہوم ورک کیوں نہیں کیا ؟ آپ کہیں اب ہوم ورک کرلیتے ہیں ۔آپ اپنا ہوم ورک کریں ہم اپنا کام کررہے ہیں ۔ اس طرح کے جملے دوستانہ جملوں کے اثرات کام کا بوجھ نہیں بناتے، بلکہ کام میں بچے کے مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔یاددہانی بروقت ہوتو بچے بہت سہل انداز میں عادی بنتے جاتے ہیں ۔تربیت کو بوجھ بناکر انجام دینے سے ہوتی نہیں صرف بوجھ بناتی ہے ۔بروقت کام یا یاددہانی بروقت ہوتو بچے بہت سہل انداز میں عادی بنتے جاتے ہیں ۔تربیت کو بوجھ بناکر انجام دینے سے ہوتی نہیں، صرف بوجھ بناتی ہے ۔ بروقت کام یاددہانی اور انجام دہی نظم و ضبط کا عادی بناتی ہے۔
احساس ذمہ داری پیدا کرنا :
بچے کو جو والدین یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ اس سے غیر مشروط محبت کرتے ہیں،یہ یقین بچے کو ہو کہ والدین اسے مکمل آزادی دیتے ہیں، لیکن مشورے کی تلقین کرتے ہیں۔بچے کو آپ بچہ نہیںسمجھتے، بالکل اس پر مکمل اعتماد کرتے ہوں ۔کسی قسم کا خوف والدین اسے نہیں دلاتے ۔بہت بڑے نقصان پر بھی آپ کاردعمل انا للہ پڑھ کر مطمئن رہنے والا ہے ۔
السلام وعلیکم ۔۔یہ تو آپ نے بڑھتے بچّوں کے بارے میں لکھا ہے ۔پلز اُن بچّوں کے بارے میں بھی لکھیے۔جو دس گیارہ سال کے ہو چکی اور اب اُنکے والدین اُنکے تربیت شروع کرنا چاہتے ہوں ۔جزاک اللّٰہ خیرا
یہ پورا سلسلہ ہے اس عمر کے بچوں تک بھی آئیں گے ان شاءاللہ
ماشاءاللہ بہترین ۔۔۔۔
سیلف کنٹرول کے لیے روزہ بھی بہت مفید ہیں۔روزہ رکھنے کی عادت نفس کو کنٹرول کرنے میں بہت مدد کرتی ہے۔
بہترین طریقے اپ نےبتاے۔