اگست ٢٠٢٢
وہ چڑ کر کہتی۔
’’سمیرا مجھ سے جتنا حق ادا ہو سکتا ہے اتنا تو میں پورے دل و جان سے کوشش کرتا ہوں۔‘‘مسعود بھی اکھڑنے لگا تھا۔
’’مسعود مجھے لگتا ہے تم مکمل میرے نہیں ہو۔‘‘وہ رونے لگتی۔
’’جب دماغ میں فتور ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘مسعود کمرے سے نکل جاتا تھا۔
ایک سرد سی جنگ تھی جو اس کے اور مسعود کے بیچ جاری رہتی۔مسعود اسے سمجھا سمجھا کر تھک چکا تھا اور اس سے دور بھاگنے لگا تھا۔آفس سے آتے ہی زوبیہ کو لے کر سلمیٰ بیگم کے پاس بیٹھ جاتا تو رات گئے ہی کمرے میں آتا۔
’’مسعود ہم فلیٹ بک نہ کرالیں؟‘‘سمیرا نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘مسعود نے تیوری چڑھائی۔
’’وہ خاور بھائی نے فلیٹ بک کیا ہے الحیاۃ میں۔‘‘سمیرا پر اس کی خفگی کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
’’کیوں؟‘‘وہ ہنوز گھور کر بولا۔
’’اپنے بچوں کے لئے۔‘‘اس نے زوبیہ کا سہارا لیا۔
’’ہمیں ابھی ضرورت نہیں ہے۔‘‘مسعود برہمی سے بولا تھا۔
’’مگر مجھے ضرورت ہے۔‘‘وہ تنک کر ہٹ دھرمی سے بولی۔
’’وجہ؟‘‘وہ ضبط سے دانت کچکچا کر رہ گیا۔
’’میں اپنا گھر چاہتی ہوں۔‘‘وہ بھی چڑ کر بولی۔
’’یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘وہ سرخ چہرہ لیے اسے دیکھنے لگا۔
’’کیوں؟‘‘سمیرا پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا،وہ بھی جیسے طے کر کے ہی بیٹھی تھی۔

’’میں اپنے والدین سے الگ ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا،تم ایسا سوچنا بھی مت۔‘‘مسعود غصے میں دہاڑا تو وہ سہم گئی۔
’’ریلیکس! مسعود میں نے ایسی کیا بات کر دی کہ تم چھت سے جا لگے؟‘‘سمیرا نے ہنس کر مسعود کے سامنے بات تو ختم کردی تھی،لیکن دل ہی دل میں وہ سلمیٰ بیگم کے اور خلاف ہوگئی تھی۔
صدف نے وکالت پاس کی تو اس کا بھی اچھے گھر میں رشتہ کردیا گیا،اور یوں وہ بھی اپنے گھر کی ہوگئی۔عابد کے لئے بابا کے دوست نے رشتہ بھیجا تو دوستی کو اور پکا کیا گیا۔تہمینہ بھی جاب کرتی تھی،شادی کے بعد بھی اس نے جاب جاری رکھی تھی۔سارہ صدف کے جانے سے اکیلی ہو گئی تھی۔تہمینہ نے اس کی دل جوئی کی۔صبح سویرے ہی دونوں مل کر کچن کے کام اور دوسرے امور نمٹاتیں۔تہمینہ آفس نکل جاتی اور سارہ سلمیٰ بیگم کے پاس آبیٹھتی تھی۔سلمیٰ بیگم کو مکمل طور پر گھرداری سے آرام ہوگیا تھا۔تہمینہ آفس سے آتے ہی کچن میں گھس جاتی تھی اور سارے کام بخوشی نمٹاتی رہتی۔سارہ اور وہ مل جل کر کام کرتی تھیں۔سمیرا کو بھی کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔مسعود تہمینہ کو یوں گھل مل کر گھر کے کام کاج کر تے دیکھتا تو شکایتی نظروں سے سمیرا کو دیکھتا تھا۔سمیرا جھٹ تھکان کا بہانہ بنا لیتی تھی۔
’’جاب چھوڑ دو ،کس نے کہا خوار ہوتی پھرو۔‘‘مسعود فوراً کہتا۔
’’یہ تو کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘وہ ضد اور ہٹ دھرمی سے کہتی۔
ان ہی دنوں وہ پھر امید سے تھی۔زوبیہ تین برس کی ہوگئی تھی۔اس کی طبیعت گری گری رہنے لگی تھی اور وہ حد درجہ بیزار۔زوبیہ کو دادی اور چچیوں نے اپنے بچوں کی طرح رکھا تھا۔سارہ،ارسلان سے زیادہ زوبیہ کے ناز نخرے اٹھاتی تھی۔سمیرا کے آنے پر کبھی احسان نہیں جتاتی تھی کہ وہ اس کی بچی کو سنبھالتی ہے،ہاں اس کی پیار بھری باتیں شرارتیں سب کو بتا کر خوش کرتی تھی۔اتنا اچھا گھر،اتنا اچھا ماحول،اتنے پیار کرنے والے لوگوں کے ساتھ سمیرا رہنا نہیں چاہتی تھی۔آئے دن مسعود سے تلخ کلامی ماحول کو مکدر کرتی رہتی تھی،بلکہ گھر کا خواب اس کے لیے جھگڑے کی بنیاد بن چکا تھا۔اس دن بھی بات گھوم پھر کر الگ گھر کے لیے آکر رک گئی۔
’’دیکھو سمیرا!تمہیں میں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں میں الگ نہیں ہو سکتا۔‘‘مسعود نے چڑ کر کہا۔
’’پہلے تو تم ذمہ داریوں کا رونا روتے تھے ،اب کیا ہے؟بھائی بہنوں کی شادیاں ہو گئی ہیں،اب کیا اعتراض ہے؟‘‘سمیرا نے غصے سے پوچھا۔
’’میرے والدین بھی میری ذمہ داریوں میں سے ہیں۔‘‘مسعود نے سختی سے کہا۔
’’میں کچھ نہیں جانتی،مجھے میرا حق چاہیے،مجھے الگ گھر میں رہنا ہے،میں ساری زندگی ایک کمرے میں نہیں گزار سکتی۔‘‘سمیرا برجستہ بولی۔
’’تم نے خود اپنے آپ کو ایک کمرے تک محدود کر لیا ہے،ورنہ امی نے تو پورا گھر تمہارے حوالے کیا ہوا تھا۔‘‘مسعود نے غصے سے مٹھیاں بھینچیں۔
’’یہ میرا گھر نہیں ہے،میرا گھر وہ ہوگا جہاں صرف میرا حکم چلے گا،جہاں ہمارے معاملے میں کوئی انٹرفیر نہیں کرے گا۔‘‘سمیرا تنک کر بولی۔
’’کون کرتا ہے تمہارے معاملے میں مداخلت؟‘‘مسعود نے پوچھا۔
’’تم نے شروع سے اپنی مرضی چلائی ہے،تمہیں کبھی کسی نے روکا یا کسی نے ٹوکا؟گھر کا ماحول ہر بار تم خراب کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہو ،کچھ نہ کچھ روز ایسا کرتی ہو کہ بندہ گھر میں سکون ہی نہ لے،اب تم یہ چاہتی ہو گھر الگ ہو تو یہ نا ممکن ہے۔‘‘مسعود غصے سے بولنے لگا تو وہ حیرت سے دیکھنے لگی۔
اس کی دانست میں مسعود خاموش ہے تو اس کچھ نہیں معلوم ہے،لیکن وہ تو سب سمجھتا تھا۔
’’میں یہاں نہیں رہنا چاہتی۔‘‘وہ بھی چڑ کر بولی۔
’’ٹھیک ہے پھر چلی جاؤ،کیونکہ میں تا عمر یہی رہنا چاہتا ہوں۔‘‘مسعود نے بے پناہ سختی سے مضبوط لہجے میں کہا۔وہ اندر تک تھرا کر رہ گئی مگر پھر بھی ڈٹی ہوئی تھی۔
’’ٹھیک ہے مسعود،تم یہاں رہو،میں میکے جا رہی ہوں،جس روز تم الگ گھر لو گے،لینے آجانا۔‘‘وہ بے پرواہی سے بولی۔
’’دماغ درست ہے تمہارا؟‘‘وہ حیران ہوا۔
’’ہاں درست ہے،میں نہیں دیکھ سکتی،ہر وقت ماں سے چونچلے کرتے رہتے ہو،نہیں برداشت ہوتا مجھ سے ،رات کو دیر تک سب کے ساتھ بیٹھے رہو،اور میں تمہارا انتظار کرتی رہوں،میں بیوی ہوں تمہاری۔‘‘وہ غصے سے بولی۔
’’تو بیوی بن کر رہو،باس مت بنو۔‘‘مسعود غصے سے کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
رات کو بھی کمرے میں آیا تو چپ چاپ سو گیا۔ وہ بھی نہ بولی،وہ سمجھتی تھی کہ وہ حق پر ہے،اور بات نہیں کرے گی تو ہمیشہ کی طرح وہ اسے منا لے گا اور اس کی بات مان جائے گا۔اگلے روز وہ آفس نہیں گئی۔مسعود اس سے بات کیے بغیر ہی آفس چلا گیا۔اس کا کوئی کام تو وہ کرتی ہی نہیں تھی،جو وہ ضرورت سے ہی سہی کچھ تو کہتا۔اس کے جانے کے بعد اس نے بیگ میں اپنے چند جوڑے لیے،زوبیہ کا سامان بھی اٹھایا اور ساس کو بتا کر میکےآگئی۔اس نے میکے میں بھی نہیں بتایا کہ وہ مسعود سے لڑ کر آئی ہے۔شام کو مسعود کا فون آیا،اس کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ دوڑی۔
’’تم گھر چھوڑ کر گئی ہو؟‘‘اس کی آواز مضبوط تھی۔
’’ہاں۔‘‘سمیرا نے ہنکاربھری۔
’’یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟‘‘مسعود نے سختی سے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘اس کے لہجے کی سختی سے اس کا دل ایک بار ڈولا،پھر بھی اپنی انا کی خاطر اس نے برجستہ جواب دیا۔(جاری)

پہلے تو تم ذمہ داریوں کا رونا روتے تھے ،اب کیا ہے؟بھائی بہنوں کی شادیاں ہو گئی ہیں،اب کیا اعتراض ہے؟‘‘سمیرا نے غصے سے پوچھا۔
’’میرے والدین بھی میری ذمہ داریوں میں سے ہیں۔‘‘مسعود نے سختی سے کہا۔

Comments From Facebook

2 Comments

  1. تسنیم فرزانہ بنگلور

    بہترین ناول بے چینی سے انتظار رہتا ہے اگلی قسط کا….. لیکن
    یک ہی نظر میں پڑھنے کے بعد قسط بہت چھوٹی لگتی ہے….. دل کہتا ہے کہ کاش اور تھوڑی بڑی ہوتی

    Reply
    • سیدہ ایمن

      اس کہانی کو اتنے چاؤ ساور لگاوٹ سے پڑھنے کےلئے جزاک اللہ خیرا بہنا

      سیدہ ایمن عبدالستار

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ٢٠٢٢