امید

“امید”

تم میرا انتظار کرنا۔۔۔میں جنگ کے بعد تمہارے پاس لوٹوں گا۔۔وہ اس کا ہاتھ تھامے اس کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
مگر وہ سمجھنے سے انکاری مسلسل سر نفی میں ہلا رہی تھی۔
میں لوٹوں گا تمہاری قسم۔۔
کب۔۔؟۔۔اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔جو اپنے مخصوص فوجی لباس میں سر پر فلسطينی جھنڈا باندھے جانے کو بلکل تیار کھڑا تھا۔۔۔
ایک ثانیہ کو وہ تھما تھا۔۔آنکھیں مدھم پڑی تھیں۔۔ یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب وہ خود نہیں جانتا تھا تو اسے کیا بتاتا۔
فلسطينی فوجی ٹھکانے پہ اسرائيلی فوج نے پھر سے حملہ کر دیا تھا۔۔اور یہ حملہ لمحہ بہ لمحہ جاری تھا ۔۔جنگ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔مسلسل حملوں کی وجہ سے چھٹیوں پہ گئے جوان واپس لوٹ رہے تھے۔۔وہ بھی اپنی شادی کے لیے چند چھٹیاں لے کر آیا تھا۔۔ کچھ ہی دنوں میں اس کو سہرا سجنے والا تھا مگر اچانک بلاوے کی وجہ سے اسے سب کچھ چھوڑ کے جانا پڑا اور اسے جانا ہی تھا، کیونکہ بات جب ملک وقوم اور اپنے پیاروں کی حفاظت کی آتی ہے تو اپنی تمام تر خوشیاں اور خواب کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔وہ بھی اس وقت صرف ایک محافظ کی طرح سوچ رہا تھا، جس کو اپنی قوم کے نئے نئے معصوم پلتے خوابوں کی حفاظت کرنی تھی۔۔ان کلیوں کو دشمن کے پنجوں سے بچانا تھا جنہوں نے ابھی اپنی خوشبو بکھیرنی شروع کی تھی۔۔ان پھولوں کو بچانا تھا جو عرصے سے مسلے جارہے ہیں۔۔۔
اس نے بھی ان مسکراہٹوں سے مہکتے معصوم چہروں کو آگ کے شعلوں سے بچانے کیلئے اپنی خوشیوں کو نظرانداز کر دیا تھا۔۔
وہ آنکھوں میں اضطراب لیے اسے تک رہی تھی۔۔وہ ایک ایسے سوال کے جواب کی منتظر تھی جس کا جواب وہ خود نہیں جانتا تھا۔۔۔وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ لوٹے گا بھی یا نہیں۔۔
بہارِ نو میں۔۔جب اس خزاں کا دورانیہ ختم ہوگا۔۔جب خشک پتوں کی جگہ نئے پتے لے لیں گے۔۔جب شاخوں پہ پھول کھلنے لگیں گے اور اس فضا کو معطر کرنے لگیں گے۔۔جب ہوائیں خوشبو کا پیغام لائیں گی تب میں واپس آوں گا اور تمہیں لے جاوں گا۔۔اور ہم ان مہکتی فضاوں میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔۔اور ہر طرف صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔۔تم میرا انتظار کرنا۔۔اس نے اسے ایک جھوٹی ہی سہی مگر تسلی دینا چاہی۔۔
تم سچ کہہ رہے ہو , تم واپس آؤ گے ناں۔۔اس نے ایک امید سے اس کی طرف دیکھا
وہ دل میں اپنی بات کے سچ ثابت ہونے کی دعا کرتا ہوا۔۔مسکراتے ہوئے بس اسے دیکھتا رہا۔۔۔
لیکن تم اگر نا بھی جاؤ تو کیا ہو گا اور بھی بہت سے لوگ حفاظت کے لیے ہیں ۔۔۔اسے جیسے ابھی بھی تسلی نہیں ہو رہی تھی۔۔ اس کی بے چینی نے اسے خود غرضی سے سوچنے پہ مجبور کردیا تھا۔۔
خود غرض نہ بنو۔۔میرا جانا ضروری ہے، مجھے اپنا فرض نبھانا ہے ، تمہاری اور ان سب معصوموں کی حفاظت کرنے جا رہا ہوں۔۔اور تم سب کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے۔۔۔ وہ ٹیلے پہ کھڑا اپنی بستی میں کھیلتے بچوں کی طرف ایک افسردہ نگاہ ڈال کر اس کی طرف پلٹا۔۔
ٹھیک ہے جاؤ۔۔اللہ کے امان میں۔۔
دو ماہ پہلے ہوئی اس ملاقات کا ایک ایک لفظ اس کے ذہن میں ویسے ہی مقید تھا ۔
ایک امید کی ڈور تھی جس پہ اس کی سانسیں چل رہی تھیں کہ کبھی تو ان کی مدد ہوگی، کبھی تو یہ ظلم تھمے گا۔۔، کبھی تو وہ وقت آئے گا جب یہاں کے انسان ،انسان ہونے کا درجہ پائیں گے، کبھی تو وہ وقت آئے گا جب اُن کے گھروں میں نوجوانوں کا صفِ ماتم بچھنے کی بجائے، ایک خوشگوار فضا میں خوشیوں کے شادیانے اور بچوں کی کلکاریاں سننے کو ملیں گی۔۔کبھی تو کوئی فرشتہ اپنے پر پھیلائے اترے گا جو ان کو اپنے پروں کی حفاظت میں لے لے گا، اور ان معصوم زندگیوں کو اس درندگی کی نذر ہونے سے بچا لے گا۔۔ایک امید کی ڈور تھی جس نے اس کی اور بہت سے لوگوں کی زندگیوں اور خوشیوں کو پرویا ہواتھا۔۔۔
اپنے شادی کے جوڑے کو ہاتھ سے سہلاتے ہوئے سوچوں میں گم اس نے باہر ایک دھماکے کی آواز سنی تھی، اور ساتھ ہی چیخ پکار کا ایک طوفان تھا جو اٹھا اور ارد گرد کے پرسکون ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔
اس نے اپنی میکسی کو وہیں چھوڑا اور بھاگ کر کھڑکی کی طرف لپکی۔۔۔اپنی آنکھوں سے اس نے پہلے ایک پھر دوسری بلڈنگ کو زمیں بوس ہوتے دیکھا۔۔ہر طرف افراتفری پھیل گئی تھی۔۔کوئی ماں اپنے نو عمر زخمی بچے کو تھامے چلا رہی تھی،مدد کے لیے پکار رہی تھی، کوئی معصوم اپنی ماں کا ہاتھ مسلسل ہلاتے ہوئے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا جو اس دنیا سے کوچ کر چکی تھی۔۔ کوئی باپ اپنے بچے کا ٹیڈی بیئر بغل میں دبائے دیوانہ وار ادھر ادھر آوازیں لگا رہا تھا۔۔کہیں دور سے کسی بچے کی رونے کی آواز آ رہی تھی جو شاید اس دنیا میں اکیلا رہ گیا تھا۔۔ چند سیکنڈوں کا کھیل تھا جس نے سارے ماحول کو بدل کے رکھ دیا تھا۔سارے ماحول کو عجیب خون اور خوف وہراس نے لمحوں میں اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔۔
وہ سارے منظر کو خشک آنکھوں اور تھمے ہوئے سانسوں کے ساتھ دیکھ رہی تھی کہ اچانک اس نے ایک آگ کے گولےکو بڑی تیزی سے اپنی طرف بڑھتے دیکھا۔۔
دل تھما تھا، سانسیں رکی تھیں۔۔اس نے مڑ کر ایک نظر اپنے عروسی جوڑے پہ ڈالی۔۔چہرے پہ مسکراہٹ اور آنکھوں میں پانی آ ٹھہرا تھا جسے ابھی باہر نکلنا تھا مگر اس پاک شفاف پانی کو آنکھ سے باہر نکلنے کا موقع نہیں ملا۔۔دھڑام کی آواز سے ایک اور بلڈنگ ملیا میٹ ہوگئی۔۔جس کے ساتھ ہی بہت سے خواب اس ملبے تلے دفن ہوگئے۔۔
امید کی ڈور ٹوٹ گئی تھی اور خواب بکھر گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے