اپنے پسندیدہ ناول پر افسانہ ناول نگار کے تعارف کے ساتھ

یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں بی اے سال دوم کے طالب علم تھی ۔ اُس وقت میری طبعیت کچھ خراب سی تھی۔ نہ پڑھائی میں توجہ دے پا رہی تھی اور نہ تو گھر کے کام میں ۔ ڈائری لکھنا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا لیکن کچھ لکھنے کا بھی دل نہیں کر رہا تھا اور نہ تو کسی سے بات کرنے موڈ تھا۔ میں چپ چاپ بیڈ پر زندہ لاش کی طرح ادھر سے اُدھر کروٹ بدلتی اور سو جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ آخر میرا مسئلہ کیاتھا ؟؟؟؟ اتنا عجیب مزاج کسی کا ہو سکتا ہے بھلا !! صرف اتنا ہی نہیں وقت پر کھانا نہ کھانے کے سبب مجھے کمزوری لاحق ہوگی تھی اتنی کمزوری کے میں کچھ دیر کے لیے کھڑی ہوتی تو چکّر آ جاتا اور گر جاتی اسلیے امی نے اکیلے گھر کے باہر جانے سے صاف منع کر دیا۔ ویسے تو زیادہ کہی جاتی نہیں تھی سوائے کالج کے اور اب اُس پر بھی پابندی لگ گئی کے اکیلےباہر بالکل نہیں جانا ہے ۔ وقت گزاری کے لیے میں انسٹاگرام اکاؤنٹ اسٹارٹ کیا ہے مجھے جب بھی فرصت ملتی میں انسٹاگرام پر پوئیٹری پوسٹ کرتی لیکن ان دنوں میرا موڈ کچھ ایسا تھا کے کچھ بھی کرنے کا دل نہیں کر رہا تھا ۔ ان دنوں میرے سر میں شدید قسم کا درد تھا میں نے سب کچھ کر کے دیکھ لیا پھر بھی کچھ اثر نہیں ہوا دن بدن میرا سر درد مسلسل بڑھتا چلا گیا ایسا لگ رہا تھا جیسے میرا یہ سر درد پاگلپن میں بدل جائےگا ۔۔۔۔۔۔۔ کہی ایسا تو نہیں کے میں ذہنی طور پر بیمار ہو !! دل میں عجیب عجیب خیال آنے لگے میرا سر درد مجھے بار بار موت کی یاد دلا رہا تھا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں کچھ ایسا ویسا سوچنا شروع کرتی میری آنکھیں نم ہو جاتی اور دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی اور میں خود کو پوری طرح سے کمزور محسوس کرتی ۔۔۔۔۔۔۔اور موت کا ڈر مجھے رنجیدہ کر دیتا۔ یہ میرا زندگی کا پہلا واقعہ تھا جس نے میرے دل میں موت کا ڈر ڈالا تھا ۔
اسی دوران ایک دن میری بات میری ایک بہت اچھی دوست ثمرین سے ہوئی میں اکثر اُس سے اپنے مسائل شیئر کرتی تھی اور وہ مجھےاُسکا حل بھی بتاتی اسلئے بنا کسی ہچکچاہٹ کے میں نے اُس کے ساتھ اپنا یہ مسئلہ شئیر کیا اُس نے پہلے تو مجھے کہا کے کسی اچھے سے ڈاکٹر سے چیک اپ کروا لو تاکہ پتہ چلے اتنا سر درد کس بات کا۔ اور ساتھ ہی مجھے اپنی صحت کا خیال رکھنے کے لیے کہا ۔ میرے معاشی حالات اتنے اچھے نہیں تھی کے میں کسی اچھے ہاسپٹل میں اپنا ٹریٹمنٹ کروا سکو اس لیے اُسی وقت میں نے طے کیا کے میں صرف ایک بار صرف ایک بار کسی اچھے سے ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کر وانگی تاکہ اصل وجہ مجھے پتہ چلے اُس لیے بعد جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا ۔ اور ٹھیک اپنے ارادے کے مطابق میں نے اگلے ہی دن سی ٹی برین اسکین کروایا مگر اُسکی بھی رپورٹ نارمل تھی اور ڈاکٹر نے صلاح دی تھی کے آپ کسی بھی چیز کے بارے میں زیادہ نہ سوچیں ۔آخر وجہ کیا تھی میرے سر درد کی ؟ اس سوال کا جواب آپکو افسانے کے اختتام میں ملےگا اُس کے لیے آپکو یہ افسانہ مکمل پڑھنا ہوگا ۔ نارمل رپورٹ کے بعد مجھے پوری طرح سے اطمینان ہوا اور میں نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا کے اُس نے مجھے ہر بیماری سے محفوظ رکھا ۔ امی اکثر کہا کرتی تھی کی دوا اثر نہ کرے تو دعا کرنی چاہیے اور میں نے وہی کیا میرے اس سر درد کی شدت مجھے سجدے تک کھینچ لائی جس نے مجھے نماز کا پابند بنا دیا اور یہ احساس دلایا کہ خدا کے ساتھ کی گئی گفتگو روح کو سکون دیتی ہے اور چہرے کو منور کر دیتی ہے ۔ میری ہر نماز کی صرف ایک ہی دعا تھی ” یا اللّٰہ مجھے ذہنی سکون عطا کر دے” اور پھر میں کافی دیر تک سجدے میں پڑے رہتی ۔ اور خود کو تسلی دیتی کے انشاء اللہ بہت جلد ہی میرا سر درد ٹھیک ہو جائیگا ۔
وقت گزرتا گیا اور آج کافی دنوں بعد میں نے اپنی دوست ثمرین سے میسج پر بات کی تھی اور اُس نے میری طبیعت کے تعلق سے پوچھا۔ میں نے بڑے ہے اطمینان سے جواب دیا کہ “, الحمدللہ پہلے سے کافی بہتر ہے” یہ میری واحد دوست تھی جسکو ناول پڑھنا بہت زیادہ پسند تھا ۔ باقی دوست بھی ناول پڑھتے تھے جن میں عالیہ بھی شامل تھی لیکن آج تک میری اُس سے ملاقات نہیں ہوئی اُس کوبھی ناول پڑھنا بہت زیادہ پسند تھا ۔ اس کے باوجود میرے اور بھی دوست تھے جو آنلائن ناول پڑھتے تھے جن میں مسرّت شامل تھی جو کے ناول کی دیوانی تھی اور آج بھی ہے اس نے آنلائن بہت سارے ناول پڑھے ہے اور آنلائن ناول پڑھنا مجھے پہاڑ پر چڑھنے کے برابر لگتا تھا پتہ نہیں وہ کیسے پڑھ لیتی تھی ۔ ہاں ! تو ہم بات کر رہے تھے میری دوست ثمرین یہ محترمہ بھی ناول کے پیچھے پاگ جو نمرہ احمد کی بہت ساری نولز پڑھ چکی تھی اور کچھ دیر بات کرنے کے بعد میں نے میسج پر سوالیہ انداز میں پوچھا محترمہ اب کونسا ناول پڑھ رہی ہو ؟
مختصر جواب آیا ” میں انمول”۔
میں انمول ! میری زبان سے بے ساختہ نکلا ۔۔۔۔ مجھے یہ الفاظ سنے سنے سے لگے میں نے اپنے دماغ کے گھوڑے دوڑائے مجھے سب یاد آگیا اور پھر وہ سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا ۔ میرے چہرے پر ایک ہلکی سے مسکراہٹ آگئی ایسا لگ رہا تھا جیسے میری کھوئی ہوئی عزیز چیز مجھے واپس مل گئی ہو کیوں کے ” میں انمول” اس عنوان پر میں نے کالج یونیورسٹی میں ایک ڈراما پیش کیا تھا جس کے اندر میں نے بیٹیوں کی اہمیت بڑے ہی پر لُطف انداز میں واضح کی تھی اور اس ڈرامے کی اسکرپٹ میں نے خود لکھی تھی مجھے پوری اسکرپٹ تو یاد نہیں صرف دو لائن یاد ہے جو میں نے ڈرامے کی ابتداء میں لکھے تھے اور وہ لائن یہ تھے
” میں انمول میں بیٹی ہوں
میں بیٹی ہوں تو میں انمول ”
اور آج تک میرے اُس ڈرامے کی ریکارڈنگ ہمار یونیورسٹی کے کیمرے میں قید ہے اور اس ناول نے ساری پرانی یادیں تازہ کر دی ۔ مجھے ناول کا موضوع بہت بےحد پسند آیا اب مجھے بھی وہ ناول پڑھنا تھا ناول کے موضوع سے میں نے اندازہ لگا لیا کے وہ ناول کس بارے میں ہے اور میرا اندازہ تقریبًا صحیح ثابت ہوا ۔ میں نے اپنی دوست سے کہا مجھے بھی وہ ناول پڑھنی ہے ۔ اُس نے کہا ٹھیک ہے دو دن بعد لے جاؤ ۔ میں جھٹ سے گوگل پر گئی اور میں انمول ناول سرچ کیا اور ناول کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے لگی ۔
جیسے ہے اُس ناول کی تصویر میری سامنے آئی میں دیکھتی ہی رہے گی آسمانی رنگ کی بہت موٹی جلد جس پر موٹے موٹے حرفوں میں لکھا تھا میں انمول اور ساتھ ہی نیچے مصنفہ کا نام نمرہ احمد موجود تھا ۔ یہ دو دن میرے لیے دو سال سے کم نہیں تھے مجھے ایسا لگا جیسے کوئی میرا صبر کی آخری حد جاننے کی کوشش کر رہا تھا میں بڑی بےصبری سے وہ دو دن گزارنے کا انتظار کرنے لگی خیر اللّٰہ اللّٰہ کر کے وہ دو دن گزر گئے پچھلے دو دنوں میں جس کتاب کو میں نے گوگل پر تلاش کیا تھا آج وہ میرے ہاتھ میں تھی ۔۔۔۔۔۔۔ جب میں نے اُس کتاب کو اپنے ہاتھوں لیا اُس وقت میری خوشی کا یہ عالم تھا کہ وہ ساتوں آسمان کو چھو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کتاب کا اچھی طرح سے جائزہ لیا اور پھر اُسکی قیمت دیکھی ۔ جیسے ہی کتاب کو پیچھے پلٹایا میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہے گئی ۔۔۔۔ بتاؤ تو ایسا کیا دیکھ لیا میں نے ؟؟؟
ایک کتاب کی قیمت 600 روپے ۔۔۔۔۔۔ میں نے گرج دار آواز میں کہا ۔ اور پھر خود سے سوال کیا۔۔۔۔ کہکشاں ! کیا سچ میں الفاظ کی اتنی قیمت ہوتی ہے ۔ ایسا کیا ہے اس کتاب میں جس کی قیمت 600 روپے ہیں۔۔میں مسلسل بڑبڑانے لگی کیوں کے پہلی بار میں نے اتنی موٹی کتاب اپنے ہاتھ میں پکڑی تھی جس کی قیمت 600 تھی میں نے کتاب کا آخری صفحہ دیکھا جس کا نمبر 603 تھا ۔ یعنی کے وہ 600 روپے کی کتاب 603
صفحات پر مشتمل تھی.
میں نے خود سے ہے احمقانہ انداز میں سوال کیا !
کتاب کی قیمت 600 ہے ، اور صفحات کی تعداد 603 ہے تو بتاؤ ہے پوری کتاب کتنے الفاظ پر مشتمل ہے ؟؟
اور پھر اس سوال کو نظر انداز کر کے میں نے کتاب کھو لی
جس کے پہلے صفحے پر ناول سے متعلق مزید معلومات تھی ۔
نومبر 2021 کو اس ناول کی اشاعت ہوئی تھی اور ساتھ ہی کسی منشورات پبلشرز انڈسٹری بیوٹرز کا ایڈریس تھا ۔ میں نے ایک نظر نیچے ڈالی وہاں فون نمبر اور ای میل لکھا تھا اور ساتھ ہی پبلشرز کی ویب سائٹ WWW.manshurat.in دستیاب تھی ۔ میں نے بےصبری سے اگلے صفحے پر نظر ڈالی
جس پر موٹے لفظوں میں انتساب لکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے تو مجھے لگا یہ غیر ضروری ہے لیکن پھر خیال آیا کہ جب پوری ناول پڑھنی ہے تو ایک صفحہ کیوں چھوڑنا !!! میں نے بڑے ہی اطمینان سے انتساب پڑھنا شروع کیا ۔ انتساب میں مصنفہ نے اپنا دس سال کا تجربہ اس ناول میں بڑے ہی پرجوش انداز میں نہایت سادہ اور آسان الفاظ میں پیش کرنے جا رہی تھی میں نے بڑی ہے دلچسپی کے ساتھ اگلے صفحے پر نظر دوڑائی اُس صفحے کے سب سے اوپر موٹے لفظوں میں تعارف لکھا تھا خیر مجھے پڑھنا تو نہیں تھا لیکن پھر بھی پڑھنا پڑا تاکہ پورا ناول آسانی سے سمجھ آ سکے ۔۔۔۔۔۔ میں نے جلد بازی میں ہر لائن پر سر سری نظر ڈالی اور آگے بڑھ گئی میں صفحہ پلٹانے ہی والی تھی کے ایک لفظ نے مجھے وہی روک لیا جسے پڑھ کرمیری آنکھیں کھلی کی کھلی رہے گئی مجھے ایسا لگا جیسے مجھے میرے سر درد کی اصل وجہ مل گی میں پھر سے واپس تعارف کے صفحے پر آ گئی اور اس بار پوری اطمینان سے اور سنجیدگی سے کتاب میں سر جھکائے تعارف پڑھنے لگی صرف ایک لفظ نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ لفظ تھا ” ماضی” اب میری دلچسپی مزید بڑھتی گئی میں نے پورا تعارف پڑھاجس میں لکھا تھا یہ کتاب اُن لوگوں کے لیے جو احساس كمتری کا شکار ہے۔ جن لوگوں کو اپنا ٹیلنٹ نہیں پتہ ۔ جن کے پاس اچھے دوست نہیں ہے ۔ جو ماضی کے حادثات کا شکار ہیں ۔ جن کے رشتے اُنکے قدر نہیں کرتے ۔ اور ایسے لوگ جو حیرت انگیز شخصیت کے مالک بننا چاہتے ہیں لیکن بن نہیں پاتے۔ ایسے لوگ جو اپنا موازنہ دوسروں سے کرتے ہے اور خود کو ہر جگہ دوسروں سے کمتر محسوس کرتے ہیں ۔ جو تنہائی میں ہر وقت اُداس رہتے ہے ۔ آخری لائن میں لاہور آگست 2020 اور سائڈ میں مصنفہ کا نام نمرہ احمد لکھا تھا یعنی یہ ناول لکھنے کی ابتداء اگست 2020 میں ہوئی اور اشاعت نومبر 2021 میں ہوئی تھی یعنی ایک ناول لکھنے کے لیے ایک سال تین مہینے لگے۔۔۔۔ میں نے بڑے ہی تجسس بھرے لہجے میں خود سے سوال کیا اور جواب بھی خود ہے دیا ۔۔۔۔۔۔
ہاں !! دس سال کا تجربہ ایک کتاب میں بیان کرنے آسان تھوڑی ہے ۔ یہاں ایک بات بڑی دلچسپ تھی مصنفہ نے اپنا دس سال کا تجربہ 33 دنوں میں پیش کیا اور اس کتاب کوئی 33 دنوں میں ختم کرنے کا اعلان کیا یعنی کے ہر ایک دن ایک باب کی طرح تھا اور باب ختم ہوتے ہی اُس کی آخر میں مشقی سوالات دیے گے تھے جس کے جوابات ہمیں اپنی ڈائری میں لکھنا تھا مجھے یہ آئیڈیا بے حد پسند آیا کیوں کے مجھے پہلے سے ہی ڈائری لکھنا پسند تھا ۔ مصنفہ نے پہلا باب شروع ہونے سے پہلے ہی بتا دیا تھا کے یہ کتاب کسی بھی انسان کی زندگی بدل نہیں سکتی لیکن اس کتاب کو پڑھ کر ہر کوئی اپنا زندگی بدل سکتا ہی اس کتاب کا اصل مقصد کسی بیماری کا علاج کرنا نہیں بلکہ انسان کو اپنے آپ سے ، اپنی ذات سے ملوانا تھا ۔ میں انمول یعنی کے انسان کو اپنی ذاتی خوبیوں سے واقف کرانا تھا اور یہ بتانا تھا کے ہم اپنے لیے کیا ہے ؟ ہماری نظر میں ہماری اپنی عزت کیا ہے ؟ میں نے جلدی سے صفحہ پلٹ دیا اور پہلا باب پڑھنے لگی میں پوری غور و خوض کے ساتھ پہلا باب یعنی پہلا دن پڑھنے میں مصروف ہوگئ ایک بار پھر ایک لفظ نے مجھے اپنی طرف مائل کیا تھا اس بار میرا یقین اور بھی پُختہ ہو گیا کہ میرے سر درد کا اصل راز اس ناول میں موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔ دل کر رہا تھا کہ پوری ناول ٹٹول ٹٹول کر دیکھو کے آخر کیا ہے میرے سر درد کی اصل جڑ ۔ اور میں بنا روکے ناول پڑھتی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔ جیسے جیسے میں ناول پڑھتی گئی میری دلچسپی مزید بڑھتی گئی اور دوران میں بھول گئی کے میرے سر میں شدید درد تھا۔۔۔۔۔
اچانک امی کی نظر میرے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی ناول پر پڑی کچھ دونوں تک انہوں نے مجھے کتاب پڑھتے دیکھا لیکن کچھ نہیں کہا اور آج اچانک امی نے میری طرح بنا روکے بولنا شروع کر دیا اور کہا کہ جب اتنی موٹی کتاب ایک ساتھ ٹک ٹکی لگائے پڑھوں گئی تو سر میں درد تو ہونا ہی ہے اور نہایت ہی غصّے بھرے لہجے میں کہا کے ” یہ کتاب رکھ دو ” اور مجھے مزید پریشان مت کرو۔۔۔۔ میں نے انکی جانب ایک ہلکی سی نظر ڈالی اور دل ہے دل میں کہا ” امی آپ نہیں جانتی جس کتاب کو آپ میرے سر درد کی وجہ سمجھ رہی ہے اصل میں وہی کتاب مجھے اس سر درد کا باہر نکل نکلنے کا راستہ دکھا رہی ہے ” اور پھر میں نے کتاب رکھ دی ۔ تاکہ امی پوری طرح سے مطمئن ہو جائے ۔ اور پھر میں نے کچھ دن اُس ناول کو ہاتھ بھی نہیں لگایا کیوں کے میرا سر درد واقعی اچھا خاصا ٹھیک ہو گیا تھا اور پہلے سے کافی بہتر محسوس کر رہی تھی اسلئے میں نے کالج جانا شروع کر دیا اور پڑھائی پر توجہ دینے لگی۔ اور میں اپنی کالج لائف میں اتنا مصروف ہوگی کی وہ ناول پڑھنا بھول گئی ۔اگلے ہے دن جب میں اپنے کالج کے کسی کام میں مصروف تھی اچانک سائڈ میں رکھے فون کی ٹون بجی میں نے جھٹ سے فون ہاتھ میں لیا وہ میری دوست ثمرین کا میسج تھا جس نے مجھے ناول پڑھنے کے لیے دی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میسج پڑھتے ہی میرے چہرے کی رونق غائب ہوگئی اصل میں میری دوست کو اپنی ناول واپس چاہیے تھی جو کے کافی دنوں سے میرے پاس تھی ۔ لیکن میں نے ابھی وہ ناول مکمل بھی نہیں پڑھائی تھی اور نہ تو میرے معاشی حالات اتنے اچھے تھی کے میں خود وہ 600 روپے کی ناول خرید کر پڑھ سکو ۔
سچ بتاؤ تو میرا دل نہیں چاہ رہا تھا کے میں وہ ناول بنا پڑھے واپس دے دو اس لیے میں نے اپنی دوست سے کچھ وقت مانگا اور میں نے جواب میں اپنی دوست سے کہا کہ بس کچھ دن اور روک جاؤ میں مکمل ناول پڑھ کر واپس کر دونگی ۔۔۔۔۔۔ اس بار میں نے پُختہ ارادہ کر لیا کے اب میں اس ناول میں مکمل پڑھ لونگی اور جلدی سے اپنی دوست کو واپس کر دونگی ۔ میں اپنی مصروف زندگی سے قیمتی وقت نکال کر وہ ناول پڑھنے لگی 33 دنوں میں سے تقریباً 25 دن مکمل ہو چکے تھے اسی دوران میں نے ایک ایسا باب پڑھا تھا جہاں مجھے لگا مجھے میری منزل مل گئی اور میرا مقصد پورا ہوگیا ۔ بس یوں سمجھ لو کہ مجھے میرے سر درد کی اصل وجہ مل گئی ۔۔۔۔۔۔۔ جسے جان کر مجھے بہت سکون محسوس ہوا ۔۔۔۔ اور ایسا لگا جیسے نمرہ احمد نے یہ ناول میرے لیے ہے لکھی ہے اور میں ناول پڑھتی چلی گئی ۔۔۔۔ بس پڑھتی چلی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پورے 33 باب میں نے مکمل کر لیے تھے ۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کے میں نے اپنے ارادے کے مطابق ناول کو پڑھا۔ ناول مکمل کرنے کی خوشی میرے چہرے پر جھلک رہی تھی مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں نے کسی جنگ میں فتح حاصل کر لی ۔
اور جانتے ہو میرے سر درد کی اصل وجہ کیا تھی ؟ وہ کونسے الفاظ تھے جنہوں نے مجھے پوری ناول پڑھنے پر مجبور کر دیا تھا ؟
میرے سر درد کی اصل وجہ تھی میرا ماضی۔۔۔
ماضی کے ایسے واقعات ، جہاں مجھے اپنے مطلب کی لیے استعمال کیا تھا ، میری عزتِ نفس کو کُچل کر رکھ دیا تھا، میری خامیوں کو جانتے ہوئے انہیں بھری محفل میں اجاگر کیا اور میرا مذاق بنایا تھا ، لوگوں کے لہجے جو میرے دل پر تیر کی طرح لگتے اور جب جب میں انکا سامنا کرتی مجھے اندر کا اندر زخمی کر دیتے تھے اور افسوس کی بات یہ تھی کہ ان لوگوں میں میرے اپنے بھی شامل تھے جن پر میں بہت اعتبار کرتی تھی اور آخر کار اُن لوگوں نے ثابت کر دیا تھا کہ قابلِ اعتبار ہی قاتلِ اعتبار ہوتے ہے ۔ ایک اور سب سے خطرناک اذیت جو لوگوں نے مجھے دی تھی وہ تھے لوگوں کے الفاظ جس نے میری آواز چھین لی تھی اور مجھے بنا آواز کے رونے پر مجبور کیا تھا ۔ کیا کبھی آپ بھی بنا آواز کے روئے ہو ؟
اُفف۔۔۔۔۔۔۔ کتنا دردناک ہوتا ہے بنا آواز کے رونا۔۔۔ اور ان ساری اذیتوں کو میں نے سر درد کا نام دے رکھا تھا اصل میں وہ اسٹریس تھا جس کے بارے میں سوچ سوچ کر میں اوورتھینکنگ کا شکار ہوگئی تھی اور یہ اسٹریس اور اوورتھنکنگ دونوں نے مل کر مجھے ڈپریشن کی کھائی میں ڈھکیل دیا تھا ۔میں انمول ناول 33 دنوں پر مشتمل تھی اور ان 33 دنوں میں سے ایک دن میں یعنی کے ایک باب میں مصنفہ نے ڈپریشن اور تھنکنگ جیسے مسائل کا صرف حل بتایا تھا علاج نہیں اور میں نے ان ساری باتوں کو عمل میں لایا سب سے پہلے تو میں نے طے کیا کے میں اپنے آپ کو مضبوط بناؤ گئی میں نے ڈیلی روٹین بنایا اور اسکو فالو کیا ہر کام وقت پر کرنے لگی اُسکے بعد میں نے اپنے ذاتی مسائل خود تک ہے محفوظ رکھے میں نے لوگوں سے توجہ کی بھیک مانگنی چھوڑ دی ، میں نے اپنے دل کے ارد گرد لوہے کی دیوار بنا دی لوگ چاہئے کسی بھی انداز میں بات کرے مجھے فرق نہیں پڑتا میں انکی باتوں کو دل پر لینا چھوڑ دیا ، میں نے لوگوں سے مدد لینی چھوڑ دی کیوں کے لوگ میری مدد کو میری کمزوری سمجھے لگے تھے اور انسان کی کمزوریاں اکثر اُسکا تماشا بنا دیتی ہے میں نے اپنی عزتِ نفس کو سب سے اوپر رکھا جہاں مجھے لگا کہ میرا ہونا نہ ہونے برابر ہے میں نے ایسی جگہوں اور جانا چھوڑ دیا ۔۔۔ میں نے اپنی عزتِ نفس پوری طرح سے کھو دی تھی اور اسکی اصل وجہ تھی میری خاموشی۔۔۔ لیکن نمرہ احمد کا کہنا تھا کہ ” چیزیں وہی سے واپس ملتی ہے جہاں ہم نے اُنہیں کھویا تھا” یعنی کے چیزوں کا الٹ ۔۔۔ خاموشی کا الٹ ہے بولنا۔ اسلیے میں نے اپنے حق میں بولنا شروع کر دیا جہاں تھپڑ نہیں مار سکتی تھی وہاں میں نے طعنہ مارنا سیکھ لیا صرف اور صرف اپنی عزتِ نفس کو برقرار رکھنے کے لیے نہ کسی سے بدلہ لینے کے لیے۔ میں نے لوگوں کو پہچاننا اور انکی حیثیت کے مطابق ٹریٹ کرنا سیکھ لیا کیوں کے اس دُنیا میں دوغلے لوگ کافی تعداد میں شامل ہے جو منہ پر کچھ اور ۔۔۔۔ پیٹھ پیچھے کچھ اور ہوتے ہے جو ہمیں اپنے مطلب کی لیے استعمال کرتے ہیں تو ایسے لوگوں سے جیتنا دور رہے اتنا ہماری صحت کے بہتر ہے ۔ اور آج میں وہی لڑکی ہو جو ایک وقت ماضی کے واقعات اور حادثات کا شکار تھی اور ان تمام مسائل سے میں نے اپنے آپ کو خود باہر نکالا ہے اور پھر مجھے خدا کی مصلحت سمجھ آنے لگی لوگوں کی اصلیت سامنے آنا خدا کی ایک بڑی نعمت ہے اور پھر میں نے یہ بات تسلیم کر لی کے جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے ماضی کے یہ تمام حادثات مجھے تہجّد تک لے گۓ اور اس بات کا یقین دلایا کہ تہجد میں کن کا راز چھپا ہے اور پھر میں نے خود کو خدا کے حوالے کر دیا ، صبر کرنا سیکھ لیا ، جب بھی مجھے کسی کا کوئی رویہ برداشت نہ ہوتا میں اپنے دل میں صبر کی آیت پڑھ کر پھونک دیتی اور جن لوگوں نے مجھے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا تھا آج میری زندگی میں انکی کوئی اہمیت ایک فل سٹاپ کی مانند ہے جیسے میں ہر روز اپنی تحریروں میں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتی ہوں ۔ اور مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کے اتنی اذیت سے گزرنے کے بعد میرے خدا مجھے وہ ساری چیزوں سے نوازے گا جس کے لیے میں نے تہجد میں رو رو کر دعائیں مانگی ہے ۔ اور قدرت کا ایک قانون جو مجھے بےحد پسند ہے وہ ہے مکافات عمل کیوں کے دوسروں کو رُلانے والے ایک دن خود بھی روتے ہے۔ اور یہ ساری عادتیں میں نے اپنی زندگی میں خود شامل کی ہے کیوں کہ کوئی بھی کتاب ہماری زندگی بدل نہیں سکتی ۔۔۔۔۔ لیکن اُس کتاب کو پڑھ کر اس پرعمل کر کے انسان اپنی زندگی خود بدل سکتا ہیں ۔۔۔۔ جیسے میں نے بدلی !! اب آپکی باری۔۔۔۔ !
کہیں نہ کہیں آپ بھی میری طرح زندگی کے ان حالت سے گزر رہے ہونگے جن حالت سے میں گزری ہوں ۔۔۔۔ جس طرح میں انمول ناول میری زندگی کی پہلی کتاب ہے جسکو میں نے مکمل پڑھا ہے ٹھیک اسی طرح یہ پہلا افسانہ ہے جسکو میں نے بنا کسی تجربہ کے لکھا ہے جس میں بہت ساری غلطیاں موجود ہے کیوں کہ انسان اپنی غلطیوں سے نے سیکھتا ہے اور مجھے بھی اپنی غلطیوں سے ہے سیکھنا ہے اس لیے آج کافی دنوں بعد میں نے اپنے لفظوں کا تجوری کھولی اور اپنے احساسات کو الفاظ کی شکل میں کاغذ پر بکھر دیا اور وہ افسانہ بن گیا کافی دنوں بعد میں نے خود سے کچھ لکھا ہے کیوں کے لکھنا میرا جنون ہے اور بولنا میرا سکون ہے یہاں بولنے سے مُراد “اسپیکنگ” مجھے پبلک اسپیکنگ بےحد پسند ہے ۔ مجھے کالج میں جب بھی موقع ملتا ہے میں اپنا تجربہ اپنے انداز میں بیان کرتی ہو آپ بھی کوشش کرے اپنے تجربات سے سیکھنے کی کیوں کے جو سبق انسان وقت، حالات، لوگوں ، اور اپنے تجربات سے سیکھتا ہے وہ دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی سے نہیں سیکھ سکتا اس طرح نمرہ احمد کی ناول ” میں انمول” نے مجھے اپنے آپ سے ملوایا اور بتایا کہ میں کہکشاں ہوں اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کے کہکشاں کا مقام آسمان پر ہوتا ہے زمین پر نہیں ۔ یعنی کے مجھے اب زمین سے آسمان تک کا سفر طے کرنا ہیں

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے