بھیگی پلکیں ،مسکراتے ہونٹ

دھیمی زرد روشنی اطراف کا احاطہ کرنے کی ناممکن کوشش کر رہی تھی۔ کھردری فرش پر چاروں طرف خون ہی خون تھا، کہیں انسانی اعضاء تو کہیں ٹھنڈے جسموں کا ڈھیر لگا تھا۔ فضا میں ایک عجیب سے بو بسی تھی۔ ایک کمرے کے وسط میں تنہا صنف نازک کا وجود بھی تھا جو چند گھنٹے قبل ہی اس خوفناک و دہشتناک ماحول کا حصہ بنا تھا۔
طویل خاموشی کے بعد اس نسوانی وجود میں ہلچل ہوئی۔ اس نے بمشکل اپنی آنکھیں کھولیں اور احساس ہوا کہ یہ جگہ اس کے لئے بالکل اجنبی ہے۔ کھڑکی کے باہر گھپ اندھیرا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ رات کا کونسا پہر ہے ۔وہ اٹھ بیٹھی اور بے ساختہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر دبانے لگی جو شدتِ درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ رینگتے ہوئے دیوار سے پشت ٹکائی اور نیم کھلی آنکھوں سے اطراف کا جائزہ لیا تو یہ ہیبت ناک منظر دیکھ کر اس کے حواس شل ہو گئے اور دونوں ہتھیلیاں منہ پر رکھتے ہوئے بمشکل اپنی چیخوں کو روکا۔ ” نہہیں ۔۔۔۔۔ نہیں ام عمارہ تم کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہی ہو ۔ کاش ! کاش یہ خواب ہوتا ، یا اللہ ! یہ ۔۔ ؟ یہ تو اسرائیلی قید خانہ ہے ، یعنی کہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” اپنے سر کو زور زور سے نفی میں ہلاتے ہوئے ام عمارہ بڑبڑائی اور بےبسی سے اپنا سر گھٹنوں پر رکھ لیا۔
★★★★★★★★★★★★★
( قید سے چند گھنٹے قبل )

ڈھلتے سورج کی اداس کرنیں جامعتہ الاسراء کی شاندار عمارت سے ٹکرائیں اور وسیع و عریض لائیبریری کا رخ کیا۔ ملک کے اس قدر ناسازگار جنگی حالات میں بھی اس وقت کئی طلبہ و طالبات اپنی جامعہ کی لائبریری میں موجود تھے۔ بظاہر تو وہ اپنا کام کر رہے تھے مگر ہر ایک کی زباں پر آنکھوں دیکھی جبر و استبداد کی داستان تھی جس سے ماحول میں دھیما دھیما سا شور تھا۔ کونے کی میز پر ام عمارہ اور زینب کتابوں کے انبار میں سر دئیے اپنا ریسرچ ورک کر رہیں تھیں۔ یہ دونوں اچھی سہیلیاں تو تھیں ہی مگر ساتھ میں ہمسایہ بھی۔ انہوں نے مشترکہ اسکول سے تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے بھی ایک ہی شعبہ یعنی ‘ وکالت ‘ کا انتخاب کیا۔
زینب شدید خواہش کے باوجود بھی اپنے ذہن کو منتشر ہونے سے نہیں روک پا رہی تھی۔ جب کبھی پچھلی میز پر موجود طلبہ میں چل رہی فلسطینی داستان کا کوئی دکھ بھرا پہلو زینب کی سماعتوں سے ٹکراتا تو وہ بے چین ہو جاتی اور دل درد سے بھر جاتا۔ نا چاہتے ہوئے بھی وہ ان کی گفتگو سننے لگی۔
” ام عمارہ ، میں کئی دنوں سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں مگر ہر دفعہ ذہن سے نکل جاتا ہے۔” زینب نے اپنا دھیان ان طلبہ کی گفت و شنید سے ہٹاتے ہوئے ام عمارہ کو مخاطب کیا۔
ام عمارہ نے کتاب چہرے سے ہٹائی۔ ہلکے گلابی اسکارف میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔
“ہمم پوچھو ۔”
” اگر تمہیں روزِ آخرت میں اللہ تعالیٰ سے کسی ایک خواہش یا آرزو کا اظہار کرنا ہو تو وہ کیا ہوگی؟”
” ظاہر ہے زینب ، میں تو کیا اگر کسی اور بشر کو بھی یہ سنہرا موقع دیا جائے تو وہ صرف اور صرف جنت الفردوس ہی مانگے گا۔” ام عمارہ نے جھٹ سے جواب دیا۔
مگر زینب کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ اسے ام عمارہ کے اس جواب سے تشفی نہیں ہوئی۔
” فرض کرو کہ اللہ نے تمہیں شہادت سے نوازا اور تم جنتی ٹہری تب اگر یہ موقع ملے تو کس چیز کی تمنا کرو گی؟” اب زینب نے اپنے سوال کو قدرے تبدیل کیا۔
ام عمارہ سوچ میں پڑ گئی اور لمحے بعد گویا ہوئی، ” میں ۔۔ میں اپنے رب سے کہوں گی کہ وہ جابر یہودیوں کو ایک ایسی جیل میں ڈالیں جہاں ان کے دنیاوی جیلوں سے کئی گنا زیادہ درد و تکلیف دی جاتی ہو۔ میں ٹہر کر ان کی فاخر آنکھوں میں بےبسی ، لاچاری اور ندامت دیکھنا چاہوں گی ، روتے تڑپتے رحم کی بھیک مانگتا دیکھنا چاہتی ہوں۔ ” یہ کہتے ہوئے ام عمارہ کی آنکھوں میں خون اترا۔
“اور زینب تم ، اگر یہی سوال میں تم سے کروں تو تمہاری کیا خواہش ہوگی ؟”
” جانتی ہو ام عمارہ ، میری ایک ہی آرزو ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے جنت میں ایک ایسا قصر مانگوں گی جو ہماری اس جامعہ سے وسیع و دلکش ہوگا۔ جہاں صرف میں ، امی جان اور میرے شہید بابا و شہید بھیا رہیں گے۔ جنت میں تو نا ہی کسی اسرائیلی دھماکے کا خطرہ ہوگا اور نا ہی کسی پیارے کو کھونے کا خوف۔” یہ کہتے ہوئے زینب کی آواز بھرا گئی اور وہ آنکھوں میں اتری نمی پونچھنے لگی۔ ماحول میں چھائی افسردگی کو محسوس کرتے ام عمارہ نے جھٹ سے موضوع بدلا۔
” تمہیں آج عصر تک گھر واپس روانہ نہیں ہونا تھا ؟ دیکھو عصر ڈھلنے کو ہے۔”
” ٹھیک کہا کافی دیر چکی ہے ۔ باقی ماندہ ریسرچ انشاء اللہ کل کر لیتی ہوں۔ اور تم ؟” زینب نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
” میرا بہت کم کام رہ گیا ہے اور کل پر ٹالنا مناسب نہیں لگ رہا۔ تم چلی جاؤ ۔ میں بس یہ ورک ایک آدھ گھنٹے میں نپٹا کر آتی ہوں انشاء اللہ۔”
بہتر کہتے ہوئے زینب جلدی جلدی اپنی کتابیں سمیٹ کر بیگ میں رکھنے لگی اور فی امان اللہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔اچانک نا جانے وہ کس احساس کے تحت رکی اور بڑھ کر ام عمارہ کو زور سے گلے لگایا۔ سہیلی کے اس فعل پر ام عمارہ دھیمے سے مسکرائی۔ شہداء کے خون سے سیراب اس سر زمین پر کوئی نہیں جانتا تھا کہ کونسی ملاقات آخری ملاقات ٹھہرے گی ؟ کونسا دیدار آخری دیدار قرار پائے گا ؟
زینب کو رخصت کر کے ام عمارہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگئی مگر ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اسے لائبریری میں ہڑبونگ مچی نظر آئی۔ ہر کوئی افراتفری کے عالم میں تھا۔ اس کی نظر لائبریری کے داخلی دروازے پر پڑی تو وہ ایک اور نئی افتاد کے لئے اپنے ذہن کو تیار کرنے لگی۔ اسرائیلی فوج نے جامعہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور سارے کیمپس میں دندناتے پھر رہے تھے۔ فائرنگ کے شور شرابے نے چند لمحے قبل کے پر سکون ماحول کو چاک کر دیا۔ اپنی جانب ایک مسلح یہودی کو بڑھتا دیکھ ام عمارہ نے چپکے سے میز پر رکھی سب سے بھاری کتاب اٹھائی اور پوری قوت سے اس کے سر پر دے ماری۔ وہ یہودی تلملاتے ہوئے ایک طرف ہوا۔ ام عمارہ کی جرأت پر وہ آپے سے باہر ہوا اور ایک بھاری تھپڑ اس کے رخسار پر جڑ دیا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ صنفِ نازک جو چند لمحے قبل شیرنی کی مانند کھڑی تھی ، ایک طرف لڑھک گئی۔ جامعتہ الاسراء میں اس وقت موجود بیشتر اساتذہ و طلبہ شہید کر دئیے گئے اور بعض کو اسیر بنا لیا گیا جن میں ایک ہماری ام عمارہ بھی تھی۔
★★★★★★★★★★★★★★
بھیگی پلکیں
جامعتہ الاسراء پر یہودی حملہ و قبضہ کی خبر جنگل کی آگ کی مانند ہر سو پھیل گئی۔ ام عمارہ کے اہلِ خانہ اسی تگ و دو میں تھے کہ کہیں سے بیٹی کا سراغ مل جائے مگر ساری کوششیں ناکارہ ہوئیں ۔ وہ اس بات سے تک لا علم تھے کہ آیا وہ شہید کر دی گئی ہے یا پھر ۔۔۔۔۔ اس کے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتے تھے۔ یہودیوں کی قید تو ان کے وحشیانہ اوصاف کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ ان کی درندگی اور حیوانیت سے تو غزہ کا بچہ بچہ بخوبی واقف تھا۔
اس سانحے کو گزرے دو دن ہو گئے تھے مگر زینب کا ذہن ابھی بھی اسے قبول کرنے سے انکاری تھا۔ رہ رہ کر اسے اپنی محبوب سہیلی سے لائبریری والی آخری ملاقات تازہ ہو جاتی تو کبھی اس کی جنت والی خواہش کی ذہن میں بازگشت سنائی دیتی۔ یوں اس کے زخم نئے سرے سے تازہ ہو جاتے۔ وہ چاہتی تھی کہ اپنی آنکھوں سے اپنی پیاری جامعہ کے احوال دیکھے ، اپنی سہیلی کی ہی کوئی خبر مل جائے مگر اپنی تنہا ماں کا خیال آتا تو وہ بالکل بے بس ہو جاتی۔ وہ جانتی تھی کہ امی جان گھر سے نکلنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گی۔ مگر ۔۔۔۔ مگر آج اس نے کافی سوچ بچار کے بعد جامعہ کا چکر لگانے کی ٹھانی۔ فجر کی ادائیگی کے بعد وہ دبے پاؤں اپنی والدہ کے کمرے تک گئی اور انہیں سجدے میں پایا۔ ایک آخری بے بس نگاہ ان کی پشت پر ڈالتے ہوئے وہ پلٹ گئی اور آہستگی سے داخلی دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ کئی عمارتوں کے ملبے سے گزرتی ہوئی وہ جامعہ تک پہنچی اور پاس ہی ایک ٹوٹی دیوار کی اوٹ میں اپنے آپ کو چھپا لیا۔ اس نے اپنی منزلِ مقصود تک رسائی تو حاصل کر لی مگر ۔۔۔۔۔ مگر اپنی جامعہ کی پاک زمین پر اسرائیلی فوجیوں کے ناپاک قدم گویا سیدھے زینب کے سینے پر پڑ رہے تھے۔ وہ اس عالیشان عمارت کو بے بسی سے تکنے لگی جس نے اس کے جوانان قوم کو گود میں پالا تھا۔ وہ بس ڈبڈبائی آنکھوں اور ساکت نظروں سے جامعہ کے گرد گشت لگاتے اسرائیلی کو دیکھے جا رہی تھی۔ اس بے خبری کے عالم میں وہ اپنے پیچھے موجود مسلح یہودی کی آمد کو محسوس نہ کرسکی ۔ جب احساس ہوا تو زینب یکلخت ہڑبڑا گئی اور سامنے کی سمت بھاگنا شروع کیا۔ زینب کو فرار ہوتا دیکھ اس فوجی کے چہرے پر ایک سفاک مسکراہٹ ابھری اور ایک گندی گالی دیتے ہوئے اس نے اپنے سنائپر کو زینب کی سمت موڑا۔ ایک جھٹکے سے سنائپر سے یکے بعد دیگرے دو گولیاں نکلیں اور سیدھا زینب کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔ زینب لڑکھڑا کر بیچ سڑک پر یوں گری کہ اس کی نظروں کے سامنے جامعتہ الاسراء کا بلند گیٹ تھا۔بند ہوتی بھیگی پلکوں سے اس نے جو جامعہ کو دیکھا تو پل بھر کو وہ ایک عالیشان قصر میں تبدیل ہوتا نظر آیا۔ بے ساختہ اس کی آنکھوں سے دو ننھے موتی لڑھکے اور فلسطین کی پیاسی سر زمین میں جذب ہو گئے۔ اکھڑتی سانسوں کے درمیان کلمہ شہادت پڑھتے وہ اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملی۔
★★★★★★★★★★★★★
مسکراتے ہونٹ
پچھلے دو دنوں کی قید نے ام عمارہ کو نڈھال کر دیا تھا۔ شدتِ بھوک و پیاس سے وہ تڑپتی بلبلاتی رہی۔نقاہت سے اس کی نظریں دھندلا گئی تھیں۔ سوره بقرہ کی آیت نمبر 286 کا ورد برابر اس کے تشنہ لبوں پر جاری تھا {لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا:}۔ یہ اس کے مضبوط اعصاب اور ایمانی قوت تھی جس کے بل پر وہ زندہ تھی۔ کیا کچھ نہیں دیکھا تھا اس نے ان دو دنوں میں ؟ ان ظالم حیوانوں نے بڑے تو بڑے معصوم بچوں کو تک چیر پھاڑ دیا تھا۔ ان کے اعضاء کو بے دردی سے ان کو وجود سے الگ کیا گیا۔ ان جابر سلاخوں کے پیچھے سے جب ام عمارہ نے اپنی قوم کی ماؤں و بہنوں کی عصمت کو تار تار ہوتے دیکھا تو اس کی آنکھیں پتھرا گئی اور وہ بے ساختہ نظریں جھکانے پر مجبور ہو گئی۔ خواتین تو خواتین ، ان درندوں نے اہلِ اسیر مردوں کے ساتھ جو بہیمانہ و شرمناک سلوک کیا اسے دیکھ کر تو شیطان بھی ان کی شاگردی قبول کر لے۔ ہر طرف چیخ پکار تھی ، خون کی ندیاں تھیں۔ ایسے میں جب کوئی مسلمان نعرہ تکبیر بلند کرتا تو دل شدتِ غم سے لرز اٹھتے۔ انسانیت کا اس قدر گھناؤنا استحصال شاید ہی کسی اور قوم نے کیا ہوگا۔
ام عمارہ جانتی تھی کہ آج نہیں تو کل اس کے ساتھ بھی یہی سب کچھ دہرایا جائے گا۔ سست رفتاری سے وہ سیدھی ہو بیٹھی اور بے جان ہاتھوں سے سلاخوں کو تھام لیا۔ باہر ایک اور دردناک منظر چل رہا تھا۔ یہودیوں کا ایک گروہ اپنے سرغنہ سمیت معصوم بچے کی چیخ و پکار کا مزا لے رہے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ اب ان اہلِ اسلام کو ظالموں کے چنگل سے آزاد کرانے نا تو عرب سے کوئی محمد بن قاسم اور نا ہی افریقہ سے کوئی طارق بن زیاد آئے گا۔ نا مصر سے کوئی صلاح الدین ایوبیؒ اور نا ہی غرناطہ سے کوئی بدر بن مغیرہ ۔ جب اپنی دلی تسکین مکمل ہوئی تو ان کا سرغنہ پیچھے پلٹا اور اپنے گروہ کے ہمراہ ام عمارہ کی طرف بڑھنے لگا۔ اس کے چہرے پر پر اسرار شیطانی مسکراہٹ تھی۔ جب ام عمارہ کی نظر اس شخص پر پڑی تو وہ لمحہ بھر میں اسے پہچان گئی۔ یہ، اف! یہ تو وہی درندہ تھا جسے اس نے کتاب دے ماری تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ اب اپنے رب سے ملاقات کا وقت قریب آگیا ہے اور اپنی فریاد تو اس کے روبرو ہی جا کر کروں گی۔ اس نے سوچا کہ اگر چہ جابر میری دنیاوی زندگی کو جہنم بنانے آرہا ہے تو کوئی غم نہیں میرا رب اس کی آخروی زندگی جہنم سے بھی بدتر بنا دے گا انشاء اللہ ۔ ام عمارہ کے کمزور ہونٹ شکستہ مسکراہٹ میں ڈھل گئے اور وہ لڑکھڑاتے قدموں سے کھڑی ہوئی۔

Comments From Facebook

24 Comments

  1. قادری سر

    ماشاء االلہ بہت اچھا لکھا ہے ۔ فلسطین کی حقیقت بیان کی ہے ۔ یہ پیغام ساری قوم کو پتا ہونا چاہیے ۔

    Reply
  2. Fizaa Khatib

    And incredibly well written story. I couldn’t stop reading and I couldn’t stop feeling the sad rush of feelings in me.

    Reply
    • عمارہ فردوس ، جالنہ

      السلام علیکم ۔پیاری عطیہ ! افسانہ پڑھتے ہوئے آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں ،اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ تم نے فلسطین کے سارے درد کو اپنے اندر سمیٹ کر لکھا ہے ،ہمیشہ لکھتی رہو اور خوب لکھو ،فکشن کے میدان میں تمہاری طرح سنجیدہ لکھاریوں کی خوب ضرورت ہے ۔۔۔خدا تمہارے قلم کو خوب قوت اور بلندی عطا کرے آمین ۔۔ھادیہ میگزین کے لیے بھی مبارکباد اسطرح کے مقابلے بچیوں کی صلاحیتوں کو خوبصورت رخ دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔اللہ خوب ترقی دے آمین

      Reply
    • Arifa

      Masha Allah….Atiya beti zabardast tehreer ki hai Allah dono jahan ki nusrat farmaye iman ko jila bakhashne wali rudaad hai waqi aap ke walidain ke liye hm sb ke liye anmool Atiya ho Allah kre zor e qalam aur ziyada Ahle Falasteen pr apnea rehmat e khas se nawaze Aameen

      Reply
      • Humera

        ماشاء اللہ
        جذبِ احساسات سے سرشار
        آنکھوں کا سیلِ رواں جاری رکھنے والی یہ تحریر گویا کہ آنکھوں دیکھے حال کی عکاسی کررہی ہے
        اللہ ظالموں کونیست ونابود کرکے قیامت تک آنیولی نسلوں کے لئے عبرت بنادے

        Reply
    • سید سہیل

      ماشاء اللہ بہترین انداز میں منظر کشی کی گئی۔اللہ آپ کی صلاحیتوں میں اضافہ فرمائے۔
      فلسطین میں امن کو یقینی بنائے۔آمین

      Reply
  3. Sidra badhir

    Last para make me cry…I’ll definitely share this to my friends

    Reply
  4. Diya patil

    Khup chan

    Reply
  5. ندا ربی

    ماشااللہ بہت بہترین افسانہ❣۔۔۔بے مثال منظر کشی کی ہے۔۔آنکھیں نم ہوگئی۔۔

    Reply
  6. Humera

    ماشاء اللہ
    جذبِ احساسات سے سرشار
    آنکھوں کا سیلِ رواں جاری رکھنے والی یہ تحریر گویا کہ آنکھوں دیکھے حال کی عکاسی کررہی ہے
    اللہ ظالموں کونیست ونابود کرکے قیامت تک آنیولی نسلوں کے لئے عبرت بنادے

    Reply
    • Tanuja Aher

      A very sad & heartbreaking story. I dont know urdu so I translated it and read it. I extremely love the character of umm ammara & also her attitude.

      Reply
  7. نام *Mohammad Ibrahim

    Mashallah Atiya rabbi This is so interesting story which I read. I’m impressed.
    it seem so easy, but I know you must have worked hard on this.

    Reply
  8. nasira begum

    Mashallah bahut khoob ✨✨✨

    Reply
    • نام *MDF

      تبصرہ wonderful story about the situation of philestine ✨✨

      Reply
  9. Huda

    Ma sha allah .very well written. This doesn’t seem fiction it feels so real . Felt really emotional while ready this.

    Reply
  10. Rayyan bhai

    Nice story ????????

    Reply
  11. Srb king

    Wonderful story… intresting ????✨✨

    Reply
  12. Fazals stor

    Mashallah ✨????????

    Reply
  13. Sana firdous

    Mashallah padhte hue falasteen k halat ankho k samne agai or ansu jaari hogai, bahot bahtreen andaaz se likha barakallahu feek ????

    Reply
  14. تشکیلہ

    الفاظ کا انتخاب ،استعمال،ترتیب ماشاءاللہ بہترین ہے اللہ خوب ترقی عطا فرمائے پیاری بیٹی عطیہ

    Reply
  15. Aliyaa Attar

    Mashallahul azeez kahani bohot acchi aur heart touching thi
    Padhte padhte hamare Palestine Bhai behno ke haal pr aansu Aa rhe the
    Aap ne bohot hi aache tarqe se waha ke halat ko bayan Kiya hai
    Appreciated ????

    Reply
    • Farzana Fayyaz Surve

      Mashallah.allah aapko mazeed tarakki de.aur salahiyato me izafa kare.jis andaz me sara manzar pesh kiya hai rongte khade ho jate hai.allah falasteen k musalmano par rahem farmaye.aur unki hifazat farmaye.
      Allah tumhe aur tarakki de beta.aaj proud se kah rahi hu tum meri student ho.proud of u my child.aise students se teacher ka sar fakhar se aur uncha ho jata hai.

      Reply
  16. Farzana Fayyaz Surve

    Mashallah.allah aapko mazeed tarakki de.aur salahiyato me izafa kare.jis andaz me sara manzar pesh kiya hai rongte khade ho jate hai.allah falasteen k musalmano par rahem farmaye.aur unki hifazat farmaye.
    Allah tumhe aur tarakki de beta.aaj proud se kah rahi hu tum meri student ho.proud of u my child.aise students se teacher ka sar fakhar se aur uncha ho jata hai.

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے