بہشت گمشدہ کی تلاش

بہشت گمشدہ کی تلاش

شام کا دھندلکا چھایا ہوا تھا۔ فضا میں ایک خنکی تھی۔ آسمان پر شفق کی سرخی مائل ہونے کو تھی۔ وہ چھت پر بیٹھی کائنات کے خوبصورت مناظر سے محظوظ ہو رہی تھی۔ غزہ کا کنارہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ ساتھ ہی بیت المقدس کا منارہ اپنا نور بکھیر رہا تھا۔ ہیکل سلیمانی اپنی عظمت کی کہانیاں سنانے کو بیتاب تھا۔ زیتون و پستہ کے درخت اپنے پھلوں کا بوجھ لئے لوگوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ پرندے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے تھے۔ دوسرے ہی لمحے چاند نے اپنی تابانی بکھیرنا شروع کیا۔
دھڑام۔۔۔۔۔دھ۔۔۔ دھ ۔۔۔۔۔۔ دھڑام
ایمان ڈری سہمی اپنے ارد گرد کا جائزہ لینے لگی۔۔۔
اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی مگر دھماکے دار آواز کا پتہ نہیں لگا سکی۔ اچانک سے ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی۔ طبیعت میں خوف و ہراس پیوست ہوگیا۔
کیا ہوا؟ میری پیاری دوست!
اس نے اپنی کالج کی دوست لارا کو اپنی طرف خوف کے عالم میں آتے دیکھا ۔
وہ گھبرائی ہوئی اس کے گھر میں داخل ہوئی تو ایمان نے اس کی ہمت بندھائی اور اس کی اس مضطرب حالت کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
لارا نے روتے ہوئے جواب دیا کہ میں آفس سے جاب کے بعد اپنے گھر کو لوٹ رہی تھی کہ اچانک سے وہاں پر ایک دھماکہ ہوا ۔ دھماکہ اتنا شدید تر تھا کہ ہر طرف انسانوں اور چیزوں کے چیتھڑے اڑ رہے تھے۔ میں نے دوبارہ گھر کے راستے کا رخ کیا تو مجاہدین کے حملے کے ساتھ ساتھ صیہونی فوجوں کے حملے آسمان سے آگ برسانے لگے۔ ہر طرف دہشت چھائی ہوئی تھی اور ہر فریق ایک دوسرے کو خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ یکایک ایک باریش نوجوان نے میری طرف دیکھا اور اپنی نظریں جھکا لیں اور مجھے اس گھر کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ حیا اس کی سرشت میں تھی۔ اس نے مجھے اطمینان دلایا کہ میں ایک محفوظ جگہ پر پہنچ چکی ہوں جب کہ اس نے مجھے میرے لباس سے پہچان لیا تھا کہ میں ایک اسرائیلی یہودی ہوں۔
ہاں ! لارا ، اللہ ہمارے لئے کافی ہے۔ اور اگر اللہ نے چاہا تو کوئی بھی ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ ایمان نے اسے تسلی دی۔
تم اتنے وثوق سے یہ کیسے کہہ سکتی ہو جب کہ جنگ کی آگ ہر طرف تیزی سے پھیل رہی ہے؟ لارا نے ایمان کے چہرے پر اطمینان کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
یہی تو ہمارے ایمان کی خوبصورتی ہے۔ ۔۔ ۔۔۔ ایمان نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔۔
دونوں دوست آپس میں محو گفتگو تھیں اور حالات حاضرہ کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں جس کے لئے انہوں نے موبائل کا سہارا لیا اور خبریں سننے میں مشغول ہو گئیں کہ اچانک حملے کی آواز نے شدت پکڑ لی اور ہر طرف انسانی جسم اڑتے ہوئے نظر آنے لگے۔
مولا رحم فرما۔۔۔۔ ایمان نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔۔۔۔۔
ہمارے پاس تو دفاع کے لئے کچھ بھی نہیں ہے تو یہ اٹھے ہوئے ہاتھ کیا کام آ سکیں گے؟ لارا نے حیرت و استعجاب سے پوچھا۔
یہی تو ہمارے ایمان کا مغز ہے۔ اور یہی وہ ہمارا ہتھیار ہے جس سے ہمیں تقویت ملتی ہے۔ لارا سب کچھ خاموشی سے دیکھے جا رہی تھی۔
دھڑ۔۔۔۔ دھڑ۔۔۔۔۔ دھڑ۔۔۔۔ دھڑام۔۔۔۔۔۔
حملوں کی شدت سے کان کے پردے گویا پھٹے جارہے تھے۔ ہر طرف چینخ و پکار کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ لارا کے کانوں میں اللہ اکبر کی آواز گونج رہی تھی۔۔۔۔۔۔
الہا! آخر یہ کیا قوم ہے جو موت کے منھ میں ہے اور صرف ہاتھ اٹھائے اللہ اللہ کی پکار لگا رہی ہے؟
یکایک وہی باریش نوجوان دس پندرہ مغربی لباس زیب تن کی ہوئی لڑکیوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوتا ہے اور ایمان کو یہ نصیحت کرتے ہوئے کہ یہ ہمارے علاقے میں گھر گئی ہیں اور اب ان کے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے ۔ لہذا ان کی حفاظت کی ذمہ داری تم پر ہے۔ اور یہ کہتے ہوئے وہ اپنے گھر سے بسم اللہ توکلت علی اللہ پڑھ کر رخصت ہوجاتا ہے۔
لارا گھر کے ڈرائنگ روم سے بیٹھی یہ تمام مناظر دیکھ کر ششدر ہوجاتی ہے کہ وہ قوم جو ان فلسطینیوں کے جان کی پیاسی ہے۔ ان کی عورتیں جب ان کے ہاتھ میں آتی ہیں تو وہ ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کے بجائے ان کی حفاظت کے فریضے انجام دیتے ہیں؟ آخر اس کے پیچھے حکمت کیا ہے؟
لارا انہی خیالوں کا تانا بانا بنتی ہے کہ اچانک اس سکوت کو ایمان کی آواز توڑتی ہے کہ آؤ دوستو! رات کا کھانا کھالیں۔۔۔۔۔
بھوک سے نڈھال تمام اسرائیلی دوشیزائیں کھانے پر ٹوٹ پڑتی ہیں لیکن صوفے پر بیٹھی لارا اپنی جگہ مبہوت و ساکت رہتی ہے اور ایمان کے اس خلوص کو تھوڑی مشکوک نظروں سے دیکھتی ہے۔ اور سوچتی ہے کہ اس قدر رحم بھرا سلوک کہیں اس کھانے میں زہر بھر کر سامنے نہ آئے۔
لارا۔ میری دوست ! تم کھانا کھا لو۔۔۔۔ لارا نے نفی میں جواب دیا۔۔۔۔
ایمان نے وجہ دریافت کی تو لارا نے پہلے اسے خود کھانے کا مطالبہ کیا۔ ایمان نے اس کے سامنے شکم سیر ہو کر کھایا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔۔۔۔۔
لارا اسے حیرت سے تکتے جارہی تھی۔۔۔۔ اور خود سے یہ سوال بھی کئے جا رہی تھی کہ اس قوم کے مرد و خواتین میں آخر اتنا شکر کا جذبہ اور اتنی ہمت کہاں سے یکجا ہوجاتی ہیں جب کہ ہر وقت ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ صیہونی طاغوتوں نے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔۔۔۔۔
وہ ابھی اپنے خیالوں میں محو کھڑکیوں سے باہر دیکھ رہی تھی کہ اچانک پندرہ کفن میں ملبوس نوجوانوں کی لاشیں اسے نظر آتی ہیں جنہیں ایک جماعت اپنے کندھوں پر لئے جاتی ہے جن کے چہرے اطمینان و فرحت کی روداد سنا رہے تھے۔ اسی دوران ایمان کے دو نوجوان بھائی بھی جام شہادت نوش فرما چکے ہوتے ہیں مگر ایمان اور اس کی ماں اور تینوں بہنیں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ ریز ہوجاتی ہیں۔
تمام اسرائیلی لڑکیاں یہ منظر دیکھ کر آبدیدہ ہوجاتی ہیں لیکن ساتھ ہی آپس میں سرگوشی بھی۔۔۔۔۔
وہ ایک دوسرے سے پوچھتی ہیں کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو انہیں اس قدر پر سکون بنا دیتی ہے؟
لیکن ان میں سے کوئی بھی اس کی حکمت سے آشنا نہیں ہوتی ہے۔
مجھے تو لگتا ہے کہ ان کے پاس روپیہ پیسہ ہے نہیں اس لئے یہ سوچتے ہیں کہ اب جان دیدیں۔ ان میں سے میشال نے جواب دیا۔
ارے نہیں یہ بھوکے بھیڑیے اگر قابو پالیں تو کسی کو نہ چھوڑیں۔ میکل نے لقمہ دیا۔۔۔۔ لیکن اس کی رائے سے کسی نے اتفاق نہ کیا۔
یہ سر گوشیاں ابھی جاری ہی تھیں کہ ایمان کا بھائی اپنے شہید والد کو اپنے سر پر اٹھائے ” حسبنا اللہ و نعم الوکیل ” کا ورد کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوتا ہے اور ساتھ ہی اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ یہ سوگوار منظر دیکھ کر ایمان اور اس کی ماں اور بہنیں پھر سے اللہ کے سامنے سر بسجود ہوجاتی ہیں اور یہ کہتے ہوئے کہ اللہ نے انہیں شہید کی ماں اور بیوی اور شہید کی بہنیں اور بیٹیاں ہونے کا شرف عطا فرمایا اور ان کی زبان پر بے ساختہ یہ جملے جاری ہوجاتے ہیں کہ اے رب کریم ہم تیری نعمتوں کا شکر کیسے ادا کریں؟ اے رب ! تو نے ہم پر جو انعام کیا اس کا حق کیسے ادا کریں؟ اے مولا ! ہمیں بھی اپنی بارگاہ میں قبول کر لے۔۔۔۔۔ آمین۔
سکون و اطمینان کی یہ کیفیت لارا کو متحیر کر دیتی ہے۔ وہ سامنے کفن میں ملبوس شہیدوں کو دیکھ کر لارا اور دوسری لڑکیاں انگشت بدنداں رہ جاتی ہیں۔ عالم حیرت میں وہ فلسطینی قوم کو کبھی فرشتہ تصور کرتی ہیں تو اگلے ہی لمحے ان کی شاطرانہ سوچ فلسطینیوں کے اس جذبہ خلوص کو مشکوک بنادیتی ہے۔
کیا یہ واقعی اس قدر نیک طینت لوگ ہیں یا ان کے ان کردار کے پیچھے کوئی مکروہ چہرہ چھپا ہوا ہے؟ وہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہوئے گویا ہوئیں۔۔۔۔۔۔
اسرائیلی دوشیزائیں ابھی اسی اندھیڑ بن میں ہی تھیں کہ نوجوان خوبصورت اسرائیلی خواتین کی ایک ٹولی سامنے سے آتے دکھائی دی۔۔۔۔۔۔ عریاں لباس زیب تن کئے حسین دوشیزائیں اٹھلاتی ہوئی سامنے سے نمودار ہوتی ہیں اور فلسطینیوں کو پکار کر کہہ رہی ہیں کہ اگر تم ہتھیار ڈال دو تو ہم تمہاری خواہشات پوری کرنے کے لئے تیار ہیں۔ القدس کی اس زمین کو ہمارے حوالے کردو تو ہم تمہارے لئے خوبصورت و بلند و بالا محلات تمہیں انعام میں دیں گے۔ یہی نہیں بلکہ اسرائیل کے سب سے قیمتی اثاثے تمہارے قدم بوسی کے لئے تیار ہیں۔۔۔۔۔۔
کیا تم ہماری اس پیشکش کو قبول کرتے ہو؟
ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔
بہشت کے بدلے اتنا سستا سودا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
تمہارے یہ محلات تمہیں ہی مبارک ہوں۔۔۔۔۔ ہمارے لئے ہمارا رب کافی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
دور کہیں گوشوں سے آواز آئی۔۔۔۔۔۔
ٹھائیں۔۔۔۔۔ ٹھائیں۔۔۔۔۔۔ ٹھائیں۔۔۔ ۔۔ گولیوں کی آواز
اسرائیلی دوشیزائیں عریانیت کو دعوت دیتے ہوئے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فلسطینی نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔
لیکن یہ کیا ہوا؟۔۔۔۔۔
کفن میں ملبوس سینکڑوں فلسطینی بہشت کی تلاش میں کوچ کر گئے ہیں۔۔۔۔۔۔
آخر کب تک اپنے عزیزوں کا یہ غم اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھاتے پھرو گے؟ دنیا بہت حسین ہے۔۔۔۔ اس کے حسن کے اندر جھانک کر تو دیکھو۔۔۔۔۔۔ اسرائیلی دوشیزائیں فلسطینی نوجوانوں کو ورغلانے میں مشغول تھیں مگر ان شاہین صفت غازیوں کو جنبش نہ دے سکیں۔۔۔۔۔
ان کی زبانیں ” قل متاع الدنیا قلیل والآخرة خير لمن اتقى ولا تظلمون فتيلا ” اور ” وما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور ” کا ورد کرتے ہوئے نہیں تھک رہی تھیں۔
لارا یہ سب منظر بغور دیکھ رہی تھی اور ان جانبازوں کی ثابت قدمی کا سبب جاننے کے لئے بے چین تھی۔۔۔۔۔
وقت گزرتے رہے۔۔۔۔۔
لارا اور دوسری یہودی لڑکیوں کو ایمان کے گھر رہتے ہوئے پندرہ روز گزر چکے تھے لیکن انہیں ذرا سی بھی کھروچ تک نہ آئی اور نہ ہی ان کی خاطر مدارات میں کوئی کمی۔۔۔۔۔
آخر یہ سب کیا تھا؟۔۔۔۔۔۔۔
وہ راتوں کو دیر تک فلسطینی مسلمانوں کی اس اولوالعزمی کے بارے میں خود سے سوال کرتی۔۔۔۔۔
وہ کیا چیز ہے جو انہیں راستے سے ہٹنے نہیں دیتی۔۔۔۔۔؟
وہ یہ تمام سوالات کرتے کرتے نیند کی آغوش میں چلی جاتی۔۔۔۔
گولے اور بارود کے دھماکے کانوں کے پردے پھاڑنے کے درپے ہیں مگر ہر روز علی الصباح اللہ اکبر کی صدائیں کانوں میں رس گھولتیں اور اہل غزہ حالت جنگ میں ہونے کے باوجود نماز اور قرآن سے رشتہ نہ توڑتے۔۔۔۔۔
وہ ناشتے کی میز پر بیٹھی سلیمانی چائے کی چسکیاں لے رہی تھی کہ یکایک ایک زور دار دھماکہ کی آواز پر چونک پڑتی ہے مگر اگلے ہی لمحے وہ ہر فلسطینی کی زبان پر شکر کے الفاظ دیکھ کر حیرت زدہ ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔
ایمان! کیا تم مجھے میرے سوالوں کے جواب دو گی؟
ہاں، لارا ! کیوں نہیں!
پوچھو تو سہی۔۔۔۔۔۔ ایمان نے اطمینان سے جواب دیا۔۔۔۔۔
تم نے پندرہ بیس روز میں اپنے دو حقیقی بھائی اور والد کو کھودیا اور تم جیسی نہ جانے کتنی خواتین نے نہ جانے کتنے عزیزوں کو خود سے جدا کیا۔۔۔۔۔۔
ہاں ! ایمان نے ایک سرد آہ بھری۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ کیا چیز ہے جو تمہیں اور تمہاری قوم کو حوصلہ دیتی ہے جب کہ تمہارے پاس دنیا کی کوئی دولت نہیں ہے؟ لارا نے بڑے تجسس سے پوچھا۔۔ ۔
اللہ سے محبت اور بہشت کی تلاش۔۔۔۔۔ ایمان نے بڑے پیار سے جواب دیا۔۔۔۔۔
کیا یہ وہی بہشت ہے جس کی خبر ہمارے نبی حضرت موسی دے گئے تھے؟
جی ، ہاں! ایمان نے خوش ہو کر جواب دیا۔۔۔۔۔
لارا نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور اپنے خیالوں میں ایک بہشت گمشدہ کی تلاش میں چل پڑی۔۔۔
ایمان نے اسے حقیقت کی دنیا میں لانے کے لئے جھنجھوڑا تو وہ بڑ بڑائے جا رہی تھی کہ یہی تو وہ بہشت گمشدہ ہے جس کی مجھے برسوں سے تلاش تھی۔۔۔۔۔۔۔ اور اگلے ہی لمحے وہ ایمان کے گلے سے لپٹ گئی۔۔۔۔۔۔
دوسری اسرائیلی لڑکیاں مبہوت و ساکت کھڑی اس پر کیف منظر کو دیکھ رہی تھیں اور لارا کی زبان پر صرف یہی جملہ تھا کہ یہی وہ بہشت گمشدہ ہے جس کی مجھے تلاش تھی۔۔۔۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر دوسری لڑکیاں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں اور بہشت گمشدہ کی تلاش میں چل پڑیں اور لارا دم بخود یہی کلمہ دہرائے جا رہی تھی۔۔۔۔۔ بہشت گمشدہ۔۔۔۔۔۔۔ بہشت گمشدہ۔۔۔۔۔۔ جسے میں نے پا لیا۔۔۔۔

Comments From Facebook

8 Comments

  1. عبدالواسع ندوی

    ماشاءاللہ بہت عمدہ لکھا ہے اہل غزہ کے ایمان کی شاندار اور دل پذیر ترجمانی کی ہے.

    Reply
  2. Siddeeqa Jabir

    ماشاء اللہ۔ عمدہ۔ مضمون۔ ہے

    Reply
  3. Shafqut

    ما شاء الله.. بہت خوب

    Reply
  4. ڈاکٹر سیدہ فوزیہ امین

    ماشاء اللہ انعام اول بہت مبارک۔ ۔۔۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے